مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرب نوافل" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 22: سطر 22:
== نام‌==
== نام‌==
حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے [[معراج]] پر پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام استعمال کیا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۷.</ref>
حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے [[معراج]] پر پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام استعمال کیا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۷.</ref>
==حدیث کا مضمون==
حدیث قرب نوافل میں اللہ کے ولی کی توہین کو اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے حدیث قرب نوافل میں اپنے ولی کی مدد کرنے پر ہر چیز سے زیادہ تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو مومن موت سے ڈرتا ہے اس کی موت پر جتنی تردید کرتا ہوں کسی اور چیز پر نہیں؛ کیونکہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کو ناراض کرنا پسند نہیں۔ اسی طرح اس حدیث میں آیا ہے کہ بعض مومنین کی اصلاح فقر اور غربت سے ہوتی ہے جبکہ بعض کی مالداری اور توانگری سے، اگر ان کی دوسری کوئی حالت ہوجائے تو وہ نابود ہوتے ہیں۔
حدیث قرب نوافل میں واجبات کی انجام دہی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل اور تقرب الہی کا بہترین وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ نوافل (مستحبات) بھی تقرب کا وسیلہ قرار دئے گئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ جو بھی کسی نافلہ (مستحب) کے ذریعے میرا یعنی اللہ کا تقرب حاصل کرے تو میں اسے چاہتا ہوں اور اس کا کان، آنکھ اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سن سکے اور دیکھ سکے، اس کی بات سنتا ہوں اور جو چاہتا ہے اسے پورا کرتا ہوں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.</ref>
==تفسیر حدیث ==
===عرفا کا نظریہ===
مسلم عرفا نے اس حدیث کو بعض عرفانی مباحث کے لیے مستند قرار دیا ہے۔<ref>آذرخشی، «جایگاه حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت به آن»، ص۱۸.</ref> [[ابن عربی]] نے اس حدیث کے الفاظ سے ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہوئے اسے وحدت الوجود پر شاہد قرار دیا ہے۔<ref>ابن عربی، الفتوحات المکیه، دارصادر، ج۲، ص۳۲۲-۳۲۳؛ ابن ترکه، شرح فصوص الحکم، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۱۹.</ref>ان کے نظرئے کے مطابق اللہ تعالی مومن کی آنکھ اور کان بنے سے مراد انسان کا اللہ تعالی کی صفات میں فنا ہونا ہے۔<ref>قیصرى، شرح فصوص الحکم، ۱۳۷۵ش، ص۳۵۰ و ۳۵۱.</ref>
سید حیدر آملی نے اسے «فنا فی اللہ» اور محبوب اور حبیب کا ایک ہونے پر شاہد لیا ہے۔<ref>آملی، المقدمات من کتاب نص النصوص، ۱۳۵۲ش، ص۲۶۹</ref> عرفا کی نظر میں سیر و سلوک،  دو مرحلوں یعنی «قرب فرایض» و «قرب نوافل» میں انجام پاتا ہے۔ [[امام خمینی]]، قرب نوافل کو اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں فنا ہونے پر ناظر سمجھتا ہے اور قرب فرائض کو فنا کے بعد والی بقا پر تطبیق دیتا ہے۔<ref>مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنها بر مقامات عرفانی»، ص۱۱.</ref>
بعض عرفا قرب فرائض کو قرب نوافل سے مرتبے میں اعلی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں قرب فرائض کا نتیجہ اللہ کی ذات میں فنا ہونا ہے اور قرب نوافل کا نتیجہ صفات الہی میں فنا ہونے کا نام ہے۔ اسی طرح ان کے عقیدے کے مطابق قرب فرائض کے مرحلے میں انسان عروج تک پہنچتا ہے لیکن قرب نوافل کے مرحلے میں اللہ تعالی نزول کرتا ہے۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامه حسن زاده آملی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۴۵ تا ۳۴۸.</ref>
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
==مآخذ==
{{مآخذ}}
* ابن ترکہ، علی بن محمد، شرح فصوص الحکم، تحقیق محسن بیدارفر، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۲۰ھ/۱۳۷۸شمسی ہجری۔
* ابن عربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیہ، بیروت، دارصادر.
* آذرخشی، مصطفی و مجید معارف، [http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/944066 «جایگاہ حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت بہ آن»]، در پژوہش‌نامہ قرآن و حدیث، شمارہ ۷، تابستان و پاییز ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
* آملی، سید حیدر، المقدمات من کتاب نص النصوص، تہران، قسمت ایرانشناسی انستیتو ایران و فرانسہ پژوہشہای علمی در ایران، اول، ۱۳۵۲شمسی ہجری۔
* بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دارالفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م (افست از نسخہ دارالطباعۃ العامرۃ باستانبول).
* حر عاملی، محمد بن حسن، الفوائد الطوسیۃ، تصحیح مہدی لاجوردی، قم، المطبعۃ العلمیۃ، ۱۴۰۳ھ۔
* صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامہ حسن‌زادہ آملی، نبوغ، چاپ اول، ۱۳۷۹شمسی ہجری۔
* طبرانی، المعجم الاوسط، تحقیق قسم التحقیق بدار الحرمین، دارالحرمین للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء۔
* قیصرى، داود، شرح فصوص الحکم، تہران، شرکت انتشارات علمى و فرہنگى، چاپ اول، ۱۳۷۵شمسی ہجری۔
* غزالی، محمد بن محمد، احیاءالعلوم، بیروت، دارالکتاب العربی.
* کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، ترجمہ سید جواد مصطفوی، تہران، کتابفروشی علمیہ اسلامیہ، ۱۳۶۹شمسی ہجری۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
* مظفری، حسین، [https://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/1169565 «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»]، در مجلہ حکمت عرفانی، شمارہ ۱۰، بہار و تابستان ۱۳۹۵شمسی ہجری۔
* مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، تصحیح محمدباقر محمودی و ہمکاران، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء۔
*مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳شمسی ہجری۔
* موحدی، عبداللہ، [http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/61200 «نردبان عروج؛‌ گذری بر حدیث قرب نوافل»]، در مجلہ مطالعات عرفانی، شمارہ ۱، تابستان ۱۳۸۴شمسی ہجری۔
* موصلی، ابویعلی، مسند ابی یعلی، تحقیق حسن سلیم اسد، دارالمأمون للتراث، ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸ء۔
{{خاتمہ}}
{{پیغمبر اسلام}}
{{اخلاقی آیات اور احادیث}}


[[fa:حدیث قرب نوافل]]
[[fa:حدیث قرب نوافل]]
[[ar:حديث قرب النوافل]]
[[ar:حديث قرب النوافل]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم