مندرجات کا رخ کریں

"مسجد نبوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 29: سطر 29:
==تاریخچہ==
==تاریخچہ==
===عصر نبوی===
===عصر نبوی===
جس وقت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] [[یثرب]] میں داخل ہوئے تو آپ کی سواری کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاں آپ کی سواری رکے گی وہ جگہ آپؐ کا محل سکونت ہوگا، یوں جہاں آپؐ کی سواری رکی اسی جگہ مسجد اور آپ کیلئے قیام گاہ تعمیر کی گئی اس کے بعد رفتہ رفتہ دوسرے مسلمانوں نے بھی مسجد کے اطراف میں اپنے لئے گھر بنانا شروع کیا اور ان تمام گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔<ref>ابن زبالہ، اخبار المدینہ، ۲۰۰۳م، ص۷۴؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۲.</ref> مسجد نبوی کو 1050 مربع فٹ مساحت پر لکڑی اور مٹی سے بنائی گئی۔ مسجد نبوی کے شمالی حصہ پر جہاں [[اصحاب صفہ]] قیام کرتے تھے، کھجور کی ٹہنیوں سے چھت بنائی گئی تھی۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۳-۲۰۴.</ref> [[مسجد الاقصی|مسجدالاقصی]] سے [[قبلہ]] کی [[مسجدالحرام]] کی طرف منتقلی کی وجہ سے مسجد کے جنوب میں واقع دروازے کو بند کر کے اسے شمالی حصے میں منتقل کیا گیا جس کے ساتھ شمالی حصے میں موجود اصحاب صفہ کا مقام بھی مسجد کے جنوب میں منتقل کیا گیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۴.</ref> [[سنہ 7 ہجری قمری|سنہ 7 ہجری]] کو مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے مسجد نبوی کو توسیع دے کر اس کی مساحت کو 2475 مربع فٹ تک پہچایا گیا۔<ref>نجفی، مدینه‌شناسی، ۱۳۶۴ش، ص۳۵؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۴.</ref>
جس وقت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] [[یثرب]] میں داخل ہوئے تو آپ کی سواری کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاں آپ کی سواری رکے گی وہ جگہ آپؐ کا محل سکونت ہوگا، یوں جہاں آپؐ کی سواری رکی اسی جگہ مسجد اور آپ کیلئے قیام گاہ تعمیر کی گئی اس کے بعد رفتہ رفتہ دوسرے مسلمانوں نے بھی مسجد کے اطراف میں اپنے لئے گھر بنانا شروع کیا اور ان تمام گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔<ref>ابن زبالہ، اخبار المدینہ، ۲۰۰۳م، ص۷۴؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۲.</ref> مسجد نبوی کو 1050 مربع میٹر مساحت پر لکڑی اور مٹی سے بنائی گئی۔ مسجد نبوی کے شمالی حصہ پر جہاں [[اصحاب صفہ]] قیام کرتے تھے، کھجور کی ٹہنیوں سے چھت بنائی گئی تھی۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۳-۲۰۴.</ref> [[مسجد الاقصی|مسجدالاقصی]] سے [[قبلہ]] کی [[مسجدالحرام]] کی طرف منتقلی کی وجہ سے مسجد کے جنوب میں واقع دروازے کو بند کر کے اسے شمالی حصے میں منتقل کیا گیا جس کے ساتھ شمالی حصے میں موجود اصحاب صفہ کا مقام بھی مسجد کے جنوب میں منتقل کیا گیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۴.</ref> [[سنہ 7 ہجری قمری|سنہ 7 ہجری]] کو مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے مسجد نبوی کو توسیع دے کر اس کی مساحت کو 2475 مربع میٹر تک پہچایا گیا۔<ref>نجفی، مدینه‌شناسی، ۱۳۶۴ش، ص۳۵؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۴.</ref>


===خلیفہ دوم اور سوم کا دور===<!--
===خلیفہ دوم اور سوم کا دور===
در سال [[سال ۱۷ هجری قمری|هفدهم هجری]] خانه‌های اطراف ضمیمه مسجد شد و مسجد، از سمت قبله حدود ۵ متر و از سمت غرب ۱۰ متر و از سمت شمال ۱۵ متر گسترش یافت.<ref>سمهودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج ۲، ص ۶۷-۶۸؛ جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۵، ۲۰۶.</ref> در سال [[سال ۲۹ هجری قمری|۲۹ هجری]] نیز با وجود مخالفت برخی از همسایگان مسجد که افزایش مساحت مسجد باعث تخریب خانه‌‌هایشان می‌شد، [[عثمان بن عفان|خلیفه سوم]] ۴۹۶ متر بر مساحت مسجد افزود. او همچنین در این توسعه از سنگ‌های حجّاری شده و منقّش استفاده کرد و سقف را با چوب ساج ترمیم نمود. به علاوه، در قسمت جلوی مسجد؛ یعنی محل ایستادن امام، مقصوره، یا غرفه کوچکی برای ایستادن امام جماعت ساخت.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص ۲۰۶.</ref>
[[سنہ 17 ہجری قمری|سنہ 17 ہجری]] میں مسجد نبوی کے اطراف میں موجود مکانات کو بھی مسجد میں شامل کر کر قبلے کی طرف سے تقریبا 5 میٹر، مغرب کی جانب سے 10 میٹر اور شمال کی جانب سے 15 میٹر توسیع دی گئی۔<ref>سمہودی، وفاءالوفاء، ۲۰۰۶م، ج ۲، ص ۶۷-۶۸؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۵، ۲۰۶.</ref> اسی طرح [[سنہ 29 ہجری قمری|سنہ 29 ہجری]] میں [[عثمان بن عفان|خلیفہ سوم]] نے دوبارہ بعض مکانات کو ان کے مالکین کی مخالفت کے باوجود تخریب کر کے مسجد نبوی میں مزید 496 میٹر اضافہ کر دیا۔ اس دفعہ انہوں نے مسجد نبوی کی تعمیر میں تزیین شدہ پتھروں کا استعمال کیا گیا جبکہ مسجد کی چھت کو بھی ٹیک کی لکڑی سے مزین کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے اگلے حصے میں امام جماعت کے کھڑے ہونے کیلئے محراب بنایا بھی بنایا گیا۔<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۷ش، ص ۲۰۶.</ref>


===دوره اموی===
===بنی امیہ کا دور===<!--
[[عمر بن عبدالعزیز]] والی مدینه در سال ۸۸ تا ۹۱ هجری توسعه زیادی به مساحت مسجد و بنای آن داد و مساحت مسجد را بنا به قولی تا۶۴۰۰ متر مربع و بنا به قول دیگر تا ۷۵۰۰ متر مربع افزایش داد. <ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref>او از طرف خلیفه وقت [[ولید بن عبدالملک]] دستور داشت تا دور مرقد پیامبر دیواری بکشد و حجره‌های پیامبر را نیز به مسجد اضافه کند. او همچنین دستور داشت خانه [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|حضرت فاطمه(س)]] که در آن زمان در اختیار [[فاطمه دختر امام حسین (ع)|فاطمه صغری]] دختر [[امام حسین]](ع) و همسر [[حسن بن حسن بن علی]] قرار داشت، به مسجد اضافه کند.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> برخی معتقدند که هدف اصلی ولید در توسعه مسجد، به ویژه در سمت شرق، گرفتن  این خانه از دست حسن بن حسن و دور کردن او از مسجد با انگیزه سیاسی بود، به همین دلیل تا سال‌ها مردم از نماز خواندن در آن محدوده پرهیز می‌کردند و آن را غصبی می‌دانستند.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> اتفاق خاصی که در بنای این دوره افتاد استحکام بنای مسجد و افزودن تزیینات فراوان به مسجد توسط کارگران ماهر رومی بود.<ref name=":0">جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.</ref> ولید برای بنای مسجد از قیصر روم کمک گرفت و او علاوه بر کمک صد هزار مثقال طلایی، صد کارگر ماهر برای ولید فرستاد.<ref name=":0">جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.</ref>
[[عمر بن عبدالعزیز]] والی مدینه در سال ۸۸ تا ۹۱ هجری توسعه زیادی به مساحت مسجد و بنای آن داد و مساحت مسجد را بنا به قولی تا۶۴۰۰ متر مربع و بنا به قول دیگر تا ۷۵۰۰ متر مربع افزایش داد. <ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref>او از طرف خلیفه وقت [[ولید بن عبدالملک]] دستور داشت تا دور مرقد پیامبر دیواری بکشد و حجره‌های پیامبر را نیز به مسجد اضافه کند. او همچنین دستور داشت خانه [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|حضرت فاطمه(س)]] که در آن زمان در اختیار [[فاطمه دختر امام حسین (ع)|فاطمه صغری]] دختر [[امام حسین]](ع) و همسر [[حسن بن حسن بن علی]] قرار داشت، به مسجد اضافه کند.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> برخی معتقدند که هدف اصلی ولید در توسعه مسجد، به ویژه در سمت شرق، گرفتن  این خانه از دست حسن بن حسن و دور کردن او از مسجد با انگیزه سیاسی بود، به همین دلیل تا سال‌ها مردم از نماز خواندن در آن محدوده پرهیز می‌کردند و آن را غصبی می‌دانستند.<ref>جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۷.</ref> اتفاق خاصی که در بنای این دوره افتاد استحکام بنای مسجد و افزودن تزیینات فراوان به مسجد توسط کارگران ماهر رومی بود.<ref name=":0">جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.</ref> ولید برای بنای مسجد از قیصر روم کمک گرفت و او علاوه بر کمک صد هزار مثقال طلایی، صد کارگر ماهر برای ولید فرستاد.<ref name=":0">جعفریان، آثار اسلامی مکه و مدینه، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۸.</ref>


confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم