confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (عدد انگلیسی) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں ٹیگ: ردِّ ترمیم |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
انبیاء کی عصمت کے بارے میں تمام اسلامی دانشوروں کا اتفاق ہے۔ البتہ اس کے حدود کے بارے میں اختلاف نظر پایی جاتی ہے۔ البتہ انبیاءؑ کا شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کو دریافت کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہونا اور نبوت کے بعد جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہونے کے بارے میں تمام علما کا اجماع ہے۔ | انبیاء کی عصمت کے بارے میں تمام اسلامی دانشوروں کا اتفاق ہے۔ البتہ اس کے حدود کے بارے میں اختلاف نظر پایی جاتی ہے۔ البتہ انبیاءؑ کا شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کو دریافت کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہونا اور نبوت کے بعد جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہونے کے بارے میں تمام علما کا اجماع ہے۔ | ||
شیعہ امامیہ علماء شیعہ ائمہؑ کو بھی ہر طرح کے گناہ کبیرہ و صغیرہ اور ہر طرح کی غلطیوں اور اشتباہ سے معصوم سمجھتے ہیں۔ علامہ مجلسی کے | شیعہ امامیہ علماء شیعہ ائمہؑ کو بھی ہر طرح کے گناہ کبیرہ و صغیرہ اور ہر طرح کی غلطیوں اور اشتباہ سے معصوم سمجھتے ہیں۔ علامہ مجلسی کے مطابھ۔ شیعوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام فرشتے ہر طرح کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں۔ | ||
عصمت کے بارے میں کچھ اشکال کئے گئے ہیں؛ بعض نے اسے انسانی فطرت کے مخالف قرار دیا ہے کیونکہ انسان میں قوت شہوانی اور نفسانی موجود ہیں جو عصمت سے سازگار نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ شہوانی اور نفسانی خواہشات کا وجود صرف گناہ سے آلودہ ہونے کے لئے راہ ہموار تو کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گناہ انجام بھی دیتا ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ علم اور ارادہ جیسی رکاوٹیں ان خواہشات کے اثر کو روک سکتی ہیں۔ | عصمت کے بارے میں کچھ اشکال کئے گئے ہیں؛ بعض نے اسے انسانی فطرت کے مخالف قرار دیا ہے کیونکہ انسان میں قوت شہوانی اور نفسانی موجود ہیں جو عصمت سے سازگار نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ شہوانی اور نفسانی خواہشات کا وجود صرف گناہ سے آلودہ ہونے کے لئے راہ ہموار تو کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گناہ انجام بھی دیتا ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ علم اور ارادہ جیسی رکاوٹیں ان خواہشات کے اثر کو روک سکتی ہیں۔ | ||
سطر 12: | سطر 12: | ||
== اہمیت اور مقام == | == اہمیت اور مقام == | ||
شیعہ ماہر الہیات کلامی کتابوں کے مؤلف [[سید علی حسینی میلانی]] کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر نبوت کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام [[انبیاء]] اور [[شیعہ ائمہ]] کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور امامت کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ | شیعہ ماہر الہیات کلامی کتابوں کے مؤلف [[سید علی حسینی میلانی]] کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر نبوت کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام [[انبیاء]] اور [[شیعہ ائمہ]] کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور امامت کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ | ||
ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصادق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔<ref>حسینی میلانی، جَواہرُ الکلام فی معرفةِ الامامةِ و الامام، 1389شمسی، ج2، ص38- | ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصادق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔<ref>حسینی میلانی، جَواہرُ الکلام فی معرفةِ الامامةِ و الامام، 1389شمسی، ج2، ص38-39۔</ref> | ||
کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث عصمت انبیاء، عصمت ائمہ اور فرشتوں کے ذیل میں ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، | کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث عصمت انبیاء، عصمت ائمہ اور فرشتوں کے ذیل میں ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، 1496ھ۔ ص260، 350؛ علامہ حلی، کشفُالمراد، 1382شمسی، ص155، 184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص90، 114۔</ref> تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی [[آیہ تطہیر]] کے ذیل میں عصمت پر بحث ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ۔ ج2، ص13-134 و ج5، ص78-80، ج11، ص162-164؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص3-410؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج17، ص297-305. | ||
</ref> | </ref> | ||
علم [[اصول فقہ]] میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی پیغمبر اکرمؐ کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔<ref>ضیائیفر، «تأثیر دیدگاہہای کلامی بر اصول فقہ»، | علم [[اصول فقہ]] میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی پیغمبر اکرمؐ کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔<ref>ضیائیفر، «تأثیر دیدگاہہای کلامی بر اصول فقہ»، ص323۔</ref> | ||
عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاہ اہل کتاب (یہودیان و مسیحیان)]»، وبگاہ آیندہ | عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاہ اہل کتاب (یہودیان و مسیحیان)]»، وبگاہ آیندہ روشن۔</ref> | ||
===تعریف اور معنی=== | ===تعریف اور معنی=== | ||
[[مسلمان]] مفکرین اور حکما نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | [[مسلمان]] مفکرین اور حکما نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | ||
*'''تعریف متکلمان''': امامیہ<ref>مفید، تصحیحُ اعتقاداتِ الامامیہ، | *'''تعریف متکلمان''': امامیہ<ref>مفید، تصحیحُ اعتقاداتِ الامامیہ، 1414ھ۔ ص128؛ سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، 1405ھ۔ ج3، ص326؛ علامہ حلی، بابُ الحادیعشر، 1365شمسی، ص9۔</ref> اور معتزلہ<ref>قاضی عبدالجبار، شرحُ الاصولِ الخمسة، 1422ھ۔ ص529؛ تفتازانی، شرحالمقاصد، 1409ھ۔ ج4، ص312-313۔</ref>) عصمت کو [[قاعدہ لطف]] کے ذریعے تفسیر کرتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامعُ الالہیہ، 1422ھ۔ ص242؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص215۔</ref> اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحبِ عصمت گناہ اور برے کام انجام نہیں دیتا ہے۔<ref>سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، 1405ھ۔ ج3، ص326؛ علامہ حلی، بابُ الحادیعشر، 1365شمسی، ص9؛ فاضل مقداد، اللَّوامعُ الاِلہیہ، 1422ھ۔ ص243۔</ref> [[علامہ حلّی]] عصمت کو [[خدا]] کی جانب سے بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے۔<ref>علامہ حلی، البابُ الحادیعشر، 1365شمسی، ص9۔</ref> | ||
اشاعرہ عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔<ref>جرجانی، شرحالمواقف، | اشاعرہ عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔<ref>جرجانی، شرحالمواقف، 1325ھ۔ ج8، ص280؛ تفتازانی، شرحالمقاصد، 1409ھ۔ ج4، ص312-313۔</ref> اشاعرہ کی اس تعریف کا مبنی یہ ہے کہ ان کے مطابق ہر چیز بغیر واسطہ کے اللہ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔<ref>جرجانی، شرحالمواقف، 1325ھ۔ ج8، ص280۔</ref> | ||
*'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، | *'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، 1412ھ۔ ص101)}} سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔<ref>طوسی، تلخیصالمحصل، 1405ھ۔ ص369؛ جرجانی، شرحالمواقف، 1325ھ۔ ج8، ص281؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ۔ ج11، ص162؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص197؛ مصباح یزدی، راہ و راہنماشناسی، 1395شمسی، ص285-286۔</ref> | ||
شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت اللہ سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص12-14؛ سبحانی، الالہیات، | شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت اللہ سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص12-14؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ۔ ج3، ص158-159۔</ref> آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص20۔</ref> | ||
لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابنفارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغة، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری، الصِّحاح، | لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابنفارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغة، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری، الصِّحاح، 1407ھ۔ ج5، ص1986؛ ابنمنظور، لسانالعرب، دار صادر، ج12، ص403-404. </ref> | ||
==عصمت کا سرچشمہ== | ==عصمت کا سرچشمہ== | ||
عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، 1383شمسی، ص388- | عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، 1383شمسی، ص388-390۔</ref> | ||
===لطف الہی=== | ===لطف الہی=== | ||
[[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، | [[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، 1414ھ۔ ص128؛ سیدِ مرتضی، الذخیرہ، 1411ھ۔ ص189۔</ref> [[علامہ حلی]] چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: | ||
# معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛ | # معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛ | ||
# معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛ | # معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛ | ||
# وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛ | # وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛ | ||
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، | # معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، ص186۔</ref> | ||
===مخصوص علم=== | ===مخصوص علم=== | ||
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیہ، | بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیہ، 1422ھ۔ ص224؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ۔ ج5، ص79، ج11، ص162-163، ج17، ص291؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ۔ ج4، ص159-161۔</ref> | ||
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، | علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ۔ ج11، ص163۔</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ۔ ج5، ص79۔</ref> | ||
===علم و ارادہ=== | ===علم و ارادہ=== | ||
[[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، | [[محمدتقی مصباح یزدی]] عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص302۔</ref> ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص303-304۔</ref> | ||
==عصمت اور اختیار== | ==عصمت اور اختیار== | ||
لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضلاللہ، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، 1419 | لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضلاللہ، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، 1419 ھ۔ ج4، ص 155–156۔</ref> لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص217۔</ref> عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔<ref>علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، ص186؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ھ۔ ص243؛ جرجانی، شرحالمواقف، 1325ھ۔ ج8، ص281۔</ref> | ||
معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبداللہ جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، 1385شمسی، | معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبداللہ جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، 1385شمسی، ص24۔</ref> | ||
[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] عصمت کا اختیار کے ساتھ سازگار ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ «عصمت کا منبع ایک خاص علم ہے جو اللہ نے معصوم کو عطا کی ہے۔ علم خود ہی اختیار کے مبانی اور بنیاد میں سے ہے۔ لہذا معصومین اعمال کے مفاسد اور مصالح کو جاننے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ جیسا کہ جس شخص کو زہرا ہلاہل کا پتہ ہو تو کبھی اسے نہیں پیے گا۔»<ref>طباطبایی، المیزان، | [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] عصمت کا اختیار کے ساتھ سازگار ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ «عصمت کا منبع ایک خاص علم ہے جو اللہ نے معصوم کو عطا کی ہے۔ علم خود ہی اختیار کے مبانی اور بنیاد میں سے ہے۔ لہذا معصومین اعمال کے مفاسد اور مصالح کو جاننے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ جیسا کہ جس شخص کو زہرا ہلاہل کا پتہ ہو تو کبھی اسے نہیں پیے گا۔»<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ۔ ج11، ص162–163۔</ref> | ||
شیعہ فلسفی [[محمد تقی مصباح یزدی]] کا کہنا ہے کہ عصمت صرف ایک علمی ملکہ ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی ملکہ ہے جو معصوم کے بااختیار عمل کا اللہ تعالی کے لطف سے مطابقت ہونے سے حاصل ہوا ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، | شیعہ فلسفی [[محمد تقی مصباح یزدی]] کا کہنا ہے کہ عصمت صرف ایک علمی ملکہ ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی ملکہ ہے جو معصوم کے بااختیار عمل کا اللہ تعالی کے لطف سے مطابقت ہونے سے حاصل ہوا ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، ص53–63۔</ref> | ||
وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، | وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، ص57–58۔</ref> | ||
==عصمت انبیا== | ==عصمت انبیا== | ||
{{اصلی|عصمت انبیا}} | {{اصلی|عصمت انبیا}} | ||
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، 1397شمسی، | وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، 1397شمسی، ص52۔</ref> اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، 1388شمسی، ص19۔</ref> | ||
مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔ | مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔ | ||
سطر 66: | سطر 66: | ||
جس شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص263</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص50</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص153و154</ref> | جس شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص263</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص50</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص153و154</ref> | ||
شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء الہی مذکورہ تمام مراتب میں عصمت پر فائز ہیں؛ بلکہ انبیاء ہر اس کام سے بھی دور ہیں جو لوگوں کا ان سے دوری کا باعث بنتا ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1385شمسی، ص94- | شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء الہی مذکورہ تمام مراتب میں عصمت پر فائز ہیں؛ بلکہ انبیاء ہر اس کام سے بھی دور ہیں جو لوگوں کا ان سے دوری کا باعث بنتا ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1385شمسی، ص94-98۔</ref> لوگوں کو نبوت کی طرف جلب کرنا انبیا کی عصمت واجب ہونے کی عقلی دلیلوں میں سے ایک ہے؛<ref>علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، ص155۔</ref> اسی طرح بعض آیات<ref>ملاحظہ کریں: آیہ ہفتم سورہ حشر۔</ref> اور روایات<ref>ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، 1407ھ۔ ج1، ص202-203؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ۔ ج14، ص103؛ ج12، ص348، ج4، ص45؛ صدوھ۔ عیونُ اخبارِ الرضا، 1378ق، ج1، ص192-204۔</ref> سے استناد ہوا ہے۔<ref>کریمی، نبوت (پژوہشی در نبوت عامہ و خاصہ)، 1383شمسی، ص134؛ اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص87۔</ref> | ||
انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص51، 52؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، 1420ق، ص69، 70، 91-229؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص246-286؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج7، ص101- | انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص51، 52؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، 1420ق، ص69، 70، 91-229؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص246-286؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج7، ص101-160۔</ref> ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین، 1394شمسی، ص102و103۔</ref> اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین، 1394شمسی، ص101-102۔</ref> | ||
==عصمت ائمہ== | ==عصمت ائمہ== | ||
{{اصلی|عصمت ائمہ|عصمت حضرت فاطمہؑ}} | {{اصلی|عصمت ائمہ|عصمت حضرت فاطمہؑ}} | ||
ائمہؑ کی عصمت شیعیان اثنا عشری کے عقیدے کے مطابق امامت کی شرائط میں سے ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّقُ بِالاعتقاد، 1496ق، ص305؛ علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص114، سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج4، | ائمہؑ کی عصمت شیعیان اثنا عشری کے عقیدے کے مطابق امامت کی شرائط میں سے ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّقُ بِالاعتقاد، 1496ق، ص305؛ علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص114، سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج4، ص116۔</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] کے مطابق تمام امامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ائمہ ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ خواہ عمدی ہو یا سہوی یا اشتباہ سب سے پاک ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص209، 350، 351۔</ref> کہا گیا ہے کہ [[اسماعیلیہ]] بھی عصمت کو امامت کی شرط مانتے ہیں۔<ref>علامہ حلی، کشفالمراد، 1382شمسی، ص184؛ جرجانی، شرحالمواقف، 1325ق، ج8، ص351۔</ref> جبکہ [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] عصمت کو امامت کی شرط نہیں مانتے ہیں؛<ref>قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962-1965م، ج15، ص251، 255، 256، ج20، بخش اول، ص26، 84، 95، 98، 215، 323؛ جرجانی، شرحالمواقف، 1325ق، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرحالمقاصد، 1409ق، ج5، ص249۔</ref> کیونکہ ان کا اجماع ہے کہ خلفائے ثلاثہ امام تھے؛ لیکن معصوم نہیں تھے۔<ref>جرجانی، شرحالمواقف، 1325ق، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرحالمقاصد، 1409ق، ج5، ص249۔</ref> [[وہابیت|وہابی]] بھی شیعہ ائمہ کی عصمت کو نہیں مانتے ہیں اور عصمت کو انبیاءؑ سے مختص سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابنتیمیہ، مِنہاجُ السُّنةِ النَّبَویة، 1406ق، ج2، ص429، ج3، ص381؛ ابنعبدالوہاب، رسالةٌ فی الرَّدِ علی الرّافضة، ریاض، ص28؛ قفاری، اصولُ مذہبِ الشّیعةِ الامامیہ، 1431ق، ج2، ص775۔</ref> | ||
[[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ عصمت پیغمبر پر جو عقلی دلائل قائم کی گئی ہیں، جیسے بعثت کے اہداف کا متحقق ہونا، لوگوں کی توجہ جلب کرنا وغیرہ امام کی عصمت میں بھی یہ سب ذکر ہوتی ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، | [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ عصمت پیغمبر پر جو عقلی دلائل قائم کی گئی ہیں، جیسے بعثت کے اہداف کا متحقق ہونا، لوگوں کی توجہ جلب کرنا وغیرہ امام کی عصمت میں بھی یہ سب ذکر ہوتی ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص251۔</ref> شیعہ متکلمین نے ائمہؑ کی عصمت ثابت کرنے کے لئے متعدد آیات اور روایات کا حوالہ دیا ہے جن میں [[آیت ابتلائے ابراہیم]]،<ref> فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ق، ص332؛ مظفر، دلائلُالصّدق، 1422ق، ج4، ص220. </ref> [[آیہ اولیالامر]]،<ref> ملاحظہ کریں: طوسی، التِّبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاءالتراث العربی، ج3،ص236؛ طبرسی، مَجمعالبیان، 1372شمسی، ج3، ص100؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ق، ص113-114؛ مظفر، دلائلُالصّدق، 1422ق، ج4، ص221. </ref> [[آیہ تطہیر]]،<ref> سید مرتضی، الشّافی فی الامامة، 1410ق، ج3، ص134-135؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ق، ص646-647؛ سبحانی، الالہیات، 1412ق، ج4، ص125. </ref> اور [[آیہ صادقین]]<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص196؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص274-280. </ref> [[حدیث ثقلین]]<ref> ملاحظہ کریں: مفید، المسائل الجارودیہ، 1413ق، ص42؛ ابن عطیہ، ابہی المداد، 1423ق، ج1، ص131؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ق، ص671۔</ref> اور [[حدیث سفینہ]].<ref>میرحامد حسین، عَبَقاتالانوار، ج23، ص655-656. </ref> شامل ہیں۔ | ||
شیعوں کی نظر میں [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہؑ]] بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ق، ج4، | شیعوں کی نظر میں [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہؑ]] بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ق، ج4، ص95۔</ref> ان کی عصمت کے لئے آیہ تطہیر اور [[حدیث بضعہ|حدیث بَضْعَہ]] سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref> سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ق، ج4، ص95۔</ref> | ||
==فرشتوں کی عصمت== | ==فرشتوں کی عصمت== | ||
سطر 90: | سطر 90: | ||
| اندازہ قلم = 12px | | اندازہ قلم = 12px | ||
}} | }} | ||
[[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] کا کہنا ہے کہ شیعوں کا [[اجماع]] ہے کہ تمام فرشتے ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم ہیں۔ اکثر اہل سنت کا بھی یہی نظریہ ہے۔<ref>مجلسی، بِحارالانوار، 1403ق، ج11، | [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] کا کہنا ہے کہ شیعوں کا [[اجماع]] ہے کہ تمام فرشتے ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم ہیں۔ اکثر اہل سنت کا بھی یہی نظریہ ہے۔<ref>مجلسی، بِحارالانوار، 1403ق، ج11، ص124۔</ref> فرشتوں کی عصمت کے بارے میں بعض دیگر نظریات بھی پائے جاتے ہیں: بعض فرشتوں کو معصوم نہیں سمجھتے ہیں۔ بعض نے نفی یا اثبات میں کچھ نہیں کہا ہے کیونکہ ان کی نظر میں عصمت یا غیر معصوم ہونے پر قائم کی جانے والی دلائل کافی نہیں ہیں۔ بعض نے صرف وحی کے حامل، مقرب اور بعض آسمانی فرشتوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو: محقق، عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل تسنن، 1391شمسی، ص130-132۔</ref> | ||
عصمت کے موافقین کا کہنا ہے کہ سورہ انبیا کی آیت نمبر 27 <ref>فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص425؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج22، | عصمت کے موافقین کا کہنا ہے کہ سورہ انبیا کی آیت نمبر 27 <ref>فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص425؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج22، ص136۔</ref> اور سورہ تحریم کی آیت نمبر 6<ref>ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دارُ احیاءِ التُّراث العربی، ج10، ص50؛ طبرسی، مَجمعالبیان، 1372شمسی، ج10، ص477۔</ref> اور متعدد احادیث<ref>ملاحظہ کریں: فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص426۔</ref> فرشتوں کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>فرشتوں کی عصمت کے بارے میں ملاحظہ کریں: راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص117-121۔</ref>کہا گیا ہے کہ مسلمان فرقوں میں صرف فرقہ حَشْویہ فرشتوں کی عصمت کے مخالف ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بِحارالانوار، 1403ق، ج11، ص124؛ راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص121۔</ref> | ||
[[ناصر مکارم شیرازی|آیتاللہ مکارم شیرازی]] نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،1386شمسی، ج1، ص167- | [[ناصر مکارم شیرازی|آیتاللہ مکارم شیرازی]] نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،1386شمسی، ج1، ص167-168۔</ref> | ||
== اعتراضات اور ان کے جواب == | == اعتراضات اور ان کے جواب == | ||
*'''انسانی فطرت کے ساتھ معصومیت کی عدم مطابقت''' | *'''انسانی فطرت کے ساتھ معصومیت کی عدم مطابقت''' | ||
ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَیالاسلام، 2003م، ج3، ص229- | ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَیالاسلام، 2003م، ج3، ص229-230۔</ref> | ||
عبداللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص201- | عبداللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص201-203۔</ref> | ||
*'''عصمت کے نظرئے کا آغاز''' | *'''عصمت کے نظرئے کا آغاز''' | ||
ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص79- | ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص79-85۔</ref><br> جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-82۔</ref> اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-81۔</ref> ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص83۔</ref> اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص86۔</ref> | ||
*'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت''' | *'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت''' | ||
{{اصلی|استغفار معصومین}} | {{اصلی|استغفار معصومین}} | ||
بعض کا خیال ہے کہ عصمت ایک ایسا نظریہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کے بارے میں ان کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اپنے آپ کو گنہگار کے طور پر تعارف کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معصوم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو ان کو ہی قبول نہیں تھی۔<ref>فخر رازی، عصمة الانبیاء، 1409ق، ص136؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، 1414ق، ج12، ص26؛ قفاری، اصول مذہب الشیعة الامامیة، 1431ق، ج2، ص794-796؛ دہلوی، تحفہ اثنی عشریہ، مکتبة الحقیقة، | بعض کا خیال ہے کہ عصمت ایک ایسا نظریہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کے بارے میں ان کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اپنے آپ کو گنہگار کے طور پر تعارف کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معصوم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو ان کو ہی قبول نہیں تھی۔<ref>فخر رازی، عصمة الانبیاء، 1409ق، ص136؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، 1414ق، ج12، ص26؛ قفاری، اصول مذہب الشیعة الامامیة، 1431ق، ج2، ص794-796؛ دہلوی، تحفہ اثنی عشریہ، مکتبة الحقیقة، ص463۔</ref> | ||
اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں: | اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں: | ||
#معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج2، ص472؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص70؛ خمینی، جہاد اکبر، 1378شمسی، ص57؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،1378شمسی، ج3، | #معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج2، ص472؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص70؛ خمینی، جہاد اکبر، 1378شمسی، ص57؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،1378شمسی، ج3، ص267۔</ref> | ||
#معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمة، 1381ق، ج2، ص253-255؛ خواجہ نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، 1373شمسی، ص26؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ خمینی، صحیفہ امام، ج20، ص269؛ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج6، ص367؛ سبحانی، الفکر الخالد، 1425ق، ج1، صص432-437؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج20، ص134؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص8- | #معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمة، 1381ق، ج2، ص253-255؛ خواجہ نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، 1373شمسی، ص26؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ خمینی، صحیفہ امام، ج20، ص269؛ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج6، ص367؛ سبحانی، الفکر الخالد، 1425ق، ج1، صص432-437؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج20، ص134؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص8-10۔</ref> | ||
#معصومین سیر و سلوک کے ذریعے جس مرتبے پر پہنچتے ہیں اس سے نچلے مرتبے کی نسبت استغفار کرتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج12، ص113؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص343؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص11-14؛ ناییجی، آداب راز و نياز بہ درگاہ بى نياز، 1381شمسی، | #معصومین سیر و سلوک کے ذریعے جس مرتبے پر پہنچتے ہیں اس سے نچلے مرتبے کی نسبت استغفار کرتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج25، ص210؛ مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج12، ص113؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص343؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص11-14؛ ناییجی، آداب راز و نياز بہ درگاہ بى نياز، 1381شمسی، ص347۔</ref> | ||
#ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج2، ص472؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج9، | #ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج2، ص472؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص87۔</ref> | ||
#معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج11، ص308؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج2، | #معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج11، ص308؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج2، ص472۔</ref> | ||
سطر 130: | سطر 130: | ||
*''عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہلتسنن''، بقلم فاطمہ محقق؛ | *''عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہلتسنن''، بقلم فاطمہ محقق؛ | ||
*''عصمت، ضرورت و آثار''، تالیف سید موسی ہاشمی تنکابنی؛ | *''عصمت، ضرورت و آثار''، تالیف سید موسی ہاشمی تنکابنی؛ | ||
*''اندیشہ کلامی عصمت؛ پیامدہای فقہی و اصول فقہی''، بقلم بہروز مینایی. اس کتاب میں فقہ اور اصول فقہ کے تناظر میں عقیدہ عصمت کے اثرات کو بیان کیا ہے۔<ref>«[https://feqh.isca.ac.ir/Portal/home/?news/122940/327175/435456 اندیشہ کلامی عصمت (پیامدہای فقہی و اصول فقہی)]»، وبگاہ پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی؛ پژوہشکدہ فق و | *''اندیشہ کلامی عصمت؛ پیامدہای فقہی و اصول فقہی''، بقلم بہروز مینایی. اس کتاب میں فقہ اور اصول فقہ کے تناظر میں عقیدہ عصمت کے اثرات کو بیان کیا ہے۔<ref>«[https://feqh.isca.ac.ir/Portal/home/?news/122940/327175/435456 اندیشہ کلامی عصمت (پیامدہای فقہی و اصول فقہی)]»، وبگاہ پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی؛ پژوہشکدہ فق و حقوق۔</ref> | ||
*''منشأ عصمت از گناہ و خطا؛ نظریہہا و دیدگاہہا''، بقلم عبدالحسین کافی. | *''منشأ عصمت از گناہ و خطا؛ نظریہہا و دیدگاہہا''، بقلم عبدالحسین کافی. | ||
==متعلقہ مضامین== | ==متعلقہ مضامین== |