مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,274 بائٹ کا اضافہ ،  15 مارچ 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 20: سطر 20:
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے والے ایک گروہ تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام مطرح ہوا ہے۔ من جملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں منافقین کا سردار محسوب ہوتا تھا، کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری ہوا تھا۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔</ref>
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے والے ایک گروہ تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام مطرح ہوا ہے۔ من جملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں منافقین کا سردار محسوب ہوتا تھا، کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری ہوا تھا۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔</ref>


===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات===<!--
===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات===
{{گفتگو
|عرض= 80
|تراز=وسط
|تورفتگی=10
|عنوان=گفت‌وگوی حضرت زینب با عبیدالله بن زیاد
|'''عبيدالله بن زیاد''' ستایش خدا را كه شما خانواده را رسوا ساخت و كشت و نشان داد كه آنچه می‎گفتید دروغی بیش نبود.
| '''زینب''' ستایش خدا را كه ما را به واسطه پیامبر خود (كه از خاندان ماست) گرامی داشت و از پلیدی پاك گردانید. جز فاسق رسوا نمی‎شود و جز بدكار، دروغ نمی‎گوید، و بد كار ما نیستیم بلكه دیگرانند‌ (یعنی تو و پیروانت هستید) و ستایش مخصوص خداست
| «دیدی خدا با خاندانت چه كرد؟
| جز زیبایی ندیدم! آنان كسانی بودند كه خدا مقدّر ساخته بود كشته شوند و آنان نیز اطاعت كرده و به سوی آرامگاه خود شتافتند و به‌زودی خداوند تو و آنان را (در روز [[رستاخیز]]) با هم روبه‌رو می‎كند و آنان از تو، به درگاه خدا شكایت و دادخواهی خواهند كرد، اینك بنگر كه آن روز چه كسی پیروز خواهد شد، مادرت به عزایت بنشیند ای پسر مرجانه!
| خدا دلم را با كشته‌شدن برادر نافرمانت حسین و خاندان و لشكر سركش او شفا داد.
| به خدا قسم مهتر مرا كشتی، نهال مرا قطع كردی و ریشه مرا در آوردی، اگر این كار مایه شفای توست، همانا شفا یافته‎ای
|ابن زیاد با حالت خشم و استهزا: این هم مثل پدرش [[علی(ع)|علی]] سخن‌پرداز است؛ به جان خودم پدرت نیز شاعر بود و سخن به سجع می‎گفت.
| «زن را با سجع‌گویی چه كار؟» (حالا چه وقت سجع گفتن است؟<ref> شیخ مفید، الارشاد، ترجمه ساعدی، ص۴۷۲-۴۷۳؛ سید بن طاووس، اللهوف، ص۱۹۱؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ص۴۷-۴۸.</ref>
|آدرس=
}}
<!--
یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں۔ یہ محققین ازواج مطہرات کو ناروا اتہامات سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عایشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے آیات افک کو کسی اور واقعے سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عایشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ من جملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے متفاوت ہے، تمام روایات خود حضرت عایشہ تک منتہی ہوتی ہیں، روایات کا سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عایشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائ دیا، حالنکہ اس وقت اسامہ بچپنے کی عمر میں تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>
یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں۔ یہ محققین ازواج مطہرات کو ناروا اتہامات سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عایشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے آیات افک کو کسی اور واقعے سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عایشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ من جملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے متفاوت ہے، تمام روایات خود حضرت عایشہ تک منتہی ہوتی ہیں، روایات کا سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عایشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائ دیا، حالنکہ اس وقت اسامہ بچپنے کی عمر میں تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>


confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم