"والدین کے حقوق" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 10: | سطر 10: | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان = ارشاد باری تعالی| نقل قول= {{حدیث|وَاعْبُدُوا اللَّـہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا<br>|ترجمہ=اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔}} | منبع = <small>سورۂ نساء، آیۂ 36، ترجمۂ محمد حسین نجفی </small> | تراز = چپ| عرض = 230px | پسزمینه = #eefffb| تراز منبع = چپ}} | {{جعبہ نقل قول | عنوان = ارشاد باری تعالی| نقل قول= {{حدیث|وَاعْبُدُوا اللَّـہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا<br>|ترجمہ=اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔}} | منبع = <small>سورۂ نساء، آیۂ 36، ترجمۂ محمد حسین نجفی </small> | تراز = چپ| عرض = 230px | پسزمینه = #eefffb| تراز منبع = چپ}} | ||
والدین کے حقوق کی رعایت کرنا خدا کے اہم احکامات میں سے ہے<ref>سپاہ پاسداران، معارف قرآن، 1378ش، ج2، | والدین کے حقوق کی رعایت کرنا خدا کے اہم احکامات میں سے ہے<ref>سپاہ پاسداران، معارف قرآن، 1378ش، ج2، ص78۔</ref> اور اولاد کے پر حق اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کے حقوق کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>رشید رضا، تفسیر المنار، 1414ق، ج8، ص186؛ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1419ق، ج7، ص259۔</ref> [[والدین پر احسان]] اور ان کے ساتھ نیکی سے پیش آنا بچوں پر والدین کے من جملہ حقوق میں شمار کیا گیا ہے،<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198۔</ref> اور [[قرآن]] میں مختلف مقامات پر اس کی تأکید کی گئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: سورۂ عنکبوت، آیۂ 8؛ سورۂ اَحقاف، آیۂ 15۔</ref> مختلف مقامات پر مکررا اس کی تاکید اور وہ بھی [[عبادت|خدا کی عبادت و بندگی]] نیز [[شرک|شرک]] سے اجنتاب کرنے کے حکم کے فورا بعد<ref>سورہ بقرہ، آیہ 83؛ سورہ نساء، آیہ 36؛ سورہ اَنعام، آیہ 151؛ سورہ اِسراء، آیہ 23۔</ref> والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دینا اخلاقی اور شرعی حوالے سے اس مسلئے کی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔<ref>شاہعبدالعظیمی، تفسیر اثنی عشری، 1363ش، ج7، ص355۔</ref><br>[[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] حدیثی منابع میں والدین کے مقام و مرتبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مستقلا اس سے بحث کی گئی ہے<ref>نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص157؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص22؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص2؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج8، ص1۔</ref> اور والدین کے حقوق ادا نہ کرنا اور ان کی نافرمانی کرنے کو [[حرام]] اور [[گناہان کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص278؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص4۔</ref>بعض دوسرے ادیان جیسے [[عہد عتیق]] وغیرہ میں بھی والدین کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کتاب مقدس، سفر لاویان، فصل 19، آیہ 3؛ سفر خروج، فصل 20، آیہ 12؛ سفر تثنیہ، فصل 5، آیہ 16۔</ref> | ||
==والدین کے حقوق== | ==والدین کے حقوق== | ||
دینی متون میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، ان کا احترام کرنا<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، | دینی متون میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، ان کا احترام کرنا<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198۔</ref>، ان کی اطاعت کرنا<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> کو من جملہ اولاد پر والدین کے حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔ | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام موسی کاظم علیہالسلام|امام کاظمؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] سے کسی نے پوچھا: اولاد پر والد کے کیا حقوق ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ان کا نام لے کر نہ پکارا جائے، ان کے آگے راستہ نہ چلے، ان سے پہلے نہ بیٹھیں اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے لوگ اس کے والد کو گالیاں دے دیں۔| منبع = کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، | {{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام موسی کاظم علیہالسلام|امام کاظمؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] سے کسی نے پوچھا: اولاد پر والد کے کیا حقوق ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ان کا نام لے کر نہ پکارا جائے، ان کے آگے راستہ نہ چلے، ان سے پہلے نہ بیٹھیں اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے لوگ اس کے والد کو گالیاں دے دیں۔| منبع = کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔ | تراز = چپ| عرض = 230px | پسزمینه = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | ||
===احسان اور احترام=== | ===احسان اور احترام=== | ||
{{اصلی|والدین پر احسان}} | {{اصلی|والدین پر احسان}} | ||
والدین پر احسان اور ان کا احترام کرنا اولاد پر والدین کے حقوق میں سے ہیں۔<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198؛ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، | والدین پر احسان اور ان کا احترام کرنا اولاد پر والدین کے حقوق میں سے ہیں۔<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198؛ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> [[شیخ حر عاملی|شیخ حُر عاملی]] نے [[وسائل الشیعۃ (کتاب)|کتاب وسائل]] کے ایک حصے کو حقوق والدین کے ساتھ مختص کرتے ہوئے اس سلسلے میں والد ہونے والی احادیث کو ذکر کیا ہے۔<ref>شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ق، ج21، ص505۔</ref><br>چودہ معصومین کی احادیث میں آیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا خدا کے یہاں سب سے پسندیده اعمال<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔</ref> و محبوبترینِ اعمال نزد خدا<ref>بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص2۔</ref> اور [[شیعہ|شیعوں]] کی خصوصیات میں سے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص74۔</ref> اسی طرح خدا کی خشنودی اور خدا کا غضب والدین کی خشنودی اور ناراضگی پر موقوف ہے۔<ref>ترمذی، سنن الترمذی، 1403ق، ج3، ص 207؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص428۔</ref> اور والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنے میں کسی قسم کا بہانہ قابل قبول نہیں ہے۔<ref> کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162۔</ref><br> [[پیغمبر اکرمؐ]] کی [[سیرت]] میں بھی ملتا ہے کہ آپ اپنی [[رضاع|رضاعی ماں]] کا بہت احترام کرتے تھے<ref>ابوداوود، سنن ابوداوود، 1410ق، ج2، ص507-508۔</ref> اور جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتے آپ ان کا بھی احترام کرتے تھے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص161۔</ref> اس بنا پر مسلمانوں کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور والدین کی دیکھ بھال میں سختیوں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص407 و 408۔</ref> اگرچہ والدین [[شرک|مشرک]] <ref>بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص4۔</ref> یا بدکار ہی کیوں نہ ہوں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162۔</ref> | ||
====احسان کے مصادیق==== | ====احسان کے مصادیق==== | ||
[[سورہ اسراء|سورہ اِسراء]] کی 23ویں اور 24ویں آیت میں والدین پر احسان کرنے کا حکم دینے کے بعد اس کے بعض مصادیق کو بھی بیان کیا گیا ہے؛ جن میں «اُف» کہنے کو تندی سے پیش آنے کی سب سے چھوتی مثال قرار دیتے ہوئے اس سے ممانعت کی گئی ہے۔<ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج20، | [[سورہ اسراء|سورہ اِسراء]] کی 23ویں اور 24ویں آیت میں والدین پر احسان کرنے کا حکم دینے کے بعد اس کے بعض مصادیق کو بھی بیان کیا گیا ہے؛ جن میں «اُف» کہنے کو تندی سے پیش آنے کی سب سے چھوتی مثال قرار دیتے ہوئے اس سے ممانعت کی گئی ہے۔<ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج20، ص324۔</ref> اس کے بعد آگے چل کر اولاد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب والدین پیری کی حالت میں پہنچ جائے تو نہ صرف ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ان کے سامنے تواضع اور فروتنی سے پیش آنے نیز کم عمری میں اولاد کی دیکھ بھال اور تربیت کے حوالے سے برداشت کئے گئے تکلیفوں اور سختیوں کے بدلے میں ان کی زندگی اور وفات کے بعد ان کے حق میں دعا اور استغفار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔<ref>سورہ اسراء، آیہ 23ـ24۔</ref><br>احادیث میں بھی حقوق والدین کے کچھ مصادیق ذکر کئے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ اولاد کو چاہئے کہ وہ والدین کا نام لے کر ان کو نہ پکاریں، ان سے آگے آگے راستہ نہ چلیں، ان سے پہلے اور ان کی طرف پشت کر کے نہ بیٹھیں۔<ref> ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158-159؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372؛ بخاری، الادب المفرد، 1409ق، ص30۔</ref> اسی طرح اگر والدین ان کو بلائیں تو جلدی سے ان کی خدمت میں پہنچ جائیں، یہاں تک کہ اگر [[نماز]] کی حالت میں بھی کیوں نہ ہو<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص37۔</ref> اور اگر والدین کے رفتار و گفتار ان کی مرضی کے برخلاف ہو تو بھی ان کے سامنے چہرہ بگاڑنے یا ان کو نا سزا کہنے سے پرہیز کریں۔<ref> کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 349؛ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج6، ص467۔</ref> والدین کے رازداری کا تحفظ<ref> رجوع کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص503؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372۔</ref> اور ان کا شکریہ ادا کرنا<ref>شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج1، ص 258۔</ref> بھی من جملہ والدین پر احسان کے مصادیق میں شمار کئے جاتے ہیں۔ | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان =ارشاد باری تعالی |نقل قول = {{حدیث|وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا<br> |ترجمہ=اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔}} |منبع = <small>سورۂ اسراء، آیۂ 23-24، ترجمۂ محمد حسین نجفی </small> | تراز = چپ| عرض = 230px | پسزمینه = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | {{جعبہ نقل قول | عنوان =ارشاد باری تعالی |نقل قول = {{حدیث|وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا<br> |ترجمہ=اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔}} |منبع = <small>سورۂ اسراء، آیۂ 23-24، ترجمۂ محمد حسین نجفی </small> | تراز = چپ| عرض = 230px | پسزمینه = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | ||
===اطاعت اور نفقہ=== | ===اطاعت اور نفقہ=== | ||
والدین کی اطاعت کو اولاد پر ان کے حقوق میں سے ایک شمار کیا گیا ہے،<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، | والدین کی اطاعت کو اولاد پر ان کے حقوق میں سے ایک شمار کیا گیا ہے،<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> مگر یہ کہ والدین اولاد کو [[شرک]] یا [[گناہ]] کی انجام دہی کا حکم دے۔ (ان صورتوں میں والدین کی اطاعت واجب نہیں ہے)<ref>سورہ عنکبوت، آیہ 8؛ سورہ لقمان، آیہ 13-14؛ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref>چودہ معصومینؑ کی احادیث میں والدین کی فرمان برداری کو اولاد کے [[ایمان]] کی نشانی<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔</ref> اور عاقلانہ رفتار<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص22۔</ref> شمار کیا گیا ہے۔<br> | ||
شیعہ فقیہ [[میرزائے قمی]] کے مطابق بعض اوقات والدین کی اطاعت کا واجب ہونا شیعہ فقہاء کا [[اجماع|اجماعی]] فتوا ہے۔<ref>میرزای قمّی، جامع الشتات، 1413ق، ج1، | شیعہ فقیہ [[میرزائے قمی]] کے مطابق بعض اوقات والدین کی اطاعت کا واجب ہونا شیعہ فقہاء کا [[اجماع|اجماعی]] فتوا ہے۔<ref>میرزای قمّی، جامع الشتات، 1413ق، ج1، ص240۔</ref> ان کے مطابق والدین راضی نہ ہو تو [[مباح]] امور کی انجام دہی بھی اولاد کے لئے جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کام کا انجام نہ دینا اولاد کے نقصان میں ہو۔<ref>میرزای قمّی، جامع الشتات، 1413ق، ج1، ص240۔</ref> | ||
بعض فقہاء جیسے [[محمد حسن نجفی|صاحب جواہر]]، [[سید محسن طباطبائی حکیم|سید محسن حکیم]] اور [[ناصر مکارم شیرازی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ اولاد پر والدین کی اطاعت کا واجب ہونا ان موارد میں ہے جہاں پر اولاد کی نافرمانی والدین کے لئے اذیت کا سبب ہو۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج21، ص23؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1416ق، ج7، ص169؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، | بعض فقہاء جیسے [[محمد حسن نجفی|صاحب جواہر]]، [[سید محسن طباطبائی حکیم|سید محسن حکیم]] اور [[ناصر مکارم شیرازی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ اولاد پر والدین کی اطاعت کا واجب ہونا ان موارد میں ہے جہاں پر اولاد کی نافرمانی والدین کے لئے اذیت کا سبب ہو۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج21، ص23؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1416ق، ج7، ص169؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص494۔</ref><br> | ||
والدین کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی مالی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، | والدین کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی مالی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> فقہاء کے مطابق اگر والدین محتاج ہوں تو اولاد پر استطاعت کی صورت میں والدین کا [[نفقہ]] اور اخراجات واجب ہے۔<ref>نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امام خمینی، نجاۃ العباد، 1422ق، ص382؛ صافی گلپایگانی، جامع الاحکام، 1417ق، ج2، ص104۔</ref> | ||
اسی طرح قرآن کی بعض آیات<ref>سورہ بقرہ، آیہ 180 و | اسی طرح قرآن کی بعض آیات<ref>سورہ بقرہ، آیہ 180 و 215۔</ref> میں اولاد کے لئے سفارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی والی وصیتوں میں والدین کے لئے بھی حصہ قرار دے اور اپنے اموال میں سے والدین پر [[انفاق]] کیا جائے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج2، ص108۔</ref> | ||
===والدین کے مرنے کے بعد ان کے حقوق=== | ===والدین کے مرنے کے بعد ان کے حقوق=== | ||
دینی متون میں اولاد کو والدین کے مرنے کے بعد بھی ان کے اوپر احسان کرنے کی سفارش کی گئی ہے؛<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 159 و | دینی متون میں اولاد کو والدین کے مرنے کے بعد بھی ان کے اوپر احسان کرنے کی سفارش کی گئی ہے؛<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 159 و 163۔</ref> اور یہ چیز ان کے نام [[قرآن]] کی تلاوت کرنے، ان کے حق میں طلب مغفرت کرنے، ان کے نا [[صدقہ]] دینے، ان کے مالی قرضوں کو ادا کرنے، ان کے دوستوں کا احترام کرنے کے ذریعے اور ان کے قریبی افراد کے ساتھ [[صلہ رحم|صلۂ رحمی]] کے ذریعے،<ref>رجوع کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص159 و 163؛ طبرسی، مجمع البیان، 1382ش، ج6، ص632۔</ref> ان کی طرف سے [[نماز]]، [[روزہ]] اور [[حج]] وغیرہ انجام دینے کے ذریعے انجام دئے جا سکتے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 159، حدیث 7۔</ref><br>فقہی کتابوں میں والد کے نماز اور روزوں کی قضا بجا لانا سب سے بڑے بیٹے پر واجب قرار دیا گیا ہے۔<ref>محقق حلّی، شرائع الإسلام، 1408ق، ج4، ص19۔</ref>بعض [[شیعہ مراجع تقلید کی فہرست|مراجع تقلید]] جیسے [[سید علی حسینی خامنہای|آیت اللہ خامنہای]]، [[ناصر مکارم شیرازی|مکارم شیرازی]] اور [[حسین نوری ہمدانی|نوری ہمدانی]] ماں کو بھی اس حکم میں شامل سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: بنیہاشمی، توضیحالمسائل مراجع، 1424ق، ج1، ص761 و 162؛ خامنہای، اجوبۃ الاستفتائات، 1424ق، ص110۔</ref> [[صحیفہ سجادیہ|صحیفۂ سجادیہ]] میں [[دعا]] کے ضمن میں والدین کی بنسبت اولاد کی بعض ذمہ داریوں اور وظائف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref>امام سجاد(ع)، صحیفۃ سجادیہ، 1376ش، ص116-118۔</ref> | ||
==حقوق والدین کی رعایت پر تأکید کا فلسفہ== | ==حقوق والدین کی رعایت پر تأکید کا فلسفہ== | ||
[[سید محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] قرآن میں والدین پر احسان کرنے کی تأکید کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان عاطفی رابطہ نسل نو اور نسل گذشتہ نیز [[خاندان]] کے افراد کے درمیان مستحکم رابطے کا سبب بنتا ہے۔ اہم سماجی اکائی کے عنوان سے خاندان کے افراد میں مضبوط رابطہ انسانی معاشرتی اور سماجی رابطوں کے استحکام کا موجب بنتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج7، ص374 و ج13، | [[سید محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] قرآن میں والدین پر احسان کرنے کی تأکید کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان عاطفی رابطہ نسل نو اور نسل گذشتہ نیز [[خاندان]] کے افراد کے درمیان مستحکم رابطے کا سبب بنتا ہے۔ اہم سماجی اکائی کے عنوان سے خاندان کے افراد میں مضبوط رابطہ انسانی معاشرتی اور سماجی رابطوں کے استحکام کا موجب بنتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج7، ص374 و ج13، ص80۔</ref><br>شیعہ عالم دین [[احمد بن محمد رازی|ابن مسکویہ]] ([[سنہ 320 ہجری قمری|320]]-[[سنہ 420 ہجری قمری|420ھ]]) اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دین تعلیمات میں والدین کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تاکید ہوئی ہے جبکہ والدین پر اولاد کے حقوق کی رعایت کرنے کے حوالے سے ایسی تاکید دیکھنے کو نہیں ملتی؟ کہتے ہیں کہ والدین اپنی اولاد کو اپنے سے جدا کوئی اور چیز تصور نہیں کرتے اس بنا پر والدین جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں اپنی اولاد سے بھی محبت رکھتے ہیں اور ان کی ترقی کو گویا اپنی ترقی شمار کرتے ہیں، لیکن اولاد والدین کی نسبت ایسا تصور نہیں رکھتے ہیں۔<ref>مسکویہ، تہذیب الأخلاق، 1426ق، ص233۔</ref> | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام سجاد علیہالسلام|امام سجادؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا: کوئی ایسا برا کام اس دنیا میں نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو، آیا میرے لئے توبہ اور واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا آیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟ اس شخص نے کہا ہاں میرے والد زندہ ہیں، پیغمیر اکرمؐ نے فرمایا جاؤ جا کر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔ جب وہ شخص آپؐ کے پاس سے رخصت ہوا تو آپؐ نے فرمایا اے کاش اس کی والدہ زندہ ہوتی۔| منبع = کوفی اہوازی، الزہد، 1399ق، | {{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام سجاد علیہالسلام|امام سجادؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا: کوئی ایسا برا کام اس دنیا میں نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو، آیا میرے لئے توبہ اور واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا آیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟ اس شخص نے کہا ہاں میرے والد زندہ ہیں، پیغمیر اکرمؐ نے فرمایا جاؤ جا کر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔ جب وہ شخص آپؐ کے پاس سے رخصت ہوا تو آپؐ نے فرمایا اے کاش اس کی والدہ زندہ ہوتی۔| منبع = کوفی اہوازی، الزہد، 1399ق، ص35۔ | تراز = چپ| عرض = 230px| پسزمینه = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | ||
==والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ== | ==والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ== | ||
[[حدیث|احادیث]] میں والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ اور تاکید کی گئی ہے<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، | [[حدیث|احادیث]] میں والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ اور تاکید کی گئی ہے<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص159ـ160۔</ref> اور والدین کے حقوق میں زیادہ حصہ والدہ کے ساتھ مختص کیا گیا ہے؛<ref>حاکم نیشابوری، دارالمعرفۃ، ج4، ص150۔</ref> یہاں تک کہ والدہ کے حقوق کی ادائیگی کو غیر ممکن قرار دیا گیا ہے۔<ref>ابنأبیجمہور، عوالی اللئالی، 1405ق، ج1، ص269۔</ref> پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں والدہ کے حقوق کی رعایت کرنے کو گذشتہ گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162۔</ref><br>[[سورہ احقاف کی آیت نمبر 15]] میں والدین کے ساتھ احسان کرنے کی سفارش اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بعد صرف والدہ کی زحمات اور تکلیفوں کو یاد کیا گیا ہے۔ مسلمان علماء اور دانشوروں کے مطابق یہ چیز والدہ کے حقوق کی ادائیگی پر زیادہ تاکید اور سفارش شمار ہوتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373ش، ج17، ص40؛ ابنمفلح، الآداب الشرعیۃ و المنح المرعیۃ، 1424ق، ج1، ص338۔</ref> [[امام سجاد علیہالسلام|امام سجادؑ]] [[رسالۃ الحقوق|رسالۃ الحقوق]] میں حمل اور بچپنے کے دوران والدہ کی جانب سے برداشت کی جانے والی زحمات اور سختیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اولاد کو بطور خاص والدہ کی ان زحمتوں کی قدردانی کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج2، ص621۔</ref> | ||
==متعلقہ مضامین== | ==متعلقہ مضامین== | ||
سطر 52: | سطر 52: | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
*قرآن کریم، اردو ترجمہ محمد حسین نجفی۔ | *قرآن کریم، اردو ترجمہ محمد حسین نجفی۔ | ||
*کتاب | *کتاب مقدس۔ | ||
*ابوالسعود، محمد بن محمد، تفسیر ابیالسعود، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، 1983ء۔ | *ابوالسعود، محمد بن محمد، تفسیر ابیالسعود، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، 1983ء۔ | ||
*ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابوداوود، چاپ سعید محمد لحام، بیروت، 1410ھ۔ | *ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابوداوود، چاپ سعید محمد لحام، بیروت، 1410ھ۔ | ||
سطر 63: | سطر 63: | ||
*بنیہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیحالمسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔ | *بنیہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیحالمسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔ | ||
*ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، بیروت، چاپ عبدالوہاب عبداللطیف، 1403ھ۔ | *ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، بیروت، چاپ عبدالوہاب عبداللطیف، 1403ھ۔ | ||
*حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللّہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالمعرفۃ، | *حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللّہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔ | ||
*حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، مؤسسۃ دار التفسیر، قم، چاپ اول، 1416ھ۔ | *حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، مؤسسۃ دار التفسیر، قم، چاپ اول، 1416ھ۔ | ||
*خامنہای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، قم، دفتر معظم لہ، چاپ اول، 1424ھ۔ | *خامنہای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، قم، دفتر معظم لہ، چاپ اول، 1424ھ۔ | ||
سطر 72: | سطر 72: | ||
*شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، محقق و مصحح: لاجوردی، مہدی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔ | *شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، محقق و مصحح: لاجوردی، مہدی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔ | ||
*شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔ | *شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔ | ||
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، | *شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔ | ||
*صافی گلپایگانی، لطفاللہ، جامع الاحکام، انتشارات حضرت معصومہ(س)، قم، چاپ چہارم، 1417ھ۔ | *صافی گلپایگانی، لطفاللہ، جامع الاحکام، انتشارات حضرت معصومہ(س)، قم، چاپ چہارم، 1417ھ۔ | ||
*طباطبائی، محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیرالقرآن، بیروت 1390ـ1394/ | *طباطبائی، محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیرالقرآن، بیروت 1390ـ1394/ 1971ـ1974۔ | ||
*طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، با مقدمۂ محمد جواد بلاغی، ، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔ | *طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، با مقدمۂ محمد جواد بلاغی، ، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔ | ||
*عباسنژاد، محسن، قرآن، روانشناسی و علوم تربیتی، مشہد، بنیاد پژوہشہای قرآنی حوزہ و دانشگاہ، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔ | *عباسنژاد، محسن، قرآن، روانشناسی و علوم تربیتی، مشہد، بنیاد پژوہشہای قرآنی حوزہ و دانشگاہ، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔ | ||
سطر 84: | سطر 84: | ||
*محقق حلّی، نجم الدین، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، محقق و مصحح: بقال، عبد الحسین محمد علی، مؤسسہ اسماعیلیان، قم، چاپ دوم، 1408ھ۔ | *محقق حلّی، نجم الدین، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، محقق و مصحح: بقال، عبد الحسین محمد علی، مؤسسہ اسماعیلیان، قم، چاپ دوم، 1408ھ۔ | ||
*مسکویہ، احمد بن محمد، تہذیب الأخلاق و تطہیر الأعراق، بی جا، طلیعۃ النور، چاپ اول، 1426ھ۔ | *مسکویہ، احمد بن محمد، تہذیب الأخلاق و تطہیر الأعراق، بی جا، طلیعۃ النور، چاپ اول، 1426ھ۔ | ||
*مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، | *مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بیتا۔ | ||
*مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، محقق و مصحح: علیاننژادی، ابوالقاسم، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔ | *مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، محقق و مصحح: علیاننژادی، ابوالقاسم، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔ | ||
*میرزای قمّی، ابوالقاسم، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، محقق و مصحح: مرتضی رضوی، تہران، مؤسسہ کیہان، چاپ اول، 1413ھ۔ | *میرزای قمّی، ابوالقاسم، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، محقق و مصحح: مرتضی رضوی، تہران، مؤسسہ کیہان، چاپ اول، 1413ھ۔ |