"سیرہ عقلاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←سیرہ عقلاء کے اقسام اور ان کی حجیت کا معیار
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 80: | سطر 80: | ||
|تراز منبع = وسط | |تراز منبع = وسط | ||
|شکلبندی منبع = | |شکلبندی منبع = | ||
|title=[[سید مرتضی | |title=[[سید مرتضی فیروز آبادی|سید مرتضی حسینی فیروز آبادی]]:}} | ||
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ سیرہ عقلاء شارع کی دلیل کے ظہور یا شارع کی مراد کو بھی تشخیص دیتی ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔</ref> مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز فروخت کرے لیکن اسے مشتری کے حوالے نہ کیا ہو اور مشتری سے اس کی قیمت بھی نہ لی ہو تو اس صورت میں اگر تین دن کے اندر مشتری اس چیز کی قیمت ادا کرے تو [[عقد لازم|معاملہ لازم]] یعنی ٹھیک ہے؛ بصورت دیگر گویا ان کے درمیان کوئی معاملہ انجام ہی نہیں پایا ہے(فلا بیعَ بَینَہُما)۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج18، ص22۔</ref> یہاں پر «لا بیع بینہما» کے ظاہر سے اس معاملے کا باطل ہونا سمجھ میں آتا ہے؛ جبکہ سیرہ عقلاء اور ارتکازات عقلائی کے مطابق یہاں پر شارع کی مراد یہ ہے کہ ان کے درمیان ہونے والا معاملہ [[عقد لازم|لازم]] اور ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اس میں خیار تأخیر ثابت ہو جاتا ہے اور طرفین معاملہ کو انجام دینے یا اسے فسخ کرنے میں مختار ہیں۔<ref>عبد الساتر، بحوث فی علم الاصول، الدار الإسلامیۃ، ج9، ص197؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔</ref> | اسی طرح کہا جاتا ہے کہ سیرہ عقلاء شارع کی دلیل کے ظہور یا شارع کی مراد کو بھی تشخیص دیتی ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔</ref> مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز فروخت کرے لیکن اسے مشتری کے حوالے نہ کیا ہو اور مشتری سے اس کی قیمت بھی نہ لی ہو تو اس صورت میں اگر تین دن کے اندر مشتری اس چیز کی قیمت ادا کرے تو [[عقد لازم|معاملہ لازم]] یعنی ٹھیک ہے؛ بصورت دیگر گویا ان کے درمیان کوئی معاملہ انجام ہی نہیں پایا ہے(فلا بیعَ بَینَہُما)۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج18، ص22۔</ref> یہاں پر «لا بیع بینہما» کے ظاہر سے اس معاملے کا باطل ہونا سمجھ میں آتا ہے؛ جبکہ سیرہ عقلاء اور ارتکازات عقلائی کے مطابق یہاں پر شارع کی مراد یہ ہے کہ ان کے درمیان ہونے والا معاملہ [[عقد لازم|لازم]] اور ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اس میں خیار تأخیر ثابت ہو جاتا ہے اور طرفین معاملہ کو انجام دینے یا اسے فسخ کرنے میں مختار ہیں۔<ref>عبد الساتر، بحوث فی علم الاصول، الدار الإسلامیۃ، ج9، ص197؛ جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص15۔</ref> |