مندرجات کا رخ کریں

"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
انبیاء کی عصمت کے مخالفین بھی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہیں جو تمام انبیاء کی عصمت یا کم از کم بعض انبیاء کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات [[متشابہ]] آیات ہیں جن کی [[تأویل]] و [[تفسیر]] کے لئے ان کو [[محکمات]] کی طرف ارجاع دینا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ آیات جو انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار ہیں ان کو [[ترک اولی]] پر حمل کیا جاتا ہے جو گناہ اور خطا کی متعارف معانی سے متفاوت معانی پر دلالت کرتا ہے۔  
انبیاء کی عصمت کے مخالفین بھی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہیں جو تمام انبیاء کی عصمت یا کم از کم بعض انبیاء کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات [[متشابہ]] آیات ہیں جن کی [[تأویل]] و [[تفسیر]] کے لئے ان کو [[محکمات]] کی طرف ارجاع دینا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ آیات جو انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار ہیں ان کو [[ترک اولی]] پر حمل کیا جاتا ہے جو گناہ اور خطا کی متعارف معانی سے متفاوت معانی پر دلالت کرتا ہے۔  
== مفہوم‌شناسی ==
== مفہوم‌شناسی ==
عصمت انبیاء سے مراد انبیاء کا ہر قسم کی گناہ اور بدی <ref>معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص۷.</ref> نیز وحی کے دریافت اور ابلاغ میں ان کا خطا سے منزہ ہونا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۶، ص۴۸-۴۹.</ref> عصمت انبیاء کی اندرونی صفت ہے جس کے باعث وہ نیک اعمال کو برے اعمال سے واضح اور آشکار طور پر تشخیص دے سکتے ہیں۔<ref>تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۳۹۰ش، ص۶۷۲؛ معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص۶.</ref>
عصمت انبیاء سے مراد [[انبیاء]] کا ہر قسم کی [[گناہ]] اور بدی <ref>معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص۷۔</ref> نیز [[وحی]] کے دریافت اور ابلاغ میں ان کا خطا سے منزہ ہونا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۶، ص۴۸-۴۹۔</ref> عصمت، انبیاء کی اندرونی صفت ہے جس کے باعث وہ نیک اعمال کو برے اعمال سے واضح اور آشکار طور پر تشخیص دے سکتے ہیں۔<ref>تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۳۹۰ش، ص۶۷۲؛ معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص۶۔</ref>


اسلامی تعلیمات میں انبیاء کی عصمت کو مختلف کلمات کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے جن میں تنزیہ انبیاء،{{نوٹ|چنانچه نام کتاب سید مرتضی درباره عصمت انبیا و ائمه «تنزیه الانبیاء» است و در کتاب الذریعة، از چهار کتاب دیگر با این عنوان نام برده شده است.(آقابزرگ تهرانی، الذریعة، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۴۵۶.)}} توفیق، صدق اور امانت وغیرہ شامل ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۷-۳۰.</ref>
اسلامی تعلیمات میں انبیاء کی عصمت کو مختلف کلمات کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے جن میں تنزیہ انبیاء،{{نوٹ|چنانچہ نام کتاب سید مرتضی دربارہ عصمت انبیا و ائمہ «تنزیہ الانبیاء» است و در کتاب الذریعۃ، از چہار کتاب دیگر با این عنوان نام بردہ شدہ است۔(آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۴۵۶۔)}} توفیق، صدق اور [[امانت]] وغیرہ شامل ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۷-۳۰۔</ref>


== اہمیت ==
== اہمیت ==
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کے معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۵۲۔</ref> اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، ۱۳۸۸ش، ص۱۹۔</ref>
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کا معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۵۲۔</ref> اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور [[مسلمان]] [[متکلمین]] کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، ۱۳۸۸ش، ص۱۹۔</ref>


بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اول نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۰۰ و ۱۶۴۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح علم کلام کے دوسرے بہت سارے اصطلاحات کی طرح علم کلام کی پیدائش کے بعد اور امام صادقؑ کی امامت کے دوران وجود میں آیا ہے۔<ref>سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج۲، ص۱۱۳-۱۶۷؛ مظفر، دلائل الصدق، ج۱، ص۴۳۲-۵۵۲ بہ نقل از یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔</ref>
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور [[اسلام]] کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ [[خلیفہ اول]] نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ [[امام علیؑ]] نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۰۰ و ۱۶۴۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح [[علم کلام]] کے دوسرے بہت سارے اصطلاحات کی طرح اس علم کی پیدائش کے بعد اور [[امام صادقؑ]] کی [[امامت]] کے دوران وجود میں آیا ہے۔<ref>سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج۲، ص۱۱۳-۱۶۷؛ مظفر، دلائل الصدق، ج۱، ص۴۳۲-۵۵۲ بہ نقل از یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔</ref>


قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۔</ref> لیکن مفسرین قرآن کی بعض آیات کی تفسیر میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں سورہ بقرہ کی آیت نمیر 36،<ref>مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۹۸۔</ref> سورہ اعراف کی آیت نمیر 32 اور سورہ طہ کی آیت نمیر 121 جو حضرت آدم و حوا کی داستان اور ان کا شیطان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور سورہ نجم کی آیت نمبر 3 سے 5 جو پیغمبر اسلامؐ کا وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔<ref>نقی‌پورفر، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۹-۳۴۵۔</ref>
[[قرآن]] میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۔</ref> لیکن [[مفسرین]] قرآن کی بعض [[آیات]] کی [[تفسیر]] میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں [[سورہ بقرہ]] کی [[آیت]] نمیر 36،<ref>مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۹۸۔</ref> [[سورہ اعراف]] کی آیت نمیر 32 اور [[سورہ طہ]] کی آیت نمیر 121 جو [[حضرت آدم]] و [[حوا]] کی داستان اور ان کا [[شیطان]] کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح [[سورہ آل عمران]] کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور [[سورہ نجم]] کی آیت نمبر 3 سے 5 جو [[پیغمبر اسلامؐ]] کا وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔<ref>نقی‌پورفر، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۹-۳۴۵۔</ref>


== منشأ ==
== منشأ ==
عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: شیخ مفید اور سیدِ مرتَضی عصمت انبیاء کو ان کے حق میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۸؛ سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹۔</ref> سیدِ مرتضی ایک اور قول میں شیخ طوسی اور ابن‌میثم بَحرانی کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد ¬نہیں ہوتا ہے۔<ref>سید مرتضی، تنزیہ‌الانبیاء، ص۱۹؛ طوسی، تلخیص‌المحصل، ۱۹۸۵م، ص۳۶۹؛ بحرانی، النجاہ فی القیامہ، ۱۴۱۷ق، ص۵۵۔</ref> علامہ طباطبایی طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ علم قابل تعلیم نہیں ہی بلکہ خدا کی عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۲۹۱؛ ج۵، ص۷۹۔</ref> ملاصدرا بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلا جاتا ہے۔<ref> ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۱ش، ج۵، ص۲۲۴۔</ref>
عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: [[شیخ مفید]] اور [[سیدِ مرتَضی]] عصمت انبیاء کو ان کے حق میں [[خدا]] کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۸؛ سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹۔</ref> سیدِ مرتضی ایک اور قول میں [[شیخ طوسی]] اور [[ابن‌میثم بَحرانی]] کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔<ref>سید مرتضی، تنزیہ‌الانبیاء، ص۱۹؛ طوسی، تلخیص‌المحصل، ۱۹۸۵م، ص۳۶۹؛ بحرانی، النجاہ فی القیامہ، ۱۴۱۷ق، ص۵۵۔</ref> [[علامہ طباطبایی]] طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات یہ کہ یہ علم قابل تعلیم نہیں ہے بلکہ خدا کا عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۲۹۱؛ ج۵، ص۷۹۔</ref> [[ملاصدرا]] بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلا جاتا ہے۔<ref> ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۱ش، ج۵، ص۲۲۴۔</ref>


== دائرہ ==
== دائرہ ==
عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، گناہ کبیرہ و صغیرہ نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نبوت پر فائل ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۱۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔</ref> اسی طرح شیعہ اور سنی متکلمین اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ انبیاء وحی کے دریافت، حفظ اور ابلاغ میں عمدا،<ref>ایجی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ش، ص۲۶۳۔</ref> اور سہوا کسی گناہ یا خطا<ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔</ref> سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے معتزلی رہنما قاضی عبدالجبار تبلیغ رسالت میں کذب سہوی کو جائز قرار دیتے ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۳۱۔</ref>
عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، [[گناہ کبیرہ]] و [[گناہ صغیرہ|صغیرہ]] نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء [[نبوت]] پر فائل ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۱۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔</ref> اسی طرح [[شیعہ]] اور [[سنی]] [[متکلمین]] اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ انبیاء [[وحی]] کے دریافت، حفظ اور ابلاغ میں عمدا،<ref>ایجی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ش، ص۲۶۳۔</ref> اور سہوا کسی گناہ یا خطا<ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔</ref> سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے [[معتزلی]] رہنما قاضی عبدالجبار تبلیغ رسالت میں کذب سہوی کو جائز قرار دیتے ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۳۱۔</ref>


عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق‌ نظر رکھتے؛<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> یعنی ان کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> اس بارے میں صرف شیخ مفید سہوا گناہ صغیرہ کی انجام دہی کو انبیاء کے لئے بعثت سے پہلے ممکن قرار دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ یہ گناہ بھی نفس کی پستی کی وجہ سے سرزد نہ ہوا ہو۔<ref>مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۔</ref>
عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق‌ نظر رکھتے؛<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> یعنی ان کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> اس بارے میں صرف [[شیخ مفید]] سہوا گناہ صغیرہ کی انجام دہی کو انبیاء کے لئے [[بعثت]] سے پہلے ممکن قرار دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ یہ گناہ بھی نفس کی پستی کی وجہ سے سرزد نہ ہوا ہو۔<ref>مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۔</ref>


چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛<ref>مفید، عدم سہو النبی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹و۳۰؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش،‌ ص۱۵۵-۱۵۷۔</ref> لیکن ان میں سے بعض جیسے کلینی اور شیخ صدوق اس نظریے کے مخالف ہیں۔ کلینی اس بات کے معتقد ہیں کہ روزمرہ امور میں انبیاء کا چھوٹی چھوٹی خطاوں سے بھی معصوم ہونا جن کے سرزد ہونے جس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچتا، نہ‌ اس حوالے سے کوئی عقلی دلیل ہے، بلکہ بعض احادیث بھی موجود ہیں کہ جو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ اس طرح کے خطائیں انبیاء سے سرزد ہوئی ہیں۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵-۳۱۔</ref> شیخ صدوق ہم با استناد بہ روایت ذوالشمالین<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۸و۳۵۹۔</ref> سہو النبی را پذیرفتہ و اعتقاد بہ عصمت انبیاء کو خطا اور اشتباہ سے بھی معصوم سمجھنے کو غلو اور تفویض سمجھتے ہیں۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۹۔</ref>
چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛<ref>مفید، عدم سہو النبی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹و۳۰؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش،‌ ص۱۵۵-۱۵۷۔</ref> لیکن ان میں سے بعض جیسے [[کلینی]] اور [[شیخ صدوق]] اس نظریے کے مخالف ہیں۔ کلینی اس بات کے معتقد ہیں کہ روزمرہ امور میں انبیاء کا چھوٹی چھوٹی خطاوں سے بھی معصوم ہونا جن کے سرزد ہونے سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچتا، کے ثبوت میں نہ صرف کوئی عقلی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف بعض [[احادیث]] بھی موجود ہیں کہ جو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ اس طرح کے خطائیں انبیاء سے سرزد ہوئی ہیں۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵-۳۱۔</ref> [[شیخ صدوق]] حدیث ذوالشمالین سے استناد کرتے ہوئے<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۸و۳۵۹۔</ref> سہو النبی کو قبول کرتے ہیں اور انبیاء کو خطا اور اشتباہ سے بھی معصوم سمجھنے کو [[غلو]] اور [[تفویض]] قرار دیتے ہیں۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۹۔</ref>


علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں وہ عصمت کے موضوع سے خارج ہیں۔ آپ کے مطابق پیغمبر اسلامؐ خدا کے خاص لطف و کرم کی بنا پر، کے علاوہ دوسرے انبیاء سے روزمرہ امور میں خطا اور اشتباہ کے مرتکب ہونے میں قرآن کی بعض آیات دلالت کرتی ہیں مثلا: حضرت آدم کا اپنے عہد و پیمان کو فراموش کرنا، حضرت نوح کا اپنے گناہگار بیٹے کو طوفان نجات دینے کی درخواست کرنا، حضرت یونس کا عصے کی حالت میں اپنی قوم سے باہر جانا اور حضرت موسی کا بنی‌اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے متعلق حضرت ہارون کے بارے میں بےجا قضاوت۔<ref>فاریاب، «عصمت پیامبران در منظومہ فکری علامہ طباطبایی»، ص۲۴-۲۸۔</ref>
[[علامہ طباطبایی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں وہ عصمت کے موضوع سے خارج ہیں۔ آپ کے مطابق [[پیغمبر اسلامؐ]] کے علاوہ دوسرے انبیاء سے روزمرہ امور میں خطا اور اشتباہ کے مرتکب ہونے میں [[قرآن]] کی بعض آیات دلالت کرتی ہیں مثلا: [[حضرت آدم]] کا اپنے عہد و پیمان کو فراموش کرنا، [[حضرت نوح]] کا اپنے گناہگار بیٹے کو طوفان سے نجات دینے کی درخواست کرنا، [[حضرت یونس]] کا عصے کی حالت میں اپنی قوم سے باہر جانا اور [[حضرت موسی]] کا [[بنی‌اسرائیل]] کی [[گوسالہ پرستی]] سے متعلق [[حضرت ہارون]] کے بارے میں بےجا قضاوت وغیرہ۔<ref>فاریاب، «عصمت پیامبران در منظومہ فکری علامہ طباطبایی»، ص۲۴-۲۸۔</ref>


== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار ==
== انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار ==
ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۔</ref> دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref>
ایک گروہ کا خیال ہے کہ [[عصمت]] اور [[اختیار]] ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۔</ref> دوسرا گروہ کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر ہے اور اس کی اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے [[قرآن]] کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتے ہیں۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref>


من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ ص کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناہم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح آیت تطہیر (سورہ احزاب کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ کیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref>
من جملہ ان آیات میں سے ایک [[سورہ ص]] کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناہم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح [[آیت تطہیر]] ([[سورہ احزاب]] کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ قرار دیا ہے۔<ref>یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔</ref>


اس نظریے کے مقابلے میں علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے ابیناء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۵۴۔</ref>
اس نظریے کے مقابلے میں [[علامہ طباطبایی]] کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے انبیاء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۵۴۔</ref>


آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسانی کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل‌ جمع ہے۔<ref>سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۹؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۶۱۔</ref>
[[آیت اللہ جعفر سبحانی]] لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسان کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل‌ جمع ہے۔<ref>سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۹؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۶۱۔</ref>


== دلائل ==
== دلائل ==
انبیاء کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں:  
انبیاء کی عصمت پر [[عقل|عقلی]] اور نقلی دلائل موجود ہیں:  
=== عقلی دلائل ===
=== عقلی دلائل ===
عصمت ا¬نبیاء پر سب سے اہم عقلی دلیل انبیاء پر لوگوں کے اعتماد کی بحالی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> اسی بنا پر اس دلیل کو "دلیل اعتماد" کا نام دیا گیا ہے،<ref>اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص۸۶۔</ref> اگر انبیاء کا کردار ان کے گفتار کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو لوگ ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۳۷؛ سیدِ مرتضی، تنزیہ‌الانبیاء، ۱۳۸۰ش، ص۵</ref>
عصمت انبیاء پر سب سے اہم عقلی دلیل انبیاء پر لوگوں کے اعتماد کی بحالی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔</ref> اسی بنا پر اس دلیل کو "دلیل اعتماد" کا نام دیا گیا ہے،<ref>اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص۸۶۔</ref> اگر انبیاء کا کردار ان کے گفتار کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو لوگ ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۳۷؛ سیدِ مرتضی، تنزیہ‌الانبیاء، ۱۳۸۰ش، ص۵</ref>


اس سلسلے کی دیگر عقلی دلائل میں سے ایک رسالت کے اہداف کا پایمال ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ انبیاء کی اطاعت واجب ہے، اس صورت میں اگر انبیاء گناہ کے مرتکب ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان گناہ میں بھی ان کی پیروی واجب ہے یا نہیں؟ اگر اس میں بھی ان کی پیروی کرنے کو واجب قرار دیں تو ان کے بھیجنے کا مقصد ختم ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ان کہا جائے کہ ان کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ ایک قسم سے ان کی تحقیر شمار ہو گی۔<ref>معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۴ش، ص۶۰۲۔</ref>
اس سلسلے کی دیگر عقلی دلائل میں سے ایک [[رسالت]] کے اہداف کا پایمال ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ انبیاء کی اطاعت واجب ہے، اس صورت میں اگر انبیاء گناہ کے مرتکب ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گناہ میں بھی ان کی پیروی واجب ہے یا نہیں؟ اگر اس میں بھی ان کی پیروی کرنے کو واجب قرار دیں تو ان کے بھیجنے کا مقصد ختم ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ان کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ ایک قسم سے ان کی تحقیر شمار ہو گی۔<ref>معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۴ش، ص۶۰۲۔</ref>
=== نقلی دلائل ===
=== نقلی دلائل ===
نقلی دلائل میں قرآن کی آیات اور احادیث شامل ہیں۔ مفسرین کے مطابق قرآن کی بعض آیات انبیاء کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ طباطبایی سورہ نساء کی آیت نمیر 64، 69 اور 165، سورہ انعام کی آیت نمیر 90 اور سورہ کہف کی آیت نمبر 17 کو من جملہ ان آیات میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۳۵-۱۳۸۔</ref>
نقلی دلائل میں [[قرآن]] کی [[آیات]] اور [[احادیث]] شامل ہیں۔ [[مفسرین]] کے مطابق قرآن کی بعض آیات انبیاء کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ طباطبایی [[سورہ نساء]] کی آیت نمیر 64، 69 اور 165، [[سورہ انعام]] کی آیت نمیر 90 اور [[سورہ کہف]] کی آیت نمبر 17 کو من جملہ ان آیات میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۳۵-۱۳۸۔</ref>


سورہ کہف کی آیت نمیر 17 میں آیا ہے کہ: "جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے"۔ علامہ طباطبایی کے مطابق یہ آیت ہدایت یافتہ گان سے ہر قسم کی گمراہی کو نفی کرتی ہے اور چونکہ ہر گناہ ایک قسم کی گمراہی ہے، پس انبیاء کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۳۵۔</ref>
سورہ کہف کی آیت نمیر 17 میں آیا ہے کہ: "جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے"۔ علامہ طباطبایی کے مطابق یہ آیت ہدایت یافتہ گان سے ہر قسم کی گمراہی کو نفی کرتی ہے اور چونکہ ہر گناہ ایک قسم کی گمراہی ہے، پس انبیاء کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۳۵۔</ref>


متعدد احادیث میں عصمت کو انبیاء کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق،‌ ج۱۴، ص۱۰۳؛ ج۱۲، ص۳۴۸؛ ج۴، ص۴۵؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۹۲-۲۰۴۔</ref> من جملہ ان احادیث میں سے ایک میں آیا ہے کہ امام باقرؑ نے فرمایا: "انبیاء گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؛ کیونکہ انبیاء سب کے سب معصوم اور پاک ہیں اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔"<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۹۹۔</ref>
متعدد احادیث میں [[عصمت]] کو [[انبیاء]] کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق،‌ ج۱۴، ص۱۰۳؛ ج۱۲، ص۳۴۸؛ ج۴، ص۴۵؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۹۲-۲۰۴۔</ref> من جملہ ان احادیث میں سے ایک میں آیا ہے کہ [[امام باقرؑ]] نے فرمایا: "انبیاء گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؛ کیونکہ انبیاء سب کے سب معصوم اور پاک ہیں اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔"<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۹۹۔</ref>


== اعتراضات اور ان کا جواب ==
== اعتراضات اور ان کا جواب ==
سطر 56: سطر 56:
اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں:  
اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں:  
=== وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی ===
=== وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی ===
سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّ‌سُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُ‌نَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی...۔) [52] کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں وعدہ الہی کی نسبت انبیاء کی ناامیدی اور بدگمانی (وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا) کے بارے میں بحث ہوئی ہے یہ چیز انیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا تھا کہ خدا نے ان کی مدد اور نصرت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔[53]
سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّ‌سُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُ‌نَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی۔۔۔۔) [52] کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں وعدہ الہی کی نسبت انبیاء کی ناامیدی اور بدگمانی (وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا) کے بارے میں بحث ہوئی ہے یہ چیز انیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا تھا کہ خدا نے ان کی مدد اور نصرت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔[53]
علامہ طباطبایی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔[54] [نوٹ 2]
علامہ طباطبایی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔[54] [نوٹ 2]
=== انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا ===
=== انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا ===
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم