مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(عدد انگلیسی)
سطر 12: سطر 12:
== اہمیت اور مقام ==
== اہمیت اور مقام ==
شیعہ ماہر الہیات کلامی کتابوں کے مؤلف [[سید علی حسینی میلانی]] کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر نبوت کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام [[انبیاء]] اور [[شیعہ ائمہ]] کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور امامت کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
شیعہ ماہر الہیات کلامی کتابوں کے مؤلف [[سید علی حسینی میلانی]] کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر نبوت کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام [[انبیاء]] اور [[شیعہ ائمہ]] کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور امامت کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصادق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔<ref>حسینی میلانی، جَواهرُ الکلام فی معرفةِ الامامةِ و الامام، ۱۳۸۹ش، ج۲، ص۳۸-۳۹.</ref>
ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصادق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔<ref>حسینی میلانی، جَواہرُ الکلام فی معرفةِ الامامةِ و الامام، 1389شمسی، ج2، ص38-39.</ref>


کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث عصمت انبیاء، عصمت ائمہ اور فرشتوں کے ذیل میں ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، ۱۴۹۶ق، ص۲۶۰، ۳۵۰؛ علامه حلی، کشفُ‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵، ۱۸۴؛ فیاض لاهیجی، سرمایه ایمان، ۱۳۷۲ش، ص۹۰، ۱۱۴.</ref> تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی [[آیه تطهیر]] کے ذیل میں عصمت پر بحث ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۳-۱۳۴ و ج۵،‌ ص۷۸-۸۰، ج۱۱، ص۱۶۲-۱۶۴؛ سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۳-۴۱۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۲۹۷-۳۰۵.
کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث عصمت انبیاء، عصمت ائمہ اور فرشتوں کے ذیل میں ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، 1496ق، ص260، 350؛ علامہ حلی، کشفُ‌المراد، 1382شمسی، ص155، 184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص90، 114.</ref> تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی [[آیہ تطہیر]] کے ذیل میں عصمت پر بحث ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج2، ص13-134 و ج5،‌ ص78-80، ج11، ص162-164؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص3-410؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج17، ص297-305.
</ref>
</ref>
علم [[اصول فقه]] میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی پیغمبر اکرمؐ کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔<ref>ضیائی‌فر، «تأثیر دیدگاه‌های کلامی بر اصول فقه»، ص۳۲۳.</ref>
علم [[اصول فقہ]] میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی پیغمبر اکرمؐ کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔<ref>ضیائی‌فر، «تأثیر دیدگاہ‌ہای کلامی بر اصول فقہ»، ص323.</ref>


عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یهودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاه اهل کتاب (یهودیان و مسیحیان)]»، وبگاه آینده روشن.</ref>
عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاہ اہل کتاب (یہودیان و مسیحیان)]»، وبگاہ آیندہ روشن.</ref>


===تعریف اور معنی===
===تعریف اور معنی===
‏[[مسلمان]] مفکرین اور حکما نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
‏[[مسلمان]] مفکرین اور حکما نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
*'''تعریف متکلمان''': امامیہ<ref>مفید، تصحیحُ اعتقاداتِ الامامیه، ۱۴۱۴ق، ص۱۲۸؛ سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، ۱۴۰۵ق، ج۳،‌ ص۳۲۶؛ علامه حلی، بابُ الحادی‌عشر، ۱۳۶۵ش، ص۹.</ref> اور معتزلہ<ref>قاضی عبدالجبار، شرحُ الاصولِ الخمسة، ۱۴۲۲ق، ص۵۲۹؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۱۲-۳۱۳.</ref>) عصمت کو [[قاعدہ لطف]] کے ذریعے تفسیر کرتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامعُ الالهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۴۲؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۵.</ref> اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحبِ عصمت گناہ اور برے کام انجام نہیں دیتا ہے۔<ref>سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، ۱۴۰۵ق، ج۳،‌ ص۳۲۶؛ علامه حلی، بابُ الحادی‌عشر، ۱۳۶۵ش، ص۹؛ فاضل مقداد، اللَّوامعُ الاِلهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۴۳.</ref>  [[علامہ حلّی]] عصمت کو [[خدا]] کی جانب سے بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے۔<ref>علامه حلی، البابُ الحادی‌عشر‏، ۱۳۶۵ش، ص۹.</ref>
*'''تعریف متکلمان''': امامیہ<ref>مفید، تصحیحُ اعتقاداتِ الامامیہ، 1414ق، ص128؛ سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، 1405ق، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، بابُ الحادی‌عشر، 1365شمسی، ص9.</ref> اور معتزلہ<ref>قاضی عبدالجبار، شرحُ الاصولِ الخمسة، 1422ق، ص529؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ق، ج4، ص312-313.</ref>) عصمت کو [[قاعدہ لطف]] کے ذریعے تفسیر کرتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامعُ الالہیہ، 1422ق، ص242؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص215.</ref> اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحبِ عصمت گناہ اور برے کام انجام نہیں دیتا ہے۔<ref>سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، 1405ق، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، بابُ الحادی‌عشر، 1365شمسی، ص9؛ فاضل مقداد، اللَّوامعُ الاِلہیہ، 1422ق، ص243.</ref>  [[علامہ حلّی]] عصمت کو [[خدا]] کی جانب سے بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے۔<ref>علامہ حلی، البابُ الحادی‌عشر‏، 1365شمسی، ص9.</ref>


اشاعرہ عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۰؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۱۲-۳۱۳.</ref> اشاعرہ کی اس تعریف کا مبنی یہ ہے کہ ان کے مطابق ہر چیز بغیر واسطہ کے اللہ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۰.</ref>
اشاعرہ عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص280؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ق، ج4، ص312-313.</ref> اشاعرہ کی اس تعریف کا مبنی یہ ہے کہ ان کے مطابق ہر چیز بغیر واسطہ کے اللہ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص280.</ref>


*'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، ۱۴۱۲ق، ص۱۰۱)}} سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔<ref>طوسی، تلخیص‌المحصل، ۱۴۰۵ق، ص۳۶۹؛ جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۱؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۲؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۱۹۷؛ مصباح یزدی، راه و راهنماشناسی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۵-۲۸۶.</ref>
*'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، 1412ق، ص101)}} سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔<ref>طوسی، تلخیص‌المحصل، 1405ق، ص369؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص281؛ طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج11، ص162؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص197؛ مصباح یزدی، راہ و راہنماشناسی، 1395شمسی، ص285-286.</ref>


شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت الله سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۱۲-۱۴؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۵۸-۱۵۹.</ref> آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۰.</ref>
شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت اللہ سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص12-14؛ سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج3، ص158-159.</ref> آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص20.</ref>


لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابن‌فارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغة، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج۴، ص۳۳۱؛ راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص۵۶۹؛ جوهری،‌ الصِّحاح، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۱۹۸۶؛‌ ابن‌منظور، لسان‌العرب، دار صادر، ج۱۲، ص۴۰۳-۴۰۴. </ref>
لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابن‌فارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغة، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری،‌ الصِّحاح، 1407ق، ج5، ص1986؛‌ ابن‌منظور، لسان‌العرب، دار صادر، ج12، ص403-404. </ref>


==عصمت کا سرچشمہ==
==عصمت کا سرچشمہ==
عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص  لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، ۱۳۸۳ش، ص۳۸۸-۳۹۰.</ref>
عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص  لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، 1383شمسی، ص388-390.</ref>


===لطف الهی===
===لطف الہی===
[[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیه، ۱۴۱۴ق، ص۱۲۸؛ سیدِ مرتضی، الذخیره، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹.</ref> [[علامه حلی]] چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
[[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، 1414ق، ص128؛ سیدِ مرتضی، الذخیرہ، 1411ق، ص189.</ref> [[علامہ حلی]] چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
# معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛
# معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛
# معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛
# معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛
# وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛
# وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶.</ref>
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186.</ref>


===مخصوص علم===
===مخصوص علم===
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹، ج۱۱، ص۱۶۲-۱۶۳، ج۱۷، ص۲۹۱؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۵۹-۱۶۱.</ref>  
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیہ، 1422ق، ص224؛ طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج5، ص79، ج11، ص162-163، ج17، ص291؛ سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج4، ص159-161.</ref>  
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۳.</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹.</ref>
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج11، ص163.</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج5، ص79.</ref>


===علم و ارادہ===
===علم و ارادہ===
[[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۲.</ref> ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ۱۳۹۵ش، ص۳۰۳-۳۰۴.</ref>
[[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص302.</ref> ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص303-304.</ref>


==عصمت اور اختیار==
==عصمت اور اختیار==
لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضل‌الله، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، ۱۴۱۹ ق، ج‏۴، ص ۱۵۵–۱۵۶.</ref> لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۷.</ref> عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلهیّه، ۱۴۲۲ق، ص۲۴۳؛ جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۲۸۱.</ref>
لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، 1419 ق، ج‏4، ص 155–156.</ref> لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص217.</ref> عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ق، ص243؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص281.</ref>


معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبدالله جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیره پیامبر اکرم ص در قرآن (ج۹۱۳۸۵ش، ص۲۴.</ref>
معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبداللہ جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج91385شمسی، ص24.</ref>


[[سید محمدحسین طباطبائی|علامه طباطبایی]] عصمت کا اختیار کے ساتھ سازگار ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ «عصمت کا منبع ایک خاص علم ہے جو اللہ نے معصوم کو عطا کی ہے۔ علم خود ہی اختیار کے مبانی اور بنیاد میں سے ہے۔ لہذا معصومین اعمال کے مفاسد اور مصالح کو جاننے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ جیسا کہ جس شخص کو زہرا ہلاہل کا پتہ ہو تو کبھی اسے نہیں پیے گا۔»<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۲–۱۶۳.</ref>
[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] عصمت کا اختیار کے ساتھ سازگار ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ «عصمت کا منبع ایک خاص علم ہے جو اللہ نے معصوم کو عطا کی ہے۔ علم خود ہی اختیار کے مبانی اور بنیاد میں سے ہے۔ لہذا معصومین اعمال کے مفاسد اور مصالح کو جاننے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ جیسا کہ جس شخص کو زہرا ہلاہل کا پتہ ہو تو کبھی اسے نہیں پیے گا۔»<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج11، ص162–163.</ref>


شیعہ فلسفی [[محمد تقی مصباح یزدی]] کا کہنا ہے کہ عصمت صرف ایک علمی ملکہ ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی ملکہ ہے جو معصوم کے بااختیار عمل کا اللہ تعالی کے لطف سے مطابقت ہونے سے حاصل ہوا ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، ۱۳۸۳ش، ص۵۳–۶۳.</ref>
شیعہ فلسفی [[محمد تقی مصباح یزدی]] کا کہنا ہے کہ عصمت صرف ایک علمی ملکہ ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی ملکہ ہے جو معصوم کے بااختیار عمل کا اللہ تعالی کے لطف سے مطابقت ہونے سے حاصل ہوا ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، ص53–63.</ref>
وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، ۱۳۸۳ش، ص۵۷–۵۸.</ref>
وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، ص57–58.</ref>
==عصمت انبیا==
==عصمت انبیا==
{{اصلی|عصمت انبیا}}
{{اصلی|عصمت انبیا}}
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۵۲.</ref> اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، ۱۳۸۸ش، ص۱۹.</ref>
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، 1397شمسی، ص52.</ref> اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، 1388شمسی، ص19.</ref>


مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔
مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔


  جس  شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص۲۶۳</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۵۰</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref>
  جس  شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص263</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص50</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص153و154</ref>


شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء الہی مذکورہ تمام مراتب میں عصمت پر فائز ہیں؛ بلکہ انبیاء ہر اس کام سے بھی دور ہیں جو لوگوں کا ان سے دوری کا باعث بنتا ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، ۱۳۸۵ش، ص۹۴-۹۸.</ref> لوگوں کو نبوت کی طرف جلب کرنا انبیا کی عصمت واجب ہونے کی عقلی دلیلوں میں سے ایک ہے؛<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵.</ref> اسی طرح بعض آیات<ref>ملاحظہ کریں: آیه هفتم سوره حشر.</ref> اور روایات<ref>ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق،‌ ج۱۴، ص۱۰۳؛ ج۱۲، ص۳۴۸، ج۴، ص۴۵؛ صدوق، عیونُ اخبارِ الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۹۲-۲۰۴.</ref> سے استناد ہوا ہے۔<ref>کریمی، نبوت (پژوهشی در نبوت عامه و خاصه۱۳۸۳ش، ص۱۳۴؛ اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عهدین»، ص۸۷.</ref>
شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء الہی مذکورہ تمام مراتب میں عصمت پر فائز ہیں؛ بلکہ انبیاء ہر اس کام سے بھی دور ہیں جو لوگوں کا ان سے دوری کا باعث بنتا ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1385شمسی، ص94-98.</ref> لوگوں کو نبوت کی طرف جلب کرنا انبیا کی عصمت واجب ہونے کی عقلی دلیلوں میں سے ایک ہے؛<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص155.</ref> اسی طرح بعض آیات<ref>ملاحظہ کریں: آیہ ہفتم سورہ حشر.</ref> اور روایات<ref>ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص202-203؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق،‌ ج14، ص103؛ ج12، ص348، ج4، ص45؛ صدوق، عیونُ اخبارِ الرضا، 1378ق، ج1، ص192-204.</ref> سے استناد ہوا ہے۔<ref>کریمی، نبوت (پژوہشی در نبوت عامہ و خاصہ1383شمسی، ص134؛ اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص87.</ref>


انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۱، ۵۲؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۶۹، ۷۰، ۹۱-۲۲۹؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۲۴۶-۲۸۶؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۷، ص۱۰۱-۱۶۰.</ref> ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref> اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۱-۱۰۲.</ref>
انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص51، 52؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، 1420ق، ص69، 70، 91-229؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص246-286؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج7، ص101-160.</ref> ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ 1394شمسی، ص102و103.</ref> اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ 1394شمسی، ص101-102.</ref>


==عصمت ائمہ==
==عصمت ائمہ==
{{اصلی|عصمت ائمہ|عصمت حضرت فاطمہؑ}}
{{اصلی|عصمت ائمہ|عصمت حضرت فاطمہؑ}}
ائمہؑ کی عصمت شیعیان اثنا عشری کے عقیدے کے مطابق امامت کی شرائط میں سے ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّقُ بِالاعتقاد، ۱۴۹۶ق، ص۳۰۵؛ علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاهیجی، سرمایه ایمان، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴، سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۱۶.</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامه مجلسی]] کے مطابق تمام امامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ائمہ ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ خواہ عمدی ہو یا سہوی یا اشتباہ سب سے پاک ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۰۹، ۳۵۰، ۳۵۱.</ref> کہا گیا ہے کہ [[اسماعیلیه]] بھی عصمت کو امامت کی شرط مانتے ہیں۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۵۱.</ref> جبکہ [[اهل سنت و الجماعت|اهل سنت]] عصمت کو امامت کی شرط نہیں مانتے ہیں؛<ref>قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۱۵، ص۲۵۱، ۲۵۵، ۲۵۶، ج۲۰، بخش اول، ص۲۶، ۸۴، ۹۵، ۹۸، ۲۱۵، ۳۲۳؛ جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۵۱؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد،  ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۹.</ref> کیونکہ ان کا اجماع ہے کہ خلفائے ثلاثہ امام تھے؛ لیکن معصوم نہیں تھے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۵۱؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۹.</ref> [[وهابیت|وهابی]] بھی شیعہ ائمہ کی عصمت کو نہیں مانتے ہیں اور عصمت کو انبیاءؑ سے مختص سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌تیمیه، مِنهاجُ السُّنةِ النَّبَویة، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۲۹، ج۳، ص۳۸۱؛ ابن‌عبدالوهاب، رسالةٌ فی الرَّدِ علی الرّافضة، ریاض، ص۲۸؛‌ قفاری، اصولُ مذهبِ الشّیعةِ الامامیه، ۱۴۳۱ق، ج۲، ص۷۷۵.</ref>
ائمہؑ کی عصمت شیعیان اثنا عشری کے عقیدے کے مطابق امامت کی شرائط میں سے ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّقُ بِالاعتقاد، 1496ق، ص305؛ علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص114، سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج4، ص116.</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] کے مطابق تمام امامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ائمہ ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ خواہ عمدی ہو یا سہوی یا اشتباہ سب سے پاک ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص209، 350، 351.</ref> کہا گیا ہے کہ [[اسماعیلیہ]] بھی عصمت کو امامت کی شرط مانتے ہیں۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص184؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص351.</ref> جبکہ [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] عصمت کو امامت کی شرط نہیں مانتے ہیں؛<ref>قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962-1965م، ج15، ص251، 255، 256، ج20، بخش اول، ص26، 84، 95، 98، 215، 323؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد،  1409ق، ج5، ص249.</ref> کیونکہ ان کا اجماع ہے کہ خلفائے ثلاثہ امام تھے؛ لیکن معصوم نہیں تھے۔<ref>جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ق، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ق، ج5، ص249.</ref> [[وہابیت|وہابی]] بھی شیعہ ائمہ کی عصمت کو نہیں مانتے ہیں اور عصمت کو انبیاءؑ سے مختص سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌تیمیہ، مِنہاجُ السُّنةِ النَّبَویة، 1406ق، ج2، ص429، ج3، ص381؛ ابن‌عبدالوہاب، رسالةٌ فی الرَّدِ علی الرّافضة، ریاض، ص28؛‌ قفاری، اصولُ مذہبِ الشّیعةِ الامامیہ، 1431ق، ج2، ص775.</ref>


[[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ عصمت پیغمبر پر جو عقلی دلائل قائم کی گئی ہیں، جیسے بعثت کے اہداف کا متحقق ہونا، لوگوں کی توجہ جلب کرنا وغیرہ امام کی عصمت میں بھی یہ سب ذکر ہوتی ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴،‌ ص۲۵۱.</ref> شیعہ متکلمین نے ائمہؑ کی عصمت ثابت کرنے کے لئے متعدد آیات اور روایات کا حوالہ دیا ہے جن میں [[آیه ابتلای ابراهیم]]،<ref> فاضل مقداد،‌ اللَّوامع الاِلهیّه، ۱۴۲۲ق، ص۳۳۲؛ مظفر، دلائلُ‌الصّدق، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۲۰. </ref> [[آیه اولی‌الامر]]،<ref> ملاحظہ کریں: طوسی،‌ التِّبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳،‌ص۲۳۶؛ طبرسی، مَجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳،‌ ص۱۰۰؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۱۱۳-۱۱۴؛ مظفر،‌ دلائلُ‌الصّدق، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۲۱. </ref> [[آیه تطهیر]]،<ref> سید مرتضی، الشّافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۳۴-۱۳۵؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۴۶-۶۴۷؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۲۵. </ref> اور [[آیه صادقین]]<ref>ملاحظہ کریں: علامه حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۹۶؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۴-۲۸۰. </ref> [[حدیث ثقلین]]<ref> ملاحظہ کریں: مفید،‌ المسائل الجارودیه، ۱۴۱۳ق، ص۴۲؛ ابن عطیه، ابهی المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۱؛‌ بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۱.</ref> اور [[حدیث سفینه]].<ref>میرحامد حسین، عَبَقات‌الانوار، ج۲۳، ص۶۵۵-۶۵۶. </ref> شامل ہیں۔
[[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ عصمت پیغمبر پر جو عقلی دلائل قائم کی گئی ہیں، جیسے بعثت کے اہداف کا متحقق ہونا، لوگوں کی توجہ جلب کرنا وغیرہ امام کی عصمت میں بھی یہ سب ذکر ہوتی ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4،‌ ص251.</ref> شیعہ متکلمین نے ائمہؑ کی عصمت ثابت کرنے کے لئے متعدد آیات اور روایات کا حوالہ دیا ہے جن میں [[آیت ابتلائے ابراہیم]]،<ref> فاضل مقداد،‌ اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ق، ص332؛ مظفر، دلائلُ‌الصّدق، 1422ق، ج4، ص220. </ref> [[آیہ اولی‌الامر]]،<ref> ملاحظہ کریں: طوسی،‌ التِّبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء‌التراث العربی، ج3،‌ص236؛ طبرسی، مَجمع‌البیان، 1372شمسی، ج3،‌ ص100؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ق، ص113-114؛ مظفر،‌ دلائلُ‌الصّدق، 1422ق، ج4، ص221. </ref> [[آیہ تطہیر]]،<ref> سید مرتضی، الشّافی فی الامامة، 1410ق، ج3، ص134-135؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ق، ص646-647؛ سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج4، ص125. </ref> اور [[آیہ صادقین]]<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص196؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص274-280. </ref> [[حدیث ثقلین]]<ref> ملاحظہ کریں: مفید،‌ المسائل الجارودیہ، 1413ق، ص42؛ ابن عطیہ، ابہی المداد، 1423ق، ج1، ص131؛‌ بحرانی، منار الہدی، 1405ق، ص671.</ref> اور [[حدیث سفینہ]].<ref>میرحامد حسین، عَبَقات‌الانوار، ج23، ص655-656. </ref> شامل ہیں۔


شیعوں کی نظر میں [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|حضرت فاطمهؑ]] بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵.</ref> ان کی عصمت کے لئے آیه تطهیر اور [[حدیث بضعه|حدیث بَضْعَه]] سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref> سید مرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵.</ref>
شیعوں کی نظر میں [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہؑ]] بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ق، ج4، ص95.</ref> ان کی عصمت کے لئے آیہ تطہیر اور [[حدیث بضعہ|حدیث بَضْعَہ]] سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref> سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ق، ج4، ص95.</ref>


==فرشتوں کی عصمت==
==فرشتوں کی عصمت==
سطر 83: سطر 83:
| نویسندہ =  
| نویسندہ =  
| نقل قول = {{حدیث|عَلَیها مَلائِکةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا یعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ یفْعَلُونَ ما یؤْمَرُونَ}} ترجمہ:اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُندخو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔
| نقل قول = {{حدیث|عَلَیها مَلائِکةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا یعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ یفْعَلُونَ ما یؤْمَرُونَ}} ترجمہ:اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُندخو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔
| منبع = [[سوره تحریم]]، آیه6
| منبع = [[سورہ تحریم]]، آیہ6
| تراز =چپ
| تراز =چپ
| پس زمینہ =#ffeebb
| پس زمینہ =#ffeebb
سطر 90: سطر 90:
| اندازہ قلم = 12px
| اندازہ قلم = 12px
}}
}}
[[محمد باقر مجلسی|علامه مجلسی]] کا کہنا ہے کہ شیعوں کا [[اجماع]] ہے کہ تمام فرشتے ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم ہیں۔ اکثر اہل سنت کا بھی یہی نظریہ ہے۔<ref>مجلسی، بِحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۲۴.</ref> فرشتوں کی عصمت کے بارے میں بعض دیگر نظریات بھی پائے جاتے ہیں: بعض فرشتوں کو معصوم نہیں سمجھتے ہیں۔ بعض نے نفی یا اثبات میں کچھ نہیں کہا ہے کیونکہ ان کی نظر میں عصمت یا غیر معصوم ہونے پر قائم کی جانے والی دلائل کافی نہیں ہیں۔ بعض نے صرف وحی کے حامل، مقرب اور بعض آسمانی فرشتوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو: محقق، عصمت از دیدگاه شیعه و اهل تسنن، ۱۳۹۱ش، ص۱۳۰-۱۳۲.</ref>
[[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] کا کہنا ہے کہ شیعوں کا [[اجماع]] ہے کہ تمام فرشتے ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم ہیں۔ اکثر اہل سنت کا بھی یہی نظریہ ہے۔<ref>مجلسی، بِحارالانوار، 1403ق، ج11، ص124.</ref> فرشتوں کی عصمت کے بارے میں بعض دیگر نظریات بھی پائے جاتے ہیں: بعض فرشتوں کو معصوم نہیں سمجھتے ہیں۔ بعض نے نفی یا اثبات میں کچھ نہیں کہا ہے کیونکہ ان کی نظر میں عصمت یا غیر معصوم ہونے پر قائم کی جانے والی دلائل کافی نہیں ہیں۔ بعض نے صرف وحی کے حامل، مقرب اور بعض آسمانی فرشتوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو: محقق، عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل تسنن، 1391شمسی، ص130-132.</ref>
عصمت کے موافقین کا کہنا ہے کہ سورہ انبیا کی آیت نمبر ۲۷ <ref>فیاض لاهیجی، گوهر مراد، ۱۳۸۳ش، ص۴۲۵؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۲،‌ ص۱۳۶.</ref> اور سورہ تحریم کی آیت نمبر 6<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دارُ احیاء‌ِ التُّراث العربی، ج۱۰، ص۵۰؛ طبرسی، مَجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۷۷.</ref> اور متعدد احادیث<ref>ملاحظہ کریں: فیاض لاهیجی، گوهر مراد، ۱۳۸۳ش، ص۴۲۶.</ref> فرشتوں کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>فرشتوں کی عصمت کے بارے میں ملاحظہ کریں: راستین و کهنسال، «عصمت فرشتگان، شواهد موافق و مخالف»، ص۱۱۷-۱۲۱.</ref>کہا گیا ہے کہ مسلمان فرقوں میں صرف فرقه حَشْویه فرشتوں کی عصمت کے مخالف ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بِحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱، ص۱۲۴؛ راستین و کهنسال، «عصمت فرشتگان، شواهد موافق و مخالف»، ص۱۲۱.</ref>
عصمت کے موافقین کا کہنا ہے کہ سورہ انبیا کی آیت نمبر 27 <ref>فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص425؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج22،‌ ص136.</ref> اور سورہ تحریم کی آیت نمبر 6<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دارُ احیاء‌ِ التُّراث العربی، ج10، ص50؛ طبرسی، مَجمع‌البیان، 1372شمسی، ج10، ص477.</ref> اور متعدد احادیث<ref>ملاحظہ کریں: فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص426.</ref> فرشتوں کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>فرشتوں کی عصمت کے بارے میں ملاحظہ کریں: راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص117-121.</ref>کہا گیا ہے کہ مسلمان فرقوں میں صرف فرقہ حَشْویہ فرشتوں کی عصمت کے مخالف ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بِحارالانوار، 1403ق، ج11، ص124؛ راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص121.</ref>


[[ناصر مکارم شیرازی|آیت‌الله مکارم شیرازی]] نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،۱۳۸۶ش، ج۱،‌ ص۱۶۷-۱۶۸.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی|آیت‌اللہ مکارم شیرازی]] نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،1386شمسی، ج1،‌ ص167-168.</ref>


== اعتراضات اور ان کے جواب ==
== اعتراضات اور ان کے جواب ==
*'''انسانی فطرت کے ساتھ معصومیت کی عدم مطابقت'''
*'''انسانی فطرت کے ساتھ معصومیت کی عدم مطابقت'''
ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَی‌الاسلام،‌ ۲۰۰۳م، ج۳، ص۲۲۹-۲۳۰.</ref>  
ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَی‌الاسلام،‌ 2003م، ج3، ص229-230.</ref>  


عبداللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۲۰۱-۲۰۳.</ref>  
عبداللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص201-203.</ref>  


*'''عصمت کے نظرئے کا آغاز'''
*'''عصمت کے نظرئے کا آغاز'''
ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۷۹-۸۵.</ref><br> جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۰-۸۲.</ref> اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۰-۸۱.</ref> ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۳.</ref> اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۶.</ref>
ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص79-85.</ref><br> جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-82.</ref> اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-81.</ref> ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص83.</ref> اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص86.</ref>


*'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت'''
*'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت'''
{{اصلی|استغفار معصومین}}
{{اصلی|استغفار معصومین}}
بعض کا خیال ہے کہ عصمت ایک ایسا نظریہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کے بارے میں ان کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اپنے آپ کو گنہگار کے طور پر تعارف کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معصوم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو ان کو ہی قبول نہیں تھی۔<ref>فخر رازی، عصمة الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۱۳۶؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۲۶؛ قفاری، اصول مذهب الشیعة الامامیة، ۱۴۳۱ق، ج۲، ص۷۹۴-۷۹۶؛ دهلوی، تحفه اثنی عشریه، مکتبة الحقیقة، ص۴۶۳.</ref>
بعض کا خیال ہے کہ عصمت ایک ایسا نظریہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کے بارے میں ان کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اپنے آپ کو گنہگار کے طور پر تعارف کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معصوم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو ان کو ہی قبول نہیں تھی۔<ref>فخر رازی، عصمة الانبیاء، 1409ق، ص136؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، 1414ق، ج12، ص26؛ قفاری، اصول مذہب الشیعة الامامیة، 1431ق، ج2، ص794-796؛ دہلوی، تحفہ اثنی عشریہ، مکتبة الحقیقة، ص463.</ref>


اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں:
اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں:


#معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۱۰؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏۲، ص۴۷۲؛ خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰ش، ص۷۰؛ خمینی، جهاد اکبر، ۱۳۷۸ش، ص۵۷؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،۱۳۷۸ش، ج۳، ص۲۶۷.</ref>
#معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص70؛ خمینی، جہاد اکبر، 1378شمسی، ص57؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،1378شمسی، ج3، ص267.</ref>


#معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمة، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۲۵۳-۲۵۵؛ خواجه نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، ۱۳۷۳ش، ص۲۶؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۱۰؛ خمینی، صحیفه امام، ج۲۰، ص۲۶۹؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۶، ص۳۶۷؛ سبحانی، الفکر الخالد، ۱۴۲۵ق، ج۱، صص۴۳۲-۴۳۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۲۰، ص۱۳۴؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان به قصور و کوتاهی»، ص۸-۱۰.</ref>
#معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمة، 1381ق، ج2، ص253-255؛ خواجہ نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، 1373شمسی، ص26؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ خمینی، صحیفہ امام، ج20، ص269؛ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج6، ص367؛ سبحانی، الفکر الخالد، 1425ق، ج1، صص432-437؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج20، ص134؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص8-10.</ref>


#معصومین سیر و سلوک کے ذریعے جس مرتبے پر پہنچتے ہیں اس سے نچلے مرتبے کی نسبت استغفار کرتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۱۰؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۱۳؛ خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰ش، ص۳۴۳؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان به قصور و کوتاهی»، ص۱۱-۱۴؛ ناییجی، آداب راز و نياز به درگاه بى نياز، ۱۳۸۱ش، ص۳۴۷.</ref>
#معصومین سیر و سلوک کے ذریعے جس مرتبے پر پہنچتے ہیں اس سے نچلے مرتبے کی نسبت استغفار کرتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج12، ص113؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص343؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص11-14؛ ناییجی، آداب راز و نياز بہ درگاہ بى نياز، 1381شمسی، ص347.</ref>


#ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏۲، ص۴۷۲؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج۹، ص۸۷.</ref>
#ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص87.</ref>


#معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۳۰۸؛‌ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏۲، ص۴۷۲.</ref>
#معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج11، ص308؛‌ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏2، ص472.</ref>




سطر 125: سطر 125:
عصمت کے بارے میں عربی اور فارسی زبان میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
عصمت کے بارے میں عربی اور فارسی زبان میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:


*''التَّنبیه المعلوم؛ البرهان علی تَنزیهِ المعصوم عَنِ السَّهو و النِّسیان''، بقلم [[شیخ حر عاملی]]؛
*''التَّنبیہ المعلوم؛ البرہان علی تَنزیہِ المعصوم عَنِ السَّہو و النِّسیان''، بقلم [[شیخ حر عاملی]]؛
*''عصمت از منظر فریقین (شیعه و اهل‌سنت)''، بقلم [[سید علی حسینی میلانی]]؛
*''عصمت از منظر فریقین (شیعہ و اہل‌سنت)''، بقلم [[سید علی حسینی میلانی]]؛
*''پژوهشی در عصمت معصومان(ع)''، تألیف احمدحسین شریفی و حسن یوسفیان.
*''پژوہشی در عصمت معصومان(ع)''، تألیف احمدحسین شریفی و حسن یوسفیان.
*''عصمت از دیدگاه شیعه و اهل‌تسنن''، بقلم فاطمه محقق؛
*''عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل‌تسنن''، بقلم فاطمہ محقق؛
*''عصمت، ضرورت و آثار''، تالیف سید موسی هاشمی تنکابنی؛
*''عصمت، ضرورت و آثار''، تالیف سید موسی ہاشمی تنکابنی؛
*''اندیشه کلامی عصمت؛ پیامدهای فقهی و اصول فقهی''، بقلم بهروز مینایی. اس کتاب میں فقہ اور اصول فقہ کے تناظر میں عقیدہ عصمت کے اثرات کو بیان کیا ہے۔<ref>«[https://feqh.isca.ac.ir/Portal/home/?news/122940/327175/435456 اندیشه کلامی عصمت‌ (پیامدهای فقهی و اصول فقهی)]»، وبگاه پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی؛ پژوهشکده فق و حقوق.</ref>
*''اندیشہ کلامی عصمت؛ پیامدہای فقہی و اصول فقہی''، بقلم بہروز مینایی. اس کتاب میں فقہ اور اصول فقہ کے تناظر میں عقیدہ عصمت کے اثرات کو بیان کیا ہے۔<ref>«[https://feqh.isca.ac.ir/Portal/home/?news/122940/327175/435456 اندیشہ کلامی عصمت‌ (پیامدہای فقہی و اصول فقہی)]»، وبگاہ پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی؛ پژوہشکدہ فق و حقوق.</ref>
*''منشأ عصمت از گناه و خطا؛ نظریه‌ها و دیدگاه‌ها''، بقلم عبدالحسین کافی.
*''منشأ عصمت از گناہ و خطا؛ نظریہ‌ہا و دیدگاہ‌ہا''، بقلم عبدالحسین کافی.
==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
{{ستون آ|2}}* [[عصمت اکتسابی]]
{{ستون آ|2}}* [[عصمت اکتسابی]]
* [[تقوا]]
* [[تقوا]]
* [[چودہ معصومینؑ]]
* [[چودہ معصومینؑ]]
* [[سهو النبی]]
* [[سہو النبی]]
*‌ [[عصمت حضرت فاطمهؑ]]
*‌ [[عصمت حضرت فاطمہؑ]]
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


سطر 146: سطر 146:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‌تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، مِنهاجُ السَّنةِ النَّبویة فی نقضِ کلامِ الشّیعةِ القَدَریّة، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، چاپ اول، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
* ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مِنہاجُ السَّنةِ النَّبویة فی نقضِ کلامِ الشّیعةِ القَدَریّة، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، چاپ اول، 1406ق/1986م.
* ابن‌عبدالوهاب، محمد بن عبدالوهاب بن سلیمان، رسالةٌ فی الرَّدِ علی الرّافضة، تحقیق ناصر بن سعد الرشید، ریاض، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، بی‌تا. (این رساله در جلد دوازدهم از مؤلفات محمد بن عبدالوهاب، به چاپ رسیده است)
* ابن‌عبدالوہاب، محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان، رسالةٌ فی الرَّدِ علی الرّافضة، تحقیق ناصر بن سعد الرشید، ریاض، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، بی‌تا. (یہ رسالہ مؤلفات محمد بن عبد الوہاب کی بارہویں جلد میں چھپ گیا ہے)
* ابن‌عطیه، مَقاتِل، اَبهی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمدجمیل حمود، بیروت، مؤسسة‌الاعلمی، چاپ اول، ۱۴۲۳ق.
* ابن‌عطیہ، مَقاتِل، اَبہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمدجمیل حمود، بیروت، مؤسسة‌الاعلمی، چاپ اول، 1423ھ۔
* ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، دار صادر، چاپ سوم، بی‌تا.
* ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، دار صادر، چاپ سوم، بی‌تا.
* [https://rjqk.atu.ac.ir/article_5613.html اشرفی، عباس  و ام‌البنین رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عهدین»]، در فصلنامه پژوهشنامه معارف قرآنی، شماره ۱۲، ۱۳۹۲ش.
* [https://rjqk.atu.ac.ir/article_5613.html اشرفی، عباس  و ام‌البنین رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»]، در فصلنامہ پژوہشنامہ معارف قرآنی، شمارہ 12، 1392ہجری شمسی۔
* اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة، تبریز، بنی‌هاشمی، ۱۳۸۱ق.
* اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة، تبریز، بنی‌ہاشمی، 1381ھ۔
* آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ق.
* آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
* امین، احمد، ضُحَی‌الاسلام،‌ قاهره ، مکتبةالاسره، ۲۰۰۳م.
* امین، احمد، ضُحَی‌الاسلام،‌ قاہرہ ، مکتبةالاسرہ، 2003م.
* انواری، جعفر، نور عصمت بر سیمای نبوت؛ پاسخ به شبهات قرآنی، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ اول، ۱۳۹۷ش.
* انواری، جعفر، نور عصمت بر سیمای نبوت؛ پاسخ بہ شبہات قرآنی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، 1397ہجری شمسی۔
* بحرانی، شیخ علی، منار الهُدیٰ فی النَّصِ علیٰ امامةِ الائمةِ الاِثنیٰ عشر، تحقیق عبدالزهرا خطیب، بیروت، دارالمنتظر، ۱۴۰۵ق.
* بحرانی، شیخ علی، منار الہُدیٰ فی النَّصِ علیٰ امامةِ الائمةِ الاِثنیٰ عشر، تحقیق عبدالزہرا خطیب، بیروت، دارالمنتظر، 1405ھ۔
*‌ تفتازانی، سعدالدین، شرح‌المقاصد، تحقیق و تعلیق عبدالرحمن عمیره، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق.
*‌ تفتازانی، سعدالدین، شرح‌المقاصد، تحقیق و تعلیق عبدالرحمن عمیرہ، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1409ھ۔
* جرجانی، میرسید شریف، شرح‌المَواقف، تحقیق بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۳۲۵ق.
* جرجانی، میرسید شریف، شرح‌المَواقف، تحقیق بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ھ۔
* جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی، قم، نشر اسراء، ۱۳۷۶ش.
* جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر موضوعی، قم، نشر اسراء، 1376ہجری شمسی۔
* جوادی آملی، عبدالله، سیره پیامبر اکرم ص در قرآن (ج۹)، قم، مرکز نشر اسراء، ۱۳۸۵ش.
* جوادی آملی، عبداللہ، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، قم، مرکز نشر اسراء، 1385ہجری شمسی۔
* جوادی آملی، عبدالله، وحی و نبوت در قرآن (تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج۳)، تحقیق و تنظیم علی زمانی قمشه‌ای، قم،‌ نشر اِسراء، چاپ ششم، ۱۳۹۲ش.
* جوادی آملی، عبداللہ، وحی و نبوت در قرآن (تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج3)، تحقیق و تنظیم علی زمانی قمشہ‌ای، قم،‌ نشر اِسراء، چاپ ششم، 1392ہجری شمسی۔
* حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاه اهل‌کتاب (یهودیان و مسیحیان)]»، وبگاه آینده روشن، تاریخ درج مطلب: ۱ اردیبهشت ۱۳۸۸ش، تاریخ بازدید: ۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۲ش.
* حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاہ-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاه اهل‌کتاب (یهودیان و مسیحیان)]»، وبگاہ آیندہ روشن، تاریخ درج مطلب: 1 اردیبہشت 1388شمسی، تاریخ بازدید: 12 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
* حسینی میلانی، سید علی، جواهر الکلام فی معرفةِ الامامةِ و الامام، قم، مرکز الحقایق الاسلامیه، ۱۳۸۹ش.
* حسینی میلانی، سید علی، جواہر الکلام فی معرفةِ الامامةِ و الامام، قم، مرکز الحقایق الاسلامیہ، 1389ہجری شمسی۔
* حسینی میلانی، سیدعلی، عصمت از منظر فریقین (شیعه و اهل‌سنت)،‌ قم، مرکز الحقایق الاسلامیه، ۱۳۹۴ش.
* حسینی میلانی، سیدعلی، عصمت از منظر فریقین (شیعہ و اہل‌سنت)،‌ قم، مرکز الحقایق الاسلامیہ، 1394ہجری شمسی۔
* خمینی، روح الله، جهاد اکبر، تهران، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ش.
* خمینی، روح اللہ، جہاد اکبر، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
* خمینی، روح الله، شرح چهل حدیث، تهران، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۰ش.
* خمینی، روح اللہ، شرح چہل حدیث، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1380ہجری شمسی۔
* خمینی، روح الله، صحیفه امام، تهران، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۵ش.
* خمینی، روح اللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1385ہجری شمسی۔
* خواجه نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، اوصاف الاشراف، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامي سازمان چاپ و انتشار، ۱۳۷۳ش.
* خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، اوصاف الاشراف، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامي سازمان چاپ و انتشار، 1373ہجری شمسی۔
* [http://ensani.ir/fa/article/342358/ راستین، امیر و علیرضا کهنسال، «عصمت فرشتگان؛ شواهد موافق و مخالف»]، فصلنامه اندیشه نوین دینی، شماره ۳۸، پاییز ۱۳۹۳ش.
* [http://ensani.ir/fa/article/342358/ راستین، امیر و علیرضا کہنسال، «عصمت فرشتگان؛ شواہد موافق و مخالف»]، فصلنامہ اندیشہ نوین دینی، شمارہ 38، پاییز 1393ہجری شمسی۔
* دهلوی، عبدالعزیز، تحفه اثنی عشری، استانبول، مکتبة الحقیقة، بی‌تا.
* دہلوی، عبدالعزیز، تحفہ اثنی عشری، استانبول، مکتبة الحقیقة، بی‌تا.
* ربانی گلپایگانی، علی، امامت در بینش اسلامی، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، ۱۳۸۷ش.
* ربانی گلپایگانی، علی، امامت در بینش اسلامی، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1387ہجری شمسی۔
* ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی، قم، انتشارات مرکز جهانی علوم اسلامی، ۱۳۸۵ش.
* ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی، قم، انتشارات مرکز جہانی علوم اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
* سبحانی، جعفر، الالهیاتُ علیٰ هُدَی الکتابِ و السّنةِ و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیة، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
* سبحانی، جعفر، الالہیاتُ علیٰ ہُدَی الکتابِ و السّنةِ و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیة، چاپ اول، 1412ھ۔
* سبحانی، جعفر، عصمةُ الانبیاء فی القرآن الکریم، قم، موسسه امام صادق(ع)، ۱۴۲۰ق.
* سبحانی، جعفر، عصمةُ الانبیاء فی القرآن الکریم، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1420ھ۔
* سبحانی، جعفر، الفكر الخالد في بيان العقائد، قم، موسسة الامام الصادق (ع)، ۱۴۲۵ق.
* سبحانی، جعفر، الفكر الخالد في بيان العقائد، قم، موسسة الامام الصادق (ع)، 1425ھ۔
* سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، موسسه امام صادق(ع)، ۱۳۸۳ش.
* سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1383ہجری شمسی۔
* سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرةُ فی العلم الکلام، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۱ق.
* سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرةُ فی العلم الکلام، قم، نشر اسلامی، 1411ھ۔
* سید مرتضی، علی بن حسین، الشّافی فی الامامة، تحقیق و تعلیق سید عبدالزهرا حسینی، تهران، مؤسسه الصادق(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۰ق.
* سید مرتضی، علی بن حسین، الشّافی فی الامامة، تحقیق و تعلیق سید عبدالزہرا حسینی، تہران، مؤسسہ الصادق(ع)، چاپ دوم، 1410ھ۔
* سید مرتضی، علی بن حسین، رَسائلُ الشَّریفِ المرتضی، قم، دارالکتب، ۱۴۰۵ق.
* سید مرتضی، علی بن حسین، رَسائلُ الشَّریفِ المرتضی، قم، دارالکتب، 1405ھ۔
* شریفی، احمدحسین و حسن یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، تهران، پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه اسلامی، ۱۳۸۸ش.
* شریفی، احمدحسین و حسن یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
* صادقی اردکانی، محمدامین، عصمت، قم، انتشارات حوزه علمیه، ۱۳۸۸ش.
* صادقی اردکانی، محمدامین، عصمت، قم، انتشارات حوزہ علمیہ، 1388ہجری شمسی۔
* صدوق،‌ محمد بن علی بن بابویه، عیونُ اخبارِ الرّضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران،‌ نشر جهان، چاپ اول، ۱۳۷۸ق.
* صدوق،‌ محمد بن علی بن بابویہ، عیونُ اخبارِ الرّضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران،‌ نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
* طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۷ق.
* طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسلامی، 1417ھ۔
* طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، اعلمی، ۱۳۹۰ق.
* طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، اعلمی، 1390ھ۔
* طبرسی، فضل بن حسن، مَجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران،‌ ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
* طبرسی، فضل بن حسن، مَجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران،‌ ناصرخسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
* طوسی، نصیرالدین، تلخیصُ المُحَصّل المعروف بنقدِ المحصّل، بیروت، دارالضواء، چاپ دوم، ۱۴۰۵ق.
* طوسی، نصیرالدین، تلخیصُ المُحَصّل المعروف بنقدِ المحصّل، بیروت، دارالضواء، چاپ دوم، 1405ھ۔
* طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق.
* طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1406ھ۔
* طوسی، محمد بن حسن، التِّبیان فی تفسیرِ القرآن، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا.
* طوسی، محمد بن حسن، التِّبیان فی تفسیرِ القرآن، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا.
* علامه حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، تهران، موسسه مطالعات اسلامی، ۱۳۶۵ش.
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، تہران، موسسہ مطالعات اسلامی، 1365ہجری شمسی۔
* علامه حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالهیات، به کوشش جعفر سبحانی، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ش.
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالہیات، بہ کوشش جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
* فاضل مقداد،‌ مقداد بن عبدالله، اللَّوامعَ الالهیَّه فی المباحثِ الکلامیة، تحقیق و تعلیق شهید قاضی طباطبایی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۲۲ق.
* فاضل مقداد،‌ مقداد بن عبداللہ، اللَّوامعَ الالہیَّہ فی المباحثِ الکلامیة، تحقیق و تعلیق شہید قاضی طباطبایی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، 1422ھ۔
* فخر رازی، محمد بن عمر، التَّفسیرُ الکبیر (مَفاتیح‌الغیب)، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.
* فخر رازی، محمد بن عمر، التَّفسیرُ الکبیر (مَفاتیح‌الغیب)، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
* فخر رازی، محمد بن عمر، عصمة الانبیاء، بیروت، دارالکتب العلمیة،‌ ۱۴۰۹ق.
* فخر رازی، محمد بن عمر، عصمة الانبیاء، بیروت، دارالکتب العلمیة،‌ 1409ھ۔
* فضل‌الله، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعة و النشر، ۱۴۱۹ ق.
* فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعة و النشر، 1419ھ۔
* فیاض لاهیجی، عبدالرزاق، سرمایه ایمان در اصول اعتقادات، تصحیح صادق لاریجانی، تهران، انتشارات الزهراء، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
* فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، تصحیح صادق لاریجانی، تہران، انتشارات الزہراء، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
* فیاض لاهیجی، عبدالرزاق، گوهر مراد، تهران، نشر سایه، چاپ اول، ۱۳۸۳ش.
* فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
* قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، المُغنی فی اَبوابِ التّوحید و العدل، تحقیق جورج قنواتی، قاهره، الدار المصریه، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م.
* قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، المُغنی فی اَبوابِ التّوحید و العدل، تحقیق جورج قنواتی، قاہرہ، الدار المصریہ، 1962-1965م.
* قدردان قراملکی، محمدحسن، کلام فلسفی، قم، وثوق، ۱۳۸۳.
* قدردان قراملکی، محمدحسن، کلام فلسفی، قم، وثوق، 1383.
* قفاری، ناصر عبدالله علی، اصولُ مذهبِ الشّیعةِ الامامیه؛ عرض و نقد، جیزه، دارالرضا، چاپ چهارم، ۱۴۳۱ق/۲۰۱۰م.
* قفاری، ناصر عبداللہ علی، اصولُ مذہبِ الشّیعةِ الامامیہ؛ عرض و نقد، جیزہ، دارالرضا، چاپ چہارم، 1431ق/2010م.
* کبیر مدنی شیرازی، سيد على خان بن احمد، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، قم، دفتر انتشارات اسلامی،‌ ۱۴۰۹ق.
* کبیر مدنی شیرازی، سيد على خان بن احمد، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، قم، دفتر انتشارات اسلامی،‌ 1409ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
* مجلسی، محمدباقر، بِحار الاَنوارِ الجامعةُ لِدُرَرِ اخبارِ الائمةِ الاطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمدباقر، بِحار الاَنوارِ الجامعةُ لِدُرَرِ اخبارِ الائمةِ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
* مجلسی، محمدباقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، قم، دار الكتب الإسلاميّة، ۱۴۰۴ق.
* مجلسی، محمدباقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، قم، دار الكتب الإسلاميّة، 1404ھ۔
*‌‌ محقق، فاطمه، عصمت از دیدگاه شیعه و اهل‌تسنن، قم، آشیانه مهر، چاپ اول، ۱۳۹۱ش.
*‌‌ محقق، فاطمہ، عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل‌تسنن، قم، آشیانہ مہر، چاپ اول، 1391ہجری شمسی۔
* مصباح یزدی، محمدتقی، در پرتو ولایت، محمدمهدی نادری، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (ره۱۳۸۳ش.
* مصباح یزدی، محمدتقی، در پرتو ولایت، محمدمہدی نادری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی (رہ1383ہجری شمسی۔
* مصباح یزدی، محمدتقی، راه و راهنمایی شناسی، قم، انتشارات مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی(ره۱۳۹۵ش.
* مصباح یزدی، محمدتقی، راہ و راہنمایی شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ1395ہجری شمسی۔
* مصباح یزدی، محمد تقی، «چرایی اعتراف معصومان به قصور و کوتاهی»، مجله معرفت، شماره ۱۴۷، اسفند ۱۳۸۸ش.
* مصباح یزدی، محمد تقی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، مجلہ معرفت، شمارہ 147، اسفند 1388ہجری شمسی۔
* مفید، محمد بن نعمان، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیه، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
* مفید، محمد بن نعمان، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
* مفید،‌ محمد بن محمد، المسائلُ الجارودیه، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مفید،‌ محمد بن محمد، المسائلُ الجارودیہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۳۷۴ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
* ‌مظفر، محمدحسین، دلائل‌الصِّدق، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
* ‌مظفر، محمدحسین، دلائل‌الصِّدق، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
* ناییجی، محمد حسین، آداب راز و نياز به درگاه بى نياز (ترجمه عدة الداعی ابن فهد حلی)، تهران، نشر کیا، ۱۳۸۱ش.
* ناییجی، محمد حسین، آداب راز و نياز بہ درگاہ بى نياز (ترجمہ عدة الداعی ابن فہد حلی)، تہران، نشر کیا، 1381ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


سطر 232: سطر 232:
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!-- ۲۰ نومبر ۲۰۱۹{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!-- 20 نومبر 2019{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!-- ۲۰ نومبر ۲۰۱۹{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!-- 20 نومبر 2019{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | وضاحت = }}</onlyinclude>
  | وضاحت = }}</onlyinclude>


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم