"مسجد نبوی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←تاریخچہ) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 34: | سطر 34: | ||
[[سنہ 17 ہجری قمری|سنہ 17 ہجری]] میں مسجد نبوی کے اطراف میں موجود مکانات کو بھی مسجد میں شامل کر کر قبلے کی طرف سے تقریبا 5 میٹر، مغرب کی جانب سے 10 میٹر اور شمال کی جانب سے 15 میٹر توسیع دی گئی۔<ref>سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج ۲، ص ۶۷-۶۸؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۵، ۲۰۶.</ref> اسی طرح [[سنہ 29 ہجری قمری|سنہ 29 ہجری]] میں [[عثمان بن عفان|خلیفہ سوم]] نے دوبارہ بعض مکانات کو ان کے مالکین کی مخالفت کے باوجود تخریب کر کے مسجد نبوی میں مزید 496 میٹر اضافہ کر دیا۔ اس دفعہ انہوں نے مسجد نبوی کی تعمیر میں تزیین شدہ پتھروں کا استعمال کیا گیا جبکہ مسجد کی چھت کو بھی ٹیک کی لکڑی سے مزین کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے اگلے حصے میں امام جماعت کے کھڑے ہونے کیلئے محراب بنایا بھی بنایا گیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص ۲۰۶.</ref> | [[سنہ 17 ہجری قمری|سنہ 17 ہجری]] میں مسجد نبوی کے اطراف میں موجود مکانات کو بھی مسجد میں شامل کر کر قبلے کی طرف سے تقریبا 5 میٹر، مغرب کی جانب سے 10 میٹر اور شمال کی جانب سے 15 میٹر توسیع دی گئی۔<ref>سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج ۲، ص ۶۷-۶۸؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۵، ۲۰۶.</ref> اسی طرح [[سنہ 29 ہجری قمری|سنہ 29 ہجری]] میں [[عثمان بن عفان|خلیفہ سوم]] نے دوبارہ بعض مکانات کو ان کے مالکین کی مخالفت کے باوجود تخریب کر کے مسجد نبوی میں مزید 496 میٹر اضافہ کر دیا۔ اس دفعہ انہوں نے مسجد نبوی کی تعمیر میں تزیین شدہ پتھروں کا استعمال کیا گیا جبکہ مسجد کی چھت کو بھی ٹیک کی لکڑی سے مزین کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے اگلے حصے میں امام جماعت کے کھڑے ہونے کیلئے محراب بنایا بھی بنایا گیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص ۲۰۶.</ref> | ||
===بنی امیہ کا دور=== | ===بنی امیہ کا دور=== | ||
[[عمر بن | [[عمر بن عبد العزیز]] جب مدینہ کا گورنر بنا تو انہوں نے سنہ 88 سے 91 ہجری تک مسجد کی تعمیر و توسیع کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا یہاں تک کہ ایک قول کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسجد کو 7500 مربع میٹر تک وسعت دیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> انہوں نے خلیفہ وقت [[ولید بن عبدالملک]] کے حکم سے روضہ پیغمبر اکرمؐ کے اردگرد دیوار بنائی اور حجرہ پیغمبر کو بھی مسجد میں شامل کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے خلیفہ وقت کے حکم سے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]] کے گھر کو بھی جو اس وقت [[امام حسینؑ]] کی بیٹی اور [[حسن بن حسن بن علی]] کی زوجہ [[فاطمہ بنت امام حسین|فاطمہ صغری]] کی ملکیت میں تھی کو بھی مسجد میں شامل کر دیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> بعض مورخین کا خیال ہے کہ ولید کے اس کام سے کا اصلی مقصد حسن بن حسن کی ملیکت سے حضرت زہرا(س) کے گھر کو چھینا اور اسے مسجد نبوی سے دور کرنا تھا اسی وجہ سے لوگ سالوں سال تک اس حصے کو غصبی سمجھ کر اس میں نماز پڑھنے سے پرہیز کرتے تھے۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> اس عرصے کی خاص بات رومی ماہرین کے توسط سے مسجد کی عمارت کا استحکام اور تزیین تھی۔<ref name=":0">جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.</ref> ولید نے مسجد نبوی کی تعمیر میں قیصر روم سے مدد طلب کیا تو انہوں نے ایک لاکھ مثقال سونے کا عطیہ دینے کے علاوہ ایک سو ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی۔<ref name=":0">جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.</ref> | ||
=== | ===بنی عباس کا دور===<!-- | ||
[[مهدی عباسی]]، در سال ۱۶۱ یا ۱۶۲، ۲۴۵۰ متر بر مسجد افزود، شمار ستونهای مسجد را بیشتر کرد و بر تعداد درهای آن افزود. در این زمان مسجد بیست در داشت؛ چهار درِ شمالی، هشت درِ غربی و هشت درِ شرقی. در این بازسازی شمار زیادی از خانههای اطراف مسجد که هر کدام به نام [[صحابه]] ساکن در آنها شهرت داشت، تخریب و به مسجد افزوده شد؛ از جمله آنها خانه [[عبدالله بن مسعود]]، شُرَحْبیل بن حَسنة و مِسْور بن مَخْرمه بود.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹.</ref> | [[مهدی عباسی]]، در سال ۱۶۱ یا ۱۶۲، ۲۴۵۰ متر بر مسجد افزود، شمار ستونهای مسجد را بیشتر کرد و بر تعداد درهای آن افزود. در این زمان مسجد بیست در داشت؛ چهار درِ شمالی، هشت درِ غربی و هشت درِ شرقی. در این بازسازی شمار زیادی از خانههای اطراف مسجد که هر کدام به نام [[صحابه]] ساکن در آنها شهرت داشت، تخریب و به مسجد افزوده شد؛ از جمله آنها خانه [[عبدالله بن مسعود]]، شُرَحْبیل بن حَسنة و مِسْور بن مَخْرمه بود.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹.</ref> | ||