مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 59: سطر 59:
وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، ۱۳۸۳ش، ص۵۷–۵۸.</ref>
وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔<ref>مصباح یزدی، در پرتو ولایت، ۱۳۸۳ش، ص۵۷–۵۸.</ref>
==عصمت انبیا==
==عصمت انبیا==
===دائرہ===
{{اصلی|عصمت انبیا}}
پیغمبروں کی عصمت مختلف مراتب کی حامل ہے جس کا دائرہ نہایت ہی وسیع و عریض  ہے جو کفر و شرک سے لے کر بھول چول تک سے پرہیز کرنے کو شامل  ہے۔ ان مراتب میں سے ہر مرتبہ کے متعلق دانشوروں اور متکلمین کے درمیان گرماگرم بحث ہوئی ہے۔
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۵۲.</ref> اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، ۱۳۸۸ش، ص۱۹.</ref>
 
مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔
 
جس  شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص۲۶۳</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۵۰</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref>
 
شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء الہی مذکورہ تمام مراتب میں عصمت پر فائز ہیں؛ بلکہ انبیاء ہر اس کام سے بھی دور ہیں جو لوگوں کا ان سے دوری کا باعث بنتا ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، ۱۳۸۵ش، ص۹۴-۹۸.</ref> لوگوں کو نبوت کی طرف جلب کرنا انبیا کی عصمت واجب ہونے کی عقلی دلیلوں میں سے ایک ہے؛<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵.</ref> اسی طرح بعض آیات<ref>ملاحظہ کریں: آیه هفتم سوره حشر.</ref> اور روایات<ref>ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق،‌ ج۱۴، ص۱۰۳؛ ج۱۲، ص۳۴۸، ج۴، ص۴۵؛ صدوق، عیونُ اخبارِ الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۹۲-۲۰۴.</ref> سے استناد ہوا ہے۔<ref>کریمی، نبوت (پژوهشی در نبوت عامه و خاصه)، ۱۳۸۳ش، ص۱۳۴؛ اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عهدین»، ص۸۷.</ref>
 
انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۱، ۵۲؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۶۹، ۷۰، ۹۱-۲۲۹؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۲۴۶-۲۸۶؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۷، ص۱۰۱-۱۶۰.</ref> ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref> اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۱-۱۰۲.</ref>


*''' کفر و شرک سے پاک ہونا''': انبیا کا [[شرک]] اور [[کفر]] سے منزہ ہونا۔ تمام اسلامی مذاہب کے علماء کے درمیان متفق علیہ ہے اور اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ تمام انبیا  نبوت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں میں کسی طرح بھی کفر اور شرک کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔<ref>تفتازانی، شرح المقاصد،ج۵، ص۵۰</ref>


*''' وحی کے دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص۲۶۳</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۵۰</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref>


*'''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': مشہور شیعہ متکلمین کے مطابق  انبیا کے کرام [[واجب|واجبات]] کو انجام دینے اور [[حرام|محرمات]] کو ترک کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی خطا اور نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵؛ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>
*'''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': مشہور شیعہ متکلمین کے مطابق  انبیا کے کرام [[واجب|واجبات]] کو انجام دینے اور [[حرام|محرمات]] کو ترک کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی خطا اور نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵؛ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم