مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 20: سطر 20:
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے والے ایک گروہ تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام مطرح ہوا ہے۔ من جملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں منافقین کا سردار محسوب ہوتا تھا، کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری ہوا تھا۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔</ref>
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے اس واقعے میں تہمت لگانے والے ایک گروہ تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام مطرح ہوا ہے۔ من جملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں منافقین کا سردار محسوب ہوتا تھا، کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ج۲، ص ۶۱۴۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری ہوا تھا۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص ۶۱۶۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص ۵۳۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص ۳۰۲۔</ref>


===اس احتمال سے متعلق شکوک و شبہات===<!--
===اس احتمال پر ہونے والے اعتراضات===<!--
دربارہ این [[حدیث|روایت]] مشہور کہ در بیشتر منابع تاریخی و تفسیری تکرار شدہ است، انتقاداتی بہ خصوص از سوی برخی از نویسندگان [[شیعہ]] مطرح شدہ است۔ این نویسندگان ضمن تصریح بہ اینکہ ہمسران پیامبر(ص) از اتہام ناپاکی مبرا ہستند در اصل وقوع ماجرای افک [[عایشہ]] تردید کردہ و آیات افک را مربوط بہ ماجرای دیگر دانستہ‌اند۔ این نویسندگان با اشارہ بہ اشکالات درون متنی و سندی روایات ماجرای افک، از جملہ اختلاف روایات در جزئیات، منتہی شدن سند ہمہ روایات بہ عایشہ و ضعیف بودن سند روایات، این داستان را جعلی و ہدف سازندگان آن را، فضیلت‌سازی برای عایشہ دانستہ‌اند۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> برای مثال، در یکی از این روایات آمدہ است کہ پیامبر (ص) در این زمینہ با [[علی بن ابیطالب]] و [[اسامہ بن زید]] مشورت کرد و اسامہ در دفاع از عایشہ و امام علی بر ضد عایشہ سخن گفتند؛ اما اسامہ در زمان رخ دادن این ماجرا کودک بودہ است۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>
یہ حدیث اگرچہ مشہور ہے اور اکثر تاریخی منابع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بعض اشکالات اور اعتراضات خاص کر شیعہ محققین کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں۔ یہ محققین ازواج مطہرات کو ناروا اتہامات سے مبرا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں جس فرد پر تہمت لگائی گئی تھی اس کا حضرت عایشہ ہونے میں تردید کرتے ہوئے آیات افک کو کسی اور واقعے سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ یہ محققین اس واقعے سے مربوط احادیث میں موجود سند اور دلالت کے اعتبار سے موجود اشکالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس داستان کے جعلی ہونے اور اسے حضرت عایشہ کی فضلیت ظاہر کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ من جملہ وہ اعتراضات یہ ہیں: ان روایات میں واقعے کی تفصیل ایک دوسرے سے متفاوت ہے، تمام روایات خود حضرت عایشہ تک منتہی ہوتی ہیں، روایات کا سند ضعیف ہے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص ۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷۔</ref> مثلا ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں [[پیغبمر اکرمؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] اور [[اسامہ]] سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عایشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائ دیا، حالنکہ اس وقت اسامہ بچپنے کی عمر میں تھا۔<ref> ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج۲، ص۳۰۷۔</ref>


از جملہ اشکالاتی کہ بہ این روایت وارد شدہ، این است کہ بر اساس آن پیامبر(ص)، در آغاز تحت تاثیر شایعہ قرار گرفتہ است، در حالی کہ پذیرش اینکہ پیامبر سوء ظنی نسبت بہ فرد بی‌گناہی داشتہ با فرض [[عصمت]] پیامبر(ص) قابل پذیرش نیست۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰۔</ref>
اسی طرح ایک اور اشکال یہ کہ ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شروع میں اس شایعے سے متأثر ہوئے تھے۔ اگر اس بات کو قبول کریں تو یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی [[عصمت]] کے منافی ہو گا کیوکہ یہ اصلا قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کسی بے گناہ شخص کی بنسبت سوء ظن پیدا کرے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰۔</ref>


نکتہ دوم اینکہ حکم [[قذف]] کہ مطابق با آن فردی کہ تہمت [[زنا]] بہ مسلمانی بزند و نتواند ۴ شاہد برای گفتہ خود بیارد مجازات می‌شود، پیشتر نازل شدہ بود و در آیات [[سورہ نور]] نیز مسلمانان بہ این دلیل کہ در این ماجرا از تہمت زنندگان شاہد نخواستند، سرزنش شدہ‌اند۔ با توجہ بہ این موضوع، منتقدان این پرسش را مطرح می کنند کہ چرا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]]در مدت حدود یک ماہ کہ ماجرای افک بر سر زبان‌ہا بود این حکم را جاری نکردہ و از تہمت زنندگان شاہد نخواستہ بود و [[حد]] را بر آنان جاری نساختہ بود؟ البتہ بر اساس برخی شواہد می‌توان نتیجہ گرفت کہ حکم قذف در این زمان نازل نشدہ بودہ و یا ہمزمان با ماجرای افک نازل شدہ است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref>
نکتہ دوم اینکہ حکم [[قذف]] کہ مطابق با آن فردی کہ تہمت [[زنا]] بہ مسلمانی بزند و نتواند ۴ شاہد برای گفتہ خود بیارد مجازات می‌شود، پیشتر نازل شدہ بود و در آیات [[سورہ نور]] نیز مسلمانان بہ این دلیل کہ در این ماجرا از تہمت زنندگان شاہد نخواستند، سرزنش شدہ‌اند۔ با توجہ بہ این موضوع، منتقدان این پرسش را مطرح می کنند کہ چرا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]]در مدت حدود یک ماہ کہ ماجرای افک بر سر زبان‌ہا بود این حکم را جاری نکردہ و از تہمت زنندگان شاہد نخواستہ بود و [[حد]] را بر آنان جاری نساختہ بود؟ البتہ بر اساس برخی شواہد می‌توان نتیجہ گرفت کہ حکم قذف در این زمان نازل نشدہ بودہ و یا ہمزمان با ماجرای افک نازل شدہ است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص ۱۰۲-۱۳۰؛ مکارم شیرازی، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص ۴۱۔</ref>
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم