گمنام صارف
"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''عبداللہ بن عمر بن خطاب''' یا '''ابن عمر''' ( | '''عبداللہ بن عمر بن خطاب''' یا '''ابن عمر''' (3 بعثت-73 ھ) [[پیغمبر(ص)]] کا [[صحابی]] اور دوسرے [[خلیفہ]] کا بیٹا تھا۔ وہ دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ [[مسلمان]] ہوا اور اس سے پہلے [[مدینہ]] [[ہجرت]] کی۔ [[اہل سنت]] کے مآخذ میں اسے سادہ اور کمزور شخصیت کا مالک کہا گیا ہے جو ظالم حاکم کے خلاف اعتراض کرنے کو جائز نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد تین خلیفہ کے ساتھ [[بیعت]] کی۔ [[عمر]] نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا کام اس کے سپرد کیا۔ [[عثمان]] نے اسے قضاوت کا مشورہ دیا لیکن اس نے قبول نہ کیا۔ عبداللہ نے [[حضرت علی(ع)]] کے دور خلافت میں اگرچہ آپ(ع) کی بہت فضیلتوں کو بیان کیا لیکن آپ(ع) کی [[بیعت]] نہ کی اور [[یزید بن معاویہ]] کے ساتھ بیعت کر لی۔ جب [[امام حسین(ع)]] [[کوفہ]] کی طرف جا رہے تھے تو اس نے آپ(ع) کو یزید کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا۔ ابن عمر آخر سنہ 73 ھ کو 84 سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا اور فخ کے علاقے میں مہاجران قبرستان میں دفن ہوا۔ | ||
==شخصیت== | ==شخصیت== | ||
عبد اللہ بن عمر بن خطاب یا ابن عمر [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا صحابی، دوسرے [[خلیفہ]] کا فرزند اور پیغمبر (ص) کی زوجہ کا بھائی تھا۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> اس کی کنیت عبد الرحمن تھی اور [[بعثت]] کے تیسرے سال پیدا ہوا۔<ref> ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.</ref> اس کی والدہ مظعون کی بیٹی جس کا نام [[زینب]] تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوا اور اس سے پہلے مدینہ ہجرت کی۔ بعض کی نظر میں اس کے [[اسلام]] لانے کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref> ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۰.</ref> | عبد اللہ بن عمر بن خطاب یا ابن عمر [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا صحابی، دوسرے [[خلیفہ]] کا فرزند اور پیغمبر (ص) کی زوجہ کا بھائی تھا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> اس کی کنیت عبد الرحمن تھی اور [[بعثت]] کے تیسرے سال پیدا ہوا۔<ref> ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.</ref> اس کی والدہ مظعون کی بیٹی جس کا نام [[زینب]] تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوا اور اس سے پہلے مدینہ ہجرت کی۔ بعض کی نظر میں اس کے [[اسلام]] لانے کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref> ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۰.</ref> | ||
ابن عمر اپنی زندگی میں بڑی احتیاط کرتا، اسی وجہ سے فتوا دینے میں بہت احتیاط سے کام لیتا تھا۔<ref>ابن عبد | ابن عمر اپنی زندگی میں بڑی احتیاط کرتا، اسی وجہ سے فتوا دینے میں بہت احتیاط سے کام لیتا تھا۔<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۱.</ref> [[اہل سنت]] کے مآخذ میں اسے ایک کمزور <ref> ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اور سادہ شخصیت کا مالک کہا گیا ہے<ref> ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج ۴، ص ۶.</ref> جسے لوگوں کا حکومت کے خلاف آواز اٹھانا پسند نہیں تھا حتی کہ ظالم حکومت پر اعتراض کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتا تھا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۴.</ref> اور کہتا تھا مجھے اختلافات کی جنگ پسند نہیں ہے اور جس کی بھی جیت ہو میں اسی کے پیچھے [[نماز]] پڑھوں گا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۳۳.</ref> | ||
کہا گیا ہے کہ حکومت کے سلسلے میں، [[ابو موسی اشعری]] نے عبداللہ بن عمر کو [[خلیفہ]] مقرر کرنے کی تجویز پیش کی لیکن [[عمرو عاص]] نے کہا کہ اس کی حکومت کی صلاحیت نہیں پائی | کہا گیا ہے کہ حکومت کے سلسلے میں، [[ابو موسی اشعری]] نے عبداللہ بن عمر کو [[خلیفہ]] مقرر کرنے کی تجویز پیش کی لیکن [[عمرو عاص]] نے کہا کہ اس کی حکومت کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔<ref> نصر بن مزاحم، وقعۃ صفين، ۱۴۰۴ق، ص ۵۴۲.</ref> | ||
==پیغمبر اکرم (ص) کا زمانہ== | ==پیغمبر اکرم (ص) کا زمانہ== | ||
سطر 13: | سطر 13: | ||
==پہلے تین خلیفہ کا زمانہ== | ==پہلے تین خلیفہ کا زمانہ== | ||
عبداللہ کو حکومت اور سیاست کے لئے مناسب نہ سمجھا گیا اسی لئے صرف کچھ جنگوں میں شرکت کے علاوہ اس کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ملتی۔ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اور [[ابوبکر]] کے دور خلافت میں، وہ سپاہ اسامہ کا ایک فرد تھا۔ [[عمر]] نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لئے ایک شورای تشکیل دی جس میں عبداللہ کو اپنا مشاور قرار دیا لیکن اسے اپنے بعد خلیفہ ہونے کی اجازت نہ دی۔<ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۴،ص ۲۲۹.</ref> اسی زمانے میں اس نے جنگ نہاوند اور فتح مصر میں شرکت کی۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> | عبداللہ کو حکومت اور سیاست کے لئے مناسب نہ سمجھا گیا اسی لئے صرف کچھ جنگوں میں شرکت کے علاوہ اس کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ملتی۔ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اور [[ابوبکر]] کے دور خلافت میں، وہ سپاہ اسامہ کا ایک فرد تھا۔ [[عمر]] نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لئے ایک شورای تشکیل دی جس میں عبداللہ کو اپنا مشاور قرار دیا لیکن اسے اپنے بعد خلیفہ ہونے کی اجازت نہ دی۔<ref> الطبري، تاريخ ،۱۳۸۷ق، ج ۴،ص ۲۲۹.</ref> اسی زمانے میں اس نے جنگ نہاوند اور فتح مصر میں شرکت کی۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.</ref> | ||
تاریخ میں موجود ہے کہ عبداللہ نے کبھی بھی قضاوت نہ کی اور جب [[عثمان]] نے اسے مشورہ دیا، تو اس نے قضاوت کی مخالفت کی اور اسے قبول نہ کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۹.</ref> یزید بن ہارون نقل کرتا ہے کہ ابن عمر لوگوں کو کہتا تھا کہ میں جس کے ساتھ رہا ہوں وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو میری قضاوت کی ضرورت ہے یا مجھ سے کوئی مسائل کے بارے میں سوال کرو گے، تو ضرور کچھ سیکھتا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.</ref> | تاریخ میں موجود ہے کہ عبداللہ نے کبھی بھی قضاوت نہ کی اور جب [[عثمان]] نے اسے مشورہ دیا، تو اس نے قضاوت کی مخالفت کی اور اسے قبول نہ کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۹.</ref> یزید بن ہارون نقل کرتا ہے کہ ابن عمر لوگوں کو کہتا تھا کہ میں جس کے ساتھ رہا ہوں وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو میری قضاوت کی ضرورت ہے یا مجھ سے کوئی مسائل کے بارے میں سوال کرو گے، تو ضرور کچھ سیکھتا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.</ref> | ||
سطر 22: | سطر 22: | ||
جب [[امام علی(ع)]] خلافت پر آئے، تو [[عمار یاسر]] نے آپ(ع) سے اجازت لی تا کہ عبداللہ کے ساتھ [[بیعت]] کے سلسلے میں بات کرے۔ عبداللہ نے امام علی(ع) کی بہت زیادہ تعریف کی، لیکن آپ(ع) سے بیعت نہ کی۔<ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> عبداللہ کو زیادہ تر اپنی عبادت کی فکر رہتی تھی اور وہ اپنے اندر سماجی مسائل میں داخل ہونے کا شوق نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے امام علی(ع) نے عمار کو حکم دیا کہ "عبداللہ" کو چھوڑ دو، وہ ایک کمزور انسان ہے۔<ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اسی لئے جب کسی نے کہا کہ میں عبداللہ کی طرح کسی کام میں دخل اندازی نہیں کرتا، تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ عبداللہ نے نہ تو حق کی مدد کی، اور نہ ہی باطل کو ختم کیا۔ <ref>شريف رضى، نہج البلاغۃ، ۱۴۱۴ق، ص ۵۲۱.</ref> | جب [[امام علی(ع)]] خلافت پر آئے، تو [[عمار یاسر]] نے آپ(ع) سے اجازت لی تا کہ عبداللہ کے ساتھ [[بیعت]] کے سلسلے میں بات کرے۔ عبداللہ نے امام علی(ع) کی بہت زیادہ تعریف کی، لیکن آپ(ع) سے بیعت نہ کی۔<ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> عبداللہ کو زیادہ تر اپنی عبادت کی فکر رہتی تھی اور وہ اپنے اندر سماجی مسائل میں داخل ہونے کا شوق نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے امام علی(ع) نے عمار کو حکم دیا کہ "عبداللہ" کو چھوڑ دو، وہ ایک کمزور انسان ہے۔<ref>ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۱، ص ۷۳.</ref> اسی لئے جب کسی نے کہا کہ میں عبداللہ کی طرح کسی کام میں دخل اندازی نہیں کرتا، تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ عبداللہ نے نہ تو حق کی مدد کی، اور نہ ہی باطل کو ختم کیا۔ <ref>شريف رضى، نہج البلاغۃ، ۱۴۱۴ق، ص ۵۲۱.</ref> | ||
ابن عمر نے اگرچہ [[امام علی(ع)]] کی بیعت نہ کی لیکن آپ(ع) کے مخالفین کی صف میں بھی داخل نہ ہوا اور امام(ع) کے مخالفین کی حمایت نہ کی۔ <ref>ابن عثم، الفتوح،۱۴۱۱ق، ج ۲،ص ۵۲۹.</ref> بعض اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ عبداللہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں اس وجہ سے بہت غمگین اور پریشان تھا کہ امام علی(ع) کی حمایت کیوں نہیں کی اور کہتا تھا: اپنے کسی بھی کام پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں، سوائے اس کہ امام علی(ع) کے ہمراہ فتنہ گر افراد کے خلاف جنگ نہ کر سکا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ابن عمر نے اگرچہ [[امام علی(ع)]] کی بیعت نہ کی لیکن آپ(ع) کے مخالفین کی صف میں بھی داخل نہ ہوا اور امام(ع) کے مخالفین کی حمایت نہ کی۔<ref> ابن عثم، الفتوح،۱۴۱۱ق، ج ۲،ص ۵۲۹.</ref> بعض اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ عبداللہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں اس وجہ سے بہت غمگین اور پریشان تھا کہ امام علی(ع) کی حمایت کیوں نہیں کی اور کہتا تھا: اپنے کسی بھی کام پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں، سوائے اس کہ امام علی(ع) کے ہمراہ فتنہ گر افراد کے خلاف جنگ نہ کر سکا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ||
==امام حسین(ع) کو جنگ سے منع کرنا== | ==امام حسین(ع) کو جنگ سے منع کرنا== | ||
سطر 45: | سطر 45: | ||
===زہد اور عبادت=== | ===زہد اور عبادت=== | ||
اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں [[رسول اکرم(ص)]] سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور [[نماز]] پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref>اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۱۲.</ref> اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت [[حج]] انجام دیئے اور زیادہ [[صدقہ]] دیتا تھا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں [[رسول اکرم(ص)]] سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور [[نماز]] پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref> اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۱۲.</ref> اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت [[حج]] انجام دیئے اور زیادہ [[صدقہ]] دیتا تھا۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ||
[[فائل:قبر ابن عمر.jpg|تصغیر|مکہ، فخ کا علاقہ، عبداللہ بن عمر کی قبر]] | [[فائل:قبر ابن عمر.jpg|تصغیر|مکہ، فخ کا علاقہ، عبداللہ بن عمر کی قبر]] | ||
==وفات== | ==وفات== | ||
سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا۔ ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے [[حرم]] میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں۔ وہ آخر کار سنہ | سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا۔ ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے [[حرم]] میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں۔ وہ آخر کار سنہ 73 ھ کو 84 سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى، ۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۸.</ref> | ||
ابن عمر نے موت کے وقت وصیت کی کہ اسے حرم کے حصے سے باہر دفن کیا جائے، لیکن اس پر عمل نہ کیا گیا، حجاج نے اس کی [[نماز جنازہ]] پڑھائی اور اسے فخ کے علاقے میں [[مہاجرین]] کی قبروں کے ساتھ دفن کیا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۹.</ref> | ابن عمر نے موت کے وقت وصیت کی کہ اسے حرم کے حصے سے باہر دفن کیا جائے، لیکن اس پر عمل نہ کیا گیا، حجاج نے اس کی [[نماز جنازہ]] پڑھائی اور اسے فخ کے علاقے میں [[مہاجرین]] کی قبروں کے ساتھ دفن کیا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۹.</ref> | ||
سطر 73: | سطر 73: | ||
* الكوفى، أحمد بن اعثم، كتاب الفتوح، تحقيق على شيرى، بيروت، دارالأضواء، ط الأولى، ۱۴۱۱ق. | * الكوفى، أحمد بن اعثم، كتاب الفتوح، تحقيق على شيرى، بيروت، دارالأضواء، ط الأولى، ۱۴۱۱ق. | ||
* جعفريان، رسول، افسانہ تحريف قرآن، ترجمہ محمود شريفى، تہران، انتشارات امير كبير، چاپ اول،۱۳۸۲ ش. | * جعفريان، رسول، افسانہ تحريف قرآن، ترجمہ محمود شريفى، تہران، انتشارات امير كبير، چاپ اول،۱۳۸۲ ش. | ||
* جعفریان، رسول، «تأثیر | * جعفریان، رسول، «تأثیر موضع گیریہای شخصی در فقہ سیاسی اہل سنت»، مجلہ کیہان اندیشہ، شماره ۵۳، خرداد۱۳۷۴ش. | ||
* شريف الرضى، محمد بن حسين، نہج البلاغۃ (للصبحي صالح)، قم،ہجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ق. | * شريف الرضى، محمد بن حسين، نہج البلاغۃ (للصبحي صالح)، قم،ہجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ق. | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} |