"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 56: | سطر 56: | ||
اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں: | اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں: | ||
=== وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی === | === وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی === | ||
سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی۔۔۔۔) | [[سورہ یوسف]] کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "{{قرآن کا متن|حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ}}"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی۔۔۔۔) <ref>سورہ یوسف، آیت ۱۱۰۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس [[آیت]] میں وعدہ الہی کی نسبت انبیاء کی ناامیدی اور بدگمانی ({{قرآن کا متن|وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا}}) کے بارے میں بحث ہوئی ہے یہ چیز انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا تھا کہ خدا نے ان کی مدد اور نصرت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔<ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۲؛ سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۲۔</ref> | ||
علامہ طباطبایی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔[ | |||
[[علامہ طباطبایی]] اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۱، ص۲۷۹۔</ref> {{نوٹ|مفسرین اس آیت کی [[تفسیر]] میں مختلف احتمالات بیان کرتے ہیں۔(ملاحظہ کریں: سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۳-۵۵۔)}} [[آیت اللہ سبحانی]] اس آیت میں موجود تمام ضمیروں کو انبیاء کی طرف لوٹاتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نے خدا کے حوالے سے ایسا گمان نہیں کیا تھا بلکہ ان کی حالیت ایسی ہوگئی تھی لوگوں نے یہ خیال کیا تھا کہ انبیاء خدا پر ایسا گمان رکھتے ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۵-۵۹۔ جواب کے لئے ملاحظہ کریں: انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۱۰۹-۱۱۵۔</ref> | |||
=== انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا === | === انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا === | ||
سورہ حج کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔[56] | سورہ حج کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔[56] |