مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 1,343: سطر 1,343:


== قرآن کا ترجمہ ==
== قرآن کا ترجمہ ==
ترجمۂ قرآن کے جواز کے سلسلے میں اسلامی مذاہب کے علماء اور فقہاء کے درمیان بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے صدیوں تک جاری تھا اور چونکہ [[اہل سنت]] کے [[ائمۂ اربعہ]] کے اکثر فقہاء (سوا ابو حنیفہ کے جنہوں نے ابتداء میں جواز کا فتوی دیا تھا اور بعد میں جواز کو عربی سے ناواقفیت سے مشروط کردیا) نے فتوی دیا ہے کہ [[سورہ حمد|سورہ فاتحہ]] نماز میں عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں پڑھنا، جائز نہیں ہے؛ لہذا بعض نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اصولی طور پر قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ، جائز نہیں ہے۔ اس کے باوجود ترجمۂ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور مشہور ہے کہ [[حضرت سلمان فارسی]] نے [[بسم اللہ الرحمن الرحیم|بسملہ]] کا فارسی میں یوں ترجمہ کیا تھا: "بہ نام یزدان بخشایندہ"۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص653؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> اس سلسلے میں ایک اہم قول موجود ہے۔ سرخسی اپنے کتاب "المبسوط"<ref>سرخسی، المبسوط، ط قاهره، 1324ق، 37/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> میں لکھتے ہیں: "اہلیان فارس نے [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]] کو خط لکھا کہ [[سورہ حمد|فاتحہ]] کو ان کے لئے فارسی میں تحریر کریں؛ چنانچہ انھوں نے [[سورہ حمد|فاتحہ]] کو فارسی میں لکھا۔ اس کے بعد اہلیان فارس [[سلمان فارسی|سلمان]] کے نوشتے کو نماز میں پڑھتے تھے حتی کہ ان کی زبان نرم [ہوکر عربی تلفظ کے لئے آمادہ] ہوئی۔ [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]] نے اس بات کی خبر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کو پہنچادی تو آپ(ص) نے کوئی انکار نہيں فرمایا"۔ [[عبداللطیف طیباوی]] (1910-1981عیسوی) نے نے "احکام ترجمة القرآن الکریم و تاریخها" کے عنوان کے تحت ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔<ref>مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 54، جزء 3، شعبان 1399ق/1979م، ص635-660۔</ref> طیباوی سرخسی کی روایت پر تاریخی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایرانی [[حضرت محمد صلی علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور میں مسلمان نہيں ہوئے تھے چنانچہ ان کے لئے اس طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی" اور یوں اس قول کو رد کرتے ہیں۔ [[محمد حمید اللہ]] جنہوں نے اسی مجلے میں طیباوی کے مقالے پر کچھ استدراکات<ref>مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 55، جزء 1، صفرالخیر 1400ق/1980م، ص362-365۔</ref> تحریر کئے ہیں، طیباوی کی نقد و جرح کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "روایات میں "بلاد فارس" کا ذکر نہيں ہوا بلکہ "قومٌ مِنَ الفُرسِ" (فارسی بولنے والوں کی ایک جماعت) کا ذکر آیا ہے اور [[صحابہ]] اور [[یمن]] کے باشندوں میں مسلم ایرانیوں کی کافی تعداد تھی۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref>
ترجمۂ قرآن کے جواز کے سلسلے میں اسلامی مذاہب کے علماء اور فقہاء کے درمیان بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے صدیوں تک جاری تھا اور چونکہ [[اہل سنت]] کے [[ائمۂ اربعہ]] کے اکثر فقہاء (سوا ابو حنیفہ کے جنہوں نے ابتداء میں جواز کا فتوی دیا تھا اور بعد میں جواز کو عربی سے ناواقفیت سے مشروط کردیا) نے فتوی دیا ہے کہ [[سورہ حمد|سورہ فاتحہ]] نماز میں عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں پڑھنا، جائز نہیں ہے؛ لہذا بعض نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اصولی طور پر قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ، جائز نہیں ہے۔ اس کے باوجود ترجمۂ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور مشہور ہے کہ [[حضرت سلمان فارسی]] نے [[بسم اللہ الرحمن الرحیم|بسملہ]] کا فارسی میں یوں ترجمہ کیا تھا: "بہ نام یزدان بخشایندہ"۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص653؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> اس سلسلے میں ایک اہم قول موجود ہے۔ سرخسی اپنے کتاب "المبسوط"<ref>سرخسی، المبسوط، ط قاهره، 1324ق، 37/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> میں لکھتے ہیں: "اہلیان فارس نے [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]] کو خط لکھا کہ [[سورہ حمد|فاتحہ]] کو ان کے لئے فارسی میں تحریر کریں؛ چنانچہ انھوں نے [[سورہ حمد|فاتحہ]] کو فارسی میں لکھا۔ اس کے بعد اہلیان فارس [[سلمان فارسی|سلمان]] کے نوشتے کو نماز میں پڑھتے تھے حتی کہ ان کی زبان نرم [ہوکر عربی تلفظ کے لئے آمادہ] ہوئی۔ [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]] نے اس بات کی خبر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کو پہنچادی تو آپ(ص) نے کوئی انکار نہيں فرمایا"۔ [[عبداللطیف طیباوی]] (1910-1981عیسوی) نے "احکام ترجمة القرآن الکریم و تاریخها" کے عنوان کے تحت ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔<ref>مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 54، جزء 3، شعبان 1399ق/1979م، ص635-660۔</ref> طیباوی سرخسی کی روایت پر تاریخی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایرانی [[حضرت محمد صلی علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور میں مسلمان نہيں ہوئے تھے چنانچہ ان کے لئے اس طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی" اور یوں اس قول کو رد کرتے ہیں۔ [[محمد حمید اللہ]] جنہوں نے اسی مجلے میں طیباوی کے مقالے پر کچھ استدراکات<ref>مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 55، جزء 1، صفرالخیر 1400ق/1980م، ص362-365۔</ref> تحریر کئے ہیں، طیباوی کی نقد و جرح کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "روایات میں "بلاد فارس" کا ذکر نہيں ہوا بلکہ "قومٌ مِنَ الفُرسِ" (فارسی بولنے والوں کی ایک جماعت) کا ذکر آیا ہے اور [[صحابہ]] اور [[یمن]] کے باشندوں میں مسلم ایرانیوں کی کافی تعداد تھی۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref>


[[ابو حنیفہ]] پہلے مشہور فقیہ ہیں جنہوں نے نماز میں فارسی قرائت کے جواز کا فتوی دیا ہے اور ان کی رائے کی بنیاد پر ان کے بعض اصحاب نے نماز میں قرآن کے ترکی، ہندی، سریانی اور عبری وغیرہ جیسی زبانوں میں تراجم کے جواز کے فتاوی جاری کئے۔ [[ابو یوسف]] اور [[الشیبانی]] جو [[ابو حنیفہ]] کے معاصرین میں سے تھے، نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فارسی میں قرائت قرآن کا جواز ایسے افراد سے مشروط کیا جو عربی زبان سے واقف نہیں ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ [[ابو حنیفہ]] بعد میں اپنے فتوے سے پلٹ گئے تھے۔<ref>ر.ک:المرغینانی، علی، الهدایه فی الفروع، هند، 1302ق، ج86/1؛ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> قدماء میں سے السیوطی اور معاصرین میں [[محمد رشید رضا]]، [[تفسیر المنار]] میں<ref>ج 313/9، 319-320۔</ref> اس حکم سے [[ابو حنیفہ]] کے پلٹنے کے قائل ہوئے ہیں۔ گویا [[ابو حنیفہ]] کے پیروکاروں نے ـ نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ـ ان کے اس فتوے پر عمل نہيں کیا ہے اور اپنی نمازیں عربی میں پڑھتے رہے ہیں۔ ترجمۂ قرآن کے جواز کے قائلین کی قوی ترین دلیل قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے کہ: '''"<font color=green>{{حدیث|لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا}}</font>"۔'''<ref>سورہ بقرہ آیت 286: ترجمہ: اﷲ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔</ref> اس کے باوجود [[محمد بن ادریس|شافعی]] نے فتوی دیا ہے کہ "قرائت قرآن عربی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں جائز نہیں ہے، کیونکہ عربی میں نازل ہوا ہے اور اور دوسری زبان میں اور ترجمے میں یہ مزید قرآن نہیں ہوگا؛ اور قرآن کا اعجاز [اور معجزہ ہونا] اس کے عربی میں ہونے پر موقوف ہے اور جب اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کی صفت اعجاز ختم ہوکر رہ جاتی ہے؛ تاہم جو عربی کی قرائت [اور عربی کو پڑھنے] سے عاجز ہو، اس کو نماز میں قرآنی سورتوں کے بجائے [[تسبیح]] (سبحان اللہ) اور [[تہلیل]] (لا الہ الا اللہ) پر اکتفا کرنا چاہئے۔ [[جاحظ]] کا کہنا ہے کہ عربی شاعری کا دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عربی حکمت غیر عرب زبان میں منتقل ہوجائے تو اس کا اعجاز اور ہنر برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ عربی اشعار کے ترجمے سے بھی زیادہ دشوار ہے اور اس کا خطرہ عظیم تر ہے۔<ref>رجوع کریں: کتاب الحیوان، تحقیق عبدالسلام محمد هارون، قاهره، 1353ق، ج74/1-75؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔</ref>
[[ابو حنیفہ]] پہلے مشہور فقیہ ہیں جنہوں نے نماز میں فارسی قرائت کے جواز کا فتوی دیا ہے اور ان کی رائے کی بنیاد پر ان کے بعض اصحاب نے نماز میں قرآن کے ترکی، ہندی، سریانی اور عبری وغیرہ جیسی زبانوں میں تراجم کے جواز کے فتاوی جاری کئے۔ [[ابو یوسف]] اور [[الشیبانی]] جو [[ابو حنیفہ]] کے معاصرین میں سے تھے، نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فارسی میں قرائت قرآن کا جواز ایسے افراد سے مشروط کیا جو عربی زبان سے واقف نہیں ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ [[ابو حنیفہ]] بعد میں اپنے فتوے سے پلٹ گئے تھے۔<ref>ر.ک:المرغینانی، علی، الهدایه فی الفروع، هند، 1302ق، ج86/1؛ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref> قدماء میں سے السیوطی اور معاصرین میں [[محمد رشید رضا]]، [[تفسیر المنار]] میں<ref>ج 313/9، 319-320۔</ref> اس حکم سے [[ابو حنیفہ]] کے پلٹنے کے قائل ہوئے ہیں۔ گویا [[ابو حنیفہ]] کے پیروکاروں نے ـ نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ـ ان کے اس فتوے پر عمل نہيں کیا ہے اور اپنی نمازیں عربی میں پڑھتے رہے ہیں۔ ترجمۂ قرآن کے جواز کے قائلین کی قوی ترین دلیل قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے کہ: '''"<font color=green>{{حدیث|لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا}}</font>"۔'''<ref>سورہ بقرہ آیت 286: ترجمہ: اﷲ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔</ref> اس کے باوجود [[محمد بن ادریس|شافعی]] نے فتوی دیا ہے کہ "قرائت قرآن عربی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں جائز نہیں ہے، کیونکہ عربی میں نازل ہوا ہے اور اور دوسری زبان میں اور ترجمے میں یہ مزید قرآن نہیں ہوگا؛ اور قرآن کا اعجاز [اور معجزہ ہونا] اس کے عربی میں ہونے پر موقوف ہے اور جب اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کی صفت اعجاز ختم ہوکر رہ جاتی ہے؛ تاہم جو عربی کی قرائت [اور عربی کو پڑھنے] سے عاجز ہو، اس کو نماز میں قرآنی سورتوں کے بجائے [[تسبیح]] (سبحان اللہ) اور [[تہلیل]] (لا الہ الا اللہ) پر اکتفا کرنا چاہئے۔ [[جاحظ]] کا کہنا ہے کہ عربی شاعری کا دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عربی حکمت غیر عرب زبان میں منتقل ہوجائے تو اس کا اعجاز اور ہنر برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ عربی اشعار کے ترجمے سے بھی زیادہ دشوار ہے اور اس کا خطرہ عظیم تر ہے۔<ref>رجوع کریں: کتاب الحیوان، تحقیق عبدالسلام محمد هارون، قاهره، 1353ق، ج74/1-75؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔</ref>
گمنام صارف