"سورہ طہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←مشہور آیات
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مشہور آیات) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مشہور آیات) |
||
سطر 68: | سطر 68: | ||
|ترجمہ=موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔ اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔}} | |ترجمہ=موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔ اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔}} | ||
</noinclude> | </noinclude> | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} | ||
ان آیات میں [[حضرت موسی]] کی ان درخواستوں کا تذکرہ ہے جسے انہوں نے [[فرعون]] کے ساتھ گفتگو کے لئے جانے سے پہلے خدا سے طلب کئے تھے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۴۵.</ref> [[تفسیر الکاشف]] میں آیا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے مصیبتوں اور سختیوں کی وجہ سے حضرت موسی بے حوصلہ ہو گئے تھے اور آپ کو جلدی غصہ آ جاتا تھا۔ اس سلسلے میں جھگڑے کے دوران کسی فرعونی کو قتل کرنا، عبد صالح(حضرت خضر) کے کاموں پر صبر نہ کرنا اور جب بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی شروع کی تو اپنے بھائی حضرت ہارون کو دھاڑی پکڑ کر گھسیٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اسی بنا پر رسالت کے عظیم وظائف کو بطور احسن پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے [[خدا]] سے صبر، شرح صدر، قوت گویائی اور ثابت قدمی کی درخواست کرتے ہیں۔<ref>مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۱۲.</ref> | |||
===آیت 114 === | ===آیت 114 === | ||
سطر 76: | سطر 76: | ||
|ترجمہ=بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔}} | |ترجمہ=بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔}} | ||
</noinclude> | </noinclude> | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}}<!-- | ||
در تفاسیر آمده است که هرگاه [[جبرئیل]] قرآن را بر [[پیامبر(ص)]] نازل میکرد، وی از بیم اینکه مبادا [[قرآن]] را فراموش کند و به خاطر عشق به فراگیری قرآن و حفظ آن برای مردم، به هنگام دریافت [[وحی]] عجله میکرد و بدون مهلت دادن به جبرئیل برای اتمام سخن، شروع به بیان آن برای مردم میکرد؛ به همین دلیل خداوند در این آیه از پیامبرش میخواهد گوش فرادهد تا نزول وحی تمام شود و بعد به مردم ابلاغ کند.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۱۲؛ مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۴۸.</ref> | در تفاسیر آمده است که هرگاه [[جبرئیل]] قرآن را بر [[پیامبر(ص)]] نازل میکرد، وی از بیم اینکه مبادا [[قرآن]] را فراموش کند و به خاطر عشق به فراگیری قرآن و حفظ آن برای مردم، به هنگام دریافت [[وحی]] عجله میکرد و بدون مهلت دادن به جبرئیل برای اتمام سخن، شروع به بیان آن برای مردم میکرد؛ به همین دلیل خداوند در این آیه از پیامبرش میخواهد گوش فرادهد تا نزول وحی تمام شود و بعد به مردم ابلاغ کند.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۱۲؛ مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۴۸.</ref> | ||