استعمار

ویکی شیعہ سے
(مغربی استعمار سے رجوع مکرر)

استعمار کا مطلب ہے ایک ملک یا قوم کا دوسرے ملک اور قوم پر زبردستی تسلط برقرار کرتے ہوئے انہیں غلام بنا کرپسماندہ حالت میں رکھنا۔ یورپیوں کے ذریعے استعمار کا آغاز شمالی افریقہ کے مسلم ممالک پر قبضے سے ہوا اور پھر ایران، عراق اور ہندوستان کے شیعہ معاشروں سمیت دیگر معاشروں میں پھیل گیا۔ محققین کے مطابق، ایران کبھی بھی باقاعدہ طور پر نوآبادیاتی (استعمار کا شکار) نہیں رہا ہے؛ البتہ بعض مغربی ممالک کے غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کے ذریعے نوآبادیاتی طاقتوں کے زیر اثر رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی افواج نے عراق پر قبضہ کیا اور یہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی۔ ہندوستان میں بھی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اَوَد ھ کی شیعہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ فلسطین پر قبضہ اور اسرائیل کے قیام کو بھی استعمار ہی کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔

نوآبادیاتی ممالک کو تقسیم در تقسیم کرنا اور ان کے معاشی وسائل پر قبضہ استعمار کے اہم اور بنیادی کاموں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، استعماری طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کو چند ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور عراق، شام اور لبنان جیسے نئے ممالک معرض وجود میں آگئے۔ قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا، نوآبادیاتی معاہدے، ثقافتی اور لسانی تبدیلیاں لانا اور مقامی شناخت اور تشخص کو کمزور کرنا استعماری طاقتوں کے اہم امور میں شامل ہیں۔

مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے استعمار کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ منجملہ عراق اور ایران میں شیعہ فقہاءکے استعمار خلاف فتوے، استعمار مخالف تنظیموں کا قیام، مسلح قیام، تشدد پسند انقلابات اور آزادی کی تحریکیں چلانے سے پرہیز کرنا استعمار کے خلاف کی جانے والی مزاحمتوں کی مثالیں ہیں۔

استعمار کا مفہوم اور تاریخ

سیاسی اصطلاح میں استعمار کا مطلب ہے ایک کمزور قوم پر ایک مضبوط قوم کا ثقافتی، سیاسی اور معاشی غلبہ اور انہیں غلام بنا کر پسماندہ حالت میں رکھنا۔[1] استعمار کا استحصال اور استثمار(دوسروں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا) سے گہرا تعلق ہے۔[2] عثمانی حکومت کا اقتدار حاصل کرنا، یورپ اور ایشیائی ممالک کے درمیان زمینی راستوں کا منقطع ہونا،[3] یورپ میں کلیسائی نظام میں سرمائے کا جمع ہونا اور مشرق کی افسانوی دولت پر قبضہ جمانے کی خواہش وغیرہ کو یورپیوں کا استعمار کی جانب رخ کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے شمار کیا جاتا ہے۔[4]

کہا جاتا ہے کہ 15ویں اور 16ویں صدی عیسوی کے یورپیوں نے استعمار کے ذریعے اقتصادی مقاصد حاصل کرنے کے علاوہ اسلام کی روز بروز ترقی کے خلاف سازشیں کرنا شروع کیں جس کا آغاز شمالی افریقہ کے مسلم علاقوں کو نوآبادیاتی بنانے سے ہوا۔[5] تاریخی دستاویزات کے مطابق بہت سے اسلامی ممالک اور شیعہ معاشرے یورپی استعمار کے زیر اثر رہے ہیں۔[6] تاریخ کے محققین کے مطابق، نوآبادیاتی ممالک میں استعماری طاقتوں کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی اقدامات کے نتیجے میں بہت سی تبدیلیاں آئیں جن میں جغرافیائی (علاقائی قبضے اور تقسیم) تبدیلی،[7] سماجی و ثقافتی (مذہبی اور قمومی اقدار کا کمزور ہونا اور طرز زندگی کی تبدیلی) تبدیلی[8] اور معاشی (وسائل کی لوٹ مار اور سنگل پروڈکٹ سسٹم کی تخلیق) تبدیلی[9] قابل ذکر ہیں۔

اسلامی معاشروں میں استعمار کا پھیلاؤ

سبتہ شہر مراکش کے شمال اور آبنائے جبل الطارق کے جنوب میں واقع ہے۔ 21ویں صدی عیسوی کے بعد اس شہر کو اسپین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

محققین کے مطابق نے سُبَتہ (آج کے مراکش کے شمال میں واقع ایک شہر) پہلی مسلم بستی ہے جسے یورپیوں نے استعمارکیا تھا۔[10] الجزائر، لیبیا، مصر اور تیونس ان مسلم ممالک میں شامل ہیں جن پر یورپیوں نے نوآبادیاتی نظام قائم کیا تھا۔[11] شیعہ نشین مقامات میں سے ایران، عراق اور ہندوستان کے شیعہ نشین اَوَد بھی ان مقامات میں سے ہیں جو استعماری طاقتوں کے زیر اثر رہے ہیں۔[12]

ایران اور نوآبادیاتی معاہدے

کہتے ہیں کہ ایران کبھی بھی باقاعدہ اور مکمل طور پر یورپی ممالک کے استعمار کا شکار نہیں رہا ہے؛[حوالہ درکار] تاہم، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایران میں استعماریوں کا پہلا گروہ 16 ویں صدی عیسوی میں آیا[13] اور [اسلامی انقلاب ایران کے آغاز تک[14] یہ ملک ہمیشہ استعماری طاقتوں کے زیر اثر رہا ہے۔

جیسا کہ کچھ دستاویزات اور تاریخی خط و کتابت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران استعمار کے زیر اثر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ ایران کے کچھ تجارتی معاہدوں کو ایران پر استعماری طاقت کے تسلط کی ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔[15] بیسویں صدی عیسوی میں، محمد مصدق اور ابو القاسم کاشانی لوگوں کی حمایت سے ایرانی تیل کو برطانوی حکومت کے کارکنوں کے اختیار سے باہر نکالنے اور اسے قومیانے میں کامیاب ہوئے۔[16] تاہم، انگلینڈ اور امریکہ کا دباؤ اور ان کی عہد شکنی جاری رہی اور 19 اگست سنہ 1953ء کو ایک بغاوت کے ذریعے مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔[17]

برطانوی افواج کا عراق پر قبضہ

برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم (سنہ 1914ء) کے دوران سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔[18] اطلاعات کے مطابق جنگ مسلط کرنے کے سلسلے میں انگریزوں کا خیال تھا کہ شیعہ انگریزوں کا ساتھ دیں گے اورعثمانیوں کو عراق سے ملک بدر کردیں گے۔[19] لیکن دوسری طرف عراقی شیعہ فقہاء نے اس خیال کے برعکس اور اس حقیقت کے باوجود کہ وہ لوگ عثمانی حکومت سے خوش نہیں تھے، انہوں نے برطانیہ کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا؛ کیونکہ وہ عیسائیوں کے اسلامی سرزمین پر قبضے کو حرام سمجھتے تھے۔[20] تاہم، برطانوی افواج بھاری ہتھیاروں، فضائیہ[21] اور ہندوستان سے بھیجی گئی افرادی قوت[22] کو استعمال کرتے ہوئے عراق پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

ہندوستان میں اودھ شیعہ حکومت کا تختہ الٹنا

18ویں صدی عیسوی (سنہ 1757ء سے 1764ء) کے وسط میں انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی مقامی حکومتوں کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا، جس میں اودھ شیعی حکومت بھی شامل تھی، اور انہیں شکست دی۔[23] اس کے بعد برطانوی کمپنی نے اپنے اثر و رسوخ کے دائرےکو وسیع کردیا اور اس علاقے کے زمینداروں سے بڑے پیمانے پر ٹیکس وصول کر کے اودھ حکمرانوں اور اس علاقے کے زمینداروں کے درمیان تعلق کو ختم کردیا اور یہ مسئلہ مختلف قسم کی بغاوتوں کا سبب بنا۔[24] اس کے علاوہ انگلستان نے اود حکومت کو بکثرت قرضے دیے اور اس کے مطالبات کے بدلے اس نے شیعوں کی سرزمین کے ایک حصے کے ساتھ ساتھ ان کے خارجہ تعلقات پر بھی قبضہ کر لیا اور اودھ حکومت کو کٹھ پتلی حکومت میں تبدیل کر دیا۔[25] سنہ 1858ء میں برطانیہ نے اودھ کی بغاوتوں کو ختم کرنے کے بہانے اس خطے میں شیعہ حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اس علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔[26]

فلسطین پر قبضہ

بہت سے مفکرین فلسطین پر قبضے کے مسئلے کو استعمار کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔[27] ان مفکرین کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی فتح اور فلسطین پر برطانوی تسلط نے اسرائیل جیسے ملک کو جنم لیا۔[28] اسرائیل کے قیام کے علاوہ، بعض تجزیہ نگاروں نے صیہونی حکومت کی فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کے عمل کو استعماری قبضے کی ایک مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔[29] نیز صہیونیوں کا غزہ کی پٹی پرغلبہ حاصل کرنے اور اس خطے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کوششیں بھی استعمار کا ہی نتیجہ ہیں۔[30]

استعمار سے مقابلہ کرنے کے مختلف طریقے

استعماری قابضین کے خلاف شیعہ مراجعِ تقلید کا فتویٰ

«عراقی عوام پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا واجب ہے اور استعماری طاقتوں کو چاہیے کہ وہ عراقی عوام کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اقدام کریں نیز ملک میں امن و سلامتی کو برقرار رکھیں۔ اگر برطانیہ والے عوام کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار کریں تو عوام کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے طاقت کا استعمال کریں»۔[31]

مختلف تاریخی مقامات پر باقی ماندہ دستاویزات میں عراقی شیعہ مراجع تقلید کی طرف سے برطانوی استعمار کے خلاف جہاد کے واضح نمونے موجود ہیں؛ مثال کے طور پر قاجار کے دور میں سید محمد کاظم یزدی نے انگریزوں کے خلاف مبارزہ کرنے کو واجب قرار دیا،[32] محمد تقی شیرازی نے جہاد کا فتویٰ دیا[33] اور برطانوی ادارہ جات میں ملازمت کرنے کو بھی مسلمانوں کے لیے حرام قرار دیا۔[34] مؤرخین کے مطابق اخوند خراسانی [35] اور یہاں تک کہ فتح اللہ غروی اصفہانی جیسے مراجع تقلید نے کھل کر برطانیہ مخالف مبارزات کی قیادت کی۔[36]

عراق کے علاوہ ایران میں بھی غیر ملکی افواج کی موجودگی پر مراجع تقلید نے اپنا رد عمل دکھایا۔ مثال کے طور پر محمد تقی شیرازی نے سنہ 1329ھ میں ایران کے شمال میں روسی افواج کے حملے کے بعد ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر فتویٰ جاری کیا۔[37] یہ فتویٰ صرف شیعہ سرزمینوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ لیبیا پر اطالوی افواج کے قبضے اور ایران پر روسی اور برطانوی افواج کے حملے کے بعد سید محمد کاظم یزدی نے حملہ آوروں کے ساتھ مقابلہ کرنا تمام مسلمانوں کا فرض قرار دیا۔[38]

ریجی معاہدہ اور مرزائے شیرازی کے فتوے کے بعد تنباکو کے استعمال کے بارے میں استفتا

مورخین کے مطابق ایران اور عراق کے بعض علماء نے تو چند استعمار مخالف گروہوں کو بھی تشکیل دیا؛ جیسے "جمعیت نہاد اسلامی"، "حزب سری نجف" اور "حزب سری کاظمین" وغیرہ۔[39]

استعماری معاہدوں کی مخالفت

جیسا کہ قاجار دور کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے کچھ مفکرین استعمار کے عزائم اور خاص طور پر ہندوستان میں اس کے اثرات سے خوب واقف تھے۔[40] ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعہ علماء نے ان میں سے بہت سے معاہدوں کی مخالفت کی، جن میں روئٹر معاہدہ (سڑکوں، ریلوے، ڈیموں کی تعمیر اور ایران کے کانوں، جنگلات اور رواجوں کی تعمیر کا معاہدہ) اور ریجی معاہدہ (تمباکو کی اجارہ داری) شامل ہیں۔[41] تمباکو کی تحریک میں جو واقعات کارآمد ثابت ہوئے ان میں سید جمال الدین اسد آبادی کے مبارزے اور مرزائے شیرازی کے فتوے قابل ذکر ہیں۔[42]

کٹھ پتلی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوششیں

سنہ 1932ء میں محمد حسین غروی نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی، مہدی خالصی اور سید حسن صدر جیسے علماء نے انگلینڈ کے لیے کٹھ پتلی کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے شاہ فیصل کی بادشاہت کی مخالفت کی۔[43] نیز سنہ 1941ء میں شاہ فیصل کے حکمران بننے کے بعد جب ان کے خلاف بغاوت ہوئی تو شیعہ فقہاء میں سے سید ابو الحسن اصفہانی، محمد حسین کاشف الغطا اور عبد الکریم جزائری نے اس کی تائید میں جہاد کا فتویٰ دیا۔[44]

تشدد پسند انقلابات اور تحریک آزادی سے پرہیز

انگلستان کے نمائندے کے ذریعے عراقی حکومت زمام حکومت ملک فیصل اول کے حوالے کرنے کی تقریب

مورخین کے مطابق، 19ویں صدی عیسوی میں ہندوستانیوں نے پرتشدد جدوجہد کے ذریعے استعمار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی؛ لیکن انگریزوں نے اس بغاوت کو سرکوب کیا۔[45] اس کے بعد، 20ویں صدی عیسوی میں گاندھی نے غیر متشدد قیادت کے ساتھ ہندوستانی تحریک آزادی کا آغاز کیا، آخر کار یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔[46] البتہ اس دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اپنی جماعتی سرگرمیوں کے ذریعے آزادی کا مطالبہ کیا، اس طرح پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔[47]

بعض محققین نے گاندھی کی عدم تشدد پر مبنی تحریک کو ایران کے اسلامی انقلاب میں امام خمینی کے طریقہ کار سے تشبیہ دی ہے۔[48] امام خمینی نے اپنے بہت سے عوامی خطابات اور خطوط میں استعمار کو قومی دولت کی لوٹ مار، معاشی انحصار، مقامی ثقافت اور اقدار کی تباہی، مذہب دشمنی اور تفرقہ بازی کا سبب قرار دیا ہے۔[49] وہ پہلوی خاندان کو استعمار غلام سمجھتے تھے؛[50] لیکن محققین کے مطابق، امام خمینی اپنی مبارزاتی تحریک کے طریقہ کار میں مسلح تحریکوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔[51]

استعمار کے مختلف طریقے

زمینوں پر قبضہ یا تقسیم

کہتے ہیں کہ زمین کو اپنے قبضے میں لینا استعمار کا پہلا طریقہ ہے۔ [52] مثال کے طور پر پرتگالی استعمار نے 16ویں صدی عیسوی میں ہرمز اور بحرین جیسے جزائر پر قبضہ کر لیا۔[53] اسی طرح تاریخی نقل کے مطابق 20ویں صدی عیسوی کے آغاز میں افریقی سرزمین کا 90 فیصد حصہ استعماری طاقتوں کے زیر اثر تھا۔[54] یورپی استعمار نے عثمانی حکومت کے قلمرو پر پہلے قبضہ کیا پھر اسے تقسیم کی اور عراق، شام اور لبنان جیسے نئے ممالک بنائے۔[55] یہ طریقہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کے قیام کے ساتھ جاری رہا۔[56] ایران میں قاجاریہ دور میں انگلستان نے ہندوستان پر اپنا تسلط برقرار رکھنے اور فرانس اور روس کے ساتھ مقابلے کے لیے خلیج فارس کے جزیروں پر حملہ کیا اور پھر پیرس معاہدہ کے مطابق افغانستان کو ایران سے الگ کر دیا۔[57]

مقامی ثقافت کی تبدیلی

جزیرہ ہرمز میں پرتگالی فورٹ چرچ کا منظر

نوآبادیاتی علاقوں میں ثقافتی تبدیلیاں لانا استعمار کے طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[58] کہتے ہیں کہ بے حیائی کا فروغ، مقامی اقدار کو کمزور ہونا اور اخلاقی اقدار کے نظام میں تبدیلی لانا استعمار کے ثقافتی امور میں تبدیلی لانے کی مثالیں ہیں۔[59] مثال کے طور پر، ہندوستان میں انگریزوں نے ہندی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی اور دوسری طرف مسلمان اردو زبان کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں نے اردو زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے متعدد ادارے قائم کیے۔[60] فرانس نے بھی لبنان اور شام میں فرانسیسی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ ان علاقوں میں یورپی طرز زندگی کو نافذ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔[61]

معاشی استعمار

وسائل کی لوٹ مار اور تاجروں سے ٹیکس وصولی معاشی استعمار کی مثالیں ہیں۔[62] مثال کے طور پر، خلیج فارس کے جزائر کی استعماری طاقتوں کا مقصد خلیج فارس کے تاجروں سے ٹیکس وصول کرنا، بحر ہند میں جہاز رانی پر غلبہ حاصل کرنا اور موتیوں کی کمائی کو اپنے اختیار میں لینا تھا۔[63] اس کے علاوہ دوسری جنگ عظیم کے دوران روس اور انگلستان نے ایران کے شمال اور جنوبی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ان علاقوں کے اقتصادی، تجارتی اور فوجی مفادات کو اپنے اختیار میں لے لیا۔[64]

استعمار کے بالواسطہ طریقوں میں، زراعت کو ایک فصل میں منحصر کرنا، پیداوار کے میدان میں نوآبادیاتی ملک کو استعماری ملک کا غلام بنانا اور ترقیاتی نظام کے جبری نفاذ جیسی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔[65] مثال کے طور پر، محققین کے مطابق، قاجار دور کے غیر ملکی معاہدوں کے زیر اثر ایران کو ایک نیم نوآبادیاتی ریاست میں تبدیل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ خام مال کی برآمد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا اور ایرانی مصنوعات کی برآمدات کم ہو رہی تھیں۔[66] نیز، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار کے اقدامات سے ایک یہ تھا کہ مقامی صنعت اور زراعت کو تباہ کرکے مقامی لوگوں کو خام مال فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔[67] کہتے ہیں کہ اس پالیسی نے بڑی سطح پر بناوٹی قحط پیدا کیا، مثال کے طور پر، سنہ 1880ء اور سنہ 1920ء کے درمیان، اس بناوٹی قحطی کے نتیجے میں سو ملین سے زیادہ ہندوستانی ہلاک ہوئے۔[68]

حوالہ جات

  1. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص19۔
  2. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص20۔
  3. طرفداری، «حضور نخستین استعمارگران اروپایی در خلیج فارس: سرآغاز رویارویی دو نظام اقتصاد سنتی شرق و اقتصاد بورژوازی غرب»، ص52۔
  4. طرفداری، «حضور نخستین استعمارگران اروپایی در خلیج فارس: سرآغاز رویارویی دو نظام اقتصاد سنتی شرق و اقتصاد بورژوازی غرب»، ص53-54۔
  5. طرفداری، «حضور نخستین استعمارگران اروپایی در خلیج فارس: سرآغاز رویارویی دو نظام اقتصاد سنتی شرق و اقتصاد بورژوازی غرب»، ص57۔
  6. Warmington, Et al, "North Africa after 1830"; منصورالاجداد و طرفداری، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود»، ص 107؛ حیدری، «روحانیت و تحریم تنباکو»، ص80؛ الکاتب، تجربہ الثورہ الاسلامیہ فی العراق، 1981ء، ص52۔
  7. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص110۔
  8. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص97-100۔
  9. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص104-107۔
  10. طرفداری، «حضور نخستین استعمارگران اروپایی در خلیج فارس: سرآغاز رویارویی دو نظام اقتصاد سنتی شرق و اقتصاد بورژوازی غرب»، ص56۔
  11. Warmington, Et al, "North Africa after 1830
  12. منصورالاجداد و طرفداری، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود»، ص 107؛ حیدری، «روحانیت و تحریم تنباکو»، ص80؛ الکاتب، تجربہ الثورہ الاسلامیہ فی العراق، 1981ء، ص52۔
  13. بیگی، «تاریخچۀ حضور بیگاناگان در خلیج فارس»، سایت دانشگاہ امام صادق(ع)۔
  14. «استعمار نو 53 سال در ایران حکومت کرد»، ایبنا۔
  15. حیدری، «روحانیت و تحریم تنباکو»، ص80۔
  16. عاقلی، شرح حال رجال سیاسی و نظامی معاصر ایران، 1380شمسی، ج3، ص1474۔
  17. عاقلی، روزشمار تاریخ ایران، 1370شمسی، ج2، ص9؛ فردوست، ظہور و سقوط سلطنت پہلوی، 1373شمسی، ج1، ص182 و 269؛ سرشار، خاطرات شعبان جعفری، 1399شمسی، ص160۔
  18. خراسانی و مرزہ «بسترہای تضاد و مقاومت گفتمان شیعی در عراق معاصر»، ص102۔
  19. مظلومیت تاریخی شیعہ؛ میرعلی و رضایی، «وجوب حفظ دارالاسلام»، ص16۔
  20. مظلومیت تاریخی شیعہ؛ میرعلی و رضایی، «وجوب حفظ دارالاسلام»، ص16۔
  21. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373شمسی، ص35۔
  22. الکاتب، تجربہ الثورہ الاسلامیہ فی العراق، 1981ء، ص52۔
  23. منصورالاجداد و طرفداری، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود»، ص98-99۔
  24. منصورالاجداد و طرفداری، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود»، ص102۔
  25. منصورالاجداد و طرفداری، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود»، ص 105۔
  26. منصورالاجداد و طرفداری، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود»، ص 107۔
  27. McDonnell, The West's Colonization of Muslim Land and the Rise of Islamic Fundamentalis, peace university۔
  28. McDonnell, The West's Colonization of Muslim Land and the Rise of Islamic Fundamentalis, peace university۔
  29. «استعمار شہرک‌نشین چیست؟»، خبرگزاری میزان۔
  30. «استعمار شہرک‌نشین چیست؟»، خبرگزاری میزان۔
  31. آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، 1404ھ، ج1، ص263۔
  32. دادفر و نعمتی، «مراجع ایرانی و قیام 1920 شیعیان عراق.»، ص82۔
  33. رہیمی، تاریخ جنبش اسلامی در عراق، 1380شمسی، ص142-143۔
  34. رہیمی، تاریخ جنبش اسلامی در عراق، 1380شمسی، ص189
  35. Nakash, The Shi'is of Iraq, p.215-217; Litvak, A Failed Manipulation, p.74-78۔
  36. Litvak, A Failed Manipulation, p.74-78 & 84-86; Nakash, The Shi'is of Iraq, p.215-217& 227-228۔
  37. رہیمی، تاریخ جنبش اسلامی در عراق، 1380شمسی، ص126۔
  38. حاتمی و بہشتی‌سرشت، «تقابل و تعامل آخوند ملا محمدکاظم خراسانی و سید محمدکاظم یزدی در جریان انقلاب مشروطہ»، ص15-16۔
  39. خراسانی و مرزہ «بسترہای تضاد و مقاومت گفتمان شیعی در عراق معاصر»، ص115۔
  40. قدیمی قیداری، «رویکردہای مورخان قاجاری بہ اروپا و استعمار»، ص80-81۔
  41. چراغی کوتیانی، «علمای عصر مشروطہ و سلطنت قاجار؛ تعامل ہا و تقابل ہا»، ص116؛ محمدحسن اعتمادالسلطنہ، روزنامہ خاطرات، 1350شمسی، ص870؛ جہانی، «امتیاز رویتر سند استعمار اگلیس علیہ قاجاریہ»، ایرنا۔
  42. کدی، تحریم تنباکو در ایران، صص57-58۔
  43. فراہانی، روز شمار تاريخ معاصر ايران‌، 1385، ج1، ص560؛ آل فرعون الحقائق الناصعۃ فی الثورۃ العراقیۃ، 1995ء، ص516، 532۔
  44. خسروشاہی، «فتوای علمای بزرگ برای مبارزہ بادشمن»، ص 28-31۔
  45. Chandra, India's Struggle for Independence, p. 600
  46. موسوی جشنی، «مطالعہ تطبیقی رویکرد امام خمینی(س) و مہاتما گاندی بہ عدم خشونت»، ص119۔
  47. نویسندہ: شاپوریان «استقلال پاکستان» ص21۔
  48. موسوی جشنی، «مطالعہ تطبیقی رویکرد امام خمینی(س) و مہاتما گاندی بہ عدم خشونت»، ص102۔
  49. امام خمینی، صحیفۀ امام، 1389شمسی، ج1، ص380-385 و ج21، ص414-420؛ کورانی، «امام خمینی (رہ) و استعمار، دیدگاہہا و راہکارہای مبارزہ با آن»، پرتال امام خمینی(رہ)۔
  50. مینی، صحیفۀ امام، 1389شمسی، ج9، ص97۔
  51. موسوی جشنی، «مطالعہ تطبیقی رویکرد امام خمینی(س) و مہاتما گاندی بہ عدم خشونت»، ص123۔
  52. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص110۔
  53. بیگی، «تاریخچۀ حضور بیگانگان در خلیج فارس»، سایت دانشگاہ امام صادق(ع)۔
  54. احمد ساعى، درآمدى بر شناخت مسائل اقتصادى سياسى جہان سوم، 1375شمسی، ص28۔
  55. «مراحل تجزیہ جہان اسلام توسط استعمار در عصر معاصر»، خبرگزاری دفاع مقدس۔
  56. «مراحل تجزیہ جہان اسلام توسط استعمار در عصر معاصر»، خبرگزاری دفاع مقدس۔
  57. آہنگران و دیگران، «بازکاوی نقش انگلستان و کمپانی ہند شرقی در جدایی افغانستان از ایرانِ دورۀ قاجار»، ص110-115۔
  58. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص97۔
  59. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص97-100۔
  60. ہاردی، مسلمانان ہند بریتانیا، 1369شمسی، ص189-192۔
  61. حسن على‌زادہ، فرہنگ خاص علوم سياسى، 1381شمسی، ص 73۔
  62. قاسمیان، «بررسی تأثیرات اجتماعی و اقتصادی ظہور استعمار...»، ص87-89، «اشغال ایران توسط متفقین، علل و پیامدہا»، ایسنا؛ بیگی، «تاریخچۀ حضور بیگانگان در خلیج فارس»، سایت دانشگاہ امام صادق(ع)؛
  63. قاسمیان، «بررسی تأثیرات اجتماعی و اقتصادی ظہور استعمار...»، ص87-88۔
  64. «اشغال ایران توسط متفقین، علل و پیامدہا»، ایسنا۔
  65. اسکندری، شناخت استعمار، 1389شمسی، ص104-107۔
  66. احمدی اختیار و دہقان‌نژاد «تحلیلی بر قرارداد گمرکی ایران و روسیہ در دورہ قاجار»، ص17-18۔
  67. «an overview of european invasion of islamic world»; pbs.com۔
  68. Sullivan & Hickel, How British colonialism killed 100 million Indians in 40 years, aljazeera۔

مآخذ

  • «آشنایی گذرا و کوتاہ با جمعیت فدائیان اسلام»، مرکز بررسی اسناد تاریخی، تاریخ درج مطلب: 11 مرداد 1403شمسی، تاریخ بازدید: 29 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • آقابزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعہ، مشہد، نقباء البشر فی القرن الرابع العشر، دارالمرتضی، 1404ھ۔
  • آل فرعون، فریق مزہر، الحقائق الناصعۃ فی الثورۃ العراقیۃ سنۃ 1920 و نتائجہا، بغداد، 1415/1995۔
  • آہنگران، امیر و دیگران، «بازکاوی نقش انگلستان و کمپانی ہند شرقی در جدایی افغانستان از ایرانِ دورۀ قاجار»، پژوہش‌ہای تاریخی», شمارہ 3، آذر 1394ہجری شمسی۔
  • احمدی اختیار، مہدی و مہدی دہقان‌نژاد، «تحلیلی بر قرارداد گمرکی ایران و روسیہ در دورہ قاجار»، تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارہ 21، بہار 1388ہجری شمسی۔
  • اسکندری، مصطفی، شناخت استعمار، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)، 1389ہجری شمسی۔
  • «استعمار شہرک‌نشین چیست؟»، خبرگزاری میزان، تاریخ درج مطلب: 18 بہمن 1402شمسی، تاریخ بازدید: 3 شہریور 1403شمسی، 18 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • «اشغال ایران توسط متفقین، علل و پیامدہا»، ایسنا، تاریخ درج مطلب: 3 شہریور 1403شمسی، تاریخ بازدید: 3 شہریور 1403شمسی، 18 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • اعتمادالسلطنہ، محمدحسن، روزنامہ خاطرات، بہ کوشش ایرج افشار، تہران، امیرکبیر، 1350ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
  • جہانی، فرشتہ، «امتیاز رویتر؛ سند استعمار انگلیس علیہ قاجاریہ »، ایرنا، تاریخ درج مطلب: 5 بہمن 1398شمسی، تاریخ بازدید: 18 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • حاتمی، حسین و حسن بہشتی‌سرشت، «تقابل و تعامل آخوند ملا محمد‌کاظم خراسانی و سید محمد‌کاظم یزدی در جریان انقلاب مشروطہ»، فصلنامہ علوم انسانی دانشگاہ الزہرا(س)، شمارہ 71، 1387ہجری شمسی۔
  • حیدری، اصغر، «روحانیت و نہضت تحریم تنباکو»، تاریخ معاصر ایران، شمارہ 42، تابستان 1386ہجری شمسی۔
  • خراسانی، رضا و محمدحسین مرزہ، «بسترہای تضاد و مقاومت گفتمان شیعی در عراق معاصر»، رہیافت‌ہای سیاسی و بین المللی، شمارہ 72، زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • خسروشاہی، سید ہادی، «فتاوای علمای بزرگ برای جہاد با دشمن»، درس‌ہایی از مکتب اسلام، شمارہ 2، فروردین 1341ہجری شمسی۔
  • دادفر، سجاد و نورالدین نعمتی، «مراجع ایرانی و قیام 1920 شیعیان عراق»، پژوہشنامہ تاریخ اسلام، شمارہ 9، بہار 1392ہجری شمسی۔
  • رہیمی، عبدالحلیم، تاریخ جنبش اسلامی در عراق: 1900-1924، ترجمۀ جعفر دلشاد، اصفہان، انتشارات جہارباغ، 1380ہجری شمسی۔
  • ساعی، احمد، درآمدی بر شناخت مسائل اقتصادی سیاسی جہان سوم، تہران، قومس، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • شاپوریان، علی‌ محمد، «استقلال پاکستان»، ہلال، شمارہ 82، مرداد و شہریور 1347ہجری شمسی۔
  • علی‌زادہ، حسن، فرہنگ خاص علوم سیاسی، تہران، روزبہ، 1381ہجری شمسی۔
  • فراہانی، حسن، روز شمار تاریخ معاصر ایران، تہران، موسسہ مطالعات و پژوہش‌ہای سیاسی، 1385ہجری شمسی۔
  • قاسمیان، سلمان، «بررسی تأثیرات اجتماعی و اقتصادی ظہور استعمار بر شیعیان سواحل جنوبی خلیج فارس در عصر صفوی»، تاریخ فرہنگ و تمدن اسلامی، شمارہ 47، تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • قدیمی قیداری، عباس، «رویکردہای مورخان قاجاری بہ اروپا و استعمار»، جستارہای تاریخی، شمارہ 1، 1389ہجری شمسی۔
  • کدی، نیکی، تحریم تنباکو در ایران، ترجمۀ شاہرخ قائم مقامی، تہران، 1358ہجری شمسی۔
  • کورانی، حسین، «امام خمینی(رہ) و استعمار، دیدگاہ‌ہا و راہکارہای مبارزہ با آن»، پرتال امام خمینی(رہ)، تاریخ درج مطلب: 11 اردیبہشت 1397ہجری شمسی۔
  • منظورالاجداد، محمدحسین ومنصور طرفدارای، «استعمار انگلیس و حکومت شیعی اود (1722-1856م)»، شیعہ‌ شناسی، شمارہ 27، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • موسوی جشنی، سید صدرالدین و محمد‌معین گلباغ، «مطالعہ تطبیقی رویکرد امام خمینی(س) و مہاتما گاندی بہ عدم خشونت»، پژوہشنامہ متین، شمارہ 71، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • ویلی، جویس، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ترجمہ مہوش غلامی، موسسہ اطلاعات، 1373ہجری شمسی۔
  • ہاردی، پیتر، مسلمانان ہند بریتانیا، ترجمۀ حسن لاہوتی، مشہد، 1369ہجری شمسی۔
  • an overview of european invasion of islamic world, pbs.com.

Chandra, Bipan, India's Struggle for Independence, New Delhi: Penguin Books, 1989.

  • Litvak, Meir, A Failed Manipulation: The British, the Oudh Bequest and the Shī'ī 'Ulamā' of Najaf and Karbalā, British Journal of Middle Eastern Studies, Vol.27, No.1, May, 2000.
  • McDonnell, The West's Colonization of Muslim Land and the Rise of Islamic Fundamentalis, peace university.
  • Nakash, Yitzhak, The Shi'is of Iraq Paperback, US, Princeton University Press, 2003.
  • Sullivan, d. & Hickel, j. How British colonialism killed 100 million Indians in 40 years, aljazeera.
  • Warmington, Brian H. , Brett, Michael and Abun-Nasr, Jamil M. North Africa after 1830, Encyclopedia Britannica.