مندرجات کا رخ کریں

"حديث ثقلین" کے نسخوں کے درمیان فرق

اصلاحات املایی
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(اصلاحات املایی)
سطر 10: سطر 10:
  | صادر از      = [[رسول خداؐ]]
  | صادر از      = [[رسول خداؐ]]
  | اصلی راوی    =  
  | اصلی راوی    =  
  | راویان      = [[امام علی ؑ]]، [[ابوذر]]، [[ابو ہریره]]، [[زید بن ارقم]]، [[زید بن ثابت]]، [[جابر بن عبدالله انصاری]]
  | راویان      = [[امام علی ؑ]]، [[ابوذر]]، [[ابو ہریرہ]]، [[زید بن ارقم]]، [[زید بن ثابت]]، [[جابر بن عبداللہ انصاری]]
  | اعتبارِ سند  = [[متواتر]]
  | اعتبارِ سند  = [[متواتر]]
  | شیعہ مآخذ    = [[الکافی]]، [[کمال الدین]]، [[امالی صدوق]]، [[امالی مفید]]، [[امالی طوسی]]، [[عیون اخبار الرضا]]، [[الغیبہ نعمانی]]، [[بصائر الدرجات]]
  | شیعہ مآخذ    = [[الکافی]]، [[کمال الدین]]، [[امالی صدوق]]، [[امالی مفید]]، [[امالی طوسی]]، [[عیون اخبار الرضا]]، [[الغیبہ نعمانی]]، [[بصائر الدرجات]]
سطر 16: سطر 16:
  |قرآنی تائیدات =  
  |قرآنی تائیدات =  
}}
}}
'''حدیث ثقلین'''  [[قرآن]] اور [[اهل‌ بیتؑ|اهل‌بیتؑ]] کا مقام ہدایت اور ان کی اطاعت لازم ہونے کے بارے میں [[رسول خداؐ]] کی مشہور اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]] ہے۔ اس حدیث کے مطابق [[قرآن کریم]] اور [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] دو گراں بہا چیزیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر رسول اللہؐ سے محلق ہوجائیں۔
'''حدیث ثقلین'''  [[قرآن]] اور [[اہل‌ بیتؑ|اہل‌بیتؑ]] کا مقام ہدایت اور ان کی اطاعت لازم ہونے کے بارے میں [[رسول خداؐ]] کی مشہور اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]] ہے۔ اس حدیث کے مطابق [[قرآن کریم]] اور [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] دو گراں بہا چیزیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر رسول اللہؐ سے محلق ہوجائیں۔


شیعہ متکلمین شیعہ ائمہ کی امامت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہیں۔ اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ علما کا کہنا ہے کہ جو خصوصیات اور صفات قرآن مجید کے لئے ذکر ہوئی ہیں وہ اہل بیتؑ پر بھی صدق آتی ہیں۔ اس حدیث سے علم کلام میں کچھ ثابت کرتے ہیں جن میں شیعہ ائمہ کی امامت اور اس کا استمرار قیامت تک، ان کی اطاعت لازم ہونا، عصمت ائمہ، علمی مرجعیت، رہبری اور ولایت نیز قرآن اور اہلبیت کے درمیان اختلاف نہ ہونا شامل ہیں۔
شیعہ متکلمین شیعہ ائمہ کی امامت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہیں۔ اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ علما کا کہنا ہے کہ جو خصوصیات اور صفات قرآن مجید کے لئے ذکر ہوئی ہیں وہ اہل بیتؑ پر بھی صدق آتی ہیں۔ اس حدیث سے علم کلام میں کچھ ثابت کرتے ہیں جن میں شیعہ ائمہ کی امامت اور اس کا استمرار قیامت تک، ان کی اطاعت لازم ہونا، عصمت ائمہ، علمی مرجعیت، رہبری اور ولایت نیز قرآن اور اہلبیت کے درمیان اختلاف نہ ہونا شامل ہیں۔


بعض اہل سنت علما کے مطابق یہ حدیث  [[مودت اهل‌بیت(ع)|مَوَدّت اهل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان کے مستحب اور واجب حقوق ادا کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ بعض اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت سے تمسک پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حدیث امامت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔
بعض اہل سنت علما کے مطابق یہ حدیث  [[مودت اہل‌بیت(ع)|مَوَدّت اہل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان کے مستحب اور واجب حقوق ادا کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ بعض اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت سے تمسک پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حدیث امامت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔


شیعہ اور اہل سنت علما کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار بیان نہیں ہوئی بلکہ متعدد بار رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے حدیث بار بار بیان ہونا اس کی اہمیت اور عظمت سمجھاتی ہے۔ حدیث ثقلین شیعہ اور سنی متعدد مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے اور دونوں مذاہب اس حدیث کا مضمون صحیح ہونے پر بھی اتفاق رائے رکھتے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت علما کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار بیان نہیں ہوئی بلکہ متعدد بار رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے حدیث بار بار بیان ہونا اس کی اہمیت اور عظمت سمجھاتی ہے۔ حدیث ثقلین شیعہ اور سنی متعدد مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے اور دونوں مذاہب اس حدیث کا مضمون صحیح ہونے پر بھی اتفاق رائے رکھتے ہیں۔


یہ حدیث مختلف سند کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید هاشم بحرانی|سید هاشم بَحرانی]] اپنی کتاب [[غایة المرام و حجة الخصام (کتاب)|غایَةُالمَرام]] میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمة (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عیون اخبار الرضا(ع)]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائِرالدرجات]] جیسے شیعہ مصادر حدیث سے اسی مضمون کی 82 احادیث اور  [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]، سُنَن تِرْمِذی، سنن نِسائی، سنن دارَمی و [[مسند احمد بن حنبل]] جیسی اہل سنت مصادر حدیث سے 39 احادیث نقل کرتے ہیں۔
یہ حدیث مختلف سند کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] اپنی کتاب [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُالمَرام]] میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عیون اخبار الرضا(ع)]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائِرالدرجات]] جیسے شیعہ مصادر حدیث سے اسی مضمون کی 82 احادیث اور  [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]، سُنَن تِرْمِذی، سنن نِسائی، سنن دارَمی و [[مسند احمد بن حنبل]] جیسی اہل سنت مصادر حدیث سے 39 احادیث نقل کرتے ہیں۔


حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعہ بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے اصحاب کساء کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل‌ علی، آل‌ عقیل، آل‌ جعفر اور آل‌ عباس جن پر صدقہ حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔
حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعہ بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے اصحاب کساء کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل‌ علی، آل‌ عقیل، آل‌ جعفر اور آل‌ عباس جن پر صدقہ حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔


==اہمیت==
==اہمیت==
حدیث ثقلین [[رسول خداؐ]] کی مشہور<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref> اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]]<ref>ملاحظہ کریں: بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶،‌ ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷.</ref> ہے اور سارے مسلمان مانتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مازندرانی، شرح‌الکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹. </ref>   
حدیث ثقلین [[رسول خداؐ]] کی مشہور<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref> اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]]<ref>ملاحظہ کریں: بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص670؛ مظفر، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج6،‌ ص240؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7.</ref> ہے اور سارے مسلمان مانتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مازندرانی، شرح‌الکافی، 1382ھ، ج6، ص124، ج10، ص118؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19. </ref>   
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۱۷ و ۱۸.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref>
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص17 و 18.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref>
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جهانی اهل‌بیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]]
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جہانی اہل‌بیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]]
[[عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطهار (کتاب)|عَبَقات‌الانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کو توجہ کا مرکز رہا ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش، ج۲۳، ص۱۲۴۵.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث پہلی صدی ہجری سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقه|فقهی]] اور [[اصول فقه|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچهری، «ثقلین، حدیث»، ص۷۳ و ۷۴.</ref>
[[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌الانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کو توجہ کا مرکز رہا ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366شمسی۔ ج23، ص1245.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث پہلی صدی ہجری سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقہ|فقہی]] اور [[اصول فقہ|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچہری، «ثقلین، حدیث»، ص73 و 74.</ref>


دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، شیخ طوسی نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ علامہ حلی نے [[نهج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نهج‌الحق]] مین امام علی کی خلافت ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲ و ۱۰۳.</ref>  
دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، شیخ طوسی نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ علامہ حلی نے [[نہج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نہج‌الحق]] مین امام علی کی خلافت ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102 و 103.</ref>  


کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین هندی]] (متوفی ۱۳۰۶ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref>
کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین ہندی]] (متوفی 1306ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>


[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۵.</ref>
[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص105.</ref>


یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref>
یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>


== متن حدیث ==
== متن حدیث ==
حدیث ثقلین شیعہ<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴، ج۲،‌ ص۴۱۵؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳؛ خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۸۷، ۱۳۷، ۱۶۳، ۲۶۵؛ قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱،‌ ص۱۷۲، ۱۷۳، ج۲، ص۳۴۵، ۴۴۷؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۲۹، ج۲، ص۳۰، ۳۱، ۶۲.</ref> اور اہل سنت<ref>ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴،‌ ص۱۸۷۳؛ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۳۱۰ و ۴۳۷؛ ترمذی، سنن‌التزمذی، ۱۳۹۵ق، ج۵، ص۶۶۲، ۶۶۳؛ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۱۷، ص۱۶۹، ۱۷۰، ۲۱۱، ۳۰۸، ۳۰۹، ج۱۸، ص۱۱۴، حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۸، ۱۶۰.</ref> مختلف مصادر حدیث میں مختلف عبارتوں کے ساتھ [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>مختلف اسناد اور عبارتوں سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں:بحرانی، غایةالمرام، ۱۴۲۲ق، ج۲،‌ ص۳۰۴-۳۶۷؛ شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۰۹-۳۷۵، ج۱۸، ص۲۶۱-۲۸۹؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ کل جلد ۱۸ و ۱۹.</ref>
حدیث ثقلین شیعہ<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294، ج2،‌ ص415؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص87، 137، 163، 265؛ قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص172، 173، ج2، ص345، 447؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص229، ج2، ص30، 31، 62.</ref> اور اہل سنت<ref>ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4،‌ ص1873؛ نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310 و 437؛ ترمذی، سنن‌التزمذی، 1395ھ، ج5، ص662، 663؛ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص169، 170، 211، 308، 309، ج18، ص114، حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160.</ref> مختلف مصادر حدیث میں مختلف عبارتوں کے ساتھ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>مختلف اسناد اور عبارتوں سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں:بحرانی، غایۃالمرام، 1422ھ، ج2،‌ ص304-367؛ شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج9، ص309-375، ج18، ص261-289؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ کل جلد 18 و 19.</ref>


[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے:
[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے:


<font color=green>{{حدیث|'''"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم‏‏؛...}}"'''</font>۔
<font color=green>{{حدیث|'''"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم‏‏؛...}}"'''</font>۔
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref>
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294.</ref>


شیعہ حدیثی کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]] میں امام محمد باقر سے یہ حدیث یوں نقل ہوئی ہے: {{حدیث|«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّی تَارِکٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَمَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَيْتِی فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض}}؛ اے لوگو! "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] ([[قرآن کریم]]) اور [[عترت]] یا [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہوں گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیت]] [[قیامت]] تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے" یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر میرے پاس وارد ہوں گے۔<ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳، حدیث ۳.</ref>
شیعہ حدیثی کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]] میں امام محمد باقر سے یہ حدیث یوں نقل ہوئی ہے: {{حدیث|«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّی تَارِکٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَمَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَيْتِی فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض}}؛ اے لوگو! "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] ([[قرآن کریم]]) اور [[عترت]] یا [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہوں گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیت]] [[قیامت]] تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے" یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر میرے پاس وارد ہوں گے۔<ref>صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413، حدیث 3.</ref>


اہل سنت کی حدیثی کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقَم]] سے یوں نقل کیا ہے: {{حدیث|«... وَأَنَا تَارِکٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِی أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی.»}}<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ج۴،‌ ص۱۸۷۳، حدیث ۳۶.</ref> میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: پہلی اللہ کی کتاب، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب سے تمسک کرو۔ رسول اللہؐ نے اللہ کی کتاب کی ترغیب دی ہے پھر فرمایا: اور میرے اہل بیتؑ، اللہ کی خاطر میری اہل بیت کو یاد کرو اور انھیں مت بھولو۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶، ج۹، ص۶۳.</ref>
اہل سنت کی حدیثی کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقَم]] سے یوں نقل کیا ہے: {{حدیث|«... وَأَنَا تَارِکٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِی أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی.»}}<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ج4،‌ ص1873، حدیث 36.</ref> میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: پہلی اللہ کی کتاب، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب سے تمسک کرو۔ رسول اللہؐ نے اللہ کی کتاب کی ترغیب دی ہے پھر فرمایا: اور میرے اہل بیتؑ، اللہ کی خاطر میری اہل بیت کو یاد کرو اور انھیں مت بھولو۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386، ج9، ص63.</ref>


احادیث کی بعض کتابوں میں ثقلین کے بجائے خَلیفَتَین» (دو جانشین)<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۴۰؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۱۶ق، ج۳۵، ص۴۵۶، ۵۱۲؛ هیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج۹، ص۱۶۳؛ متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۷۵ ، ج۱۸، ص۲۷۹-۲۸۱.</ref> یا «اَمرَین» (دو امر)<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref> کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ اور بعض کتابوں میں «‌عِترتی‌»، کے بجائے «‌سنّتی‌» کا لفظ آیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۵؛ متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۷۳، ۱۸۷.</ref>
احادیث کی بعض کتابوں میں ثقلین کے بجائے خَلیفَتَین» (دو جانشین)<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص240؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1416ھ، ج35، ص456، 512؛ ہیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج9، ص163؛ متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص186؛ شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج9، ص375 ، ج18، ص279-281.</ref> یا «اَمرَین» (دو امر)<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294.</ref> کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ اور بعض کتابوں میں «‌عِترتی‌»، کے بجائے «‌سنّتی‌» کا لفظ آیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص235؛ متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص173، 187.</ref>
شیعہ عالم اور مصنف [[ناصر مکارم شیرازی]] کا کہنا ہے کہ جن کتابوں میں «‌عترتی‌» کے بجائے «‌سنّتی‌» کا لفظ آیا ہے وہ قابل استناد نہیں ہیں؛ کیونکہ اگر یہ صحیح بھی ہوں تو آپ میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک جگہ کتاب اور عترت کی تاکید کی ہے اور دوسری جگہ قرآن اور سنت کی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش،‌ ج۹، ص۷۶، ۷۷.</ref>  
شیعہ عالم اور مصنف [[ناصر مکارم شیرازی]] کا کہنا ہے کہ جن کتابوں میں «‌عترتی‌» کے بجائے «‌سنّتی‌» کا لفظ آیا ہے وہ قابل استناد نہیں ہیں؛ کیونکہ اگر یہ صحیح بھی ہوں تو آپ میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک جگہ کتاب اور عترت کی تاکید کی ہے اور دوسری جگہ قرآن اور سنت کی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی۔‌ ج9، ص76، 77.</ref>  


{{جعبہ نقل قول
{{جعبہ نقل قول
| عنوان = [[عبدالله جوادی آملی|آیت‌الله جوادی آملی]]
| عنوان = [[عبداللہ جوادی آملی|آیت‌اللہ جوادی آملی]]
| نویسنده =  
| نویسنده =  
| نقل قول = کامل اور معصوم انسان کا مصداق صرف عترت طاہرہ ہیں، جو قرآن کے ہم پلہ اور برابر ہیں، حدیث متواترِ ثقلین کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں۔ ۔۔۔
| نقل قول = کامل اور معصوم انسان کا مصداق صرف عترت طاہرہ ہیں، جو قرآن کے ہم پلہ اور برابر ہیں، حدیث متواترِ ثقلین کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں ....
قرآن اللہ کی تدوینی کتاب کی تجلی ہے اور انسانِ کاملِ معصوم اللہ کی تکوینی کتاب کے تجلی ہیں۔۔۔۔ معصومینؑ کی روایات بھی قرآن اور عترت کے مابین نہ ختم ہونے والے رابطے کو بیان کرتی ہیں اور حدیث ثقلین کی طرح ان دو حقیقتوں اور ان کے احکام کے مابین جدائی ممکن نہ ہونے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسری کے بغیر شناخت ممکن نہ ہونے کو کو بیان کرتی ہیں۔ <ref>«[https://javadi.esra.ir/fa/w/فضیلت-نیمه-شعبان-و-همتایی-آن-با-شب-قدر-از-منظر-آیت-ا فضیلت نیمه شعبان و همتایی آن با شب قدر از منظر آیت‌الله جوادی آملی]»، وبگاه دفتر مرجعیت.</ref>
قرآن اللہ کی تدوینی کتاب کی تجلی ہے اور انسانِ کاملِ معصوم اللہ کی تکوینی کتاب کے تجلی ہیں۔۔۔۔ معصومینؑ کی روایات بھی قرآن اور عترت کے مابین نہ ختم ہونے والے رابطے کو بیان کرتی ہیں اور حدیث ثقلین کی طرح ان دو حقیقتوں اور ان کے احکام کے مابین جدائی ممکن نہ ہونے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسری کے بغیر شناخت ممکن نہ ہونے کو کو بیان کرتی ہیں۔<ref>«[https://javadi.esra.ir/fa/w/فضیلت-نیمه-شعبان-و-همتایی-آن-با-شب-قدر-از-منظر-آیت-ا فضیلت نیمہ شعبان و ہمتایی آن با شب قدر از منظر آیت‌اللہ جوادی آملی]»، وبگاہ دفتر مرجعیت.</ref>
| منبع =  
| منبع =  
| تراز =چپ
| تراز =چپ
سطر 71: سطر 71:


==اعتبار حدیث==
==اعتبار حدیث==
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیه، ابهی‌المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۰؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائل‌الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶،‌ ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۶؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۹، ص۳۶۰.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملاصالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعه اور اهل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعه،‌ ۱۳۸۶ش، ص۲۳۲.</ref>  
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص130؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص670؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6،‌ ص240؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ 1426ھ، ص70.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص360.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملاصالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعہ اور اہل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، 1382ھ، ج6، ص124، ج10، ص118؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref>  


[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج۴،‌ ص۱۸۷۳، حدیث ۳۶.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۶۰.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر هیتمی|ابن‌حَجَر هَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۴۳۹ و ۶۵۳.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۱۵.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبدالله سَمْهودی اپنی کتاب [[جواهر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواهِرُالعِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول، ص۸۲.</ref>
[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج4،‌ ص1873، حدیث 36.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص160.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر ہیتمی|ابن‌حَجَر ہَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص439 و 653.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص15.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبداللہ سَمْہودی اپنی کتاب [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرُالعِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص82.</ref>


چھٹی ہجری کے جنبلی عالم دین ابن‌جوزی اپنی کتاب العِلَل المُتَناهیه میں حدیث ثقلین کو ایک خاص سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌جوزی، العلل المتناهیة فی الاحادیث الواهیة، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۲۶۸.</ref> سَمهودی اور ابن‌حجر هیتمی جیسے علما نے ابن‌ جوزی کا حدیث ثقلین کو ضعیف سمجھنے کو درست نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کتابوں میں اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نقل ہوئی ہے۔<ref> سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۷۳؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۲.</ref>
چھٹی ہجری کے جنبلی عالم دین ابن‌جوزی اپنی کتاب العِلَل المُتَناہیہ میں حدیث ثقلین کو ایک خاص سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌جوزی، العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ، 1401ھ، ج1، ص268.</ref> سَمہودی اور ابن‌حجر ہیتمی جیسے علما نے ابن‌ جوزی کا حدیث ثقلین کو ضعیف سمجھنے کو درست نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کتابوں میں اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نقل ہوئی ہے۔<ref> سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص73؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص652.</ref>


== راوی اور مصادر حدیث ==
== راوی اور مصادر حدیث ==
شیعہ علما [[سید عبدالحسین شرف‌الدین|علامه شرف‌الدین]]،<ref>شرف‌الدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref> اور  [[جعفر سبحانی]]<ref>سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعه،‌ ۱۳۸۶ش، ص۲۳۲.</ref> اور سنی علما میں سمهودی<ref>نگاه کنید به مناوی، فیض القدیر، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۱۴.</ref> اور ابن‌حجر هیتمی<ref>ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۴۴۰ و۶۵۳.</ref> نے حدیث ثقلین کو مختلف اسناد کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب پیغمبر سے نقل کیا ہے۔ جبکہ بعض نے 50 سے زائد صحابی کا بھی کہا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع)، مکتبةالثقلین، ص۵.</ref> [[میر حامدحسین هندی|میر حامد حسین]] نے کتاب [[عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطهار (کتاب)|عَبَقات‌الاَنْوار]] میں حدیث ثقلین کو 30 اصحاب اور 200 سے زائد اہل سنت علما کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، مقدمه، ص۲.</ref> آپ نے دوسری صدی ہجری سے 13ویں صدی تک کے اہل سنت راویوں کے نام ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۹-۱۵.</ref> [[قوام‌الدین محمد وشنوی]] کے مطابق اس حدیث کو نقل کرنے کے اسناد 60 سے زائد ہیں۔<ref>وشنوی، حدیث‌الثقلین، ۱۴۲۸ق، ص۴۱.</ref>  
شیعہ علما [[سید عبدالحسین شرف‌الدین|علامہ شرف‌الدین]]،<ref>شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref> اور  [[جعفر سبحانی]]<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref> اور سنی علما میں سمہودی<ref>ملاحظہ کریں: مناوی، فیض القدیر، 1391ھ، ج3، ص14.</ref> اور ابن‌حجر ہیتمی<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص440 و653.</ref> نے حدیث ثقلین کو مختلف اسناد کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب پیغمبر سے نقل کیا ہے۔ جبکہ بعض نے 50 سے زائد صحابی کا بھی کہا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع)، مکتبۃالثقلین، ص5.</ref> [[میر حامدحسین ہندی|میر حامد حسین]] نے کتاب [[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌الاَنْوار]] میں حدیث ثقلین کو 30 اصحاب اور 200 سے زائد اہل سنت علما کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، مقدمہ، ص2.</ref> آپ نے دوسری صدی ہجری سے 13ویں صدی تک کے اہل سنت راویوں کے نام ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص9-15.</ref> [[قوام‌الدین محمد وشنوی]] کے مطابق اس حدیث کو نقل کرنے کے اسناد 60 سے زائد ہیں۔<ref>وشنوی، حدیث‌الثقلین، 1428ھ، ص41.</ref>  


شیعہ مصادر میں یہ حدیث اصحاب میں سے [[امام علی علیه‌السلام|امام علی(ع)]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲،‌ ص۴۱۵؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۶، ۲۳۷، ۲۳۹.</ref> [[امام حسن مجتبی علیه‌السلام|امام حسن(ع)]]،<ref>خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۱۶۳.</ref> [[جابر بن عبدالله انصاری]]،<ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۴.</ref> [[حذیفة بن یمان|حُذَیْفة بن یَمان]]،<ref>خزاز رازی،‌ کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۱۳۶، ۱۳۷.</ref> [[حذیفه بن اسید|حُذَیْفَه بن اُسَیْد]]،<ref>خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۸.</ref> [[زید بن ارقم|زید بن اَرْقم]]،<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۴، ۲۳۷.</ref> [[زید بن ثابت]]،<ref>صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۴۱۵؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۶.</ref> [[عمر بن خطاب|عمر بن خَطّاب]]<ref>خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۹۱، ۹۲.</ref> اور [[ابوهریره|ابو هُرَیْره]]<ref>خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۸۷.</ref> سے نقل ہوئی ہے۔ [[امام محمد باقر علیه‌السلام|امام باقر(ع)]]،<ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳.</ref> [[امام صادق علیه‌السلام|امام صادق(ع)]]<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴؛ عیاشی،‌ تفسیرالعیاشی،‌ ۱۳۸۰ق، ج۱،‌ ص۵.</ref> اور [[امام رضا علیه‌السلام|امام رضا(ع)]]<ref>صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۲۹.</ref> نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
شیعہ مصادر میں یہ حدیث اصحاب میں سے [[امام علی علیہ‌السلام|امام علی(ع)]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2،‌ ص415؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص236، 237، 239.</ref> [[امام حسن مجتبی علیہ‌السلام|امام حسن(ع)]]،<ref>خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص163.</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]،<ref>صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص414.</ref> [[حذیفۃ بن یمان|حُذَیْفۃ بن یَمان]]،<ref>خزاز رازی،‌ کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص136، 137.</ref> [[حذیفہ بن اسید|حُذَیْفَہ بن اُسَیْد]]،<ref>خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص128.</ref> [[زید بن ارقم|زید بن اَرْقم]]،<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص234، 237.</ref> [[زید بن ثابت]]،<ref>صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص415؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص236.</ref> [[عمر بن خطاب|عمر بن خَطّاب]]<ref>خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص91، 92.</ref> اور [[ابوہریرہ|ابو ہُرَیْرہ]]<ref>خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص87.</ref> سے نقل ہوئی ہے۔ [[امام محمد باقر علیہ‌السلام|امام باقر(ع)]]،<ref>صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413.</ref> [[امام صادق علیہ‌السلام|امام صادق(ع)]]<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294؛ عیاشی،‌ تفسیرالعیاشی،‌ 1380ھ، ج1،‌ ص5.</ref> اور [[امام رضا علیہ‌السلام|امام رضا(ع)]]<ref>صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص229.</ref> نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔


اهل‌ سنت مصادر میں بھی اصحاب میں سے امام علی(ع)،‌<ref>نگاه کنید به متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷۹،‌ حدیث ۱۶۵۰؛ سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول، ص۸۱، ۸۵، ۸۶؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۷؛ هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۱۶۳؛ سیوطی، احياء المیت بفضائل اهل البیت‌(ع)، ۱۴۲۱ق، ص۲۳، حدیث ۲۳.</ref> [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|حضرت زهرا(س)]]،<ref>قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۲۴.</ref> امام حسن(ع)،<ref>قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۷۳ و ۷۴.</ref> زید بن ارقم،<ref>برای نمونه نگاه کنید به مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌ التراث العربی، ۱۸۷۳؛ ترمذی، سنن‌الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸، ۴۷۹؛ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۳۱۰، ۴۳۷؛ دارمی، سنن‌الدارمی، ۱۴۲۱ق، ج۴، ص۲۰۹۰؛ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۲، ص۱۰، ۱۱؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۸، ۱۶۰؛ بیهقی، السنن الکبری، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۲۱۲، حدیث ۲۸۵۷.</ref> [[ابوذر غفاری]]،<ref>نگاه کنید به ترمذی، سنن‌الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸؛ دارقطنی، المؤتلف و المختلف، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۱۰۴۶؛ سمهودی، جواهرالعقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۸۶؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۵۹.</ref> [[سلمان فارسی]]،<ref>قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۱۴.</ref> [[ابوسعید خدری|ابوسعید خُدْری]]،<ref>برای نمونه نگاه کنید به ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۱۷، ص۲۱۱، ۳۰۹، ج۱۸، ص۱۱۴؛ ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنه، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۹، ۶۳۰؛ هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۱۶۳؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۶.</ref> [[ام‌سلمه (همسر پیامبر)|اُم‌ّسَلَمه]]،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۳؛ سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۸۸؛ قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۲۳، ۱۲۴.</ref> جابر بن عبدالله انصاری،‌<ref>ترمذی، سنن‌الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸؛ ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۷۷، حدیث ۶۵؛ متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۷۲، حدیث ۸۷۰؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۶۶؛ طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۸۹.</ref> زید بن ثابت،<ref>ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۵، ص۴۵۶؛ ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنه، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۹؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص۱۵۴؛ متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۷۲، حدیث ۸۷۲، ص۱۸۶، حدیث ۹۴۵ و ۹۴۶؛ سیوطی، احياء المیت بفضائل اهل‌البیت‌(ع)، ۱۴۲۱ق، ص۹، ۱۰، حدیث ۷، ص۴۲، حدیث ۵۶؛ ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۱۵۶.</ref> حُذَیفة بن اسید،<ref>ترمذی، سنن‌الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸؛ ابونعیم اصفهانی، حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۵۵؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۶۷، ۱۸۰؛ سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول، ص۷۸، ۷۹، ۸۳.</ref> ابوهریره،<ref>هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۱۶۳؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۲؛ سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۸۷.</ref> [[جبیر بن مطعم|جُبَیْر بن مُطْعِم]]،<ref>قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۰۲.</ref> [[ابورافع|ابورافِع]]،<ref>سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۸۷؛ سخاوی، استجلاب ارتقاءالغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۰، ۳۶۱.</ref> ضُمَیْرة الاسلَمی،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۵۱، ۳۵۲.</ref> [[ام‌هانی دختر ابوطالب|اُم‌ّهانی دختر ابوطالب]]<ref>سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۸۸؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۳ و ۳۶۴؛ قندوزی، ينابيع المودة لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۲۳؛ شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۰۹-۳۶۷.</ref> اور [[عمرو بن عاص سهمی|عَمْرو بن عاص]]<ref>ملاحظہ کریں: شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۵،‌ ص۵۱.</ref> سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید محمدحسین حسینی طهرانی|علامه تهرانی]] کہتے ہیں کہ اکثر احادیث کے مصادر میں حدیث ثقلین زید بن ارقم سے نقل ہوئی ہے اور اہل سنت میں سے اکثر نے بھی انھی سے نقل کیا ہے۔<ref>حسینی تهرانی، امام‌شناسی، ۱۴۲۶ق، ج۱۳، ص۲۶۶.</ref>
اہل‌ سنت مصادر میں بھی اصحاب میں سے امام علی(ع)،‌<ref>ملاحظہ کریں: متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص379،‌ حدیث 1650؛ سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص81، 85، 86؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص147؛ ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 1414ھ، ج9، ص163؛ سیوطی، احياء المیت بفضائل اہل البیت‌(ع)، 1421ھ، ص23، حدیث 23.</ref> [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا(س)]]،<ref>قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص124.</ref> امام حسن(ع)،<ref>قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص73 و 74.</ref> زید بن ارقم،<ref>ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌ التراث العربی، 1873؛ ترمذی، سنن‌الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478، 479؛ نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310، 437؛ دارمی، سنن‌الدارمی، 1421ھ، ج4، ص2090؛ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج32، ص10، 11؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160؛ بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج2، ص212، حدیث 2857.</ref> [[ابوذر غفاری]]،<ref>ملاحظہ کریں: ترمذی، سنن‌الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478؛ دارقطنی، المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج2، ص1046؛ سمہودی، جواہرالعقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص86؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص359.</ref> [[سلمان فارسی]]،<ref>قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص114.</ref> [[ابوسعید خدری|ابوسعید خُدْری]]،<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص211، 309، ج18، ص114؛ ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنہ، 1413ھ، ص629، 630؛ ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 1414ھ، ج9، ص163؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص146.</ref> [[ام‌ سلمہ|اُم‌ّ سَلَمہ]]،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص363؛ سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص88؛ قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص123، 124.</ref> جابر بن عبداللہ انصاری،‌<ref>ترمذی، سنن‌الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478؛ ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، 1420ھ، ج1، ص277، حدیث 65؛ متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص172، حدیث 870؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج3، ص66؛ طبرانی، المعجم الاوسط، 1415ھ، ج5، ص89.</ref> زید بن ثابت،<ref>ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج35، ص456؛ ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنہ، 1413ھ، ص629؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج5، ص154؛ متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص172، حدیث 872، ص186، حدیث 945 و 946؛ سیوطی، احياء المیت بفضائل اہل‌البیت‌(ع)، 1421ھ، ص9، 10، حدیث 7، ص42، حدیث 56؛ ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، 1419ھ، ج3، ص156.</ref> حُذَیفۃ بن اسید،<ref>ترمذی، سنن‌الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478؛ ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1407ھ، ج1، ص355؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج3، ص67، 180؛ سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص78، 79، 83.</ref> ابوہریرہ،<ref>ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 1414ھ، ج9، ص163؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص362؛ سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص87.</ref> [[جبیر بن مطعم|جُبَیْر بن مُطْعِم]]،<ref>قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص102.</ref> [[ابورافع|ابورافِع]]،<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص87؛ سخاوی، استجلاب ارتقاءالغرف، بیروت، ج1، ص360، 361.</ref> ضُمَیْرۃ الاسلَمی،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص351، 352.</ref> [[ام‌ ہانی دختر ابوطالب|اُم‌ّہانی دختر ابوطالب]]<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص88؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص363 و 364؛ قندوزی، ينابيع المودۃ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص123؛ شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج9، ص309-367.</ref> اور [[عمرو بن عاص سہمی|عَمْرو بن عاص]]<ref>ملاحظہ کریں: شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج5،‌ ص51.</ref> سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید محمدحسین حسینی طہرانی|علامہ تہرانی]] کہتے ہیں کہ اکثر احادیث کے مصادر میں حدیث ثقلین زید بن ارقم سے نقل ہوئی ہے اور اہل سنت میں سے اکثر نے بھی انھی سے نقل کیا ہے۔<ref>حسینی تہرانی، امام‌شناسی، 1426ھ، ج13، ص266.</ref>


[[سید هاشم بحرانی|سید هاشم بَحرانی]] نے [[غایة المرام و حجة الخصام (کتاب)|غایَةُالمَرام]] میں حدیث ثقلین کے مضمون سے مشابہ 82 حدیث کو مختلف شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے جن میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمة (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[الامالی (شیخ صدوق)|اَمالی صدوق]]، [[الامالی (شیخ مفید)|اَمالی مفید]]، [[الامالی (شیخ طوسی)|اَمالی طوسی]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عُیونُ اَخبارِ الرِّضا]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]]<ref>بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۲۰-۳۶۷.</ref> شامل ہیں جبکہ اہل سنت مآخذ میں 39 احادیث جمع آوری کی ہے<ref>بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۰۴-۳۲۰.</ref> جن میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ص۱۸۷۳.</ref> [[سنن ترمذی|سُنَن تِرْمِذی]]،<ref name=":5">ترمذی، سنن الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸، ۴۷۹.</ref> [[سنن نسائی]]،<ref name=":6">نسائی، السنن الکبری، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۳۱۰، ۴۳۷.</ref> [[سنن دارمی|سنن دارَمی]]،<ref name=":7">دارمی، سنن‌الدارمی، ۱۴۲۱ق، ج۴، ص۲۰۹۰.</ref> مُسند احمد بن حنبل،<ref name=":8">ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۱۷، ص۲۱۱، ۳۰۹، ج۱۸، ص۱۱۴، ج۳۲، ص۱۰، ۱۱، ج۳۵، ص۴۵۶.</ref> المُسْتَدرکُ عَلیَ الصَّحیحَین،<ref name=":9">حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۸، ۱۶۰.</ref> السُّنَنُ الکبری،<ref name=":10">بیهقی، السنن الکبری، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۲۱۲، حدیث ۲۸۵۷.</ref> [[مناقب امیرالمؤمنین (کتاب)|مَناقب خوارزمی]]،<ref name=":11">خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۱۵۵، حدیث ۱۸۲.</ref> المُعجَم الکبیر،<ref name=":12">طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۳،‌ ص۶۶، ۶۷، ۱۸۰، ج۵، ص۱۵۴، ۱۶۶، ۱۶۹، ۱۷۰، ۱۸۲، ۱۸۶.</ref> کتابُ‌السُّنة،<ref name=":13"> ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنه، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۹، ۶۳۰.</ref> مَجْمَع الزَّوائِد و مَنْبَع الفَوائِد،<ref name=":14">هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۱۶۳.</ref> [[فرائد السمطین (کتاب)|فَرائِدالسِّمْطَین]]،<ref name=":15">حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۶.</ref> [[جواهر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواهِرالعِقْدَین،]]<ref name=":16">سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۷۸، ۷۹، ۸۳ ، ۸۶-۸۸.</ref> جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)،<ref name=":17">ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۷۷، حدیث ۶۵.</ref> [[کنز العمال|کَنْزالعُمّال]]،<ref name=":18">متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۷۲، حدیث ۸۷۰، ص۱۸۶، حدیث ۹۴۵، ۹۴۶.</ref> [[حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء (کتاب)|حِلْیَة الاَولیاء و طبقات الاَصْفِیاء]]،<ref name=":19">ابونعیم اصفهانی، حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۵۵.</ref> المُؤْتَلف و المُخْتَلف،<ref>دارقطنی، المؤتلف و المختلف، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۱۰۴۶.</ref> اِسْتِجْلاب اِرْتَقاء الغُرَف،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۵۱، ۳۵۲، ۳۵۹، ۳۶۲، ۳۶۳.</ref> [[احیاء المیت بفضائل اهل البیت (کتاب)|اِحْیاء المَیّت بفضائل اهل البیت(ع)]]<ref>سیوطی، احياء المیت بفضائل اهل البیت‌(ع)، ۱۴۲۱ق، ص۹، ۱۰، ۲۳، ۴۲.</ref> و جامع المَسانید و السُّنَن.<ref>ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۹۸، ۱۵۶.</ref> شامل ہیں۔
[[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] نے [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُالمَرام]] میں حدیث ثقلین کے مضمون سے مشابہ 82 حدیث کو مختلف شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے جن میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[الامالی (شیخ صدوق)|اَمالی صدوق]]، [[الامالی (شیخ مفید)|اَمالی مفید]]، [[الامالی (شیخ طوسی)|اَمالی طوسی]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عُیونُ اَخبارِ الرِّضا]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]]<ref>بحرانی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، 1422ھ، ج2، ص320-367.</ref> شامل ہیں جبکہ اہل سنت مآخذ میں 39 احادیث جمع آوری کی ہے<ref>بحرانی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، 1422ھ، ج2، ص304-320.</ref> جن میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ص1873.</ref> [[سنن ترمذی|سُنَن تِرْمِذی]]،<ref name=":5">ترمذی، سنن الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478، 479.</ref> [[سنن نسائی]]،<ref name=":6">نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310، 437.</ref> [[سنن دارمی|سنن دارَمی]]،<ref name=":7">دارمی، سنن‌الدارمی، 1421ھ، ج4، ص2090.</ref> مُسند احمد بن حنبل،<ref name=":8">ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص211، 309، ج18، ص114، ج32، ص10، 11، ج35، ص456.</ref> المُسْتَدرکُ عَلیَ الصَّحیحَین،<ref name=":9">حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160.</ref> السُّنَنُ الکبری،<ref name=":10">بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج2، ص212، حدیث 2857.</ref> [[مناقب امیرالمؤمنین (کتاب)|مَناقب خوارزمی]]،<ref name=":11">خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص155، حدیث 182.</ref> المُعجَم الکبیر،<ref name=":12">طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج3،‌ ص66، 67، 180، ج5، ص154، 166، 169، 170، 182، 186.</ref> کتابُ‌السُّنۃ،<ref name=":13"> ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنہ، 1413ھ، ص629، 630.</ref> مَجْمَع الزَّوائِد و مَنْبَع الفَوائِد،<ref name=":14">ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 1414ھ، ج9، ص163.</ref> [[فرائد السمطین (کتاب)|فَرائِدالسِّمْطَین]]،<ref name=":15">حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص146.</ref> [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرالعِقْدَین،]]<ref name=":16">سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص78، 79، 83 ، 86-88.</ref> جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)،<ref name=":17">ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، 1420ھ، ج1، ص277، حدیث 65.</ref> [[کنز العمال|کَنْزالعُمّال]]،<ref name=":18">متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص172، حدیث 870، ص186، حدیث 945، 946.</ref> [[حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (کتاب)|حِلْیَۃ الاَولیاء و طبقات الاَصْفِیاء]]،<ref name=":19">ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1407ھ، ج1، ص355.</ref> المُؤْتَلف و المُخْتَلف،<ref>دارقطنی، المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج2، ص1046.</ref> اِسْتِجْلاب اِرْتَقاء الغُرَف،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص351، 352، 359، 362، 363.</ref> [[احیاء المیت بفضائل اہل البیت (کتاب)|اِحْیاء المَیّت بفضائل اہل البیت(ع)]]<ref>سیوطی، احياء المیت بفضائل اہل البیت‌(ع)، 1421ھ، ص9، 10، 23، 42.</ref> و جامع المَسانید و السُّنَن.<ref>ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، 1419ھ، ج3، ص98، 156.</ref> شامل ہیں۔


== حدیث صادر ہونے کا زمان و مکان==
== حدیث صادر ہونے کا زمان و مکان==
شیعہ عالم دین [[شیخ مفید]]<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۹-۱۸۰</ref> اور [[سید نورالله حسینی شوشتری|قاضی نورالله شوشتری]]،<ref>شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۰۹.</ref> کا کہنا ہے کہ حدیث ثقلین متعدد بار پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعه،‌ ۱۳۸۶ش، ص۲۳۲؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌۱۳۸۶ش،‌ ج۹، ص۶۲، ۷۷؛ شرف‌الدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref> [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف ایک مرتبہ روایات بیان کیا ہو اور مختلف راویوں نے مختلف عبارتوں میں اسے نقل کیا ہو؛ بلکہ روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور متعدد بھی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌۱۳۸۶ش،‌ ج۹، ص۶۲.</ref> [[سید نورالله حسینی شوشتری|قاضی نورالله شوشتری]] نے [[احقاق الحق و ازهاق الباطل (کتاب)|اِحقاق‌الحق]] میں کہا ہے کہ حدیث ثقلین پیغمبر اکرمؐ سے چار جگہوں پر نقل ہوئی ہے: [[روز عرفه]] اونٹ پر، [[مسجد خیف|مسجد خَیف]] میں، [[حجة الوداع|حَجَّةُالوداع]] کے دوران  [[خطبه غدیر]] میں اور روز رحلت منبر پر۔<ref>شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۰۹.</ref> [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] نے پانچ جگہوں کا نام لیا ہے: روز عرفه، [[غدیر خم|غدیر خم]]، [[طائف]] سے واپسی پر، [[مدینه]]  میں منبر پر اور بیماری کے دوران پیغمبر کے حجرے میں۔<ref>شرف‌الدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref>
شیعہ عالم دین [[شیخ مفید]]<ref>مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص179-180</ref> اور [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]]،<ref>شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج9، ص309.</ref> کا کہنا ہے کہ حدیث ثقلین متعدد بار پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی، ص232؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌1386شمسی،‌ ج9، ص62، 77؛ شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref> [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف ایک مرتبہ روایات بیان کیا ہو اور مختلف راویوں نے مختلف عبارتوں میں اسے نقل کیا ہو؛ بلکہ روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور متعدد بھی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌1386شمسی،‌ ج9، ص62.</ref> [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] نے [[احقاق الحق و ازہاق الباطل (کتاب)|اِحقاق‌الحق]] میں کہا ہے کہ حدیث ثقلین پیغمبر اکرمؐ سے چار جگہوں پر نقل ہوئی ہے: [[روز عرفہ]] اونٹ پر، [[مسجد خیف|مسجد خَیف]] میں، [[حجۃ الوداع|حَجَّۃُالوداع]] کے دوران  [[خطبہ غدیر]] میں اور روز رحلت منبر پر۔<ref>شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج9، ص309.</ref> [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] نے پانچ جگہوں کا نام لیا ہے: روز عرفہ، [[غدیر خم|غدیر خم]]، [[طائف]] سے واپسی پر، [[مدینہ]]  میں منبر پر اور بیماری کے دوران پیغمبر کے حجرے میں۔<ref>شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref>


اہل سنت عالم دین [[ابن‌حجر هیتمی]] لکھتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے لئے مختلف زمان اور مکان ذکر ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: حَجَّة‌الوداع، مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کی بیماری کے دوران، غدیر خم میں اور طائف سے واپسی پر خطبے میں۔ ان کظ مطابق ان اسناد اور زمان و مکان کے فرق ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے قرآن اور اہل بیت کی عظمت و منزلت کے پیش نظر مختلف جگہوں پر اس حدیث کو بیان کیا ہو۔<ref> ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۴۴۰.</ref>
اہل سنت عالم دین [[ابن‌حجر ہیتمی]] لکھتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے لئے مختلف زمان اور مکان ذکر ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: حَجَّۃ‌الوداع، مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کی بیماری کے دوران، غدیر خم میں اور طائف سے واپسی پر خطبے میں۔ ان کظ مطابق ان اسناد اور زمان و مکان کے فرق ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے قرآن اور اہل بیت کی عظمت و منزلت کے پیش نظر مختلف جگہوں پر اس حدیث کو بیان کیا ہو۔<ref> ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص440.</ref>


شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں حدیث ثقلین کے صدور کے لئے جو مختلف زمان و مکان نقل ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں حدیث ثقلین کے صدور کے لئے جو مختلف زمان و مکان نقل ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
*حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر؛<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج ۱، ص۲۳۴، ح۴۵، ص۲۳۸، حدیث ۵۵؛ ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنه، ۱۴۱۳ق، ص۶۳۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۸؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص۱۸۶؛ سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۸۶.</ref>
*حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر؛<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج 1، ص234، ح45، ص238، حدیث 55؛ ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنہ، 1413ھ، ص630؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج5، ص186؛ سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص86.</ref>
*حجۃ الوداع میں عرفه کے دن شتر پر؛<ref>ترمذی، سنن‌الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸؛ ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۷۷؛ طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۸۹؛ سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۷۷؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۳، ۶۵۴.</ref>
*حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن شتر پر؛<ref>ترمذی، سنن‌الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478؛ ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، 1420ھ، ج1، ص277؛ طبرانی، المعجم الاوسط، 1415ھ، ج5، ص89؛ سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص77؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653، 654.</ref>
*رحلت کے دن آخری خطبے میں؛<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲،‌ص۴۱۵؛ عیاشی، کتاب‌التفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۵، حدیث ۹.</ref>
*رحلت کے دن آخری خطبے میں؛<ref> کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2،‌ص415؛ عیاشی، کتاب‌التفسیر، 1380ھ، ج1، ص5، حدیث 9.</ref>
*[[منا|سرزمین منا]] میں؛ <ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳؛ قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱،‌ ص۱۷۲، ج۲، ص۴۴۷.</ref> یا در مسجد خیف، در آخرین روز از [[ایام تشریق]] در حجةالوداع؛<ref> قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳، ۱۷۳.</ref>
*[[منا|سرزمین منا]] میں؛ <ref>صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413؛ قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص172، ج2، ص447.</ref> یا در مسجد خیف، در آخرین روز از [[ایام تشریق]] در حجۃالوداع؛<ref> قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1، ص3، 173.</ref>
*جمعہ کے دن [[نماز]] کے بعد کسی خطبے میں؛<ref>عیاشی، کتاب‌التفسیر، ۱۳۸۰ش، ج۱، ص۴، حدیث ۳.</ref>
*جمعہ کے دن [[نماز]] کے بعد کسی خطبے میں؛<ref>عیاشی، کتاب‌التفسیر، 1380شمسی، ج1، ص4، حدیث 3.</ref>
*آخری [[نماز جماعت]] کے بعد کسی خطبے میں؛<ref>دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۰</ref>
*آخری [[نماز جماعت]] کے بعد کسی خطبے میں؛<ref>دیلمی، ارشاد القلوب، 1412ھ، ج2، ص340</ref>
*بیماری کے بستر پر جب اصحاب آپ کے گرد بیٹھے تھے؛<ref>ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۴۴۰؛ شرف‌الدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref>
*بیماری کے بستر پر جب اصحاب آپ کے گرد بیٹھے تھے؛<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص440؛ شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref>
*حالت [[احتضار]] میں.<ref>ابن‌حیون، دعائم‌الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۷، ۲۸.</ref>
*حالت [[احتضار]] میں.<ref>ابن‌حیون، دعائم‌الاسلام، 1385ھ، ج1، ص27، 28.</ref>


==عترت اور اہل بیت کے مصادیق==
==عترت اور اہل بیت کے مصادیق==
حدیث ثقلین کے اکثر نقل میں<ref>وشنوی، حدیث‌الثقلین، ۱۴۲۸ق، ص۴۱.</ref> میں لفظ "[[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]]" "عترت" کے ساتھ آیا ہے؛<ref>برای نمونه نگاه کنید به کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۴-۲۴۰؛ ترمذی، سنن‌الترمذی، ۱۴۱۹، ج۵،‌ ص۴۷۸، ۴۷۹؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۸.</ref> لیکن بعض روایات میں صرف لفظ "عترت" آیا ہے<ref> رجوع کریں: صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ش، ج۲، ص۶۲، حدیث ۲۵۹؛ ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۹۸؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۴.</ref> اور بعض روایات میں صرف لفظ "[[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]]"<ref> رجوع کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌ التراث العربی، ج۴،‌ ص۱۸۷۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۶۰؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، ج۲، ص۲۵۰، ۲۶۸.</ref> آیا ہے۔ بعض کتابوں میں عترتی کے بجائے علی بن ابی طالب اور ان کی عترت کا ذکر ہے۔<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱،‌ ص۶۶.</ref> بعض عبارتوں میں [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی سفارش دہرائی گئی ہے۔<ref> رجوع کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ج۴،‌ ص۱۸۷۳؛ ابن‌حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۲، ص۱۱؛ دارمی، سنن الدارمی، ۱۴۲۱ق، ج۴، ص۲۰۹۰ و ۲۰۹۱؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۲۵۰ و ۲۶۸.</ref>
حدیث ثقلین کے اکثر نقل میں<ref>وشنوی، حدیث‌الثقلین، 1428ھ، ص41.</ref> میں لفظ "[[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]]" "عترت" کے ساتھ آیا ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص234-240؛ ترمذی، سنن‌الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478، 479؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1411ھ، ج3، ص118.</ref> لیکن بعض روایات میں صرف لفظ "عترت" آیا ہے<ref> رجوع کریں: صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378شمسی، ج2، ص62، حدیث 259؛ ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، 1419ھ، ج3، ص98؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص144.</ref> اور بعض روایات میں صرف لفظ "[[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]]"<ref> رجوع کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌ التراث العربی، ج4،‌ ص1873؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1411ھ، ج3، ص160؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، ج2، ص250، 268.</ref> آیا ہے۔ بعض کتابوں میں عترتی کے بجائے علی بن ابی طالب اور ان کی عترت کا ذکر ہے۔<ref>صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1،‌ ص66.</ref> بعض عبارتوں میں [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی سفارش دہرائی گئی ہے۔<ref> رجوع کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ج4،‌ ص1873؛ ابن‌حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، 1421ھ، ج32، ص11؛ دارمی، سنن الدارمی، 1421ھ، ج4، ص2090 و 2091؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص250 و 268.</ref>


بعض مصادر میں عترت کا لفظ اہل بیت کے بغیر ذکر ہوا ہے، اور جب عترت کے بارے میں سوال ہوا تو اس کے جواب میں اہل بیتؑ ہی معرفی ہوئے ہیں۔<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۷؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۵.</ref> حدیث ثقلین کے بعض شیعہ نقل میں اہل بیتؑ کی توضیح میں شیعہ ائمہ ذکر ہوئے ہیں۔<ref>نگاه کنید به صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۵۷؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۷۹، حدیث ۲۵؛ خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص ۸۹، ۹۱، ۹۲، ۱۲۹، ۱۷۱.</ref> رسول اللہ سے مروی ایک حدیث میں اہل بیتؑ کے بارے میں سوال ہوا ہے کہ اہل بیتؑ کون ہیں؟ جواب میں آنحضرتؐ فرماتے ہیں: علیؑ، میرے دو نواسے اور حسینؑ کی نسل سے 9 فرزند جو امین امام اور معصوم ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ وہ میری اہل بیت اور عترت اور میرا گوشت اور خون ہیں۔<ref>نگاه کنید به خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص ۱۷۱، ۱۷۲؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۷۹؛ صدوق، معانی‌الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۹۱.</ref>
بعض مصادر میں عترت کا لفظ اہل بیت کے بغیر ذکر ہوا ہے، اور جب عترت کے بارے میں سوال ہوا تو اس کے جواب میں اہل بیتؑ ہی معرفی ہوئے ہیں۔<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص237؛ حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص145.</ref> حدیث ثقلین کے بعض شیعہ نقل میں اہل بیتؑ کی توضیح میں شیعہ ائمہ ذکر ہوئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص57؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص279، حدیث 25؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص 89، 91، 92، 129، 171.</ref> رسول اللہ سے مروی ایک حدیث میں اہل بیتؑ کے بارے میں سوال ہوا ہے کہ اہل بیتؑ کون ہیں؟ جواب میں آنحضرتؐ فرماتے ہیں: علیؑ، میرے دو نواسے اور حسینؑ کی نسل سے 9 فرزند جو امین امام اور معصوم ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ وہ میری اہل بیت اور عترت اور میرا گوشت اور خون ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص 171، 172؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص279؛ صدوق، معانی‌الاخبار، 1403ھ، ص91.</ref>


امام علیؑ بھی ایک حدیث میں حدیث ثقلین میں مذکور عترت کے مصادیق بیان کرتے ہوئے اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ اس سے مراد میں، [[امام حسن مجتبی علیه‌السلام|حسن]]، [[امام حسین علیه‌السلام|حسین]] اور حسینؑ کی نسل سے 9 فرزند جن میں آخری [[امام مهدی عجل الله تعالی فرجه|مهدی]] ہے۔<ref>صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۵۷؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۴۰ و ۲۴۱.</ref>  
امام علیؑ بھی ایک حدیث میں حدیث ثقلین میں مذکور عترت کے مصادیق بیان کرتے ہوئے اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ اس سے مراد میں، [[امام حسن مجتبی علیہ‌السلام|حسن]]، [[امام حسین علیہ‌السلام|حسین]] اور حسینؑ کی نسل سے 9 فرزند جن میں آخری [[امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ|مہدی]] ہے۔<ref>صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص57؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص240 و 241.</ref>  


شیعہ علما میں [[شیخ صدوق]]<ref>صدوق، معانی‌الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۹۳.</ref> اور [[شیخ مفید]]<ref>مفید، المسائل الجارودیه،‌ ۱۴۱۳ق، ص۴۲.</ref> جیسے علما نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ حدیث ثقلین میں عترت اور اہل بیت سے مراد شیعوں کے بارہ امام ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: معزی ملایری، جامع احادیث الشیعه، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۴۴؛ شرف‌الدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۹.</ref> [[سید حسین طباطبایی بروجردی|آیت‌الله بروجردی]] اپنی کتاب [[جامع احادیث الشیعه (کتاب)|جامع احادیث الشیعه]] کے مقدمے میں رقمطراز ہیں کہ شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ عترت اور اہل بیت وہ لوگ ہیں جو تمام شرعی علوم، دینی اسرار اور گفتار و کردار میں [[عصمت|گناہ سے پاک]] ہیں۔ یہ وہ شیعہ ائمہؑ ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعه، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۴۴.</ref>
شیعہ علما میں [[شیخ صدوق]]<ref>صدوق، معانی‌الاخبار، 1403ھ، ص93.</ref> اور [[شیخ مفید]]<ref>مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42.</ref> جیسے علما نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ حدیث ثقلین میں عترت اور اہل بیت سے مراد شیعوں کے بارہ امام ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص44؛ شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص79.</ref> [[سید حسین طباطبایی بروجردی|آیت‌اللہ بروجردی]] اپنی کتاب [[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں رقمطراز ہیں کہ شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ عترت اور اہل بیت وہ لوگ ہیں جو تمام شرعی علوم، دینی اسرار اور گفتار و کردار میں [[عصمت|گناہ سے پاک]] ہیں۔ یہ وہ شیعہ ائمہؑ ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص44.</ref>


===عترت کے مصادیق اہل سنت مآخذ میں===
===عترت کے مصادیق اہل سنت مآخذ میں===
عبدالرؤوف مناوی اپنی کتاب فیض‌القدیر میں اهل‌بیت کی وہی توضیح دی ہے جو عترت کی دی گئی ہے۔ اور اس سے مراد [[اصحاب کساء]] سمجھتے ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۱۴.</ref> [[ابن‌ابی‌الحدید|ابن‌ابی‌الحدید معتزلی]] [[شرح نهج البلاغه (ابن‌ابی‌الحدید)|شرح نهج‌البلاغه]] میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے حدیث ثقلین میں عترت سے مراد اہل بیتؑ بیان کیا ہے اور دوسری جگہ اصحاب کسا کو اپنی اہل بیتؑ معرف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «اللهم هؤلاءِ اهلُ بَیتی.»<ref>ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۳۷۵، ۳۷۶.</ref> [[حاکم حسکانی|حاکم حَسکانی]]، [[براء بن عازب|براء بن عازب انصاری]] سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی عترت کو [[امام علی علیه‌السلام|علی(ع)]]، [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|فاطمه(س)]]، [[امام حسن مجتبی علیه‌السلام|حسن(ع)]] و [[امام حسین علیه‌السلام|حسین(ع)]] ذکر کیا ہے۔<ref>حاکم حسکانی، شواهدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۶، ۲۷.</ref> سَمهودی کہتے ہیں کہ اہل بیتؑ میں سے علی بن ابی طالب وہ امام اور عالم ہیں جو پیروی کے لائق اور شائستہ ہیں۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۹۷.</ref> اہل سنت کے بعض مآخذ میں [[زید بن ارقم]] سے مروی ہے کہ پیغمبر کے اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ آل‌علی، آل‌عقیل، آل‌جعفر اور آل‌عباس ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۲، ص۱۱؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص۱۸۲-۱۸۴؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۳، ۶۵۴..</ref>
عبدالرؤوف مناوی اپنی کتاب فیض‌القدیر میں اہل‌بیت کی وہی توضیح دی ہے جو عترت کی دی گئی ہے۔ اور اس سے مراد [[اصحاب کساء]] سمجھتے ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص14.</ref> [[ابن‌ابی‌الحدید|ابن‌ابی‌الحدید معتزلی]] [[شرح نہج البلاغہ (ابن‌ابی‌الحدید)|شرح نہج‌البلاغہ]] میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے حدیث ثقلین میں عترت سے مراد اہل بیتؑ بیان کیا ہے اور دوسری جگہ اصحاب کسا کو اپنی اہل بیتؑ معرف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «اللہم هؤلاءِ اهلُ بَیتی.»<ref>ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج6، ص375، 376.</ref> [[حاکم حسکانی|حاکم حَسکانی]]، [[براء بن عازب|براء بن عازب انصاری]] سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی عترت کو [[امام علی علیہ‌السلام|علی(ع)]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|فاطمہ(س)]]، [[امام حسن مجتبی علیہ‌السلام|حسن(ع)]] و [[امام حسین علیہ‌السلام|حسین(ع)]] ذکر کیا ہے۔<ref>حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، 1411ھ، ج2، ص26، 27.</ref> سَمہودی کہتے ہیں کہ اہل بیتؑ میں سے علی بن ابی طالب وہ امام اور عالم ہیں جو پیروی کے لائق اور شائستہ ہیں۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص97.</ref> اہل سنت کے بعض مآخذ میں [[زید بن ارقم]] سے مروی ہے کہ پیغمبر کے اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ آل‌علی، آل‌عقیل، آل‌جعفر اور آل‌عباس ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج32، ص11؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج5، ص182-184؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653، 654..</ref>


لغت کی کتابوں میں عترت سے مراد نسل اور قریبی رشتہ،<ref>جوهری، الصحاح، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص ۷۳۵.</ref> اولاد اور ذریت<ref>ابن‌منظور، لسان‌العرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۵۳۸.</ref> یا مخصوص رشتہ دار<ref>ابن‌اثیر، النهایه، ۱۳۶۷ش، ج۳، ص۱۷۷.</ref> ہیں۔
لغت کی کتابوں میں عترت سے مراد نسل اور قریبی رشتہ،<ref>جوہری، الصحاح، 1407ھ، ج2، ص 735.</ref> اولاد اور ذریت<ref>ابن‌منظور، لسان‌العرب، 1414ھ، ج4، ص538.</ref> یا مخصوص رشتہ دار<ref>ابن‌اثیر، النہایہ، 1367شمسی، ج3، ص177.</ref> ہیں۔


== ثقلین کی وجہ تسمیہ ==
== ثقلین کی وجہ تسمیہ ==
اس حدیث میں ثقلین کا لفظ آنے کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوئی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۰.</ref> ثقلین کو «ثَقَلَیْن» اور «ثِقْلَیْن» دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں؛ پہلے کے معنی گرانبہا چیز اور دوسرے کے معنی زیادہ وزنی چیز کے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۶۲.</ref> قرآن اور اہل بیتؑ کو ثقلین نام دینے کے حوالے سے مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں۔ [[جامع احادیث الشیعه (کتاب)|جامع احادیث الشیعه]] کے مقدمے میں 9 وجوہات ذکر ہوئے ہیں<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعة، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۳۶-۴۱؛</ref> جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
اس حدیث میں ثقلین کا لفظ آنے کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوئی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص100.</ref> ثقلین کو «ثَقَلَیْن» اور «ثِقْلَیْن» دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں؛ پہلے کے معنی گرانبہا چیز اور دوسرے کے معنی زیادہ وزنی چیز کے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص62.</ref> قرآن اور اہل بیتؑ کو ثقلین نام دینے کے حوالے سے مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں۔ [[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں 9 وجوہات ذکر ہوئے ہیں<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعۃ، 1373شمسی، ج1، ص36-41؛</ref> جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
* ابوالعباس ثَعْلَب، تیسری صدی ہجری کے ادیب اور زبان‌ شناس سے ہونے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے چونکہ اہل بیتؑ اور قرآن کی پیروی کرنا سخت اور سنگین ہے اس لئے ثقلین نام دیا گیا ہے؛<ref>صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۹۰؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۶؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسه محمودی، ج۲، ص۱۴۵.</ref>کیونکہ یہ دونوں، انسان کو  بندگی، اخلاص، عدالت اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور فحشا اور منکرات نیز نفس امارہ اور شیطان کی پیروی سے منع کرتے ہیں۔<ref>احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، ۱۳۹۱ش، ص۸۹.</ref>
* ابوالعباس ثَعْلَب، تیسری صدی ہجری کے ادیب اور زبان‌ شناس سے ہونے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے چونکہ اہل بیتؑ اور قرآن کی پیروی کرنا سخت اور سنگین ہے اس لئے ثقلین نام دیا گیا ہے؛<ref>صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص90؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص236؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص145.</ref>کیونکہ یہ دونوں، انسان کو  بندگی، اخلاص، عدالت اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور فحشا اور منکرات نیز نفس امارہ اور شیطان کی پیروی سے منع کرتے ہیں۔<ref>احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، 1391شمسی، ص89.</ref>
* بعض کا کہنا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کو اس لئے ثقلین کہا گیا کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے حقوق پر عمل اور ان کی حرمت کی پاسداری کرنا سخت اور سنگین ہے۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۹۲؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۳.</ref>
* بعض کا کہنا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کو اس لئے ثقلین کہا گیا کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے حقوق پر عمل اور ان کی حرمت کی پاسداری کرنا سخت اور سنگین ہے۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653.</ref>
*اہل سنت علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کی منزلت اور مقام بیان کرنے کے لئے ثقلین کہا گیا ہے؛<ref> سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۹۲؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۳؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۴.</ref> کیونکہ ہر قیمت اور گراں بہا چیز کو ثقیل کہا جاتا ہے۔<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۴.</ref>
*اہل سنت علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کی منزلت اور مقام بیان کرنے کے لئے ثقلین کہا گیا ہے؛<ref> سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص364.</ref> کیونکہ ہر قیمت اور گراں بہا چیز کو ثقیل کہا جاتا ہے۔<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص364.</ref>
*از نظر عده‌ای همچون سَمهودی اور بعض دیگر علما کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ علوم دینی، شرعی احکام اور اسرار کے معدن ہیں اس لئے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں ثقلین کہا ہے۔ اسی سبب اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک کرنے اور ان سے سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۹۲؛ معزی ملایری، جامع احادیث الشیعه، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۳۶، ۳۷؛ احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، ۱۳۹۱ش، ص۸۷، ۸۸.</ref>
*از نظر عدہ‌ای ہمچون سَمہودی اور بعض دیگر علما کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ علوم دینی، شرعی احکام اور اسرار کے معدن ہیں اس لئے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں ثقلین کہا ہے۔ اسی سبب اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک کرنے اور ان سے سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص36، 37؛ احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، 1391شمسی، ص87، 88.</ref>


=== ثقل اکبر و ثقل اصغر ===
=== ثقل اکبر و ثقل اصغر ===
{{اصلی|ثقل اکبر|ثقل اصغر}}
{{اصلی|ثقل اکبر|ثقل اصغر}}
حدیث ثقلین کے بعض نقل میں قرآن کو [[ثقل اکبر]] اور اہل‌ بیت کو [[ثقل اصغر]] نام دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱،‌ ص۳؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق،‌ ص۴۱۴؛ عیاشی، التفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۴، ۵.</ref>
حدیث ثقلین کے بعض نقل میں قرآن کو [[ثقل اکبر]] اور اہل‌ بیت کو [[ثقل اصغر]] نام دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص3؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ،‌ ص414؛ عیاشی، التفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص4، 5.</ref>


ثقل اکبر یا ثقل اصغر کہنے کی مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں: [[ابن‌میثم بحرانی|ابن‌میثم بَحرانی]] کا کہنا ہے کہ قرآن ایک اصل ہے اس کی پیروی ہونی چاہئے اس لئے ثقل اکبر نام دیا گیا ہے۔<ref>بحرانی، شرح نهج البلاغه، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۳۰۳.</ref> [[حبیب‌اللہ خویی|مرزا حبیب‌اللہ خویی]] کا کہنا ہے کہ قرآن کی طرح اہل بیت کی بھی پیروی ہونی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ احتمال دے سکتے ہیں کہ قرآن چونکہ رسالت کا معجزہ اور دین کی بنیاد ہے اسے ثقل اکبر اور اہل بیت سے بڑا قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن چونکہ پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ بشمول تمام لوگوں پر حجت ہے لیکن اہل بیتؑ صرف امت پر حجت ہیں، لہذا قرآن کو ثقل اکبر اور اہل بیت کو ثقل اصغر کہا گیا ہے۔<ref>خویی، مِنهاجُ‌البَراعة، ۱۴۰۰ق، ج۶، ص۲۱۵، ۲۱۶.</ref> شیعہ عالم دین [[عبدالله جوادی آملی]] کہتے ہیں کہ اہل‌ بیتؑ ظاہری دنیا کی نظر میں اور معارف دینی کی تعلیم و تفہیم کے مدار میں ثقل اصغر ہیں؛ لیکن معنوی مقام اور عالَم باطن میں قرآن سے کمتر نہیں ہیں۔<ref>جوادی آملی، تفسیر تسنیم، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۷۶.</ref> [[سید روح‌الله موسوی خمینی|امام خمینی]] نے اپنے سیاسی الہی وصیت نامے میں اہل بیتؑ کو ثقل کبیر سے یاد کیا ہے کہ وہ ہر چیز سے بڑے ہیں سوائے ثقل اکبر کے کہ جو خود اکبر مطلق ہے۔<ref>خمینی، صحیفه امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۳۹۳.</ref>
ثقل اکبر یا ثقل اصغر کہنے کی مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں: [[ابن‌میثم بحرانی|ابن‌میثم بَحرانی]] کا کہنا ہے کہ قرآن ایک اصل ہے اس کی پیروی ہونی چاہئے اس لئے ثقل اکبر نام دیا گیا ہے۔<ref>بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج2، ص303.</ref> [[حبیب‌اللہ خویی|مرزا حبیب‌اللہ خویی]] کا کہنا ہے کہ قرآن کی طرح اہل بیت کی بھی پیروی ہونی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ احتمال دے سکتے ہیں کہ قرآن چونکہ رسالت کا معجزہ اور دین کی بنیاد ہے اسے ثقل اکبر اور اہل بیت سے بڑا قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن چونکہ پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ بشمول تمام لوگوں پر حجت ہے لیکن اہل بیتؑ صرف امت پر حجت ہیں، لہذا قرآن کو ثقل اکبر اور اہل بیت کو ثقل اصغر کہا گیا ہے۔<ref>خویی، مِنہاجُ‌البَراعۃ، 1400ھ، ج6، ص215، 216.</ref> شیعہ عالم دین [[عبداللہ جوادی آملی]] کہتے ہیں کہ اہل‌ بیتؑ ظاہری دنیا کی نظر میں اور معارف دینی کی تعلیم و تفہیم کے مدار میں ثقل اصغر ہیں؛ لیکن معنوی مقام اور عالَم باطن میں قرآن سے کمتر نہیں ہیں۔<ref>جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1385شمسی، ج1، ص76.</ref> [[سید روح‌اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] نے اپنے سیاسی الہی وصیت نامے میں اہل بیتؑ کو ثقل کبیر سے یاد کیا ہے کہ وہ ہر چیز سے بڑے ہیں سوائے ثقل اکبر کے کہ جو خود اکبر مطلق ہے۔<ref>خمینی، صحیفہ امام، 1389شمسی، ج21، ص393.</ref>


==امامت میں شیعہ عقائد کے اثبات کے لئے شیعہ علما کا استناد==
==امامت میں شیعہ عقائد کے اثبات کے لئے شیعہ علما کا استناد==
کلی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جو بھی صفت یا خصوصیت قرآن کے لئے ذکر ہوئی ہے حدیث ثقلین کی روشنی میں وہ اہل بیتؑ کے لئے بھی ثابت ہے۔ ان خصوصیات میں سے بعض مُبین ہونا، فرقان ہونا، نور ہونا،‌ حبل‌الله اور صراط مستقیم ہونا ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع)، مکتبةالثقلین، ص۱۶۰-۱۸۶.</ref>شیعہ علما نے جن عقائد کو ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
کلی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جو بھی صفت یا خصوصیت قرآن کے لئے ذکر ہوئی ہے حدیث ثقلین کی روشنی میں وہ اہل بیتؑ کے لئے بھی ثابت ہے۔ ان خصوصیات میں سے بعض مُبین ہونا، فرقان ہونا، نور ہونا،‌ حبل‌اللہ اور صراط مستقیم ہونا ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع)، مکتبۃالثقلین، ص160-186.</ref>شیعہ علما نے جن عقائد کو ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:


===شیعہ ائمہ کی امامت===
===شیعہ ائمہ کی امامت===
حدیث ثقلین کو شیعہ ائمہ کی امامت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المسائل الجارودیه،‌ ۱۴۱۳ق، ص۴۲؛ ابن‌عطیه، ابهی المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۱؛ مظفر، دلائل‌الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۱-۲۴۴.</ref> حدیث ثقلین کا امام علیؑ اور دیگر ائمہ کی امامت پر دلالت کرنے کے لئے درج ذیل دلائل ذکر ہوئے ہیں:
حدیث ثقلین کو شیعہ ائمہ کی امامت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42؛ ابن‌عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref> حدیث ثقلین کا امام علیؑ اور دیگر ائمہ کی امامت پر دلالت کرنے کے لئے درج ذیل دلائل ذکر ہوئے ہیں:
* قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی کے عدم امکان پر حدیث ثقلین تصریح کرتی ہے کیونکہ اہل بیتؑ قرآن کا علم رکھتے ہیں اور اپنے گفتار اور کردار میں اس کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ یہ بات اہل بیتؑ کی فضیلت اور برتری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو شخص برتر اور افضل ہونا امامت کرنے کے لئے شایستہ اور لائق بھی وہی ہوگا۔
* قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی کے عدم امکان پر حدیث ثقلین تصریح کرتی ہے کیونکہ اہل بیتؑ قرآن کا علم رکھتے ہیں اور اپنے گفتار اور کردار میں اس کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ یہ بات اہل بیتؑ کی فضیلت اور برتری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو شخص برتر اور افضل ہونا امامت کرنے کے لئے شایستہ اور لائق بھی وہی ہوگا۔
* حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔
* حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔
* بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔
* بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔
* حدیث میں آیا ہے کہ  جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیه، ابهی‌المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۱؛ مظفر، دلائل‌الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۱-۲۴۴.</ref>
* حدیث میں آیا ہے کہ  جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابن‌عطیه، ابهی‌المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۲.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص132.</ref>


===امامت کا دوام اور استمرار ===
===امامت کا دوام اور استمرار ===
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ قیامت تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں:
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ قیامت تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں:
* عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِهِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔
* عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِہِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔
* عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائل‌الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۶.</ref>
* عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص246.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>


=== اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا ===
=== اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا ===
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اس [[حدیث]] میں [[اہل بیتؑ]] کو [[قرآن کریم|قرآن]] کے برابر میں ذکر کیا ہے اور ان میں جدائی ناممکن ہے لہذا جس طرح سے مسلمانوں پر [[قرآن کریم|قرآن]] کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، [[اہل بیتؑ]] کی پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کی پیروی کرنے کے لئے کوئی شرط بیان نہیں کیا ہے اسی طرح ان کی پیروی بھی بغیر شرط کے تمام گفتار اور کردار میں واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلبی، الکافی فی الفقه، ۱۴۰۳ق، ص۹۷؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵.</ref>
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اس [[حدیث]] میں [[اہل بیتؑ]] کو [[قرآن کریم|قرآن]] کے برابر میں ذکر کیا ہے اور ان میں جدائی ناممکن ہے لہذا جس طرح سے مسلمانوں پر [[قرآن کریم|قرآن]] کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، [[اہل بیتؑ]] کی پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کی پیروی کرنے کے لئے کوئی شرط بیان نہیں کیا ہے اسی طرح ان کی پیروی بھی بغیر شرط کے تمام گفتار اور کردار میں واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص97؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>


=== عصمت اہل بیت ===
=== عصمت اہل بیت ===
شیعہ علما کہتے ہیں کہ [[حدیث]] میں واضح کیا گیا ہے کہ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیتؑ]] ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور جدائی ناپذیر ہے۔ اور یہ بات اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ کسی بھی قسم کا گناہ اور خطا کا ارتکاب اہل بیتؑ کو قرآن سے جدا ہونے کا باعث بنے گا۔<ref>نگاه کنید به مفید، المسائل الجارودیه،‌ ۱۴۱۳ق، ص۴۲؛ ابن‌عطیه، ابهی‌المداد،‌ ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۱؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۱؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵؛ سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵، ۱۰۶.</ref>
شیعہ علما کہتے ہیں کہ [[حدیث]] میں واضح کیا گیا ہے کہ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیتؑ]] ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور جدائی ناپذیر ہے۔ اور یہ بات اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ کسی بھی قسم کا گناہ اور خطا کا ارتکاب اہل بیتؑ کو قرآن سے جدا ہونے کا باعث بنے گا۔<ref>نگاہ کنید بہ مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42؛ ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد،‌ 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص671؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105، 106.</ref>
اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے اس حدیث میں تصریح کی ہے کہ جو بھی قرآن اور اہل بیتؑ سے متمسک ہوگا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر اہل بیتؑ معصوم نہ ہوتے تو ان کی بلاشرط پیروی کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>نگاه کنید به: ابن‌عطیه، ابهی المداد،‌ ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۱؛ بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۱؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۷۵؛ سبحانی، الإلهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۶.</ref>  
اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے اس حدیث میں تصریح کی ہے کہ جو بھی قرآن اور اہل بیتؑ سے متمسک ہوگا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر اہل بیتؑ معصوم نہ ہوتے تو ان کی بلاشرط پیروی کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>نگاہ کنید بہ: ابن‌عطیہ، ابہی المداد،‌ 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص671؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75؛ سبحانی، الإلہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106.</ref>  
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[ابوالصلاح حلبی]] کہتے ہیں کہ اہل بیتؑ کی مطلق اطاعت کا واجب ہونا ان کی عصمت کی دلیل ہے۔<ref>حلبی، الکافی فی الفقه، ۱۴۰۳ق، ص۹۷.</ref>
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[ابوالصلاح حلبی]] کہتے ہیں کہ اہل بیتؑ کی مطلق اطاعت کا واجب ہونا ان کی عصمت کی دلیل ہے۔<ref>حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص97.</ref>


حدیث ثقلین سے اہل بیت کی عصمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
حدیث ثقلین سے اہل بیت کی عصمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
* اگر کوئی شخص ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہو تو وہ گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ہے؛ کیونکہ قرآن ہر قسم کے خطا اور اشتباہ سے محفوظ ہے۔
* اگر کوئی شخص ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہو تو وہ گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ہے؛ کیونکہ قرآن ہر قسم کے خطا اور اشتباہ سے محفوظ ہے۔
* حدیث ثقلین کے مطابق اہل بیت ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔
* حدیث ثقلین کے مطابق اہل بیت ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔
* پس اہل بیتؑ قرآن کی طرح معصوم ہیں۔<ref>فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیه، ص۳۰۳.</ref>
* پس اہل بیتؑ قرآن کی طرح معصوم ہیں۔<ref>فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ، ص303.</ref>
سید علی حسینی میلانی کہتے ہیں کہ ابن حجر ہیتمی کی طرح اہل سنت کے بعض محققین نے بھی حدیث ثقلین کا اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت پر دلالت کرنے کو مان لیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حسینی میلانی، نفحات‌الازهار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۶۸، ۲۶۹.</ref>
سید علی حسینی میلانی کہتے ہیں کہ ابن حجر ہیتمی کی طرح اہل سنت کے بعض محققین نے بھی حدیث ثقلین کا اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت پر دلالت کرنے کو مان لیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حسینی میلانی، نفحات‌الازہار، 1414ھ، ج2، ص268، 269.</ref>


=== اہل بیت کی علمی مرجعیت ===
=== اہل بیت کی علمی مرجعیت ===
شیعہ علما کے مطابق حدیث ثقلین اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت بیان کرتی ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱، ۲۳۲؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹، ۲۰.</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے قرآن اور اہل بیتؑ سے تمسک کرنے کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ علمی مرجعیت صرف اہل بیتؑ ہی میں منحصر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱، ۲۳۲.</ref> اسی لئے اہل بیتؑ کے بیانات اور ان کی باتیں قرآن کی طرح مسلمانوں کے لئے حجت ہیں۔<ref>خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۲۰.</ref>
شیعہ علما کے مطابق حدیث ثقلین اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت بیان کرتی ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19، 20.</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے قرآن اور اہل بیتؑ سے تمسک کرنے کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ علمی مرجعیت صرف اہل بیتؑ ہی میں منحصر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232.</ref> اسی لئے اہل بیتؑ کے بیانات اور ان کی باتیں قرآن کی طرح مسلمانوں کے لئے حجت ہیں۔<ref>خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص20.</ref>


اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ ہر ایک الگ الگ مستقل اور معتبر حجت ہیں۔ اگر کسی ایک سے کوئی حکم کسی بھی مورد میں آئے، خواہ عقائد میں ہو یا احکام اور اخلاق میں، وہ حجت اور سند ہے۔<ref>واعظ‌زاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۲۰، ۲۱.</ref>
اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ ہر ایک الگ الگ مستقل اور معتبر حجت ہیں۔ اگر کسی ایک سے کوئی حکم کسی بھی مورد میں آئے، خواہ عقائد میں ہو یا احکام اور اخلاق میں، وہ حجت اور سند ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص20، 21.</ref>


حدیث کے بعض نسخوں میں حدیث کے آخر میں یہ جملہ آیا ہے: «فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُم‏؛ یعنی ان سے آگے مت بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاوگے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔»<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴؛ خزاز رازی،‌ کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۱۶۳؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص ۱۶۷؛ قندوزی، ينابيع الموده لذوی القربی، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۷۳، ۷۴.</ref>[[جامع احادیث الشیعه (کتاب)|جامع احادیث الشیعه]] کے مقدمے میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے اہل بیت کی علمی مرجعیت کے بارے میں حدیث ثقلین سے سات نکات اخذ کیا ہے:
حدیث کے بعض نسخوں میں حدیث کے آخر میں یہ جملہ آیا ہے: {{عربی|«فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُم‏}}؛ یعنی ان سے آگے مت بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاوگے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔»<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص163؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج5، ص 167؛ قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص73، 74.</ref>[[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے اہل بیت کی علمی مرجعیت کے بارے میں حدیث ثقلین سے سات نکات اخذ کیا ہے:
# گمراہی سے بچنے کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی عترت سے سیکھنا واجب ہے؛
# گمراہی سے بچنے کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی عترت سے سیکھنا واجب ہے؛
# اہل بیتؑ کے علمی احاطے کی وجہ سے رسول اللہؐ نے ان سے سیکھنے کا حکم دیا؛
# اہل بیتؑ کے علمی احاطے کی وجہ سے رسول اللہؐ نے ان سے سیکھنے کا حکم دیا؛
سطر 171: سطر 171:
# اہل بیتؑ کے علاوہ دوسرے احکام الہی کی تعلیم نہیں دے سکتے ہیں؛
# اہل بیتؑ کے علاوہ دوسرے احکام الہی کی تعلیم نہیں دے سکتے ہیں؛
# عترت کے اعلم ہونے کے ناطے ان کی بات رد کرنا حرام ہے؛
# عترت کے اعلم ہونے کے ناطے ان کی بات رد کرنا حرام ہے؛
# عترت پیغمبرؐ تمام دینی اور غیر دینی علوم میں باقیوں سے اعلم ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعه، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۸۲.</ref>
# عترت پیغمبرؐ تمام دینی اور غیر دینی علوم میں باقیوں سے اعلم ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص82.</ref>


شیعہ عالم دین [[سید کمال حیدری]] حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہوئے ائمہؑ کے علم کو لامحدود سمجھتے ہیں۔<ref>الحیدری، علم‌الامام، ۱۴۲۹ق، ص۱۱۰-۱۵۷.</ref>
شیعہ عالم دین [[سید کمال حیدری]] حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہوئے ائمہؑ کے علم کو لامحدود سمجھتے ہیں۔<ref>الحیدری، علم‌الامام، 1429ھ، ص110-157.</ref>




===اہل بیت کی برتری===
===اہل بیت کی برتری===
کہا گیا ہے کہ حدیث ثقلین سے اہل بیت کی دوسروں پر برتری ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف اہل بیتؑ کو قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔ اسی لئے جس طرح قرآن کریم مسلمانوں سے افضل ہے اسی طرح اہل بیت بھی دوسروں پر برتری رکھتے ہیں۔<ref>.ربانی گلپایگانی، «اهل‌بیت»، ص۵۵۶.</ref>
کہا گیا ہے کہ حدیث ثقلین سے اہل بیت کی دوسروں پر برتری ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف اہل بیتؑ کو قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔ اسی لئے جس طرح قرآن کریم مسلمانوں سے افضل ہے اسی طرح اہل بیت بھی دوسروں پر برتری رکھتے ہیں۔<ref>.ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص556.</ref>


=== ولایت اور رہبری ===
=== ولایت اور رہبری ===
[[جعفر سبحانی]] کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا کتاب اور اہل بیتؑ سے تمسک کی دعوت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اور رہبری صرف اہل بیتؑ سے خاص ہے۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱، ۲۳۲.</ref> حدیث ثقلین کے بعض نسخوں میں [[قرآن]] اور اهل‌ بیت کو ثقلین کے بجائے «خلیفتَین» (دو جانشین) کی تعبیر آئی ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۴۰؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۱۶ق، ج۳۵، ص۴۵۶، ۵۱۲؛ هیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج۹، ص۱۶۳؛ شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۷۵، ج۱۸، ص۲۷۹-۲۸۱.</ref> اس نقل کے مطابق اہل بیتؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں اور ان کی جانشینی ہر پہلو سے ہے جو سیاسی امور اور رہبری کو بھی شامل ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اهل‌بیت»، ص۵۶۲.</ref>اسی طرح اہل بیت کی پیروی کا بلاقید و شرط وجوب کو سیاسی قیادت اور رہبری کی دلیل قرار دیا ہے؛ کیونکہ پیروی کا واجب ہونا مسلمانوں کے زندگی سے مربوط تمام امور میں ہے خواہ وہ عبادی مسائل ہوں یا اقتصادی یا سیاسی اور سماجی۔ اس لئے معاشرے کے سیاسی اور حکومتی مسائل میں بھی ان کی پیروی واجب ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اهل‌بیت»، ص۵۶۱.</ref>
[[جعفر سبحانی]] کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا کتاب اور اہل بیتؑ سے تمسک کی دعوت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اور رہبری صرف اہل بیتؑ سے خاص ہے۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232.</ref> حدیث ثقلین کے بعض نسخوں میں [[قرآن]] اور اہل‌ بیت کو ثقلین کے بجائے «خلیفتَین» (دو جانشین) کی تعبیر آئی ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص240؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1416ھ، ج35، ص456، 512؛ ہیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج9، ص163؛ شوشتری، احقاق‌الحھ، 1409ھ، ج9، ص375، ج18، ص279-281.</ref> اس نقل کے مطابق اہل بیتؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں اور ان کی جانشینی ہر پہلو سے ہے جو سیاسی امور اور رہبری کو بھی شامل ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص562.</ref>اسی طرح اہل بیت کی پیروی کا بلاقید و شرط وجوب کو سیاسی قیادت اور رہبری کی دلیل قرار دیا ہے؛ کیونکہ پیروی کا واجب ہونا مسلمانوں کے زندگی سے مربوط تمام امور میں ہے خواہ وہ عبادی مسائل ہوں یا اقتصادی یا سیاسی اور سماجی۔ اس لئے معاشرے کے سیاسی اور حکومتی مسائل میں بھی ان کی پیروی واجب ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص561.</ref>


===قرآن و اهل‌بیت میں اختلاف نہ ہونا===
===قرآن و اہل‌بیت میں اختلاف نہ ہونا===
حدیث ثقلین سے اخذ شدہ کلامی نکات میں سے ایک یہ ہے کہ «لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض»، کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>واعظ‌زاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۲۲.</ref> [[محمد واعظ‌زاده خراسانی]] کہتے ہیں کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے آپس میں فرق اور اختلاف نہ ہونا اس وجہ سے ہے کہ امام کا علم پیغمبر اکرمؐ کے علم سے مستند ہے اور ان کا علم وحی الہی سے مربوط ہے اسی لئے ان دونوں کے مابین کوئی اختلاف یا فرق نہیں آتا ہے اور دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے موافق ہیں ہیں۔<ref>واعظ‌زاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۲۲.</ref>
حدیث ثقلین سے اخذ شدہ کلامی نکات میں سے ایک یہ ہے کہ «لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض»، کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص22.</ref> [[محمد واعظ‌زادہ خراسانی]] کہتے ہیں کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے آپس میں فرق اور اختلاف نہ ہونا اس وجہ سے ہے کہ امام کا علم پیغمبر اکرمؐ کے علم سے مستند ہے اور ان کا علم وحی الہی سے مربوط ہے اسی لئے ان دونوں کے مابین کوئی اختلاف یا فرق نہیں آتا ہے اور دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے موافق ہیں ہیں۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص22.</ref>


==قرآن میں تحریف نہ ہونے پر حدیث کی دلالت==
==قرآن میں تحریف نہ ہونے پر حدیث کی دلالت==
حدیث ثقلین اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہے کیونکہ رسول اللہؐ نے یہی فرمایا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ قیامت تک باقی ہیں اور جو بھی ان دونوں سے تمسک کرے گا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر قرآن تحریف سے محفوظ نہ ہوتا تو اس سے تمسک کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref>
حدیث ثقلین اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہے کیونکہ رسول اللہؐ نے یہی فرمایا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ قیامت تک باقی ہیں اور جو بھی ان دونوں سے تمسک کرے گا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر قرآن تحریف سے محفوظ نہ ہوتا تو اس سے تمسک کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج1، ص294.</ref>


==اہل‌ سنت کا نظریہ==
==اہل‌ سنت کا نظریہ==
اہل سنت علما نے بھی اس حدیث سے بعض نکات اخذ کئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
اہل سنت علما نے بھی اس حدیث سے بعض نکات اخذ کئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
نویں صدی ہجری کے شافعی محدث اور مفسر ابن‌حجر هیتمی اور شمس‌الدین سخاوی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں [[مودت اهل‌بیت(ع)|مودت اهل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان پر احسان اور ان کے واجب اور مستحب حقوق ادا کرنے کی تاکید ہوئی ہے؛ کیونکہ اہل بیتؑ حسب و نسب کے اعتبار سے روے زمین پر سب سے شریف لوگ ہیں۔<ref>ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۳؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج۱، ص۳۶۷.</ref>  
نویں صدی ہجری کے شافعی محدث اور مفسر ابن‌حجر ہیتمی اور شمس‌الدین سخاوی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں [[مودت اہل‌بیت(ع)|مودت اہل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان پر احسان اور ان کے واجب اور مستحب حقوق ادا کرنے کی تاکید ہوئی ہے؛ کیونکہ اہل بیتؑ حسب و نسب کے اعتبار سے روے زمین پر سب سے شریف لوگ ہیں۔<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص367.</ref>  


علی بن عبدالله سَمهودی کہتے ہیں کہ اس حدیث پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے تمسک کے لئے دی جانے والی ترغیب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قیامت تک قرآن کی طرح عترت پیغمبرؐ سے کوئی روے زمین پر ہے جس سے تمسک کرنا شایستہ ہے۔ اہل بیت اہل زمین پر امان دینے والے ہین اگر وہ نہ ہوں تو زمین نابود ہوجائے گی۔<ref>سمهودی، جواهر العقدين فی فضل الشرفين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۹۴.</ref>  
علی بن عبداللہ سَمہودی کہتے ہیں کہ اس حدیث پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے تمسک کے لئے دی جانے والی ترغیب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قیامت تک قرآن کی طرح عترت پیغمبرؐ سے کوئی روے زمین پر ہے جس سے تمسک کرنا شایستہ ہے۔ اہل بیت اہل زمین پر امان دینے والے ہین اگر وہ نہ ہوں تو زمین نابود ہوجائے گی۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص94.</ref>  


دسویں صدی ہجری کے شافعی عالم دین عبدالرؤوف مناوی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے امت کو یہ وصیت کی ہے کہ وہ قرآن اور اہل بیتؑ سے اچھا برتاؤ کرے اور ان کو سب پر فوقیت دے اور دین میں ان سے تمسک کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قیامت تک اہل بیتؑ میں سے کوئی ایسا شخص دنیا میں ہو جو تمسک اور پیروی کی صلاحت اور اہلیت رکھتا ہو۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۱۵.</ref>
دسویں صدی ہجری کے شافعی عالم دین عبدالرؤوف مناوی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے امت کو یہ وصیت کی ہے کہ وہ قرآن اور اہل بیتؑ سے اچھا برتاؤ کرے اور ان کو سب پر فوقیت دے اور دین میں ان سے تمسک کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قیامت تک اہل بیتؑ میں سے کوئی ایسا شخص دنیا میں ہو جو تمسک اور پیروی کی صلاحت اور اہلیت رکھتا ہو۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص15.</ref>


آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت اشعری مذہب کے متکلم سعد الدین تفتازانی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اہل بیتؑ باقیوں پر برتری رکھتے ہیں اور اس برتری کا معیار علم اور تقوی اور نسبی شرافت ہے۔ یہ بات اہل بیت کا قرآن کے ساتھ ذکر کرنے اور ان سے تمسک کرنا واجب ہونے سے معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ قرآن سے تمسک کرنا قرآن اور اہل بیت کے علم اور ہدایت پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔<ref>تفتازانی، شرح‌المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۰۲، ۳۰۳.</ref>  
آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت اشعری مذہب کے متکلم سعد الدین تفتازانی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اہل بیتؑ باقیوں پر برتری رکھتے ہیں اور اس برتری کا معیار علم اور تقوی اور نسبی شرافت ہے۔ یہ بات اہل بیت کا قرآن کے ساتھ ذکر کرنے اور ان سے تمسک کرنا واجب ہونے سے معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ قرآن سے تمسک کرنا قرآن اور اہل بیت کے علم اور ہدایت پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔<ref>تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج5، ص302، 303.</ref>  


نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبهان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>نگاه کنید به مظفر، دلائل‌الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۳۸، ۲۳۹.</ref>
نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبہان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص238، 239.</ref>


== مونوگراف==
== مونوگراف==
شیعہ علما نے حدیث ثقلین کو روایت کرنے کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
شیعہ علما نے حدیث ثقلین کو روایت کرنے کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف، قوام‌الدین محمد وشنوی قمی: اس کتاب میں حدیث کے مختلف اسناد کی تحقیق کی ہے اور حدیث کے مختلف نسخوں پائی جانے والی لفظی فرق کو بھی بیان کیا ہے۔<ref>صداقت ثمر حسینی، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/حدیث+ثقلین+و+پژوهش+قوام+الدین+محمد+وشنوی+درباره+آن حدیث ثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، کتابخانه الکترونیک شیعه.</ref>
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف، قوام‌الدین محمد وشنوی قمی: اس کتاب میں حدیث کے مختلف اسناد کی تحقیق کی ہے اور حدیث کے مختلف نسخوں پائی جانے والی لفظی فرق کو بھی بیان کیا ہے۔<ref>صداقت ثمر حسینی، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/حدیث+ثقلین+و+پژوهش+قوام+الدین+محمد+وشنوی+درباره+آن حدیث ثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، کتابخانہ الکترونیک شیعہ.</ref>
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف، نجم‌الدین عسکری: یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ایک جلد میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے۔
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف، نجم‌الدین عسکری: یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ایک جلد میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے۔
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف [[سید علی میلانی]]: یہ کتاب حدیث ثقلین کے بارے میں علی احمد السالوس کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاه لوح دانا.</ref>
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف [[سید علی میلانی]]: یہ کتاب حدیث ثقلین کے بارے میں علی احمد السالوس کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاہ لوح دانا.</ref>
* ''حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع):'' یہ کتاب بحرینی عالم دین احمد الماحوزی کی حدیث ثقلین پر کی جانے والی تقاریر پر مشتمل ہے جسے بحرین کے مدرہ اہل الذکر کے طلاب نے جمع آوری کی ہے۔<ref>جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت، مکتبةالثقلین، ص۳.</ref>
* ''حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع):'' یہ کتاب بحرینی عالم دین احمد الماحوزی کی حدیث ثقلین پر کی جانے والی تقاریر پر مشتمل ہے جسے بحرین کے مدرہ اہل الذکر کے طلاب نے جمع آوری کی ہے۔<ref>جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت، مکتبۃالثقلین، ص3.</ref>
* ''حدیث الثقلین؛ سنداً و دلالةً:'' [[سید کمال حیدری]] کی تقاریر کا مجموعہ ہے جسے اسعد حسین علی شمری نے تین فصلوں میں مرتب کیا ہے جو حدیث کی سند، دلالت اور اس سے مربوط سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالةً]»، وبگاه مؤسسه امام جواد(ع).</ref>
* ''حدیث الثقلین؛ سنداً و دلالۃً:'' [[سید کمال حیدری]] کی تقاریر کا مجموعہ ہے جسے اسعد حسین علی شمری نے تین فصلوں میں مرتب کیا ہے جو حدیث کی سند، دلالت اور اس سے مربوط سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالۃً]»، وبگاہ مؤسسہ امام جواد(ع).</ref>
* ''موسوعةُ حدیثِ الثَّقلین:'' مرکز ابحاث العقائد نے اس کتاب کو چار جلدوں میں چھاپ کیا ہے جس کی پہلی دو جلدوں میں حدیث ثقلین کے بارے میں پہلی صدی سے دسوی صدی ہجری تک لکھی جانے والی کتابوں اور دوسری دو جلدوں میں زیدی اور اسماعیلیہ کتابوں کا تذکر کیا ہے جو حدیث ثقلین کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
* ''موسوعۃُ حدیثِ الثَّقلین:'' مرکز ابحاث العقائد نے اس کتاب کو چار جلدوں میں چھاپ کیا ہے جس کی پہلی دو جلدوں میں حدیث ثقلین کے بارے میں پہلی صدی سے دسوی صدی ہجری تک لکھی جانے والی کتابوں اور دوسری دو جلدوں میں زیدی اور اسماعیلیہ کتابوں کا تذکر کیا ہے جو حدیث ثقلین کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
سطر 214: سطر 214:
== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*‌ ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن هبة‌الله، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم،‏ قم، مکتبة آیة‌الله المرعشی النجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ق.
*‌ ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ‌اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم،‏ قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
* ابن‌ابی‌عاصم، احمد بن عمرو، کتاب‌السُّنه، بیروت، المکتب الاسلامی، چاپ سوم، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
* ابن‌ابی‌عاصم، احمد بن عمرو، کتاب‌السُّنہ، بیروت، المکتب الاسلامی، چاپ سوم، 1413ق/1993ء۔
* ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، تحقیق عبدالقادر ارناووط، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۰ق.
* ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، تحقیق عبدالقادر ارناووط، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
* ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، النهایه فی غریب الحدیث و الاثر، قم، اسماعیلیان، چاپ چهارم، ۱۳۶۷ش.
* ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1367ہجری شمسی۔
* ابن‌جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن بن علی، العلل المتناهیة فی الاحادیث الواهیة، فیصل‌آباد پاکستان، ادارة العلوم الاثریة، چاپ دوم، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
* ابن‌جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن بن علی، العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ، فیصل‌آباد پاکستان، ادارۃ العلوم الاثریۃ، چاپ دوم، 1401ق/1981ء۔
*‌ ابن‌حجر هیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقه علی اهل الرفض و الضلال و الزندقه، بیروت، مؤسسةالرسالة، چاپ اول، ۱۴۱۷ق.
*‌ ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقہ، بیروت، مؤسسۃالرسالۃ، چاپ اول، 1417ھ۔
* ابن‌حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب ارناووط و عادل مرشد و دیگران، تحت اشراف عبدالله بن عبدالمحسن الترکی، بیروت، مؤسسةالرساله، چاپ اول، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م.
* ابن‌حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب ارناووط و عادل مرشد و دیگران، تحت اشراف عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، بیروت، مؤسسۃالرسالہ، چاپ اول، 1421ق/2001ء۔
*‌ ابن‌حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم‌الاسلام، تحقیق آصف فیضی، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ق.
*‌ ابن‌حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم‌الاسلام، تحقیق آصف فیضی، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ دوم، 1385ھ۔
* ابن‌عطیه، مقاتل، ابهی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمدجمیل حمود، بیروت، مؤسسةالاعلمی، چاپ اول، ۱۴۲۳ق/۲۰۰۲م.
* ابن‌عطیہ، مقاتل، ابہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمدجمیل حمود، بیروت، مؤسسۃالاعلمی، چاپ اول، 1423ق/2002ء۔
* ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، جامع المَسانيد و السُنَن الهادی لِاَقوم سَنَن، تحقیق عبدالملک بن عبدالله دهیش، بیروت، دارُاَخضر، ۱۴۱۹ق.
* ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، جامع المَسانيد و السُنَن الہادی لِاَقوم سَنَن، تحقیق عبدالملک بن عبداللہ دہیشمسی، بیروت، دارُاَخضر، 1419ھ۔
* ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، تحقیق جمال‌الدین میردامادی، بیروت، دارالفکر-دارصادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ق.
* ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، تحقیق جمال‌الدین میردامادی، بیروت، دارالفکر-دارصادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
* ابونعیم اصفهانی، احمد بن عبدالله، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ پنجم، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م.
* ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حليۃ الاولياء و طبقات الاصفياء، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ پنجم، 1407ق/1987ء۔
* احمدی میانجی، علی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، قم، دارالحدیث، ۱۳۹۱ش.
* احمدی میانجی، علی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، قم، دارالحدیث، 1391ہجری شمسی۔
* بحرانی، ابن‌میثم، شرح نهج‌البلاغه، تهران، دفتر نشر الکتاب، ۱۴۰۴ق.
* بحرانی، ابن‌میثم، شرح نہج‌البلاغہ، تہران، دفتر نشر الکتاب، 1404ھ۔
* بحرانی، سیدهاشم بن سلیمان، غایة المرام و حجة الخصام فی تعیین الامام من طریق الخاص و العام‏، بیروت، مؤسسة التأریخ العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
* بحرانی، سیدہاشم بن سلیمان، غایۃ المرام و حجۃ الخصام فی تعیین الامام من طریق الخاص و العام‏، بیروت، مؤسسۃ التأریخ العربی، چاپ اول، 1422ھ۔
* بحرانی، علی، منار الهدی فی النص علی امامة الائمة الاثنی‌عشر(ع‏)، بیروت، دارالمنتظر، ۱۴۰۵ق.
* بحرانی، علی، منار الہدی فی النص علی امامۃ الائمۃ الاثنی‌عشر(ع‏)، بیروت، دارالمنتظر، 1405ھ۔
* بیهقی، احمد بن حسین، ‏السنن الكبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیه، چاپ سوم، ۱۴۲۴ق/۲۰۰۳م.
* بیہقی، احمد بن حسین، ‏السنن الكبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ سوم، 1424ق/2003ء۔
* ترمذی، محمد بن عیسی، سنن‌الترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، قاهره، دارالحدیث، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۹م.
* ترمذی، محمد بن عیسی، سنن‌الترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، قاہرہ، دارالحدیث، 1419ق/1999ء۔
* تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق عبدالرحمن عمیرة، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق.
* تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق عبدالرحمن عمیرۃ، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1409ھ۔
* جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت(ع)؛ محاضرات سماحة الشیخ احمد الماحوزی، ماحوز، مکتبةالثقلین، بی‌تا.
* جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع)؛ محاضرات سماحۃ الشیخ احمد الماحوزی، ماحوز، مکتبۃالثقلین، بی‌تا.
*‌ جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، قم، مرکز نشر اسراء، ۱۳۸۵ش.
*‌ جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، مرکز نشر اسراء، 1385ہجری شمسی۔
* جوهری، ابونصر اسماعیل بن حماد، الصحاح؛ تاج اللغة و صحاح العربیة، بیروت، دار العلم للملایین،‌ چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.
* جوہری، ابونصر اسماعیل بن حماد، الصحاح؛ تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، بیروت، دار العلم للملایین،‌ چاپ چہارم، 1407ھ۔
* حاج منوچهری، فرامرز، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/223612 ثقلین، حدیث]»، در دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی،‌ ج۱۷، تهران، مرکز دایرة‌المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۸ش.
* حاج منوچہری، فرامرز، «[https://www.cgie.org.ir/fa/article/223612 ثقلین، حدیث]»، در دایرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی،‌ ج17، تہران، مرکز دایرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
* حاکم حسکانی، عبیدالله بن عبدالله، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل‏، تحقیق محمدباقر محمودی، تهران، وزرات فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
* حاکم حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل‏، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزرات فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411ھ۔
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
*‌ «[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاه لوح دانا، تاریخ بازدید: ۲۲ تیر ۱۴۰۲ش.
*‌ «[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاہ لوح دانا، تاریخ بازدید: 22 تیر 1402ہجری شمسی۔
* «[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالةً]»، وبگاه مؤسسه امام جواد(ع)،  تاریخ بازدید: ۲۲ تیر ۱۴۰۲ش.
* «[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالۃً]»، وبگاہ مؤسسہ امام جواد(ع)،  تاریخ بازدید: 22 تیر 1402ہجری شمسی۔
* حسینی تهرانی، سید محمدحسین، امام شناسی، مشهد، علامه طباطبایی، چاپ سوم، ۱۴۲۶ق.
* حسینی تہرانی، سید محمدحسین، امام شناسی، مشہد، علامہ طباطبایی، چاپ سوم، 1426ھ۔
* حسینی میلانی، سید علی، نفحات‌الاَزهار، قم، انتشارات مهر، چاپ اول، ۱۴۱۴ق.
* حسینی میلانی، سید علی، نفحات‌الاَزہار، قم، انتشارات مہر، چاپ اول، 1414ھ۔
* حلبی، ابوالصلاح تقی‌الدین، الکافی فی الفقه، تحقیق رضا استادی، اصفهان، مکتبة الامام امیرالمؤمنین(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۳ق.
* حلبی، ابوالصلاح تقی‌الدین، الکافی فی الفقہ، تحقیق رضا استادی، اصفہان، مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین(ع)، چاپ اول، 1403ھ۔
* حموی جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمة من ذریتهم(ع)، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسه محمودی، ۱۳۹۸ـ۱۴۰۰ق.
* حموی جوینی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمۃ من ذریتہم(ع)، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسہ محمودی، 1398ـ1400ھ۔
* حیدری، سید کمال، علم‌الامام؛ بحوث فی حقیقه و مراتب علم الائمة المعصومین، بقلم علی حمود العبادی، قم،‌ دارفراقد، ۱۴۲۹ق.
* حیدری، سید کمال، علم‌الامام؛ بحوث فی حقیقہ و مراتب علم الائمۃ المعصومین، بقلم علی حمود العبادی، قم،‌ دار فراقد، 1429ھ۔
* خرازی، سید محسن، بدایة المعارف الالهیة فی شرح عقائد الامامیة، قم،‌ مؤسسة النشر الاسلامی، چاپ چهارم، ۱۴۱۷ق.
* خرازی، سید محسن، بدایۃ المعارف الالہیۃ فی شرح عقائد الامامیۃ، قم،‌ مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ چہارم، 1417ھ۔
*‌ خمینی، سید روح‌الله، صحیفه امام، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، ۱۳۸۹ش.
*‌ خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
* خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق مالک محمودی، قم، موسسة النشر اسلامی، ۱۴۱۱ق.
* خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق مالک محمودی، قم، موسسۃ النشر اسلامی، 1411ھ۔
* خویی، میرزا حبیب‌الله، مِنْهاجُ البَراعه فی شَرْح نَهجُ البَلاغَة، تحقیق سید ابراهیم میانجی، تهران، مکتبةالاسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۰ق.
* خویی، میرزا حبیب‌اللہ، مِنْہاجُ البَراعہ فی شَرْح نَہجُ البَلاغَۃ، تحقیق سید ابراہیم میانجی، تہران، مکتبۃالاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1400ھ۔
* دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، تحقیق موفق بن عبدالله بن عبدالقادر، بیروت، دار المغرب الاسلامی ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
* دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، تحقیق موفق بن عبداللہ بن عبدالقادر، بیروت، دار المغرب الاسلامی 1406ھ/1986ء۔
* دارمی، عبدالله بن عبدالرحمن، سنن‌الدارمی (مسندالدارمی)، تحقیق حسین سلیم اسد دارانی، ریاض، دارالمغنی، چاپ اول، ۱۴۲۱ق.
* دارمی، عبداللہ بن عبدالرحمن، سنن‌الدارمی (مسندالدارمی)، تحقیق حسین سلیم اسد دارانی، ریاض، دارالمغنی، چاپ اول، 1421ھ۔
* دیلمی، حسن بن محمد، ارشادالقلوب، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
* دیلمی، حسن بن محمد، ارشادالقلوب، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1412ھ۔
* زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح المواهب اللدنیه، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، ۱۴۱۷ق.
* زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح المواہب اللدنیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1417ھ۔
* سبحانی، جعفر، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیة، چاپ سوم، ۱۴۱۲ق.
* سبحانی، جعفر، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، چاپ سوم، 1412ھ۔
* سبحانی، جعفر، سیماى عقاید شیعه‏، ترجمه جواد محدثى‏، تهران، نشر مشعر، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* سبحانی، جعفر، سیماى عقاید شیعہ‏، ترجمہ جواد محدثى‏، تہران، نشر مشعر، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
* سخاوی، شمس‌الدین محمد بن عبدالرحمن، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول و ذوی الشرف، تحقیق خالد بن احمد الصمی بابطين، بیروت، دارالبشائر الاسلامیه، بی‌تا.
* سخاوی، شمس‌الدین محمد بن عبدالرحمن، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول و ذوی الشرف، تحقیق خالد بن احمد الصمی بابطين، بیروت، دارالبشائر الاسلامیہ، بی‌تا.
* سمهودی، علی بن عبدالله، جواهر العقدین فی فضل الشرفین، تحقیق موسی بنای علیلی، بغداد، مطبعةالعانی، ۱۴۰۵ق.
* سمہودی، علی بن عبداللہ، جواہر العقدین فی فضل الشرفین، تحقیق موسی بنای علیلی، بغداد، مطبعۃالعانی، 1405ھ۔
* سیوطی، جلال‌الدین، احياء المیت بفضائل اهل‌البیت‌(ع)، تصحیح و پاورقی کاظم فتلاوی و محمدسعید طریحی، مقدمه و ترجمه احمد امامی، تهران، مجمع جهانی اهل‌بیت‌(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۰م.
* سیوطی، جلال‌الدین، احياء المیت بفضائل اہل‌البیت‌(ع)، تصحیح و پاورقی کاظم فتلاوی و محمدسعید طریحی، مقدمہ و ترجمہ احمد امامی، تہران، مجمع جہانی اہل‌بیت‌(ع)، چاپ اول، 1421ق/2000ء۔
* شرف‌الدین، سید عبدالحسین، المراجعات، قم، مجمع جهانی اهل‌بیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق.
* شرف‌الدین، سید عبدالحسین، المراجعات، قم، مجمع جہانی اہل‌بیت(ع)، چاپ دوم، 1426ھ۔
* شوشتری، قاضی نورالله، احقاق الحق و ازهاق الباطل، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق.
* شوشتری، قاضی نوراللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1409ھ۔
* صداقت ثمر حسینی، کامیار، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB+%D8%AB%D9%82%D9%84%DB%8C%D9%86+%D9%88+%D9%BE%DA%98%D9%88%D9%87%D8%B4+%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85+%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86+%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF+%D9%88%D8%B4%D9%86%D9%88%DB%8C+%D8%AF%D8%B1 حدیث الثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، مجله پژوهش‌نامه علوی، شماره دوم،‌ پاییز و زمستان ۱۳۹۰ش.
* صداقت ثمر حسینی، کامیار، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB+%D8%AB%D9%82%D9%84%DB%8C%D9%86+%D9%88+%D9%BE%DA%98%D9%88%D9%87%D8%B4+%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85+%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86+%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF+%D9%88%D8%B4%D9%86%D9%88%DB%8C+%D8%AF%D8%B1 حدیث الثقلین و پژوہش قوام الدین محمد وشنوی دربارہ آن]»، مجلہ پژوہش‌نامہ علوی، شمارہ دوم،‌ پاییز و زمستان 1390ہجری شمسی۔
* صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، ۱۳۷۸ش.
* صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ہجری شمسی۔
* صدوق، محمد بن علی، الامالی، تهران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ش،
* صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376شمسی،
* صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمه، تحقیق علی‌اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق.
* صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
*‌ صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، تحقیق محسن کوچه‌باغی تبریزی، قم، مکتبة آیةالله المرعشی النجفی،‌ چاپ دوم، ۱۴۰۴ق.
*‌ صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، تحقیق محسن کوچہ‌باغی تبریزی، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی،‌ چاپ دوم، 1404ھ۔
* طبرانی، سلیمان‌ بن‌ احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، قاهره، مکتبة ابن‌تیمیه، چاپ دوم، ۱۴۰۵ق.
* طبرانی، سلیمان‌ بن‌ احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، قاہرہ، مکتبۃ ابن‌تیمیہ، چاپ دوم، 1405ھ۔
* طبرانی، سلیمان بن‌ احمد، المعجم الاوسط، تحقیق طارق بن عوض‌الله و عبدالمحسن بن ابراهیم الحسینی، قاهره، دارالحرمين، ۱۴۱۵ق.
* طبرانی، سلیمان بن‌ احمد، المعجم الاوسط، تحقیق طارق بن عوض‌اللہ و عبدالمحسن بن ابراہیم الحسینی، قاہرہ، دارالحرمين، 1415ھ۔
* عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب‌التفسیر، تحقیق رسولی محلاتی، تهران، المطبعة العلمیه، چاپ اول، ۱۳۸۰ق.
* عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب‌التفسیر، تحقیق رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیہ، چاپ اول، 1380ھ۔
* قمی، علی بن ابراهیم، تفسیرالقمی، تحقیق موسوی جزائری، طیب، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق.
* قمی، علی بن ابراہیم، تفسیرالقمی، تحقیق موسوی جزائری، طیب، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
* قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، یَنابیع الموَدَّةِ لِذَوی القُربی، قم، دار الاسوه للطباعة و النشر، ۱۴۲۲ق.
* قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، یَنابیع الموَدَّۃِ لِذَوی القُربی، قم، دار الاسوہ للطباعۃ و النشر، 1422ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
* مازندرانی، محمدصالح، شرح‌الکافی (الاصول و الفروع)، تحقیق ابوالحسن شعرانی، تهران، المکتبة الاسلامیة، چاپ اول، ۱۳۸۲ق.
* مازندرانی، محمدصالح، شرح‌الکافی (الاصول و الفروع)، تحقیق ابوالحسن شعرانی، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، 1382ھ۔
* متقی هندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، تحقیق بکری حیانی و صفوة السقّا، بیروت، مؤسسةالرسالة، چاپ پنجم، ۱۴۰۱ق.
* متقی ہندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، تحقیق بکری حیانی و صفوۃ السقّا، بیروت، مؤسسۃالرسالۃ، چاپ پنجم، 1401ھ۔
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
* مسلم نیشابوری، مسلم بن‌ حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
* مسلم نیشابوری، مسلم بن‌ حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
* مظفر، محمدحسن، دلائل‌الصدق، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
* مظفر، محمدحسن، دلائل‌الصدھ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
* معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث الشیعة فی احکام الشریعة، تحت اشراف و نظارت سید حسین طباطبایی بروجردی، قم، نشر مؤلف، ۱۳۷۳ش/۱۴۱۵ق.
* معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، تحت اشراف و نظارت سید حسین طباطبایی بروجردی، قم، نشر مؤلف، 1373شمسی/1415ھ۔
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج اللّه علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
* مفید، محمد بن محمد، المسائل الجارودیه، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مفید، محمد بن محمد، المسائل الجارودیہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ نهم، ۱۳۸۶ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ نہم، 1386ہجری شمسی۔
* مناوی، محمد عبدالرؤوف، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، بیروت، دارالمعرفه، چاپ دوم، ۱۳۹۱ق/۱۹۷۲م.
* مناوی، محمد عبدالرؤوف، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، بیروت، دارالمعرفہ، چاپ دوم، 1391ھ/1972ء۔
* میر حامد حسین، عبقات الانوار فی اثبات امامة ائمة الاطهار(ع)، اصفهان، کتابخانه امیرالمؤمنین(ع)، چاپ دوم، ۱۳۶۶ش.
* میر حامد حسین، عبقات الانوار فی اثبات امامۃ ائمۃ الاطہار(ع)، اصفہان، کتابخانہ امیرالمؤمنین(ع)، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی۔
* نسائی، احمد بن شعیب، السنن الکبری، تحقیق حسن عبدالمنعم شلبی، بیروت، مؤسسةالرساله، چاپ اول، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م.
* نسائی، احمد بن شعیب، السنن الکبری، تحقیق حسن عبدالمنعم شلبی، بیروت، مؤسسۃالرسالہ، چاپ اول، 1421ھ/2001ء۔
*  نفیسی، شادی، «[https://rch.ac.ir/article/Details/10134 ثقلین، حدیث]»، در دانشنامه جهان اسلام، ج۹، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۴ش.
*  نفیسی، شادی، «[https://rch.ac.ir/article/Details/10134 ثقلین، حدیث]»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج9، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
* واعظ‌زاده خراسانی، محمد، «مقدمه»، در حدیث‌الثقلین، تألیف قوام‌الدین محمد وشنوی، تهران، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، ۱۴۲۸ق.
* واعظ‌زادہ خراسانی، محمد، «مقدمہ»، در حدیث‌الثقلین، تألیف قوام‌الدین محمد وشنوی، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، 1428ھ۔
* وشنوی، قوام‌الدین محمد، حدیث‌الثقلین، تهران، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، ۱۴۲۸ق
* وشنوی، قوام‌الدین محمد، حدیث‌الثقلین، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، 1428ھ۔
* هیثمی، علی بن‌ ابوبکر، کشف الاستار عن زوائد البزار، بیروت، مؤسسةالرساله، چاپ اول، ۱۳۹۹ق.
* ہیثمی، علی بن‌ ابوبکر، کشف الاستار عن زوائد البزار، بیروت، مؤسسۃالرسالہ، چاپ اول، 1399ھ۔
* هیثمی، علی بن‌ ابوبکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، تحقیق حسام‌الدین قدسی، قاهره، مکتبةالقدسی، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۴م.
* ہیثمی، علی بن‌ ابوبکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، تحقیق حسام‌الدین قدسی، قاہرہ، مکتبۃالقدسی، 1414ھ/1994ء۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم