ویکی شیعہ:ہفتہ وار منتخب مقالے/2019/36
واقعہ کربلا یا واقعہ عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب یزید کی طرف سے بھیجے گئے کوفیوں کے ایک لشکر کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ واقعہ کربلا مسلمانوں اور خاص طور پر شیعوں کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش ترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے۔ شیعہ حضرات اس دن وسیع پیمانے پر عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔
امام حسینؑ نے چار ماہ کے قریب مکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؑ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بناء پر آپؑ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر 8 ذی الحجہ کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؑ کوفیوں کی عہد شکنی اور مسلم کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ حر بن یزید نے آپ کا راستہ روکا تو آپ کربلا کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر عبیدالله بن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔ اس فوج کی قیادت عمر بن سعد کے ہاتھ میں تھی۔
10 محرم، روز عاشورا کو دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ، آپؑ کے بھائی عباس بن علیاور شیرخوار علی اصغر سمیت بنی ہاشم کے 17 افراد اور 50 سے زیادہ اصحاب شہید ہوئے۔ بعض مقتل نگار شمر بن ذی الجوشن کو امام حسینؑ کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ عمر بن سعد کے لشکر نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے شہیدوں کے اجساد کو پامال کیا۔ روز عاشور عصر کے وقت سپاه یزید نے امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کر کے انہیں نذر آتش کیا۔ شیعہ حضرات اس رات کو شام غریباں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ امام سجادؑ نے بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا لہذا آپؑ اس جنگ میں زندہ بچ گئے اور حضرت زینبؑ، اہل بیت کی خواتین اور بچوں کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اسیروں کو عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا اور وہاں سے انہیں یزید کے پاس شام بھیجا گیا۔