confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 115: | سطر 115: | ||
لغت کی کتابوں میں عترت سے مراد نسل اور قریبی رشتہ،<ref>جوهری، الصحاح، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص ۷۳۵.</ref> اولاد اور ذریت<ref>ابنمنظور، لسانالعرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۵۳۸.</ref> یا مخصوص رشتہ دار<ref>ابناثیر، النهایه، ۱۳۶۷ش، ج۳، ص۱۷۷.</ref> ہیں۔ | لغت کی کتابوں میں عترت سے مراد نسل اور قریبی رشتہ،<ref>جوهری، الصحاح، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص ۷۳۵.</ref> اولاد اور ذریت<ref>ابنمنظور، لسانالعرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۵۳۸.</ref> یا مخصوص رشتہ دار<ref>ابناثیر، النهایه، ۱۳۶۷ش، ج۳، ص۱۷۷.</ref> ہیں۔ | ||
== ثقلین کی وجہ تسمیہ == | |||
اس حدیث میں ثقلین کا لفظ آنے کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوئی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۰.</ref> ثقلین کو «ثَقَلَیْن» اور «ثِقْلَیْن» دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں؛ پہلے کے معنی گرانبہا چیز اور دوسرے کے معنی زیادہ وزنی چیز کے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۶۲.</ref> قرآن اور اہل بیتؑ کو ثقلین نام دینے کے حوالے سے مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں۔ [[جامع احادیث الشیعه (کتاب)|جامع احادیث الشیعه]] کے مقدمے میں 9 وجوہات ذکر ہوئے ہیں<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعة، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۳۶-۴۱؛</ref> جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | |||
* ابوالعباس ثَعْلَب، تیسری صدی ہجری کے ادیب اور زبان شناس سے ہونے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے چونکہ اہل بیتؑ اور قرآن کی پیروی کرنا سخت اور سنگین ہے اس لئے ثقلین نام دیا گیا ہے؛<ref>صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۹۰؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۶؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۵.</ref>کیونکہ یہ دونوں، انسان کو بندگی، اخلاص، عدالت اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور فحشا اور منکرات نیز نفس امارہ اور شیطان کی پیروی سے منع کرتے ہیں۔<ref>احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنیعشر، ۱۳۹۱ش، ص۸۹.</ref> | |||
* بعض کا کہنا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کو اس لئے ثقلین کہا گیا کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے حقوق پر عمل اور ان کی حرمت کی پاسداری کرنا سخت اور سنگین ہے۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲، بخش اول، ص۹۲؛ ابنحجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۵۳.</ref> | |||
*اہل سنت علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کی منزلت اور مقام بیان کرنے کے لئے ثقلین کہا گیا ہے؛<ref> سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲، بخش اول، ص۹۲؛ ابنحجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۵۳؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۴.</ref> کیونکہ ہر قیمت اور گراں بہا چیز کو ثقیل کہا جاتا ہے۔<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۴.</ref> | |||
*از نظر عدهای همچون سَمهودی اور بعض دیگر علما کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ علوم دینی، شرعی احکام اور اسرار کے معدن ہیں اس لئے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں ثقلین کہا ہے۔ اسی سبب اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک کرنے اور ان سے سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲، بخش اول، ص۹۲؛ معزی ملایری، جامع احادیث الشیعه، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۳۶، ۳۷؛ احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنیعشر، ۱۳۹۱ش، ص۸۷، ۸۸.</ref> | |||
=== ثقل اکبر و ثقل اصغر === | |||
{{اصلی|ثقل اکبر|ثقل اصغر}} | |||
حدیث ثقلین کے بعض نقل میں قرآن کو [[ثقل اکبر]] اور اہل بیت کو [[ثقل اصغر]] نام دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۴؛ عیاشی، التفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۴، ۵.</ref> | |||
ثقل اکبر یا ثقل اصغر کہنے کی مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں: [[ابنمیثم بحرانی|ابنمیثم بَحرانی]] کا کہنا ہے کہ قرآن ایک اصل ہے اس کی پیروی ہونی چاہئے اس لئے ثقل اکبر نام دیا گیا ہے۔<ref>بحرانی، شرح نهج البلاغه، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۳۰۳.</ref> [[حبیباللہ خویی|مرزا حبیباللہ خویی]] کا کہنا ہے کہ قرآن کی طرح اہل بیت کی بھی پیروی ہونی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ احتمال دے سکتے ہیں کہ قرآن چونکہ رسالت کا معجزہ اور دین کی بنیاد ہے اسے ثقل اکبر اور اہل بیت سے بڑا قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن چونکہ پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ بشمول تمام لوگوں پر حجت ہے لیکن اہل بیتؑ صرف امت پر حجت ہیں، لہذا قرآن کو ثقل اکبر اور اہل بیت کو ثقل اصغر کہا گیا ہے۔<ref>خویی، مِنهاجُالبَراعة، ۱۴۰۰ق، ج۶، ص۲۱۵، ۲۱۶.</ref> شیعہ عالم دین [[عبدالله جوادی آملی]] کہتے ہیں کہ اہل بیتؑ ظاہری دنیا کی نظر میں اور معارف دینی کی تعلیم و تفہیم کے مدار میں ثقل اصغر ہیں؛ لیکن معنوی مقام اور عالَم باطن میں قرآن سے کمتر نہیں ہیں۔<ref>جوادی آملی، تفسیر تسنیم، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۷۶.</ref> [[سید روحالله موسوی خمینی|امام خمینی]] نے اپنے سیاسی الہی وصیت نامے میں اہل بیتؑ کو ثقل کبیر سے یاد کیا ہے کہ وہ ہر چیز سے بڑے ہیں سوائے ثقل اکبر کے کہ جو خود اکبر مطلق ہے۔<ref>خمینی، صحیفه امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۳۹۳.</ref> | |||
==امامت میں شیعہ عقائد کے اثبات کے لئے شیعہ علما کا استناد== | |||
کلی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جو بھی صفت یا خصوصیت قرآن کے لئے ذکر ہوئی ہے حدیث ثقلین کی روشنی میں وہ اہل بیتؑ کے لئے بھی ثابت ہے۔ ان خصوصیات میں سے بعض مُبین ہونا، فرقان ہونا، نور ہونا، حبلالله اور صراط مستقیم ہونا ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع)، مکتبةالثقلین، ص۱۶۰-۱۸۶.</ref>شیعہ علما نے جن عقائد کو ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: | |||
===شیعہ ائمہ کی امامت=== | |||
حدیث ثقلین کو شیعہ ائمہ کی امامت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المسائل الجارودیه، ۱۴۱۳ق، ص۴۲؛ ابنعطیه، ابهی المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۱؛ مظفر، دلائلالصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۱-۲۴۴.</ref> حدیث ثقلین کا امام علیؑ اور دیگر ائمہ کی امامت پر دلالت کرنے کے لئے درج ذیل دلائل ذکر ہوئے ہیں: | |||
* قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی کے عدم امکان پر حدیث ثقلین تصریح کرتی ہے کیونکہ اہل بیتؑ قرآن کا علم رکھتے ہیں اور اپنے گفتار اور کردار میں اس کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ یہ بات اہل بیتؑ کی فضیلت اور برتری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو شخص برتر اور افضل ہونا امامت کرنے کے لئے شایستہ اور لائق بھی وہی ہوگا۔ | |||
* حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔ | |||
* بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔ | |||
* حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابنعطیه، ابهیالمداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۱؛ مظفر، دلائلالصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۱-۲۴۴.</ref> | |||
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابنعطیه، ابهیالمداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۲.</ref> | |||
===امامت کا دوام اور استمرار === | |||
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ قیامت تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں: | |||
* عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِهِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔ | |||
* عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائلالصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۶.</ref> | |||
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵.</ref> | |||
=== | === اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا === | ||
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اس [[حدیث]] میں [[اہل بیتؑ]] کو [[قرآن کریم|قرآن]] کے برابر میں ذکر کیا ہے اور ان میں جدائی ناممکن ہے لہذا جس طرح سے مسلمانوں پر [[قرآن کریم|قرآن]] کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، [[اہل بیتؑ]] کی پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کی پیروی کرنے کے لئے کوئی شرط بیان نہیں کیا ہے اسی طرح ان کی پیروی بھی بغیر شرط کے تمام گفتار اور کردار میں واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلبی، الکافی فی الفقه، ۱۴۰۳ق، ص۹۷؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵.</ref> | |||
=== عصمت اہل بیت === | |||
شیعہ علما کہتے ہیں کہ [[حدیث]] میں واضح کیا گیا ہے کہ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیتؑ]] ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور جدائی ناپذیر ہے۔ اور یہ بات اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ کسی بھی قسم کا گناہ اور خطا کا ارتکاب اہل بیتؑ کو قرآن سے جدا ہونے کا باعث بنے گا۔<ref>نگاه کنید به مفید، المسائل الجارودیه، ۱۴۱۳ق، ص۴۲؛ ابنعطیه، ابهیالمداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۱؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۱؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵؛ سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵، ۱۰۶.</ref> | |||
اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے اس حدیث میں تصریح کی ہے کہ جو بھی قرآن اور اہل بیتؑ سے متمسک ہوگا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر اہل بیتؑ معصوم نہ ہوتے تو ان کی بلاشرط پیروی کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>نگاه کنید به: ابنعطیه، ابهی المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۱؛ بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۱؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵؛ سبحانی، الإلهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۶.</ref> | |||
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[ابوالصلاح حلبی]] کہتے ہیں کہ اہل بیتؑ کی مطلق اطاعت کا واجب ہونا ان کی عصمت کی دلیل ہے۔<ref>حلبی، الکافی فی الفقه، ۱۴۰۳ق، ص۹۷.</ref> | |||
حدیث ثقلین سے اہل بیت کی عصمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کو کچھ یوں بیان کیا ہے: | |||
* اگر کوئی شخص ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہو تو وہ گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ہے؛ کیونکہ قرآن ہر قسم کے خطا اور اشتباہ سے محفوظ ہے۔ | |||
* حدیث ثقلین کے مطابق اہل بیت ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔ | |||
* پس اہل بیتؑ قرآن کی طرح معصوم ہیں۔<ref>فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیه، ص۳۰۳.</ref> | |||
سید علی حسینی میلانی کہتے ہیں کہ ابن حجر ہیتمی کی طرح اہل سنت کے بعض محققین نے بھی حدیث ثقلین کا اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت پر دلالت کرنے کو مان لیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حسینی میلانی، نفحاتالازهار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۶۸، ۲۶۹.</ref> | |||
=== | === اہل بیت کی علمی مرجعیت === | ||
شیعہ علما کے مطابق حدیث ثقلین اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت بیان کرتی ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱، ۲۳۲؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹، ۲۰.</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے قرآن اور اہل بیتؑ سے تمسک کرنے کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ علمی مرجعیت صرف اہل بیتؑ ہی میں منحصر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱، ۲۳۲.</ref> اسی لئے اہل بیتؑ کے بیانات اور ان کی باتیں قرآن کی طرح مسلمانوں کے لئے حجت ہیں۔<ref>خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۲۰.</ref> | |||
اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ ہر ایک الگ الگ مستقل اور معتبر حجت ہیں۔ اگر کسی ایک سے کوئی حکم کسی بھی مورد میں آئے، خواہ عقائد میں ہو یا احکام اور اخلاق میں، وہ حجت اور سند ہے۔<ref>واعظزاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۲۰، ۲۱.</ref> | |||
حدیث کے بعض نسخوں میں حدیث کے آخر میں یہ جملہ آیا ہے: «فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُم؛ یعنی ان سے آگے مت بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاوگے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔»<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴؛ خزاز رازی، کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۱۶۳؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص ۱۶۷؛ قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۷۳، ۷۴.</ref>[[جامع احادیث الشیعه (کتاب)|جامع احادیث الشیعه]] کے مقدمے میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے اہل بیت کی علمی مرجعیت کے بارے میں حدیث ثقلین سے سات نکات اخذ کیا ہے: | |||
# گمراہی سے بچنے کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی عترت سے سیکھنا واجب ہے؛ | |||
# اہل بیتؑ کے علمی احاطے کی وجہ سے رسول اللہؐ نے ان سے سیکھنے کا حکم دیا؛ | |||
# اہل بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ہر شرعی حکم کا علم نہیں جس کی وجہ سے ان کی پیروی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے؛ | |||
# غیر اہل بیتؑ کا قرآن پر احاطہ اور تسلط نہ ہونا اور احکام الہی استنباط کرنا اہل بیتؑ سے اختصاص؛ | |||
# اہل بیتؑ کے علاوہ دوسرے احکام الہی کی تعلیم نہیں دے سکتے ہیں؛ | |||
# عترت کے اعلم ہونے کے ناطے ان کی بات رد کرنا حرام ہے؛ | |||
# عترت پیغمبرؐ تمام دینی اور غیر دینی علوم میں باقیوں سے اعلم ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعه، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۸۲.</ref> | |||
شیعہ عالم دین [[سید کمال حیدری]] حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہوئے ائمہؑ کے علم کو لامحدود سمجھتے ہیں۔<ref>الحیدری، علمالامام، ۱۴۲۹ق، ص۱۱۰-۱۵۷.</ref> | |||
[[ | |||
== | ===اہل بیت کی برتری=== | ||
کہا گیا ہے کہ حدیث ثقلین سے اہل بیت کی دوسروں پر برتری ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف اہل بیتؑ کو قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔ اسی لئے جس طرح قرآن کریم مسلمانوں سے افضل ہے اسی طرح اہل بیت بھی دوسروں پر برتری رکھتے ہیں۔<ref>.ربانی گلپایگانی، «اهلبیت»، ص۵۵۶.</ref> | |||
= | |||
=== ولایت اور رہبری === | |||
[[جعفر سبحانی]] کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا کتاب اور اہل بیتؑ سے تمسک کی دعوت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اور رہبری صرف اہل بیتؑ سے خاص ہے۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱، ۲۳۲.</ref> حدیث ثقلین کے بعض نسخوں میں [[قرآن]] اور اهل بیت کو ثقلین کے بجائے «خلیفتَین» (دو جانشین) کی تعبیر آئی ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۴۰؛ ابنحنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۱۶ق، ج۳۵، ص۴۵۶، ۵۱۲؛ هیثمی، مجمعالزوائد، دارالکتاب العربی، ج۹، ص۱۶۳؛ شوشتری، احقاقالحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۷۵، ج۱۸، ص۲۷۹-۲۸۱.</ref> اس نقل کے مطابق اہل بیتؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں اور ان کی جانشینی ہر پہلو سے ہے جو سیاسی امور اور رہبری کو بھی شامل ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اهلبیت»، ص۵۶۲.</ref>اسی طرح اہل بیت کی پیروی کا بلاقید و شرط وجوب کو سیاسی قیادت اور رہبری کی دلیل قرار دیا ہے؛ کیونکہ پیروی کا واجب ہونا مسلمانوں کے زندگی سے مربوط تمام امور میں ہے خواہ وہ عبادی مسائل ہوں یا اقتصادی یا سیاسی اور سماجی۔ اس لئے معاشرے کے سیاسی اور حکومتی مسائل میں بھی ان کی پیروی واجب ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اهلبیت»، ص۵۶۱.</ref> | |||
=== | ===قرآن و اهلبیت میں اختلاف نہ ہونا=== | ||
حدیث ثقلین سے اخذ شدہ کلامی نکات میں سے ایک یہ ہے کہ «لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض»، کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>واعظزاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۲۲.</ref> [[محمد واعظزاده خراسانی]] کہتے ہیں کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے آپس میں فرق اور اختلاف نہ ہونا اس وجہ سے ہے کہ امام کا علم پیغمبر اکرمؐ کے علم سے مستند ہے اور ان کا علم وحی الہی سے مربوط ہے اسی لئے ان دونوں کے مابین کوئی اختلاف یا فرق نہیں آتا ہے اور دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے موافق ہیں ہیں۔<ref>واعظزاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۲۲.</ref> | |||
==قرآن میں تحریف نہ ہونے پر حدیث کی دلالت== | |||
حدیث ثقلین اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہے کیونکہ رسول اللہؐ نے یہی فرمایا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ قیامت تک باقی ہیں اور جو بھی ان دونوں سے تمسک کرے گا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر قرآن تحریف سے محفوظ نہ ہوتا تو اس سے تمسک کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref> | |||
==اہل سنت کا نظریہ== | |||
اہل سنت علما نے بھی اس حدیث سے بعض نکات اخذ کئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: | |||
نویں صدی ہجری کے شافعی محدث اور مفسر ابنحجر هیتمی اور شمسالدین سخاوی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں [[مودت اهلبیت(ع)|مودت اهلبیت]]، ان کا احترام اور ان پر احسان اور ان کے واجب اور مستحب حقوق ادا کرنے کی تاکید ہوئی ہے؛ کیونکہ اہل بیتؑ حسب و نسب کے اعتبار سے روے زمین پر سب سے شریف لوگ ہیں۔<ref>ابنحجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۵۳؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۷.</ref> | |||
علی بن عبدالله سَمهودی کہتے ہیں کہ اس حدیث پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے تمسک کے لئے دی جانے والی ترغیب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قیامت تک قرآن کی طرح عترت پیغمبرؐ سے کوئی روے زمین پر ہے جس سے تمسک کرنا شایستہ ہے۔ اہل بیت اہل زمین پر امان دینے والے ہین اگر وہ نہ ہوں تو زمین نابود ہوجائے گی۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲، بخش اول، ص۹۴.</ref> | |||
دسویں صدی ہجری کے شافعی عالم دین عبدالرؤوف مناوی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے امت کو یہ وصیت کی ہے کہ وہ قرآن اور اہل بیتؑ سے اچھا برتاؤ کرے اور ان کو سب پر فوقیت دے اور دین میں ان سے تمسک کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قیامت تک اہل بیتؑ میں سے کوئی ایسا شخص دنیا میں ہو جو تمسک اور پیروی کی صلاحت اور اہلیت رکھتا ہو۔<ref>مناوی، فیضالقدیر، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۱۵.</ref> | |||
آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت اشعری مذہب کے متکلم سعد الدین تفتازانی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اہل بیتؑ باقیوں پر برتری رکھتے ہیں اور اس برتری کا معیار علم اور تقوی اور نسبی شرافت ہے۔ یہ بات اہل بیت کا قرآن کے ساتھ ذکر کرنے اور ان سے تمسک کرنا واجب ہونے سے معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ قرآن سے تمسک کرنا قرآن اور اہل بیت کے علم اور ہدایت پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔<ref>تفتازانی، شرحالمقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۰۲، ۳۰۳.</ref> | |||
نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبهان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>نگاه کنید به مظفر، دلائلالصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۳۸، ۲۳۹.</ref> | |||
== مونوگراف== | |||
شیعہ علما نے حدیث ثقلین کو روایت کرنے کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | |||
* ''حدیثالثقلین''، تالیف، قوامالدین محمد وشنوی قمی: اس کتاب میں حدیث کے مختلف اسناد کی تحقیق کی ہے اور حدیث کے مختلف نسخوں پائی جانے والی لفظی فرق کو بھی بیان کیا ہے۔<ref>صداقت ثمر حسینی، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/حدیث+ثقلین+و+پژوهش+قوام+الدین+محمد+وشنوی+درباره+آن حدیث ثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، کتابخانه الکترونیک شیعه.</ref> | |||
* ''حدیثالثقلین''، تالیف، نجمالدین عسکری: یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ایک جلد میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے۔ | |||
* ''حدیثالثقلین''، تالیف [[سید علی میلانی]]: یہ کتاب حدیث ثقلین کے بارے میں علی احمد السالوس کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاه لوح دانا.</ref> | |||
* ''حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع):'' یہ کتاب بحرینی عالم دین احمد الماحوزی کی حدیث ثقلین پر کی جانے والی تقاریر پر مشتمل ہے جسے بحرین کے مدرہ اہل الذکر کے طلاب نے جمع آوری کی ہے۔<ref>جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت، مکتبةالثقلین، ص۳.</ref> | |||
* ''حدیث الثقلین؛ سنداً و دلالةً:'' [[سید کمال حیدری]] کی تقاریر کا مجموعہ ہے جسے اسعد حسین علی شمری نے تین فصلوں میں مرتب کیا ہے جو حدیث کی سند، دلالت اور اس سے مربوط سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالةً]»، وبگاه مؤسسه امام جواد(ع).</ref> | |||
* ''موسوعةُ حدیثِ الثَّقلین:'' مرکز ابحاث العقائد نے اس کتاب کو چار جلدوں میں چھاپ کیا ہے جس کی پہلی دو جلدوں میں حدیث ثقلین کے بارے میں پہلی صدی سے دسوی صدی ہجری تک لکھی جانے والی کتابوں اور دوسری دو جلدوں میں زیدی اور اسماعیلیہ کتابوں کا تذکر کیا ہے جو حدیث ثقلین کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
سطر 211: | سطر 213: | ||
== مآخذ == | == مآخذ == | ||
{{ | {{مآخذ}} | ||
* ابنابیالحدید، عبدالحمید بن هبةالله، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، قم، مکتبة آیةالله المرعشی النجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ق. | |||
* | * ابنابیعاصم، احمد بن عمرو، کتابالسُّنه، بیروت، المکتب الاسلامی، چاپ سوم، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م. | ||
*احمد | * ابناثیر، مبارک بن محمد، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، تحقیق عبدالقادر ارناووط، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۰ق. | ||
* | * ابناثیر، مبارک بن محمد، النهایه فی غریب الحدیث و الاثر، قم، اسماعیلیان، چاپ چهارم، ۱۳۶۷ش. | ||
* | * ابنجوزی، ابوالفرج عبدالرحمن بن علی، العلل المتناهیة فی الاحادیث الواهیة، فیصلآباد پاکستان، ادارة العلوم الاثریة، چاپ دوم، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م. | ||
*بحرانی، | * ابنحجر هیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقه علی اهل الرفض و الضلال و الزندقه، بیروت، مؤسسةالرسالة، چاپ اول، ۱۴۱۷ق. | ||
* | * ابنحنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب ارناووط و عادل مرشد و دیگران، تحت اشراف عبدالله بن عبدالمحسن الترکی، بیروت، مؤسسةالرساله، چاپ اول، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م. | ||
* | * ابنحیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائمالاسلام، تحقیق آصف فیضی، قم، مؤسسه آلالبیت(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ق. | ||
* | * ابنعطیه، مقاتل، ابهی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمدجمیل حمود، بیروت، مؤسسةالاعلمی، چاپ اول، ۱۴۲۳ق/۲۰۰۲م. | ||
* | * ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، جامع المَسانيد و السُنَن الهادی لِاَقوم سَنَن، تحقیق عبدالملک بن عبدالله دهیش، بیروت، دارُاَخضر، ۱۴۱۹ق. | ||
* | * ابنمنظور، محمد بن مکرم، لسانالعرب، تحقیق جمالالدین میردامادی، بیروت، دارالفکر-دارصادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ق. | ||
*دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و | * ابونعیم اصفهانی، احمد بن عبدالله، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ پنجم، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م. | ||
*دارمی، | * احمدی میانجی، علی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنیعشر، قم، دارالحدیث، ۱۳۹۱ش. | ||
*دیلمی، حسن بن محمد، | * بحرانی، ابنمیثم، شرح نهجالبلاغه، تهران، دفتر نشر الکتاب، ۱۴۰۴ق. | ||
* | * بحرانی، سیدهاشم بن سلیمان، غایة المرام و حجة الخصام فی تعیین الامام من طریق الخاص و العام، بیروت، مؤسسة التأریخ العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق. | ||
*سخاوی، | * بحرانی، علی، منار الهدی فی النص علی امامة الائمة الاثنیعشر(ع)، بیروت، دارالمنتظر، ۱۴۰۵ق. | ||
* | * بیهقی، احمد بن حسین، السنن الكبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیه، چاپ سوم، ۱۴۲۴ق/۲۰۰۳م. | ||
* | * ترمذی، محمد بن عیسی، سننالترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، قاهره، دارالحدیث، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۹م. | ||
*صدوق، محمد بن علی، | * تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق عبدالرحمن عمیرة، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق. | ||
*صدوق، محمد بن علی، | * جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع)؛ محاضرات سماحة الشیخ احمد الماحوزی، ماحوز، مکتبةالثقلین، بیتا. | ||
*صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام | * جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، قم، مرکز نشر اسراء، ۱۳۸۵ش. | ||
*صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد | * جوهری، ابونصر اسماعیل بن حماد، الصحاح؛ تاج اللغة و صحاح العربیة، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق. | ||
*طبرانی، | * حاج منوچهری، فرامرز، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/223612 ثقلین، حدیث]»، در دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱۷، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۸ش. | ||
*طبرانی، سلیمان | * حاکم حسکانی، عبیدالله بن عبدالله، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تهران، وزرات فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ق. | ||
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، ۱۴۱۱ق. | |||
* «[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاه لوح دانا، تاریخ بازدید: ۲۲ تیر ۱۴۰۲ش. | |||
* «[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالةً]»، وبگاه مؤسسه امام جواد(ع)، تاریخ بازدید: ۲۲ تیر ۱۴۰۲ش. | |||
*عیاشی، محمد بن مسعود، | * حسینی تهرانی، سید محمدحسین، امام شناسی، مشهد، علامه طباطبایی، چاپ سوم، ۱۴۲۶ق. | ||
*قندوزی، سلیمان بن | * حسینی میلانی، سید علی، نفحاتالاَزهار، قم، انتشارات مهر، چاپ اول، ۱۴۱۴ق. | ||
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دار الکتب | * حلبی، ابوالصلاح تقیالدین، الکافی فی الفقه، تحقیق رضا استادی، اصفهان، مکتبة الامام امیرالمؤمنین(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۳ق. | ||
*متقی | * حموی جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمة من ذریتهم(ع)، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسه محمودی، ۱۳۹۸ـ۱۴۰۰ق. | ||
*مجلسی، | * حیدری، سید کمال، علمالامام؛ بحوث فی حقیقه و مراتب علم الائمة المعصومین، بقلم علی حمود العبادی، قم، دارفراقد، ۱۴۲۹ق. | ||
* | * خرازی، سید محسن، بدایة المعارف الالهیة فی شرح عقائد الامامیة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، چاپ چهارم، ۱۴۱۷ق. | ||
*مفید، | * خمینی، سید روحالله، صحیفه امام، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، ۱۳۸۹ش. | ||
*مناوی، محمد | * خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق مالک محمودی، قم، موسسة النشر اسلامی، ۱۴۱۱ق. | ||
*نسائی، | * خویی، میرزا حبیبالله، مِنْهاجُ البَراعه فی شَرْح نَهجُ البَلاغَة، تحقیق سید ابراهیم میانجی، تهران، مکتبةالاسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۰ق. | ||
* | * دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، تحقیق موفق بن عبدالله بن عبدالقادر، بیروت، دار المغرب الاسلامی ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م. | ||
* | * دارمی، عبدالله بن عبدالرحمن، سننالدارمی (مسندالدارمی)، تحقیق حسین سلیم اسد دارانی، ریاض، دارالمغنی، چاپ اول، ۱۴۲۱ق. | ||
* | * دیلمی، حسن بن محمد، ارشادالقلوب، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق. | ||
* | * زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح المواهب اللدنیه، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، ۱۴۱۷ق. | ||
* | * سبحانی، جعفر، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیة، چاپ سوم، ۱۴۱۲ق. | ||
* سبحانی، جعفر، سیماى عقاید شیعه، ترجمه جواد محدثى، تهران، نشر مشعر، چاپ اول، ۱۳۸۶ش. | |||
* سخاوی، شمسالدین محمد بن عبدالرحمن، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول و ذوی الشرف، تحقیق خالد بن احمد الصمی بابطين، بیروت، دارالبشائر الاسلامیه، بیتا. | |||
* سمهودی، علی بن عبدالله، جواهر العقدین فی فضل الشرفین، تحقیق موسی بنای علیلی، بغداد، مطبعةالعانی، ۱۴۰۵ق. | |||
* سیوطی، جلالالدین، احياء المیت بفضائل اهلالبیت(ع)، تصحیح و پاورقی کاظم فتلاوی و محمدسعید طریحی، مقدمه و ترجمه احمد امامی، تهران، مجمع جهانی اهلبیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۰م. | |||
* شرفالدین، سید عبدالحسین، المراجعات، قم، مجمع جهانی اهلبیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق. | |||
* شوشتری، قاضی نورالله، احقاق الحق و ازهاق الباطل، قم، کتابخانه آیتالله مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق. | |||
* صداقت ثمر حسینی، کامیار، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB+%D8%AB%D9%82%D9%84%DB%8C%D9%86+%D9%88+%D9%BE%DA%98%D9%88%D9%87%D8%B4+%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85+%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86+%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF+%D9%88%D8%B4%D9%86%D9%88%DB%8C+%D8%AF%D8%B1 حدیث الثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، مجله پژوهشنامه علوی، شماره دوم، پاییز و زمستان ۱۳۹۰ش. | |||
* صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، ۱۳۷۸ش. | |||
* صدوق، محمد بن علی، الامالی، تهران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ش، | |||
* صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمه، تحقیق علیاکبر غفاری، تهران، اسلامیه، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق. | |||
* صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، تحقیق محسن کوچهباغی تبریزی، قم، مکتبة آیةالله المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق. | |||
* طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، قاهره، مکتبة ابنتیمیه، چاپ دوم، ۱۴۰۵ق. | |||
* طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط، تحقیق طارق بن عوضالله و عبدالمحسن بن ابراهیم الحسینی، قاهره، دارالحرمين، ۱۴۱۵ق. | |||
* عیاشی، محمد بن مسعود، کتابالتفسیر، تحقیق رسولی محلاتی، تهران، المطبعة العلمیه، چاپ اول، ۱۳۸۰ق. | |||
* قمی، علی بن ابراهیم، تفسیرالقمی، تحقیق موسوی جزائری، طیب، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق. | |||
* قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، یَنابیع الموَدَّةِ لِذَوی القُربی، قم، دار الاسوه للطباعة و النشر، ۱۴۲۲ق. | |||
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق. | |||
* مازندرانی، محمدصالح، شرحالکافی (الاصول و الفروع)، تحقیق ابوالحسن شعرانی، تهران، المکتبة الاسلامیة، چاپ اول، ۱۳۸۲ق. | |||
* متقی هندی، علی بن حسامالدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، تحقیق بکری حیانی و صفوة السقّا، بیروت، مؤسسةالرسالة، چاپ پنجم، ۱۴۰۱ق. | |||
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق. | |||
* مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا. | |||
* مظفر، محمدحسن، دلائلالصدق، قم، مؤسسه آلالبیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۲ق. | |||
* معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث الشیعة فی احکام الشریعة، تحت اشراف و نظارت سید حسین طباطبایی بروجردی، قم، نشر مؤلف، ۱۳۷۳ش/۱۴۱۵ق. | |||
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج اللّه علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق. | |||
* مفید، محمد بن محمد، المسائل الجارودیه، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق. | |||
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ نهم، ۱۳۸۶ش. | |||
* مناوی، محمد عبدالرؤوف، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، بیروت، دارالمعرفه، چاپ دوم، ۱۳۹۱ق/۱۹۷۲م. | |||
* میر حامد حسین، عبقات الانوار فی اثبات امامة ائمة الاطهار(ع)، اصفهان، کتابخانه امیرالمؤمنین(ع)، چاپ دوم، ۱۳۶۶ش. | |||
* نسائی، احمد بن شعیب، السنن الکبری، تحقیق حسن عبدالمنعم شلبی، بیروت، مؤسسةالرساله، چاپ اول، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م. | |||
* نفیسی، شادی، «[https://rch.ac.ir/article/Details/10134 ثقلین، حدیث]»، در دانشنامه جهان اسلام، ج۹، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۴ش. | |||
* واعظزاده خراسانی، محمد، «مقدمه»، در حدیثالثقلین، تألیف قوامالدین محمد وشنوی، تهران، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، ۱۴۲۸ق. | |||
* وشنوی، قوامالدین محمد، حدیثالثقلین، تهران، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، ۱۴۲۸ق | |||
* هیثمی، علی بن ابوبکر، کشف الاستار عن زوائد البزار، بیروت، مؤسسةالرساله، چاپ اول، ۱۳۹۹ق. | |||
* هیثمی، علی بن ابوبکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، تحقیق حسامالدین قدسی، قاهره، مکتبةالقدسی، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۴م. | |||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} | ||
سطر 259: | سطر 294: | ||
{{فضائل اہل بیت}} | {{فضائل اہل بیت}} | ||
{{امامت}} | {{امامت}} | ||
[[زمرہ:فضائل اہل بیت]] | [[زمرہ:فضائل اہل بیت]] |