ملا محمد علی کشمیری
ملا محمد علی کشمیری، ملا، بادشاہ اور پاشا کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کا شمار اٹھارویں صدی کے شیعہ علما میں ہوتا ہے۔ آپ کشمیر میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنے استاد ملا عبد الحکیم کشمیری کی نگرانی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے تبلیغ دینی کے لئے شہر فیض آباد آگئے اور آخر عمر تک یہیں رہے۔ آپ کی اہم ترین خدمات میں فیض آباد میں دینی تعلیم اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کی تبلیغ کرنا اور نماز جمعہ و جماعات کے قیام کی تحریک اور شھر لکھنؤ کی نماز جمعہ وجماعت کا قیام شامل ہے. آپ نے جمعہ و جماعات کی تحریک کے لئے اس سلسلہ میں تصنیف بھی کی۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | محمد علی کشمیری |
لقب/کنیت | ملا، بادشاہ، پاشا |
آبائی شہر | کشمیر، ہندوستان |
رہائش | کشمیر ، فیض آباد |
مدفن | ینابہ (نیاوہ)، فیض آباد |
اولاد | 6 بیٹے |
علمی معلومات | |
اساتذہ | ملا عبد الحکیم کشمیری راستگو |
تالیفات | رسالۃ الصلاۃ بالجماعۃ، عمل شمسی و قمری |
خدمات | |
سماجی | لکھنو میں نماز جمعہ و جماعات کے قیام میں کلیدی کردار |
زندگی نامہ
آپ کشمیر میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنی تعلیم مکمل کی۔ آپ کے استاد ملا عبد الحکیم کشمیری تھے جو راست گو (حق بات کہنے والے) سے مشہور تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دینی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ اس مہم میں ملامحمد علی کشمیری صاحب فیض آباد چلے گئے اور درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔[1]
مشہور کارنامہ
محمد علی کشمیری نے نماز جماعت کی اہمیت پر ایک رسالہ کو تدوین کیا تھا۔ شہر لکھنؤ کی نماز جمعہ کے قیام کے محرک بھی آپ ہی سمجھے جاتے تھے۔[2] آصف الدولہ بہادر نواب اودھ اور وزیر جناب حسن رضا خاں آپ کی شخصیت سے بہت متاثر تھے اور آپ ہی کے کہنے کی بنا پر لکھنؤ میں نماز جمعہ و جماعت قائم کی گئی۔ نماز جمعہ کے پیش امام سید دلدار علی عرف غفران مآب قرار پائے۔ آپ فیض آباد کے نیابہ نامی دیہات میں وفات ہوئے اور وہیں آپ کی قبر بھی ہے۔ [3]
تصنیفات
آپ کی درج ذیل تصانیف موجود ہیں:
- رسالۃ الصلاۃ بالجماعۃ،
- عمل شمسی و قمری.
حوالہ جات
- ↑ تذکرہ بے بہاء در تاریخ علماء، جلد اول، صفحہ ۳۲۴
- ↑ و کانت الشیعة الامامیۃ الی عصره متفرقین فی بلاد الهند لیست لهم دعوة الی مذهبهم ، وما کانت لهم جامعة تجمعهم ، فقام الشیخ محمد علی الکشمیری بفیض آباد و حرض الولاة آن یجمعهم فی الصلاة ، فالف رسالة فی هذا الباب ، و لما ذهب حسن رضا خان إلی فیض آباد عرض علیه و حرزه علی اقامة الجماعة فی الصلاة ، و اتفق ان الوزیر المذکور کان مما یحسن الظن بالشیخ علی اکبر الصوفی فی الفیض آبادی ، و یعتقد فیه الصلاح ، فلقیه مرة ببلدة لکهنو فرآه یصلی بجماعة ، فلما فرغ الشیخ علی اکبر من الصلاة حرضه علی اقامة الجماعة ، و ذکر له فضائلها علی مذهب الشیعة ، فذکر الوزیر ما عهد الیه محمد علی الکشمیری ، و عزم علی ذلک ، فرضی به نواب آصف الدولة ملک «اوده» فاقام الجماعة بامره السید دلدار علی لثلاث عشرة خلون من رجب سنة مئتین و الف۔؛ نزہۃ الخواطر، صفحہ۱۱۰۱
- ↑ تذکرہ بے بہاء در تاریخ علماء، جلد اول، صفحہ ۳۲۴
مآخذ
- تذکرہ بے بہاء در تاریخ علماء، سید محمد حسین نوگانوی
- نزهة الخواطر، عبد الحی ابن فخر الدین حسنی