مندرجات کا رخ کریں

"برہان علیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

22,786 بائٹ کا اضافہ ،  17 ستمبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(«==مآخذ== {{مآخذ}} * ادواردز، پل، خدا در فلسفه، ترجمه بهاء‌الدین خرمشاهی، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی. * جوادی آملی، عبدالله، تبیین براهین اثبات خدا، تنظیم و ویرایش حمید پارسانیا، قم، نشر اسرا، چاپ سوم، 1378ہ...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''برهان عِلّیّت''' کونیات یا علم الکائنات(cosmology) کی برہان شمار ہوتی ہے اسی طرح اثبات [[خدا]] کے سلسلے میں بھی سب سے قدیمی اور مشہور براہین میں سے ایک اہم برہان ہے۔ اس برہان کے مطابق کائنات خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ کسی علت کا معلول ہے لہذا اس کو وجود میں لانے والے ایک سبب کی ضرورت ہے؛ اور چونکہ علتوں اور اسباب میں تسلسل ناممکن ہے، اس لیے علل و اسباب کے مجموعہ میں سب سے اوپر ایک علت العلل یا علت اُولیٰ ہونا چاہیے جو خود کسی علت کا معلول نہ ہو بلکہ خود بغیر کسی علت کے وجود رکھتی ہو۔ یہ برہان اور استدلال "اصل علیت" کے اصول پر مبنی ہے اور اس کی مختلف تفسیریں پیش کی گئی ہیں۔
[[ناصر مکارم شیرازی|آیت اللہ مکارم شیرازی]] نے [[سورہ طور]] کی آیات 35 اور 36 اور [[حدیث من عرف نفسہ|حدیث "من عرف نفسہ"]] کو برہان علیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ [[شیعہ]] فلسفی [[عبداللہ جوادی آملی]] اثبات خدا کے سلسلے میں برہان علیت کو دیگر براہین سے مستقل اور الگ کوئی برہان نہیں سمجھتے۔ ان کے نقطہ نظر سے اس برہان کو اگرچہ مستقل تسلیم کیا جائے تب بھی [[واجب الوجود]] اور اس کے [[اسماء الحسنی|اسماء]] و صفات کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے براہین کی ضرورت اپنی جگہ قائم ہے۔
اس برہان پر بعض اعتراضات اور اشکالات بھی کیے گئے ہیں، جیسے؛ تسلسل کا باطل نہ ہونا، اصل علیت کا انکار اور اس کا ناقص ہونا وغیرہ۔ البتہ برہان علیت کے قائلین نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔
==اہمیت اور مقام==
برہان علیت (The Causal Argument) علم الکائنات کے ان براہین <ref>برہان علیت سے مراد علم الکائنات (Cosmological Arguments)کے وہ دلائل ہیں جو اس کائنات سے متعلق حقائق جیسے امکان، وقوع اور حرکت کے ذریعے خدا کو ثابت کرتے ہیں۔(ادواردز، خدا در فلسفه، ترجمه خرمشاهی، 1384ہجری شمسی، ص57.</ref> میں سے ہے جنہیں اثبات خدا کے استدلال میں بروئے کار لایے جاتے ہیں۔<ref>ادواردز، خدا در فلسفه، ترجمه خرمشاهی، 1384ہجری شمسی، ص57.</ref> یہ برہان [[اللہ تعالیٰ]] کے اثبات کے سلسلے میں سب سے قدیم اور مشہور براہین میں سے ہے<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص75و76.</ref> اسے سب سے پہلے ارسطو<ref>ملاحظہ کریں: فیروزجائی، «براهین اثبات خدا نزد ارسطو»، ص61و61.</ref> نے پیش کیا ہے اور اب تک خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص75و76.</ref>
بعض محققین کا خیال ہے کہ وہ تمام براہین جن میں خدا کے وجود کے اثبات کے سلسلے میں اصل علیت سے مدد لی جاتی ہے وہ برہان علیت کہلاتے ہیں۔<ref>حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص366.</ref>
بنابرایں، وہ تمام براہین جو تسلسل کے محال ہونے کو ثابت کرتے ہیں جیسے برہان اسد اخصر، برہان وسط و طرف، برہان ترتب و برہان تضایف؛ وہ اثبات وجود خدا میں کام آتے ہیں اور ان کا شمار براہین علیت میں ہوتا ہے؛ اگرچہ اکثر فلسفیوں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ان براہین سے استدلال نہیں کیا ہے۔<ref>حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص366و369، 370، 378، 390، 396، 420 و425؛ شاکرین، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، 1386ہجری شمسی، ص181.</ref>
==برہان کے اجزاء==
جن اجزاء سے برہان علیت تشکیل پاتی ہے، وہ درج ذیل ہیں:
* عالَم کائنات کسی علت کا معلول ہے.
* ہر معلول ہمیشہ ایک علت کا محتاج ہوا کرتا ہے۔
* علتوں میں تسلسل (سلسلہ علت و معلول کا بے نہایت درجہ تک جاری رہنا) ناممکن اور محال ہے۔
* پس کائنات کسی ایسی علت (علت العلل یا علت اُولیٰ) کا معلول ہے جو خود کسی کا معلول نہیں.<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص68؛ محمدرضایی، «برهان علیت از دیدگاه امام علی(ع)»، ص85.</ref>
کہا جاتا ہے کہ برہان علت و معلول کا بنیادی کام علت فاعلی کا اثبات ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص80.</ref>
===اصل علیت: برہان کی بنیاد===
برہان علیت کی بنیاد اور اساس اصل علیت ہے<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص76؛ حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص367.</ref> اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر معلول ہمیشہ ایک علت کا محتاج ہوتا ہے اور اس کا حتمی لازمہ یہ ہے کہ کوئی بھی معلول بغیر کسی علت کے وجود میں نہیں آسکتا۔<ref>مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص45.</ref> اس اصل اور قاعدے کا موضوع موجود معلول ہے نہ کہ بطور مطلق کوئی بھی موجود۔<ref>مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص46.</ref>
==برہان کی تفسیریں==
اسلامی اور غربی فلسفہ میں برہان علیت کی مختلف تشریحات اور تفسیریں بیان کی گئی ہیں<ref>ملاحظہ کریں: حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص370-430؛‌ هیک،‌ فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54 و55.</ref> یہاں ان دونوں کا ایک ایک نمونہ بیان کیا جاتا ہے۔
===علامہ طباطبائی کی تفسیر===
[[علامہ طباطبائی]] نے تسلسل کے بطلان پر ایک برہان پیش کیا ہے<ref>طباطبایی، نهایة الحکمة، 1386ہجری شمسی، ج3، ص648 و649.</ref> جسے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل تفسیر کے ساتھ ذکر کیا ہے:
# ہر معلول کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ علت پر منحصر ہوتا ہے اور اس کا تعلق علت سے برقرار رہتا ہے، جبکہ علت خود  مستقل اور معلول کو وجود بخشنے والی ہوتی ہے۔   
# اگر علت خود بھی کسی چیز کا معلول ہو اور وہ بھی کسی کا معلول ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی علت پر منحصر اور ان کا تعلق اس علت سےہوگا۔
#جو چیز کسی اور چیز پر منحصر ہوتی ہے ایک مستقل وجود کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔
# پس اگر علل کا سلسلہ بے نہایت حد تک جاری رہے اور کسی مستقل علت پر اختتام پذیر نہ ہو تو اس مجموعے کا کوئی بھی جزء وجود میں آہی نہیں سکتا۔
# بنابرایں، سلسلہ علل میں ایک مستقل علت کا ہونا ضروری ہے جو کسی اور علت کا محتاج نہ ہو۔<ref>فاطمه شاکرین و حمیدرضا شاکرین، «برهان علیت و شبهات فلسفه غرب»، ص10و11.</ref>
علامہ طباطبائی نے اس مطلب کی دوسری تفسیر یوں بیان کی ہے:
* کوئی بھی موجود ان تین حالتوں سے خارج نہیں ہے:
الف: وہ موجود علت ہوگا معلول نہیں؛
ب: یا معلول ہوگا، علت نہیں؛
ج: کسی چیز کا معلول ہوگا اور کسی دوسری چیز کے لیے علت کی حیثیت رکھتا ہوگا۔ 
* سلسلہ علل میں عقلی طور پر ضروری ہے کہ ایک ایسی علت پر یہ سلسلہ رک جانا چاہیے جو خود کسی کا معلول نہ ہو۔
* ایسی علت جو کسی اور کا معلول ہرگز نہیں وہ خدائے متعال کی ذات ہے۔<ref>طباطبایی، نهایة الحکمة، 1386ہجری شمسی، ج3، ص677و678.</ref>
===توماس ایکویناس کی تفسیر===
دنیائے غرب میں برہان علیت کی مشہور تفسیر توماس ایکویناس کی تفسیر ہے<ref>دیویس، در آمدی بر فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص128.</ref> جسے وہ اثبات [[خدا]] کے پانچ راستوں میں سے دوسرا راستہ قرار دیتا ہے۔<ref>هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص53؛ دیویس، در آمدی بر فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص129.</ref> ایکویناس کی جانب سے برہان علیت کے سلسلے میں پیش کردہ تفسیر کچھ اس طرح سے ہے:
ہر معلول کی ایک علت ہوا کرتی ہے۔ اس علت کی بھی ایک علت ہوتی ہے۔ اس طرح پورا ایک سلسلہ علل ہوتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ یہ سلسلہ کہیں جاکر رک جائے یا علت اُولیٰ(ایسی علت جو کسی دوسری چیز کا معلول نہ ہو) پر منتہی ہو۔ توماس ایکویناس لامتناہی سلسلہ علل کو عقلی طور پر محال اور ناممکن سمجھتا ہے اسی وجہ سے سلسلہ علل کے لیے ضروری سمجھتا ہےکہ وہ "علت اولیٰ" پر رک جانا چاہیے؛ ہم اسی علت اُولیٰ کو خدا کا نام دیتے ہیں۔<ref>هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54.</ref>
توماس ایکویناس کے کچھ معاصر پیروکاروں نے اس برہان کی ایک نئی تفسیر پیش کی ہے جس کے مطابق اس عالم مادہ(دنیا) کی معقول تبیین اور وضاحت "علت اُولیٰ" کے وجود پر مبنی ہے اور اس طرح کے وجود کے بغیر دنیا غیر معقول اور بے معنی ہوگی۔<ref>هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54و55.</ref>
==آیات و روایات اور برہان علیت==
بعض علما نے برہان علیت کو [[قرآن]] کی کچھ [[آیات]] اور [[معصومینؑ]] کی بعض [[روایات]] کے ساتھ موافق جانا ہے۔
===آیات===
معاصر [[شیعہ]] مفسر قرآن [[ناصر مکارم شیرازی]] کی نظر میں [[سورہ طور]] کی آیات 35 اور :36 {{قرآن کا متن|أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ‌ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ*أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ}}۔
برہان علیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص69-75.</ref> مکارم شیرازی کی نظر میں اس سورے کی آیت نمبر 35 انسان کی علت فاعلی<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص72.</ref> جبکہ آیت نمبر36 تخلیق عالم کائنات کی علت فاعلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص73.</ref>
===روایات===
آیت الله مکارم شیرازی کے مطابق حدیث [[حدیث من عرف نفسہ|«مَنْ‏ عَرَفَ‏ نَفْسَهُ‏ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ»]](ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا) کے ایک معنی اور تفسیر برہان علیت ہے؛ اس کی وضاحت یہ کہ جب انسان اپنی روح اور جسم کے بارے میں غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی علت کے معلول ہیں۔ ظاہری طور پر ماں باپ کو اس کی علت شمار کرتے ہیں لیکن وہ خود بھی کسی اور چیز کے معلول ہیں۔ علتوں کا یہ لامتناہی سلسلہ بے نہایت حد تک جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ عقلی لحاظ سے ایسا تسلسل باطل ہے۔ پس یہ تمام علتیں ایک علت العلل پر منتہی ہونا چاہیے اور وہ [[واجب الوجود]] ہے جو کسی علت کا معلول نہیں۔<ref>مکارم شیرازی، گفتار معصومین، 1388ہجری شمسی، ج2، ص102.</ref>
[[امام علیؑ]] کا یہ فرمان: «وَ کُلُّ قَائِمٍ فِی سِوَاهُ مَعْلُولٌ؛ [[اللہ تعالیٰ]] کے سوا ہر موجود کسی اور چیز کا معلول ہے»<ref>نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبه 186، ص272.</ref> بھی برہان علیت پر منطبق آتا ہے۔<ref>محمدرضایی، «برهان علیت از دیدگاه امام علی(ع)»، ص84و92.</ref>
==کیا برہان علیت خود ایک مستقل برہان ہے؟==
[[شیعہ]] فلاسفر [[عبد اللہ جوادی آملی]] کی نظر میں امکان، حدوث اور حرکت جیسے امور کو مد نظر رکھے بغیر صرف برہان علیت کو الگ سے ایک مستقل فلسفی برہان قرار نہیں دیا جاسکتا؛<ref>جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص46 و170و171.</ref>کیونکہ قانون علیت دوسرے قوانین اور برہانوں سے الگ کوئی قانون نہیں بلکہ اثبات خدا کے سلسلے میں پیش کیے جانے والے تمام دلائل کی بنیاد ہے اور ہر دلیل اور استدلال اسی برہان پر مبنی ہے۔<ref>جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص47 و 50 و170.</ref>جوادی آملی کے مطابق اثبات خدا کے سارے استدلالات کی تکمیل قانون علیت کے ایک سلبی حکم یعنی "بطلان دَور" اور "بطلان تسلسل" پر موقوف ہے۔<ref>جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص171.</ref> ان کے مقابلے میں بعض لوگ برہان علیت کو اثبات خدا کے دیگر براہین میں سے ایک الگ برہان کے طور پر شمار کرتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج3، ص75و76؛ حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص366-369؛ شاکرین، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، 1386ہجری شمسی، ص145.</ref> کیونکہ برہان علیت کے مقدمات (صغریٰ و کبریٰ) دیگر براہین کے مقدمات سے الگ تھلگ ہیں۔ برہان علیت میں امکان، [[واجب الوجود|وجوب]] اور اس جیسے مفاہیم سے استفادہ نہیں کیا جاتا ہے لہذا یہ ایک مستقل برہان کی حیثیت رکھتا ہے۔<ref>حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص367.</ref>
[[جوادی آملی|آیت الله جوادی آملی]] کا کہنا ہے کہ اگر ہم برہان علیت کو ایک الگ سے برہان فرض کرلیں تو اس سے صرف عالَم کائنات کے مبدأ اول کا اثبات ممکن ہے؛ جبکہ واجب الوجود اور اس کے اسماء و صفات کے اثبات کے لیے دوسرے براہین کے محتاج ہونگے۔<ref>جوادی آملی، تبیین براهین اثبات خدا، 1378ہجری شمسی، ص50.</ref>
==نقد و تبصرہ==
بعض علما کی جانب سے برہان علت و معلول پر اس طرح سے نقد کیا گیا ہے:
* '''عدم بطلان تسلسل''': اسکاٹ لینڈ کے مشہور فلسفی ڈیوڈ ہیوم اور جرمنی فلاسفی امانوئل کانٹ نے علل کے لامتناہی تسلسل کے باطل ہونے پر اعتراض کیا ہے۔<ref>گیسلر،‌ فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص258 - 261.</ref> بعض دیگر فلسفیوں نے برہان علیت کے بطلان تسلسل پر مبنی ہونے کو اس برہان کا نقص شمار کرتے ہوئے اس کی کمزوری سے تعبیر کی ہے۔<ref>هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص54.</ref>
جواب: تسلسل کے محال اور ناممکن ہونے کے بارے میں متعدد براہین پیش کیے جاتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ملاصدرا،‌ الحكمة المتعالية، 1981ء، ج2، ص141-169؛ طباطبایی، نهایة الحکمة، 1386ہجری شمسی، ج3، ص648-651.</ref> بعض علما جیسے [[محمد تقی مصباح یزدی]] نے سلسلہ علل کے باطل ہونے کو بدیہیات میں سے شمار کیا ہے جس کے بارے میں معمولی سا غور کرنے سے اس کا باطل ہونا واضح ہوجاتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1398ہجری شمسی، ص82و83.</ref>
* '''قانون علیت کا انکار''': ہیوم اور کانٹ قانون علیت کا بھی انکار کرتے ہیں۔<ref>گیسلر،‌ فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص258 - 261.</ref> بعض دیگر فلسفیوں نے اصل علیت کو سرے سے ہی مشکوک اور متنازعہ قانون قرار دیا ہے۔<ref>هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص55.</ref> اصل علیت پر سوالیہ نشان لگنے کی صورت میں اس سے استدلال کرنا کارآمد نہیں ہوسکتا۔<ref>هیک، فلسفه دین،‌ 1381ہجری شمسی، ص56.</ref>
جواب: اصل علیت ایسا قانون ہے جو کا شمار بدیہیات میں سے ہوتا ہے اور ہر قسم کی دلیل اور برہان کے محتاج ہوئے بغیر اس کا اثبات ہوجاتا ہے۔<ref>مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص45و46.</ref>[[آیت اللہ]] مصباح یزدی کے نقطہ نظر سے، اصل علیت ایک تجزیاتی قضیہ ہے جس کے محمول کا تصور (کسی علت کا محتاج ہونا) اس کے موضوع(معلول) کے تصور سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا، موضوع کا تصور ہی بتاتا ہے کہ یہ کسی علت کا محتاج ہے۔ اس لیے یہ بدیہیات اولیہ میں سے ہے، اور اس کی تصدیق کے لیے صرف موضوع اور محمول کا تصور کافی ہے۔<ref>مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص45.</ref>
* '''اصل علیت کا تناقض''':
جان ہوسپرس کا خیال ہے کہ علت العلل کا وجود ہی اصل علیت کے منافی ہے اور اس اصول کو توڑ دیتا ہے؛ کیونکہ یہ جملہ «خدا کسی علت کا معلول نہیں» اور یہ قانون «ہر چیز کی ایک علت ہوا کرتی ہے» آپس میں متصادم اور متناقض ہیں۔<ref>شاکرین، براهین اثبات وجود خدا در نقدی بر شبهات جان هاسپرز، 1386ہجری شمسی، ص191.</ref>
جواب: اصل علیت کے قانون کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہر موجود کو علت کی ضرورت ہے تاکہ کہا جائے کہ خدا پر بھی چونکہ لفظ "موجود" صدق آتا ہے لہذا خدا کے لیے بھی علت کی ضرورت ہے، یا خدا کے حوالے سے یہ قانون ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اصل علیت کا موضوع مطلقِ موجود نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے: موجودِ معلول کو ہمیشہ ایک علت کی ضرورت ہوتی ہے؛ نہ کہ مطلقِ موجود کو۔<ref>مصباح یزدی، آموزش فلسفه، 1390ہجری شمسی، ج2، ص46.</ref>
* '''علت اولیٰ کا متناہی ہونا''':
کچھ کا خیال ہے کہ اگر معلول متناہی ہو تو علت کا متناہی اور محدود ہونا سمجھ میں آتا ہے؛ لہذا علت اولیٰ بھی متناہی ہوگی لامتناہی نہیں ہوگی<ref>گیسلر،‌ فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص258 - 261.</ref>
جواب: چونکہ تمام متناہی موجودات معلول ہیں(اور انہیں علت کی ضرورت ہے) لہذا علت اُولیٰ ہرگز متناہی نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ علت اُولیٰ کے متناہی ہونے سے خود اس کے لیے علت کی ضرورت پڑے گی جس سے سلسلہ علل میں محالیت والا اشکال پیش آتا ہے۔<ref>گیسلر، فلسفه دین، 1391ہجری شمسی، ص292.</ref>
بعض فلسفہ دانوں نے اصل علیت پر کیے جانے والے اعتراضات اور اشکالات کا سبب اس کے درست اور صحیح ادراک نہ کرنا قرار دیا ہے جبکہ درست انداز میں اس کے بارے میں غور و فکر کیا جائے تو سارے اشکالات اور اعتراضات دور ہوسکتے ہیں۔<ref>حسین‌زاده، فلسفه دین، 1380ہجری شمسی، ص369.</ref>
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات2}}
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
confirmed، movedable
5,154

ترامیم