مندرجات کا رخ کریں

"اسماء بن خارجہ فزاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(«'''اسماء بن خارِجہ فزاری''' (متوفی 82 ہجری) کوفہ کے بااثر سیاسی لوگوں میں سے تھا، خاص کر واقعہ کربلا کے باعث بننے والے واقعات میں موثر تھا۔ وہ بنوفَزارہ قبیلہ کا بزرگ تھا۔ اسماء صفین کی جنگ میں امام علیؑ کے لشکر میں موجود تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ ہمیش...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات صحابہ
|عنوان =اَسماء بن خارجہ
|سرشناسی =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
|سائز تصویر =
| مکمل نام = اسماء بن خارجۃ بن  حِصن بن حُذیفۃ بن بَدر فَزاری کوفی
| کنیت =ابو حَسّان، ابو محمد، ابو ہند
| لقب =
| تاریخ پیدائش =
| جائے پیدائش =
| محل زندگی =[[کوفہ]]
| مہاجر/انصار = [[تابعین|تابعی]]
| نسب/قبیلہ =[[بنوفزارۃ]]
| مشہور اقارب =داماد: [[عبیداللہ بن زیاد|عُبیداللہ بن زیاد]]، [[بشر بن مروان|بُشر بن مَروان]]، [[حجاج بن یوسف ثقفی|حَجاج بن یوسف]]. اہم اولاد: حَسّان، مالِک، ہِند. نوادگان مہم: [[ابو اسحاق فزاری]]، محمد ذو الشامَہ.
| تاریخ و محل وفات =
| تاریخ و محل شہادت =
| سبب وفات =
| کیفیت شہادت =
| مدفن =
| اسلام لانا =
| قبول اسلام کی کیفیت  =
| جنگوں میں شرکت =
| ہجرت =
| وجہ شہرت =واقعہ کربلا میں ابن زیاد کی حمایت
| نمایاں کارنامے =مشاور حاکمان [[کوفہ]]
| دیگر فعالیتیں =شہادت دادن علیہ [[حجر بن عدی|حُجر بن عَدی]]، راضی کردن [[ہانی بن عروہ|ہانی بن عُروہ]] [[دار الخلافہ]] جانے کے لئے حجاج بن یوسف کو [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]] کے بعض شیعوں کی معرفی
| تالیفات =
}}
'''اسماء بن خارِجہ فزاری''' (متوفی 82 ہجری) کوفہ کے بااثر سیاسی لوگوں میں سے تھا، خاص کر واقعہ کربلا کے باعث بننے والے واقعات میں موثر تھا۔ وہ بنوفَزارہ قبیلہ کا بزرگ تھا۔ اسماء صفین کی جنگ میں امام علیؑ کے لشکر میں موجود تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ ہمیشہ کوفہ کے اموی حکمرانوں کے دار الحکومت میں رہا۔ وہ کوفہ کے تین حکمرانوں کا مشیر اور ان کی بیٹی کوفہ کے تین حکمرانوں (عبید اللہ بن زیاد، بُشر بن مَروان اور حَجاج بن یوسف ثقَفی) کی بیوی تھی۔
'''اسماء بن خارِجہ فزاری''' (متوفی 82 ہجری) کوفہ کے بااثر سیاسی لوگوں میں سے تھا، خاص کر واقعہ کربلا کے باعث بننے والے واقعات میں موثر تھا۔ وہ بنوفَزارہ قبیلہ کا بزرگ تھا۔ اسماء صفین کی جنگ میں امام علیؑ کے لشکر میں موجود تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ ہمیشہ کوفہ کے اموی حکمرانوں کے دار الحکومت میں رہا۔ وہ کوفہ کے تین حکمرانوں کا مشیر اور ان کی بیٹی کوفہ کے تین حکمرانوں (عبید اللہ بن زیاد، بُشر بن مَروان اور حَجاج بن یوسف ثقَفی) کی بیوی تھی۔
اسماء نے ہانی بن عروہ کو دار الخلافت میں بلانے اور مسلم بن عقیل کی شہادت میں ابن زیاد کے ساتھ تعاون کیا اور کربلا میں حسن مثنی کو ان کی رشتہ داری کی وجہ سے بچا لیا۔
اسماء نے ہانی بن عروہ کو دار الخلافت میں بلانے اور مسلم بن عقیل کی شہادت میں ابن زیاد کے ساتھ تعاون کیا اور کربلا میں حسن مثنی کو ان کی رشتہ داری کی وجہ سے بچا لیا۔
سطر 4: سطر 33:


==صدر اسلام کے حوادث میں اسماء کا کردار==
==صدر اسلام کے حوادث میں اسماء کا کردار==
اسماء بن خارجۃ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعین<ref>زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۰۵.</ref> میں سے کوفہ کے قبیلہ بنوفزارہ کے بزرگ تھے۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۷۳؛ ابن‌حزم اندلسی، جمهرة أنساب العرب، ۱۳۶۲ش، ص۲۵۷.</ref> صدر اسلام کے مختلف واقعات میں اس کا کردار رہا ہے۔
اسماء بن خارجۃ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعین<ref>زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۰۵.</ref> میں سے کوفہ کے قبیلہ بنوفزارہ کے بزرگ تھے۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۷۳؛ ابن‌حزم اندلسی، جمہرة أنساب العرب، ۱۳۶۲ش، ص۲۵۷.</ref> صدر اسلام کے مختلف واقعات میں اس کا کردار رہا ہے۔


اسماء کی بیٹی ہند نے کوفہ کے تین حکمرانوں یعنی عبید اللہ بن زیاد،<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ق، ج۵، ص۳۸۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۳.</ref> بُشر بن مروان بن حکم اور حجاج بن یوسف ثقفی سے شادی کی۔<ref>ابن‌حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیده، ص۴۴۳.</ref> البتہ ابن زیاد (اپنے سابق شوہر) سے اظہارِ محبت کی وجہ سے حجاج نے اسے طلاق دے دی۔<ref>زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۹۶-۹۷.</ref> ان کے بیٹوں کے ناموں کی وجہ سے اسماء کو ابوحَسّان،<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳ ص۱۷۳.</ref> ابومحمد<ref>ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref> اور ابو هند بھی کہا جاتا تھا۔<ref>ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref>  
اسماء کی بیٹی ہند نے کوفہ کے تین حکمرانوں یعنی عبید اللہ بن زیاد،<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ق، ج۵، ص۳۸۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۳.</ref> بُشر بن مروان بن حکم اور حجاج بن یوسف ثقفی سے شادی کی۔<ref>ابن‌حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیدہ، ص۴۴۳.</ref> البتہ ابن زیاد (اپنے سابق شوہر) سے اظہارِ محبت کی وجہ سے حجاج نے اسے طلاق دے دی۔<ref>زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۸، ص۹۶-۹۷.</ref> ان کے بیٹوں کے ناموں کی وجہ سے اسماء کو ابوحَسّان،<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳ ص۱۷۳.</ref> ابومحمد<ref>ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref> اور ابو ہند بھی کہا جاتا تھا۔<ref>ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref>  


اسماء محدثین میں سے تھا<ref>ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref> اور ان کے بیٹے مالک اور علی بن ربیعہ جیسے لوگوں نے اس سے حدیثیں نقل کی ہیں۔<ref>ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref>  
اسماء محدثین میں سے تھا<ref>ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref> اور ان کے بیٹے مالک اور علی بن ربیعہ جیسے لوگوں نے اس سے حدیثیں نقل کی ہیں۔<ref>ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۷۲.</ref>  


اسماء کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں۔ ان کی وفات کے وقت کے حوالے سے سنہ 60،<ref>ابن‌حجر عسقلانی، الاصابه، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۹.</ref> ۶۵،<ref>سمعانی، الانساب، ۱۳۸۲ق، ج۱۰، ص۲۱۳؛ ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۵۰.</ref> ۶۶ <ref>زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۰۵، ج۲، ص۲۹۳.</ref> اور ۸۲ھ<ref>ابن‌کثیر، البدایه و النهایه، ۱۴۰۷ق، ج۹، ص۴۳.</ref> بیان ہوئے ہیں۔
اسماء کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں۔ ان کی وفات کے وقت کے حوالے سے سنہ 60،<ref>ابن‌حجر عسقلانی، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۹.</ref> ۶۵،<ref>سمعانی، الانساب، ۱۳۸۲ق، ج۱۰، ص۲۱۳؛ ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۵۰.</ref> ۶۶ <ref>زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۰۵، ج۲، ص۲۹۳.</ref> اور ۸۲ھ<ref>ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۹، ص۴۳.</ref> بیان ہوئے ہیں۔


صحابہ کے حالات زندگی لکھنے والے [[ابن‌حجر عسقلانی|ابن‌حجر عَسقلانی]] (متوفی: ۸۵۲ھ) نے ان کی وفات 80 سال کی عمر میں ہونے کی بناپر تاریخ وفات سنہ 60 ہجری اور پیدائش کو بعثت سے پہلے قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌حجر عسقلانی، الاصابه، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۹.</ref>  
صحابہ کے حالات زندگی لکھنے والے [[ابن‌حجر عسقلانی|ابن‌حجر عَسقلانی]] (متوفی: ۸۵۲ھ) نے ان کی وفات 80 سال کی عمر میں ہونے کی بناپر تاریخ وفات سنہ 60 ہجری اور پیدائش کو بعثت سے پہلے قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌حجر عسقلانی، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۳۹.</ref>  


==حجر بن عدی کے خلاف گواہی ==
==حجر بن عدی کے خلاف گواہی ==
اسماء صفین کی جنگ میں امام علی کی فوج میں شامل تھا۔<ref>مدنی، الدرجات الرفیعه فی طبقات الشیعه، ص۲۷۰.</ref> البتہ وہ بعد میں ان لوگوں میں شامل ہوا جنہوں نے ابن زیاد کی درخواست پر امام علیؑ کے صحابی حجر بن عدی (شہادت: 51 ہجری) کے خلاف گواہی دی<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ق، ج۵، ص۲۵۴.</ref> جس کے نتیجے میں حُجر کو گرفتار کر کے شہید کر دیا گیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۳۱.</ref>بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد میں انہیں اس پر نادم اور پشیمان ہوا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۷۰.</ref>
اسماء صفین کی جنگ میں امام علی کی فوج میں شامل تھا۔<ref>مدنی، الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ، ص۲۷۰.</ref> البتہ وہ بعد میں ان لوگوں میں شامل ہوا جنہوں نے ابن زیاد کی درخواست پر امام علیؑ کے صحابی حجر بن عدی (شہادت: 51 ہجری) کے خلاف گواہی دی<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ق، ج۵، ص۲۵۴.</ref> جس کے نتیجے میں حُجر کو گرفتار کر کے شہید کر دیا گیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۳۱.</ref>بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد میں انہیں اس پر نادم اور پشیمان ہوا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۷۰.</ref>
==واقعہ کربلا میں اسماء کا کردار==
==واقعہ کربلا میں اسماء کا کردار==
تاریخی ذرائع کے مطابق اسماء بن خارجہ کا [[واقعہ کربلا]] میں کردار رہا ہے:
تاریخی ذرائع کے مطابق اسماء بن خارجہ کا [[واقعہ کربلا]] میں کردار رہا ہے:
سطر 24: سطر 53:
جب عبید اللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کو دار الخلافت میں بلانے اور اس سے مسلم بن عقیل کا مطالبہ کرنے اور انکار کرنے پر اسے شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تو اسماء بن خارجہ اور محمد بن اشعث کو اس کے پیچھے بھیج دیا۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۳۹۴ق، ج‏۲، ص۸۰.</ref> بعض منابع میں اس عمل میں عمرو بن حجاج زبیدی اور حسان ولد اسماء کے نام بھی مذکور ہیں۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق،  ج۵، صص۴۴، ۴۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref>  
جب عبید اللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کو دار الخلافت میں بلانے اور اس سے مسلم بن عقیل کا مطالبہ کرنے اور انکار کرنے پر اسے شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تو اسماء بن خارجہ اور محمد بن اشعث کو اس کے پیچھے بھیج دیا۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۳۹۴ق، ج‏۲، ص۸۰.</ref> بعض منابع میں اس عمل میں عمرو بن حجاج زبیدی اور حسان ولد اسماء کے نام بھی مذکور ہیں۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق،  ج۵، صص۴۴، ۴۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref>  


ابن قتیبہ اور طبری نے ایک روایت ذکر کی ہے کہ اسماء بن خارجہ عبید اللہ بن زیاد کے ارادے سے بے خبر تھا۔ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۳۷-۲۳۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref> پہلے تو اس نے ہانی کو عبیداللہ سے امان لینے کی کوشش کی<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۰.</ref> اور ہانی کو عبیداللہ کی طرف سے مار پیٹ اور قید ہوتے دیکھ کر اس کے خلاف احتجاج کیا اور خود بھی گرفتار ہوگیا۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۴۸؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۷.</ref> علی نمازی شاہرودی جیسے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عبید اللہ بن زیاد پر اعتراض کرنے والا بے خبر شخص اسماء کا بیٹا حسان تھا۔<ref>نمازی شاهرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، حیدری، ج۲، ص۳۲۹.</ref>
ابن قتیبہ اور طبری نے ایک روایت ذکر کی ہے کہ اسماء بن خارجہ عبید اللہ بن زیاد کے ارادے سے بے خبر تھا۔ref>دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۳۷-۲۳۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۵.</ref> پہلے تو اس نے ہانی کو عبیداللہ سے امان لینے کی کوشش کی<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۰.</ref> اور ہانی کو عبیداللہ کی طرف سے مار پیٹ اور قید ہوتے دیکھ کر اس کے خلاف احتجاج کیا اور خود بھی گرفتار ہوگیا۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۴۸؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۳۶۷.</ref> علی نمازی شاہرودی جیسے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عبید اللہ بن زیاد پر اعتراض کرنے والا بے خبر شخص اسماء کا بیٹا حسان تھا۔<ref>نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، حیدری، ج۲، ص۳۲۹.</ref>
===حسن مُثَنّیٰ کو روز عاشورا نجات===
===حسن مُثَنّیٰ کو روز عاشورا نجات===
شیخ مفید اور محمد تقی ششتری کے مطابق، اسماء بن خارجہ نے عمر بن سعد کی فوج میں امام حسینؑ کے خلاف جنگ نہیں کی تھی اور جنگ کے خاتمے کے بعد عاشورہ کے دن کربلا میں حاضر ہوئے اور حسن مثنی کو زخمی حالت میں دیکھا تو ان کی ماں کا ان کے قبیلہ سے ہونے کی وجہ سے ان کی جان بچائی۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۴، ج۲، ص۲۵؛ تستری، قاموس الرجال، ۱۴۲۲ق، ج۱۱، ص۳۹.</ref>
شیخ مفید اور محمد تقی ششتری کے مطابق، اسماء بن خارجہ نے عمر بن سعد کی فوج میں امام حسینؑ کے خلاف جنگ نہیں کی تھی اور جنگ کے خاتمے کے بعد عاشورہ کے دن کربلا میں حاضر ہوئے اور حسن مثنی کو زخمی حالت میں دیکھا تو ان کی ماں کا ان کے قبیلہ سے ہونے کی وجہ سے ان کی جان بچائی۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۴، ج۲، ص۲۵؛ تستری، قاموس الرجال، ۱۴۲۲ق، ج۱۱، ص۳۹.</ref>
سطر 31: سطر 60:


==شیعوں کی معرفی میں کوفی حکمرانی کی مدد==
==شیعوں کی معرفی میں کوفی حکمرانی کی مدد==
کوفہ پر حجاج بن یوسف ثقفی کی امارت کے آغاز (75ھ) کے بعد اسماء نئے حکمران کا سسر بن گیا۔<ref>ابن‌حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیده، ص۴۴۳.</ref> اور دار الخلافہ آنے جانے لگا۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج‏۷، ص۸۲.</ref> جب عبداللہ بن زبیر (وفات: 73 ہجری) کی طرف سے عبداللہ بن مطیع کوفہ میں حاکم تھا تو اس وقت بھی اسماء بن خارجہ دار الخلافہ میں موجود تھے اور اس وقت کے امیر کے مشیر تھے۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷، ج۶، ص۳۱.</ref>
کوفہ پر حجاج بن یوسف ثقفی کی امارت کے آغاز (75ھ) کے بعد اسماء نئے حکمران کا سسر بن گیا۔<ref>ابن‌حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیدہ، ص۴۴۳.</ref> اور دار الخلافہ آنے جانے لگا۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج‏۷، ص۸۲.</ref> جب عبداللہ بن زبیر (وفات: 73 ہجری) کی طرف سے عبداللہ بن مطیع کوفہ میں حاکم تھا تو اس وقت بھی اسماء بن خارجہ دار الخلافہ میں موجود تھے اور اس وقت کے امیر کے مشیر تھے۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷، ج۶، ص۳۱.</ref>
طبری لکھتے ہیں کہ جب حجاج عثمان بن عفان کے خلاف باغیوں اور امام علیؑ کے شیعوں کو پکڑ کر شہید کر رہا تھا تو اسماء نے بعض باغیوں اور کمیل بن زیاد جیسے بعض نامور شیعوں کے نام حجاج کے سامنے پیش کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج‏۴، ص۴۰۴.</ref>
طبری لکھتے ہیں کہ جب حجاج عثمان بن عفان کے خلاف باغیوں اور امام علیؑ کے شیعوں کو پکڑ کر شہید کر رہا تھا تو اسماء نے بعض باغیوں اور کمیل بن زیاد جیسے بعض نامور شیعوں کے نام حجاج کے سامنے پیش کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج‏۴، ص۴۰۴.</ref>


نیز عبد الملک بن مروان کے دور خلافت (دور حکومت: 66-86 ہجری) میں جب عبد الملک کا بھائی بُشر بن مروان کوفہ کا حاکم بنا تو اس نے اپنی بیٹی کی شادی بُشر سے کر دی<ref>ابن حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیده، ص۴۴۳.</ref> اور ازرقی خوارج سے جنگ لڑنے کے لئے مہلب بن ابی صفرہ کو منتخب کرنے پر اس سے مشورہ ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۴۲۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۶، ص۳۶۶؛ ابن‌قتیبه، الإمامة و السیاسة، ۱۴۱۰ق، ج‏۲، ص۱۰۹.</ref>
نیز عبد الملک بن مروان کے دور خلافت (دور حکومت: 66-86 ہجری) میں جب عبد الملک کا بھائی بُشر بن مروان کوفہ کا حاکم بنا تو اس نے اپنی بیٹی کی شادی بُشر سے کر دی<ref>ابن حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیدہ، ص۴۴۳.</ref> اور ازرقی خوارج سے جنگ لڑنے کے لئے مہلب بن ابی صفرہ کو منتخب کرنے پر اس سے مشورہ ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۴۲۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۶، ص۳۶۶؛ ابن‌قتیبہ، الإمامة و السیاسة، ۱۴۱۰ق، ج‏۲، ص۱۰۹.</ref>
==اسماء بن خارجہ کی نسل==
==اسماء بن خارجہ کی نسل==
اسماء بن خارجہ کی اولاد میں سے بعض محدث تھے۔ اسماء بن خارجہ کی بیٹی ام حبیب کا بیٹا محمد،<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۱۲۵.</ref> ابراہیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجہ، جو ابو اسحاق فزاری کے نام سے مشہور ہیں،<ref>شبستری، الفائق فی رواة و اصحاب الامام الصادق(ع)، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۶۰.</ref> اور ابراہیم کے چچا زاد بھائی ابو عبداللہ مروان بن معاویہ بن حارث بن اسماء<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۷، ص۲۳۸؛ ابن‌حزم اندلسی، جمهرة أنساب العرب، ۱۳۶۲ش، ص۲۵۷-۲۵۸.</ref> ان کی نسل سے ہیں جو اہل سنت کے محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔
اسماء بن خارجہ کی اولاد میں سے بعض محدث تھے۔ اسماء بن خارجہ کی بیٹی ام حبیب کا بیٹا محمد،<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۱۲۵.</ref> ابراہیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجہ، جو ابو اسحاق فزاری کے نام سے مشہور ہیں،<ref>شبستری، الفائق فی رواة و اصحاب الامام الصادق(ع)، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۶۰.</ref> اور ابراہیم کے چچا زاد بھائی ابو عبداللہ مروان بن معاویہ بن حارث بن اسماء<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۷، ص۲۳۸؛ ابن‌حزم اندلسی، جمہرة أنساب العرب، ۱۳۶۲ش، ص۲۵۷-۲۵۸.</ref> ان کی نسل سے ہیں جو اہل سنت کے محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔


اسی طرح مسلمہ بن عبدالملک (102ھ) کی طرف سے منتخب شدہ کوفہ کا امیر محمد ذوالشامہ کی ماں بھی اسماء بن خارجہ کی بیٹیوں میں سے ایک تھی۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج‏۹، ص۳۴۶.</ref>
اسی طرح مسلمہ بن عبدالملک (102ھ) کی طرف سے منتخب شدہ کوفہ کا امیر محمد ذوالشامہ کی ماں بھی اسماء بن خارجہ کی بیٹیوں میں سے ایک تھی۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج‏۹، ص۳۴۶.</ref>
سطر 45: سطر 74:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‌حبیب هاشمی بغدادی، محمد بن امیه، المحبر، تحقیق ایلزه لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیده، بی‌تا.
* ابن‌حبیب ہاشمی بغدادی، محمد بن امیہ، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بی‌تا.
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابه، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
* ابن‌حزم اندلسی، علی بن احمد، جمهرۀ انساب العرب، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۰۳ق/۱۳۶۲ش/۱۹۸۳م.
* ابن‌حزم اندلسی، علی بن احمد، جمہرۀ انساب العرب، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۳ق/۱۳۶۲ش/۱۹۸۳م.
* ابن‌سعد هاشمی بصری، محمد، الطبقات الکبری الطبقة الخامسه، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبة الصدیق، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م.
* ابن‌سعد ہاشمی بصری، محمد، الطبقات الکبری الطبقة الخامسہ، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبة الصدیق، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م.
* ابن‌سعد هاشمی بصری، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
* ابن‌سعد ہاشمی بصری، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
* ابن‌قتیبة دینوری، عبدالله بن مسلم، الإمامة و السیاسة المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
* ابن‌قتیبة دینوری، عبداللہ بن مسلم، الإمامة و السیاسة المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
* ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایه، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶م.
* ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۲، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسة الأعلمی، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۴م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۲، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسة الأعلمی، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۴م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۳، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، دار التعارف، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۳، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، دار التعارف، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۵، تحقیق احسان عباس، بیروت، جمعیة المستشرقین الألمانیه، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۵، تحقیق احسان عباس، بیروت، جمعیة المستشرقین الألمانیہ، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۶-۱۳، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
* بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج۶-۱۳، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
* تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، موسسه نشر اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۲۲ق.
* تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، موسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۲ق.
* دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر و مراجعه جمال‌الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش‏.
* دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر و مراجعہ جمال‌الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش‏.
* ذهبی، شمس‌الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
* ذہبی، شمس‌الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
* زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال و النساء من العرب و  المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم  للملایین، چاپ هشتم، ۱۹۸۹م.
* زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و  المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم  للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹م.
* سمعانی، عبدالکریم بن محمد بن منصور تمیمی، الأنساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرةالمعارف العثمانیه، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۲م.
* سمعانی، عبدالکریم بن محمد بن منصور تمیمی، الأنساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرةالمعارف العثمانیہ، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۲م.
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک معروف به تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک معروف بہ تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
* مدنی، سیدعلی خان، الدرجات الرفیعه فی طبقات الشیعه، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، قم، منشورات مکتبه بصیرتی، ۱۳۹۷.
* مدنی، سیدعلی خان، الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، قم، منشورات مکتبہ بصیرتی، ۱۳۹۷.
* مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الهجره، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
* مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرہ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد، بیروت، دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۴۱۴ق.
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد، بیروت، دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۴۱۴ق.
* نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تهران، حیدری، بی‌تا.
* نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، حیدری، بی‌تا.
* یعقوبی، احمد بن أبى‌يعقوب بن جعفر بن وهب واضح الكاتب العباسى المعروف باليعقوبى، تاریخ الیعقوبی، بيروت، دار صادر، بى‌تا.
* یعقوبی، احمد بن أبى‌يعقوب بن جعفر بن وہب واضح الكاتب العباسى المعروف باليعقوبى، تاریخ الیعقوبی، بيروت، دار صادر، بى‌تا.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{واقعہ کربلا کے عناصر}}
{{واقعہ کربلا کے عناصر}}
{{قیام مختار}}
{{قیام مختار}}


[[رده:اهالی کوفه قرن ۱ (قمری)]]
[[ردہ:اہالی کوفہ قرن ۱ (قمری)]]
[[رده:لشکریان عمر بن سعد]]
[[ردہ:لشکریان عمر بن سعد]]
[[رده:عاملان واقعه کربلا]]
[[ردہ:عاملان واقعہ کربلا]]
[[رده:مقاله‌های با درجه اهمیت ج]]
[[ردہ:مقالہ‌ہای با درجہ اہمیت ج]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,499

ترامیم