مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  16 مئی 2017ء
م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 1,340: سطر 1,340:
[[فقہ]] اور [[اصول الفقہ|اصول]] کی اصطلاح میں قرآن کو "کتاب" کہا جاتا ہے جو تشریع احکام اور [[فقہ|فقہ اسلامی]] کا اولین اور اصلی ترین ذریعہ اور منشأ و سرچشمہ ہے۔ "قرآن اللہ کے قوانین کا مجموعہ کاملہ اور اخبار (یعنی [[روایت|روایات]] و [[حدیث|احادیث]] کی صحت و سقم جاننے کے لئے معیار اور پیمانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] پر نازل ہونے سے لے کر آج تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فقہائے اسلام کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا اور فقاہت و اجتہاد کی تاریخ خود اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے"۔<ref>جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص6؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref>
[[فقہ]] اور [[اصول الفقہ|اصول]] کی اصطلاح میں قرآن کو "کتاب" کہا جاتا ہے جو تشریع احکام اور [[فقہ|فقہ اسلامی]] کا اولین اور اصلی ترین ذریعہ اور منشأ و سرچشمہ ہے۔ "قرآن اللہ کے قوانین کا مجموعہ کاملہ اور اخبار (یعنی [[روایت|روایات]] و [[حدیث|احادیث]] کی صحت و سقم جاننے کے لئے معیار اور پیمانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] پر نازل ہونے سے لے کر آج تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فقہائے اسلام کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا اور فقاہت و اجتہاد کی تاریخ خود اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے"۔<ref>جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص6؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref>


مشہور یہی ہے کہ قرآن کی فقہی آیات [[آیات الاحکام]] کی تعداد 500 ہے۔<ref>جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص13، 14؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref> تاہم قرآن سے استنباط [استخراج] احکام کے لئے بہت سے معارف پر عبور اور بہت سے ادبی علوم (منجملہ لغت، نحو اور معانی و بیان)، اور قرآنی علوم (منجملہ ناسخ  منسوخ اور محکم و متشابہ نیز اسباب نزول کی شناخت)، اور شرعی علوم اور فقہ کے اصول و مبادی پر مکمل احاطہ رکھنا، ضروری ہے؛ تاکہ مثلاً محقق جان لے کہ قرآن میں آیا ہوا ہر امر (حکم) وجود پر دلالت نہیں کرتا اور ہر وجوب لفظ امر کے واسطے سے بیان نہیں ہوتا۔ اور کبھی حتی نہی، نفی کے سانچے میں آتی ہے اور خبر، انشاء کی جانشین ہوتی ہے۔ عملی طور پر اگر کوئی درجۂ اجتہاد پر فائز نہ ہوا ہو یا کم از کم قریب الاجتہاد نہ ہو، تو قرآن سے اس کا فقہی استنباط علمی استحکام و اعتبار نہیں رکھتا؛ یہی بات ہے کہ ظواہر قرآن کی حجیت کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا؛ اور ظواہر قرآن کی حجیت میں یہ تردد  [[اخباریون]] کے موقف کی تائید یا تقویت کے مترادف نہیں ہے ـ جو کتاب کو سنت کی شرط پر اور صرف و صرف سنت کے واسطے سے قابل فہم سمجھتے ہیں؛ اور اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ائمۂ اطہار علیہم السلام نے قرآن کو اپنے اقوال کی صداقت کا معیار و میزان سمجھتے ہیں؛ ـ بلکہ ہمارا مقصد و مطلب اصولیون کے موقف کی تائید اور اجتہاد کی ضرورت و اہمیت بیان کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فقہاء اور قرآنی محققین نے کہا ہے کہ گوکہ قرآن "قطعی الصدور" ہے لیکن "ظنی الدلالہ"<ref>قران قطعی الصدور و ظنی الدلالہ ہے: وضاحت یہ کہ کسی چیز کے بارے میں انسان کی آگہی کی چار حالتیں ہیں: 1۔ یا قطع ہے یعنی 100٪ اطمینان بخش (قطع و یقین)، 2۔ یا ظنّ ہے یعنی اس میں 51٪ سے 99٪ اطمینان کا امکان ہے (احتمال قوی)، 3۔ یا شک ہے یعنی 50٪ تک اطمینان بخش اور 50٪ تک عدم اطمینان (احتمال مساوی)، 4۔ یا وہم ہے یعنی اس میں اطمینان بخشی کی صلاحیت 1٪ سے 49٪ تک ہے۔ (احتمال ضعیف)... قطع حجت اور نافذ العمل ہے، اور ظن کی دو قسموں مں سے ظن معتبر، حجت ہے اور ظن غیر معتبر حجت نہيں ہے؛ شک اور وہم بھی حجت نہیں ہیں۔ چنانچہ جب کہتے ہیں کہ "قرآن قطعی الصدور" ہے یعنی ہمیں 100٪ یقین ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوکر ہم تک آپہنچا ہے؛ اور جب کہتے ہیں کہ "قرآن ظنی الدلالہ" ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے۔ (کیونکہ بہت سے آیات دوسری آیات کی ناسخ ہیں اور بہت سی آیات دوسری آیات کو تخصیص دیتی ہیں اور بہت سی مجمل ہیں...چنانچہ نہیں کہا جاسکتا تمام آیات کی دلالت 100٪ اور قطعی ہے؛ بلکہ بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے یعنی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آیت کے معنی 100٪ یہ یا وہ ہیں کیونکہ نسخ، یا تخصیص یا اجمال کا امکان پایا جاتا ہے)۔ رجوع کریں: [http://osoolefeghh.blog.ir/post/%D9%82%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%82%D8%B7%D8%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%B5%D8%AF%D9%88%D8%B1-%D9%88-%D8%B8%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%84%D8%A7%D9%84%D9%87-%D8%A7%D8%B3%D8%AA| پرتال تخصصی فقه و حقوق]</ref> تمام اسلامی مذاہب کے فقہاء اور قرآن کے فقہی محققین نے [[فقہ القرآن]] اور [[احکام القرآن]] کے موضوع پر متعدد کتب تالیف کی ہیں۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref>
مشہور یہی ہے کہ قرآن کی فقہی آیات [[آیات الاحکام]] کی تعداد 500 ہے۔<ref>جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص13، 14؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref> تاہم قرآن سے استنباط [استخراج] احکام کے لئے بہت سے معارف پر عبور اور بہت سے ادبی علوم (منجملہ لغت، نحو اور معانی و بیان)، اور قرآنی علوم (منجملہ ناسخ  منسوخ اور محکم و متشابہ نیز اسباب نزول کی شناخت)، اور شرعی علوم اور فقہ کے اصول و مبادی پر مکمل احاطہ رکھنا، ضروری ہے؛ تاکہ مثلاً محقق جان لے کہ قرآن میں آیا ہوا ہر امر (حکم) وجوب پر دلالت نہیں کرتا اور ہر وجوب لفظ امر کے واسطے سے بیان نہیں ہوتا۔ اور کبھی حتی نہی، نفی کے سانچے میں آتی ہے اور خبر، انشاء کی جانشین ہوتی ہے۔ عملی طور پر اگر کوئی درجۂ اجتہاد پر فائز نہ ہوا ہو یا کم از کم قریب الاجتہاد نہ ہو، تو قرآن سے اس کا فقہی استنباط علمی استحکام و اعتبار نہیں رکھتا؛ یہی بات ہے کہ ظواہر قرآن کی حجیت کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا؛ اور ظواہر قرآن کی حجیت میں یہ تردد  [[اخباریون]] کے موقف کی تائید یا تقویت کے مترادف نہیں ہے ـ جو کتاب کو سنت کی شرط پر اور صرف و صرف سنت کے واسطے سے قابل فہم سمجھتے ہیں؛ اور اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ائمۂ اطہار علیہم السلام نے قرآن کو اپنے اقوال کی صداقت کا معیار و میزان سمجھتے ہیں؛ ـ بلکہ ہمارا مقصد و مطلب اصولیون کے موقف کی تائید اور اجتہاد کی ضرورت و اہمیت بیان کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فقہاء اور قرآنی محققین نے کہا ہے کہ گوکہ قرآن "قطعی الصدور" ہے لیکن "ظنی الدلالہ"<ref>قران قطعی الصدور و ظنی الدلالہ ہے: وضاحت یہ کہ کسی چیز کے بارے میں انسان کی آگہی کی چار حالتیں ہیں: 1۔ یا قطع ہے یعنی 100٪ اطمینان بخش (قطع و یقین)، 2۔ یا ظنّ ہے یعنی اس میں 51٪ سے 99٪ اطمینان کا امکان ہے (احتمال قوی)، 3۔ یا شک ہے یعنی 50٪ تک اطمینان بخش اور 50٪ تک عدم اطمینان (احتمال مساوی)، 4۔ یا وہم ہے یعنی اس میں اطمینان بخشی کی صلاحیت 1٪ سے 49٪ تک ہے۔ (احتمال ضعیف)... قطع حجت اور نافذ العمل ہے، اور ظن کی دو قسموں مں سے ظن معتبر، حجت ہے اور ظن غیر معتبر حجت نہيں ہے؛ شک اور وہم بھی حجت نہیں ہیں۔ چنانچہ جب کہتے ہیں کہ "قرآن قطعی الصدور" ہے یعنی ہمیں 100٪ یقین ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوکر ہم تک آپہنچا ہے؛ اور جب کہتے ہیں کہ "قرآن ظنی الدلالہ" ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے۔ (کیونکہ بہت سے آیات دوسری آیات کی ناسخ ہیں اور بہت سی آیات دوسری آیات کو تخصیص دیتی ہیں اور بہت سی مجمل ہیں...چنانچہ نہیں کہا جاسکتا تمام آیات کی دلالت 100٪ اور قطعی ہے؛ بلکہ بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے یعنی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آیت کے معنی 100٪ یہ یا وہ ہیں کیونکہ نسخ، یا تخصیص یا اجمال کا امکان پایا جاتا ہے)۔ رجوع کریں: [http://osoolefeghh.blog.ir/post/%D9%82%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%82%D8%B7%D8%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%B5%D8%AF%D9%88%D8%B1-%D9%88-%D8%B8%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%84%D8%A7%D9%84%D9%87-%D8%A7%D8%B3%D8%AA| پرتال تخصصی فقه و حقوق]</ref> تمام اسلامی مذاہب کے فقہاء اور قرآن کے فقہی محققین نے [[فقہ القرآن]] اور [[احکام القرآن]] کے موضوع پر متعدد کتب تالیف کی ہیں۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔</ref>


== قرآن کا ترجمہ ==
== قرآن کا ترجمہ ==
گمنام صارف