"احادیث طینت" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
| دوسرے اسامی = | | دوسرے اسامی = | ||
| موضوع = [[مومنین]] و [[کافروں]] کی تخلیق میں بنیادی مادے کے مابین فرق | | موضوع = [[مومنین]] و [[کافروں]] کی تخلیق میں بنیادی مادے کے مابین فرق | ||
| صادر از = [[امام زین العابدینؑ]]، امام محمد باقرؑ]]، امام جعفر صادقؑ]] | | صادر از = [[امام زین العابدینؑ]]<nowiki>، امام محمد باقرؑ]]، امام جعفر صادقؑ]]</nowiki> | ||
| اصلی راوی = | | اصلی راوی = | ||
| دوسرے روات = [[ابو حمزہ ثمالی]]، [[زرارہ بن اعین]]، [[حسن بن محبوب|ابن محبوب]] | | دوسرے روات = [[ابو حمزہ ثمالی]]، [[زرارہ بن اعین]]، [[حسن بن محبوب|ابن محبوب]] | ||
سطر 16: | سطر 16: | ||
'''اَحادیث طینَت''' سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں [[مومن|باایمان]] لوگوں کو طینت عِلّیّین(طینت یعنی گیلی مٹی اور عِلّیّین یعنی خوشبودار اور خوشگوار مادہ) سے خلق کیے جانے اور [[کافروں]] کو طینت سِجّین(بدبودار اور ناخوشگوار مادہ) سے خلق کیے جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ [[احادیث]] لوگوں کے ایمان و کفر یا اطاعت و نافرمانی میں طینت کے موثر کردار کو بیان کرتی ہیں۔ نیز ان احادیث میں مرتبہ طینت کے دوران انسان کے مکلف قرار پانے اور اس سے امتحان لیے جانے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس امتحان میں [[اصحاب یمین]] کی کامیابی میں اطاعت اور [[اصحاب شمال]] کی ناکامی میں ان کی نافرمانی کا ذکر ملتا ہے۔ | '''اَحادیث طینَت''' سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں [[مومن|باایمان]] لوگوں کو طینت عِلّیّین(طینت یعنی گیلی مٹی اور عِلّیّین یعنی خوشبودار اور خوشگوار مادہ) سے خلق کیے جانے اور [[کافروں]] کو طینت سِجّین(بدبودار اور ناخوشگوار مادہ) سے خلق کیے جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ [[احادیث]] لوگوں کے ایمان و کفر یا اطاعت و نافرمانی میں طینت کے موثر کردار کو بیان کرتی ہیں۔ نیز ان احادیث میں مرتبہ طینت کے دوران انسان کے مکلف قرار پانے اور اس سے امتحان لیے جانے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس امتحان میں [[اصحاب یمین]] کی کامیابی میں اطاعت اور [[اصحاب شمال]] کی ناکامی میں ان کی نافرمانی کا ذکر ملتا ہے۔ | ||
شیعہ مشہور علما احادیث طینیت کو [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہوئے ان کو اجما،ی طور پر قبول کرتے؛ لیکن [[سید مرتضی]] اور | [[شیعہ]] مشہور علما احادیث طینیت کو [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہوئے ان کو اجما،ی طور پر قبول کرتے؛ لیکن [[سید مرتضی]] اور علامہ شعرانی جیسےعلما احادیث طینت کو [[خبر واحد]] مانتے ہیں اور انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ | ||
احادیث طینت کا نظریہ جبر و | احادیث طینت کا نظریہ جبر و اختیار اور [[عدل الہی]] کے ساتھ بظاہر تضاد اور ناسازگاری کے بموجب یہ مسئلہ علم الحدیث کے مشکل ترین مباحث میں سے شمار ہوتا ہے۔ علم حدیث پر تحقیق کرنے والے شیعہ محققین نے ان احادیث کو ماننے، یا ان کو رد کرنے اور دیگر دینی تعلیمات کے ساتھ ان کو سازگار کرنے کی کیفیت کے لحاظ سے مختلف نظریات اپنائے ہیں۔ اجمالی طور پر ان نظریات کو یوں بیان کر سکتے ہیں: حذف کا نظریہ، نظریہ سکوت اور تاویلی نظریہ۔ | ||
==اہمیت اور پس منظر== | ==اہمیت اور پس منظر== | ||
احادیث طینیت ان روایات کا مجموعہ ہیں جو انسانی تخلیق کے بنیادی مادے کی یکسانیت کی نفی کرتی ہیں۔ ان احادیث میں طینت علیین نامی | احادیث طینیت ان روایات کا مجموعہ ہیں جو انسانی تخلیق کے بنیادی مادے کی یکسانیت کی نفی کرتی ہیں۔ ان احادیث میں طینت علیین نامی خوش بودار اور خوشگوار مادے سے [[مومن]] کی تخلیق اور بدبودار اور ناگوار مادے سے [[کافر]] کی تخلیق کا ذکر ملتا ہے۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص۴۷-۴۸.</ref> ان احادیث کے مضامین میں انسانی مادہ تخلیق کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں نور و ظلمت اور بعض میں [[بہشت]] و [[جہنم]] کا ذکر ملتا ہے۔ شیعہ حدیثی کتب میں سے [[المحاسن (کتاب)|المحاسن]]،<ref>برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۵ و ۲۸۲-۲۸۳.</ref> [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]]،<ref>صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۴-۱۸ و ۱۷۱.</ref> [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۲-۷.</ref> [[علل الشرائع (کتاب)|علل الشرایع]]<ref>صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ھ، ج۱، ص۸۲-۸۴ و۱۱۶-۱۱۷.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحار الانوار]]<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ۱۵۲-۱۶۱.</ref> میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ [[اہل سنت]] کے بعض منابع حدیثی میں بھی احادیث طینت کو نقل کیا گیا ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۵۰؛ ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ھ، ج۲، ص۶۲۷؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۱۵.</ref> | ||
احادیث طینت میں بنیادی طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کے لیے پہلے سے طے شدہ تقدیر وسرنوشت موجود ہے۔ یہ مطلب ان [[آیات]] اور [[روایات]] کے خلاف سمجھا جاتا ہے جو انسانوں کی تقدیر کو ان کے اعمال کا نتیجہ سمجھتی ہیں۔<ref>محمودی و حسینی، «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین شعادت و شقاوت انسان»، ص۷۸.</ref> جیسا کہ سب سے پہلے یہ چیز بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ احادیث کا بظاہر نظریہ جبر واختیار اور[[عدل الہی]] کے ساتھ تضاد پایا جاتا ہے۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۵.</ref> چنانکہ اسی تضاد اور عدم مطابقت نے اس مسئلے کو درایۃ الاحادیث میں مشکل ترین موضوعات میں شمار کیا ہے۔<ref>امام خمینی، مصباح الہدایہ، ۱۳۷۳شمسی، ص۱۱۰.</ref> | احادیث طینت میں بنیادی طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کے لیے پہلے سے طے شدہ تقدیر وسرنوشت موجود ہے۔ یہ مطلب ان [[آیات]] اور [[روایات]] کے خلاف سمجھا جاتا ہے جو انسانوں کی تقدیر کو ان کے اعمال کا نتیجہ سمجھتی ہیں۔<ref>محمودی و حسینی، «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین شعادت و شقاوت انسان»، ص۷۸.</ref> جیسا کہ سب سے پہلے یہ چیز بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ احادیث کا بظاہر نظریہ جبر واختیار اور[[عدل الہی]] کے ساتھ تضاد پایا جاتا ہے۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۵.</ref> چنانکہ اسی تضاد اور عدم مطابقت نے اس مسئلے کو درایۃ الاحادیث میں مشکل ترین موضوعات میں شمار کیا ہے۔<ref>امام خمینی، مصباح الہدایہ، ۱۳۷۳شمسی، ص۱۱۰.</ref> | ||
احادیث طینت پر بحث کرنے والے اکثر علماء نے سب سے پہلے طینت کے معنی بیان کیے ہیں؛ | احادیث طینت پر بحث کرنے والے اکثر علماء نے سب سے پہلے طینت کے معنی بیان کیے ہیں؛ آقا جمال خوانساری اپنی شرح احادیث طینت میں لکھتے ہیں کہ طینت سے مراد وہ جوہر ہے جس سے انسانی نفس کی تخلیق ہوئی ہے۔<ref>آقا جمال خوانساری، شرح احادیث طینت، ۱۳۵۹شمسی، ص۱۷.</ref> [[امام خمینی]] کے مطابق طینت، انسانی خلقت کا وہ اہم مادّہ ہے جو انسانی زندگی میں ان کے اعمال و رفتار میں متجلی ہوتا ہے۔<ref>امام خمینی، طلب و ارادہ، ۱۳۶۲شمسی، ص۱۶۰.</ref> | ||
==حدیث کے مندرجات== | ==حدیث کے مندرجات== | ||
سطر 32: | سطر 32: | ||
'''مؤمن و کافر''': طینت سے متعلق بعض روایات کے مطابق انسانوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ مومنین کا اور دوسرا گروہ کافروں کا ہے، مومنین [[انبیاء]] و [[ائمہؑ]] کی طینت (طینت علیین و بہشت) سے پیدا ہوئے ہیں اور [[کافر]] آگ یا [[جہنم]] کی طینت سے پیدا ہوئے ہیں۔ | '''مؤمن و کافر''': طینت سے متعلق بعض روایات کے مطابق انسانوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ مومنین کا اور دوسرا گروہ کافروں کا ہے، مومنین [[انبیاء]] و [[ائمہؑ]] کی طینت (طینت علیین و بہشت) سے پیدا ہوئے ہیں اور [[کافر]] آگ یا [[جہنم]] کی طینت سے پیدا ہوئے ہیں۔ | ||
'''مؤمن، ناصبی اور فکری پسماندہ''': ایک دوسری تقسیم میں طینیات کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ گروہ مومنین، ناصبی اور فکری پسماندہ: | '''مؤمن، ناصبی اور فکری پسماندہ''': ایک دوسری تقسیم میں طینیات کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ گروہ مومنین، [[ناصبی]] اور فکری پسماندہ: | ||
*پہلی قسم انبیاء اور مومنین کی طینت ہے، اس فرق کے ساتھ کہ انبیاء کی طینت برگزیدہ اور منتخب طینیت ہے اور مومنین کی طینیت اسی کا فرع ہے۔(طین لازب) | *پہلی قسم انبیاء اور مومنین کی طینت ہے، اس فرق کے ساتھ کہ انبیاء کی طینت برگزیدہ اور منتخب طینیت ہے اور مومنین کی طینیت اسی کا فرع ہے۔(طین لازب) | ||
سطر 47: | سطر 47: | ||
==احادیث کا سلسلہ سند اور اعتبار== | ==احادیث کا سلسلہ سند اور اعتبار== | ||
احادیث طینت کے سلسلہ سند اور اعتبار کے سلسلے میں مشہور رائے یہ ہے کہ یہ احادیث متواتر اور معتبر ہیں، البتہ | احادیث طینت کے سلسلہ سند اور اعتبار کے سلسلے میں مشہور رائے یہ ہے کہ یہ احادیث متواتر اور معتبر ہیں، البتہ سید مرتضی اور [[ابو الحسن شعرانی]] جیسے علماء نے مذکورہ احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے: | ||
*مشہور شیعہ علماء جن میں [[شیخ حر عاملی]]، [[محدث جزائری]]، [[علامہ شبر]]، آقا جمال خوانساری شامل ہیں، احادیث طینت کو متواتر سمجھتے ہیں۔<ref>فدایی و موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان»، ص۹۴-۹۵.</ref> شیخ حر عاملی احادیث طینت کی کثرت کو [[تواتر]] کی حد سے تجاوز کرنے کا سبب سمجھتے ہیں۔<ref>حر عاملی، الفصول المہمہ، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۴۲۰.</ref> محدث جزائری نے ان احادیث کو ضعیف سمجھنے والوں کے جواب میں کہا ہے کہ ہمارے [[فقہاء]] نے ان احادیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے، اس لیے ان کے رد و انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۱۲.</ref> | *مشہور شیعہ علماء جن میں [[شیخ حر عاملی]]، [[محدث جزائری]]، [[علامہ شبر]]، آقا جمال خوانساری شامل ہیں، احادیث طینت کو متواتر سمجھتے ہیں۔<ref>فدایی و موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان»، ص۹۴-۹۵.</ref> شیخ حر عاملی احادیث طینت کی کثرت کو [[تواتر]] کی حد سے تجاوز کرنے کا سبب سمجھتے ہیں۔<ref>حر عاملی، الفصول المہمہ، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۴۲۰.</ref> محدث جزائری نے ان احادیث کو ضعیف سمجھنے والوں کے جواب میں کہا ہے کہ ہمارے [[فقہاء]] نے ان احادیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے، اس لیے ان کے رد و انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۱۲.</ref> | ||
*سید مرتضیٰ اور ابو الحسن شعرانی<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۱۲.</ref> جیسے علماء ان روایات کے سلسلہ سند کو اس لیے ضعیف سمجھتے ہیں کہ یہ احادیث [[خبرواحد]] ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ روایات چونکہ مسلمہ عقلی مباحث اور آیات قرآنی کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں لہذا ان کو رد کیا جانا چاہیے۔<ref>صالح مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۳۸۲شمسی، ج۴، ص۸؛ شبر، مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۱.</ref> | *سید مرتضیٰ اور ابو الحسن شعرانی<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۱۲.</ref> جیسے علماء ان روایات کے سلسلہ سند کو اس لیے ضعیف سمجھتے ہیں کہ یہ احادیث [[خبرواحد|خبر واحد]] ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ روایات چونکہ مسلمہ عقلی مباحث اور [[آیات|آیات قرآنی]] کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں لہذا ان کو رد کیا جانا چاہیے۔<ref>صالح مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۳۸۲شمسی، ج۴، ص۸؛ شبر، مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۱.</ref> | ||
==نظریات: مکمل مسترد کرنے سے لیکر تأویلی قبول کرنے تک== | ==نظریات: مکمل مسترد کرنے سے لیکر تأویلی قبول کرنے تک== | ||
سطر 68: | سطر 68: | ||
[[ملف:Ahadith tinat.jpg|تصغیر|200px|کتاب "شرح احادیث طینت" کی تصویر، قلمی اثر: آقا جمال خوانساری]] | [[ملف:Ahadith tinat.jpg|تصغیر|200px|کتاب "شرح احادیث طینت" کی تصویر، قلمی اثر: آقا جمال خوانساری]] | ||
*ابو الحسن شعرانی نے شرح اصول کافی مازندرانی میں لکھا ہے کہ احادیث طینت [[امامیہ مذہب]] کے [[عدل]] اور [[قاعدہ لطف]] جیسے اصولوں کے خلاف ہیں نیز ان روایات کے بھی خلاف ہیں جو باب فطرت میں بیان ہوئی ہیں۔{{نوٹ|اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے بعض معاصر مفکرین نے بعض دینی متون کا حوالہ دیتے ہوئے یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ تمام انسانوں کے مابین فطریات مشترک ہونےکے ساتھ ہر انسان کی اپنی انفرادی فطرت بھی ہو سکتی ہیں؛ جیسا کہ ہر انسان، اس امتحان کی وجہ سے جو اس نے [[عالم ذر]] میں دیا، اس کی ایک خاص طینت اور فطری خلقیات کا مالک ہے۔(برنجکار، «فطرت در احادیث»، ۱۳۸۴شمسی)}} اس لیے انہیں رد کر دینا چاہیے اور یہ استناد کے قابل نہیں ہیں۔<ref> مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۹ھ، ج۸، ص۴-۵.</ref> | *ابو الحسن شعرانی نے شرح اصول کافی مازندرانی میں لکھا ہے کہ احادیث طینت [[امامیہ|امامیہ مذہب]] کے [[عدل]] اور [[قاعدہ لطف]] جیسے اصولوں کے خلاف ہیں نیز ان روایات کے بھی خلاف ہیں جو باب فطرت میں بیان ہوئی ہیں۔{{نوٹ|اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے بعض معاصر مفکرین نے بعض دینی متون کا حوالہ دیتے ہوئے یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ تمام انسانوں کے مابین فطریات مشترک ہونےکے ساتھ ہر انسان کی اپنی انفرادی فطرت بھی ہو سکتی ہیں؛ جیسا کہ ہر انسان، اس امتحان کی وجہ سے جو اس نے [[عالم ذر]] میں دیا، اس کی ایک خاص طینت اور فطری خلقیات کا مالک ہے۔(برنجکار، «فطرت در احادیث»، ۱۳۸۴شمسی)}} اس لیے انہیں رد کر دینا چاہیے اور یہ استناد کے قابل نہیں ہیں۔<ref> مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۹ھ، ج۸، ص۴-۵.</ref> | ||
*بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ [[غالیوں]] نے [[ائمہؑ]] اور دوسرے انسانوں کی تخلیق کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے کے لیے ان احادیث کو اپنی طرف سے گھڑی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سندی کمزوری کی وجہ سے ان کو رد کر دینا چاہیے۔<ref>مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، ۱۳۸۹شمسی، ص۷۰.</ref> | *بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ [[غالی|غالیوں]] نے [[ائمہؑ]] اور دوسرے انسانوں کی تخلیق کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے کے لیے ان احادیث کو اپنی طرف سے گھڑی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سندی کمزوری کی وجہ سے ان کو رد کر دینا چاہیے۔<ref>مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، ۱۳۸۹شمسی، ص۷۰.</ref> | ||
*بعض محققین کا خیال ہے کہ احادیث طینت تقیہ پر مبنی احادیث ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق چونکہ روایات کا ظاہر جبر پر دلالت کرتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ شیعہ ائمہؑ نے حکومت کے گھٹن ماحول میں شیعوں کی جان بچانے کے لیے یہ احادیث بیان کی ہوں۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۶.</ref> | *بعض محققین کا خیال ہے کہ احادیث طینت تقیہ پر مبنی احادیث ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق چونکہ روایات کا ظاہر جبر پر دلالت کرتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ شیعہ ائمہؑ نے حکومت کے گھٹن ماحول میں شیعوں کی جان بچانے کے لیے یہ احادیث بیان کی ہوں۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۶.</ref> | ||
سطر 78: | سطر 78: | ||
==مونوگراف== | ==مونوگراف== | ||
*شرح احادیث طینت: | *شرح احادیث طینت:آقا جمال خوانساری نے اس کتاب کو فارسی زبان میں تحریرکیا ہے۔ مصنف نے اس میں دس احادیث طینت کے بارے میں بحث کی ہے۔ اس کتاب کوعبد اللہ نورانی نے "نہضت زنان مسلمان" نامی پبلشرز نے سنہ 1980ء میں شائع کیا ہے۔<ref>خوانساری، شرح احادیث طینت، ۱۳۵۹شمسی، ص۳.</ref> انہوں نے اس کتاب کی وجہ تصنیف کو احادیث طینت کی کج فہی بیان کی ہے اور ان احادیث کے صدور کو قبول کیا ہے۔<ref>خوانساری، شرح احادیث طینت، ۱۳۵۹شمسی، ص۸.</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |