مندرجات کا رخ کریں

"امام محمد باقر علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 38: سطر 38:
=== نام ===
=== نام ===


[[پیغمبر اسلام]] نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت [[جابر بن عبداللہ]] اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>کفایۃ الاثر، صص144-145۔</ref> علاوہ ازیں آئمہ معصومین کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔<ref>رجوع کریں، یہی مقالے میں دلائل امامت کے پاورقی حاشیہ نمبر 24۔</ref>
[[پیغمبر اسلام]] نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام [[محمد]] اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت [[جابر بن عبداللہ]] اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>کفایۃ الاثر، صص144-145۔</ref> علاوہ ازیں [[آئمہ معصومین]] کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔<ref>رجوع کریں، یہی مقالے میں دلائل امامت کے پاورقی حاشیہ نمبر 24۔</ref>


=== شہادت ===
=== شہادت ===
سطر 44: سطر 44:
امام باقر(ع) 7 [[ذوالحجۃ الحرام]] سنہ 114ہجری کو <ref>فرق الشیعہ 61؛ اعلام الوری میں [[امین الاسلام طبرسی]] نے لکھا ہے کہ کہ آپ [[ربیع الاول]] کے مہینے میں [[شہید]] ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259۔</ref> رحلت کرگئے۔ امام محمد باقر(ع) کی رحلت و [[شہادت]] کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہيں۔  
امام باقر(ع) 7 [[ذوالحجۃ الحرام]] سنہ 114ہجری کو <ref>فرق الشیعہ 61؛ اعلام الوری میں [[امین الاسلام طبرسی]] نے لکھا ہے کہ کہ آپ [[ربیع الاول]] کے مہینے میں [[شہید]] ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259۔</ref> رحلت کرگئے۔ امام محمد باقر(ع) کی رحلت و [[شہادت]] کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہيں۔  


اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی<ref>حدیث و روایت سے متعلق مباحث کو روائی کہا جاتا ہے۔</ref> اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر(ع) کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ([[اموی]] – [[مروانی]] بادشاہ) [[ہشام بن عبدالملک]] براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔<ref>مصباح کفعمی، 691۔</ref> بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل [[ابراہیم بن ولید]] بن [[عبدالملک بن مروان]] ہے جس نے امام(ع) کو مسموم کیا۔<ref>دلائل الامامہ، ص216؛ مناقب ابن شہر آشوب ج4، ص228۔</ref> بعض روایات میں حتی کہ [[زید بن حسن]] کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امام(ع) کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛ <ref>علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادق(ع) نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسین(ع) کا ساتھ نہیں دیا اور عبداللہ بن زبیر کی بیعت کی۔( بحار الأنوارج 47 ص294۔) اس نے میرے والد امام محمد باقر(ع) کے ساتھ امامت کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقر(ع) نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت دیديئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا اور امام محمد باقر(ع) کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت  چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام نے مل کر امام(ع) کو شہید کرنے کی سازش پر طویل غور و فکر کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امام(ع) کو ایک زين کا تحفہ دیا۔ امام(ع) نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید! میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شر انگیزي کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امام(ع) کی شہادت کا سبب بنی۔میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔ (بحارالانوار، ج46 ص329۔) چنانچہ یہی زین امام(ع) کی شہادت کا سبب بنی۔ (کشف الغمہ: 137/2۔) گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبدالملک بن مروان نے ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا۔</ref> ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔<ref>فرق الشیعۃ ص 61۔</ref> بہر صورت امام محمد باقر(ع) [[ہشام بن عبدالملک]] کے زمانے میں رحلت فرما گئے ۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب 3/219، </ref> کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔ <br /> اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر(ع) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر(ع) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز [[خاندان محمد(ص)]] کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہيں رہتی کہ [[ہشام بن عبدالملک]] امام باقر(ع) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔ <br />
اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی<ref>حدیث و روایت سے متعلق مباحث کو روائی کہا جاتا ہے۔</ref> اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر(ع) کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ([[اموی]] – [[مروانی]] بادشاہ) [[ہشام بن عبدالملک]] براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔<ref>مصباح کفعمی، 691۔</ref> بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل [[ابراہیم بن ولید]] بن [[عبدالملک بن مروان]] ہے جس نے امام(ع) کو مسموم کیا۔<ref>دلائل الامامہ، ص216؛ مناقب ابن شہر آشوب ج4، ص228۔</ref> بعض روایات میں حتی کہ [[زید بن حسن]] کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امام(ع) کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛ <ref>علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادق(ع) نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسین(ع) کا ساتھ نہیں دیا اور عبداللہ بن زبیر کی بیعت کی۔( بحار الأنوارج 47 ص294۔) اس نے میرے والد امام محمد باقر(ع) کے ساتھ امامت کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقر(ع) نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت ديئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا اور امام محمد باقر(ع) کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت  چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام نے مل کر امام(ع) کو شہید کرنے کی سازش پر طویل غور و فکر کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امام(ع) کو ایک زين کا تحفہ دیا۔ امام(ع) نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید! میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شر انگیزي کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امام(ع) کی شہادت کا سبب بنی۔میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔ (بحارالانوار، ج46 ص329۔) چنانچہ یہی زین امام(ع) کی شہادت کا سبب بنی۔ (کشف الغمہ: 137/2۔) گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبدالملک بن مروان نے ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا۔</ref> ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔<ref>فرق الشیعۃ ص 61۔</ref> بہر صورت امام محمد باقر(ع) [[ہشام بن عبدالملک]] کے زمانے میں رحلت فرما گئے ۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب 3/219، </ref> کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔ <br /> اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر(ع) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر(ع) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز [[خاندان محمد(ص)]] کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہيں رہتی کہ [[ہشام بن عبدالملک]] امام باقر(ع) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔ <br />


ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھائے اسی بنا پر [[ابراہیم بن ولید]] ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول(ص) کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرے اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرے جو خاندان رسول(ص) کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہو اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر(ع) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک پہونچ رکھتا ہو اور کوئی بھی اسے  اس رسائی سے روک نہ سکتا ہو تا کہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور امام(ع) کو شہید کیا جاسکے۔ <br /> امام محمد باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا [[امام حسن مجتبی علیہ السلام]] اور والد [[امام زین العابدین علیہ السلام]] کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔<ref>فرق الشیعہ 61، اصول کافی 2/372، ارشاد مفید 2/156، دلائل الامامہ ص216، اعلام الوری 259، کشف الغمہ 2/327، تذکرة الخواص 306، مصباح کفعمی 691، </ref>
ظاہر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد سے فائدہ اٹھائے اسی بنا پر [[ابراہیم بن ولید]] ـ جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول(ص) کا دشمن تھا ـ کی خدمت حاصل کرے اور ابن ولید بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کرے جو خاندان رسول(ص) کے اندر موجود اور اس خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہو اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر(ع) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک پہونچ رکھتا ہو اور کوئی بھی اسے  اس رسائی سے روک نہ سکتا ہو تا کہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور امام(ع) کو شہید کیا جاسکے۔ <br /> امام محمد باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا [[امام حسن مجتبی علیہ السلام]] اور والد [[امام زین العابدین علیہ السلام]] کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔<ref>فرق الشیعہ 61، اصول کافی 2/372، ارشاد مفید 2/156، دلائل الامامہ ص216، اعلام الوری 259، کشف الغمہ 2/327، تذکرة الخواص 306، مصباح کفعمی 691، </ref>
سطر 153: سطر 153:
ایسے ہی حالات میں [[محمد بن مسلم]] امام محمد باقر(ع) سے 30 ہزار حدیثیں<ref>مجلسی، بحار ج11، ص83 </ref> نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور [[جابر بن یزید جعفی|جابر جعفی]] جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔<ref>علی محمد علی دخیل، ائمتنا ج1، ص347 </ref>
ایسے ہی حالات میں [[محمد بن مسلم]] امام محمد باقر(ع) سے 30 ہزار حدیثیں<ref>مجلسی، بحار ج11، ص83 </ref> نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور [[جابر بن یزید جعفی|جابر جعفی]] جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔<ref>علی محمد علی دخیل، ائمتنا ج1، ص347 </ref>


[[شیعہ علماء]] کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہيں:
[[شیعہ علماء]] کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام باقر(ع) اور [[امام صادق(ع)]] کے [[اصحاب]] میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہيں:
{{حدیث|2}}
{{حدیث|2}}
# [[زرارۃ ابن اعین]]
# [[زرارۃ ابن اعین]]
گمنام صارف