مندرجات کا رخ کریں

"مصحف عثمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 62: سطر 62:


==انجام==
==انجام==
تاریخی منابع کے مطابق تمام مسلمان مصحف‌ عثمانی کو ایک خاص تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی نگہداری میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ لیکن ان تمام اقدامات اور ان سے مختلف نسخہ جات ننسیخ ہونے کے باوجود،<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> خود ان صحف کے انجام سے متعلق کوئی دفیق معلومات میسر نہیں ہیں۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> ان صحف کی وجہ سے جو تقدس اور احترام ان کے حامل [[مسجد|مساجد]] اور شہروں کو ملتی تھی، اسے پانے اور محفوظ رکھنے کیلئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> اس بنا پر پرانے زمانے سے اب تک مختلف نسخہ جات سے متعلق مصحف عثمانی ہونے کا دعوا کیا جاتا رہا ہے؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۸۔</ref> لیکن محققین ان تمام دعوؤں کو نادرست قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس وقت ان صحف کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۶۔</ref>  
تاریخی منابع کے مطابق تمام مسلمان مصحف‌ عثمانی کو ایک خاص تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی نگہداری میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ لیکن ان تمام تر اقدامات اور ان سے مختلف نسخہ جات تنسیخ ہونے کے باوجود،<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> خود ان صحف کے انجام سے متعلق کوئی دفیق معلومات میسر نہیں۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> ان صحف کی وجہ سے جو تقدس اور احترام ان کے حامل [[مسجد|مساجد]] اور شہروں کو ملتی تھی، اسے پانے اور محفوظ رکھنے کیلئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> اس بنا پر پرانے زمانے سے اب تک مختلف نسخہ جات سے متعلق مصحف عثمانی ہونے کا دعوا کیا جاتا رہا ہے؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۸۔</ref> لیکن محققین ان تمام دعوؤں کو نادرست قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس وقت ان صحف کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۶۔</ref>  


مثلا تاشکند سمرقند میں موجود قرآن کا ایک نسخہ جو مصحف عثمانی کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ خود [[عثمان]] یہاں موجود تھا اور جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو یہ اس کی تلاوت کر رہے تھے اسی بنا پر اس پر عثمان کے خون کے چھینٹیں پڑی ہیں جس کے آثار اب بھی باقی ہیں؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۶و۴۶۷۔</ref> لیکن [[محمود رامیار]] کے مطابق یہ ادعا درست نہیں کیونکہ مصحف عثمانی کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ یہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے جبکہ مذکورہ نسخے میں اعراب اور نقطے پائے جاتے ہیں اس بنا پر یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ اس نسخے کی قدمت عثمان کے زمانے تک نہیں پہنچتی۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۷۔</ref> اسی طرح [[استانبول]] کے ایک موزیم میں موجود قرآنی نسخے سے متعلق بھی مصحف عثمانی ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے؛ لیکن اس میں بھی وہی اشکال موجود ہے جو پہلے والے نسخے میں بیان کیا پس اس بنا پر یہ ادعا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔<ref>نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰۔</ref>
مثلا تاشقند سمرقند میں موجود قرآن کا ایک نسخہ مصحف عثمانی کے نام سے معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن خود [[عثمان]] کے یہاں موجود تھا اور جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے اسی لئے اس پر عثمان کے خون کے آثار باقی ہیں؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۶و۴۶۷۔</ref> لیکن [[محمود رامیار]] کے مطابق یہ ادعا درست نہیں کیونکہ مصحف عثمانی کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ یہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے جبکہ مذکورہ نسخے میں اعراب اور نقطے پائے جاتے ہیں اس بنا پر یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ اس نسخے کی قدمت عثمان کے زمانے تک نہیں پہنچتی ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۷۔</ref> اسی طرح [[استانبول]] کے ایک موزیم میں موجود قرآنی نسخے سے متعلق بھی مصحف عثمانی ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے؛ لیکن اس میں بھی وہی اشکال موجود ہے جو پہلے والے نسخے میں بیان کیا پس اس بنا پر یہ ادعا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔<ref> حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰۔</ref>


==قرآنی نسخوں کی تنسیخ==
==قرآنی نسخوں کی تنسیخ==
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم