"حدیث مدینۃ العلم" کے نسخوں کے درمیان فرق
←مشاہیر اہل سنت کے اقوال
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 87: | سطر 87: | ||
==مشاہیر اہل سنت کے اقوال== | ==مشاہیر اہل سنت کے اقوال== | ||
===گنجی شافعی=== | ===گنجی شافعی=== | ||
تمام [[اہل بیتؑ]]، [[صحابہ]] اور [[تابعین]] منجملہ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اللہ کے احکام کے سلسلے میں [[علیؑ]] کے ساتھ صلاح مشورے کئے ہیں اور آپؑ کی مرتبت، فضیلت، عظمت اور علمی برتری کا اعتراف کیا ہے۔ [[علیؑ]] کے علمی مقام کے سامنے یہ [[حدیث]] کچھ بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ آپؑ کی منزلت خداوند متعال اور [[رسول اکرم]]ؐ اور مؤمنین کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ ہے۔<ref>گنجی، ''کفایۃ الطالب، ص220، 222 و223۔</ref> | تمام [[اہل بیتؑ]]، [[صحابہ]] اور [[تابعین]] منجملہ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اللہ کے احکام کے سلسلے میں [[علیؑ]] کے ساتھ صلاح مشورے کئے ہیں اور آپؑ کی مرتبت، فضیلت، عظمت اور علمی برتری کا اعتراف کیا ہے۔ [[علیؑ]] کے علمی مقام کے سامنے یہ [[حدیث]] کچھ بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ آپؑ کی منزلت خداوند متعال اور [[رسول اکرم]]ؐ اور مؤمنین کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ ہے۔<ref>گنجی، ''کفایۃ الطالب، ص220، 222 و223۔</ref> | ||
===ابوسعید خلیل علائی=== | ===ابوسعید خلیل علائی=== | ||
اس [[حدیث]] کی نفی کے سلسلے دلیل کیا ہے؟! جن لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، وہ اس کی صحیح سندوں اور قطعی و یقینی شواہد کے مقابلے میں کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔<ref>سیوطی، اللئالى المصنوعۃ، ج1، ص155 و 333۔</ref> | اس [[حدیث]] کی نفی کے سلسلے دلیل کیا ہے؟! جن لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، وہ اس کی صحیح سندوں اور قطعی و یقینی شواہد کے مقابلے میں کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔<ref>سیوطی، اللئالى المصنوعۃ، ج1، ص155 و 333۔</ref> | ||
===ابن حجر عسقلانی=== | ===ابن حجر عسقلانی=== | ||
یہ حدیث متعدد اسناد سے نقل ہوئی ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس کو ضعیف قرار دیں۔این حدیث سندهای متعددی دارد و سزاوار نیست آن را تضعیف کنیم.<ref>ابن حجر عسقلانی، ج 2، ص 155۔</ref> | یہ حدیث متعدد اسناد سے نقل ہوئی ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس کو ضعیف قرار دیں۔این حدیث سندهای متعددی دارد و سزاوار نیست آن را تضعیف کنیم.<ref>ابن حجر عسقلانی، ج 2، ص 155۔</ref> | ||