صارف:Waziri/تختہ مشق
نئی ترمیم
سانچہ:جعبہ اطلاعات آیہ آیہ فیئ (سورہ حشر: 7)، فیئ میں شامل اموال میں تصرف کے طریقوں کے بارے میں ہے جس کا اختیار پیغمبر اسلامؐ کے پاس ہوتا ہے۔ فیء ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بغیر صلح کے ذریعے مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ آیت غزوہ بنی نضیر کے موقع پر نازل ہوئی۔ بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ اگرچہ یہ آیت غزوہ بنی نضیر سے حاصل ہونے والی غنیمت کے بارے میں ہے، لیکن یہ حکم عام ہے اور اس میں وہ تمام مال غنیمت شامل ہے جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت آیت خمس کے ذریعے منسوخ ہوئی ہے اور اس کے احکام آیت خمس کے نزول سے پہلے سے مربوط ہیں۔
اس آیت کے مطابق فیئ کو چھ موارد میں صرف کیا جا سکتا ہے جو یہ ہیں: خدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ذو القربی، ایتام، غریب اور مسکین اور راستے میں محتاجی کا شکار مسافر
متن اور ترجمہ
مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
تو اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے جو مال بطور فئے اپنے رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ بس اللہ کا ہے اور پیغمبر(ص) کا اور(رسول(ص) کے) قرابتداروں (ان کے) یتیموں اور (ان کے) مسکینوں اور مسافروں کا ہے تاکہ وہ مالِ فئے تمہارے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور جو کچھ رسول(ص) تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (سورہ حشر، آیت نمبر 7)
شأن نزول
آیہ فیء اور اس سے پہلی والی آیات غزوہ بنی نضیر کے بارے میں ہیں۔ بنی نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جو مدینہ کے قریب کوہ نضیر کے اطراف میں آباد تھے، مسلمانوں کے ساتھ صلح اور میثاق نامہ کی خلاف ورزی کے بعد مسلمانوں نے اس قبیلے کا محاصرہ کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے ان کو محل سکونت چھوڑنے کے لئے کچھ دنوں کی مہلت دی۔ یہ آیت اس قبیلے سے حاصل ہوے والے غنائم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[1]
جب بنی نضیر کے گھر، باغ اور زرعی زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ آگئیں تو بعض اصحاب نے پیغمبر اکرمؐ سے دخواست کی کہ زمانہ جاہلیت کی سنت کے مطابق غنائم کا ایک چوتھائی حصہ آپ لے لیں اور باقی ان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اپنے درمیان تقسیم کر سکیں۔ یہ آیات اسی درخواست کے متعلق نازل ہوئیں جس میں تأکید کی گئی کہ چونکہ یہ عنائم جنگ کے بغیر حاصل ہوئی ہے لھذا یہ تمام اموال صرف خدا اور اس کے رسول کے ہیں۔[2] بعض کہتے ہیں کہ جب بنی ضیر نے اپنے گھروں کو خالی کیا تو مسلمانوں نے پیغمبر اکرمؐ سے غنائم جنگی کی طرح ان اموال کا خمس نکال کر باقی اموال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا۔[3]
فیء کسے کہتے ہیں؟
جنگ کے بغیرمسلمانوں کے ہاتھ آنے والے غنائم کو فیء کہا جاتا ہے۔[4] البتہ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ جنگ کے بغیر کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے لئئےحاصل ہونے والے اموال کو کہا جاتا ہے۔[5] اسی طرح بعض کفار سے حاصل ہونی والے تمام اموال کو فیء قرار دیتے ہیں چاہے جس راستے سے حاصل ہوں۔[6] بعض لوگ جنگ کے ذریعے مسلمانوں کے ہاتھ آنے والی چیزوں کو غنیمت اور صلح یا جنگ کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل ہونے والی چیزوں کو انفال قرار دیتے ہیں۔[7]
ان اموال کو فیء نام دینے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ خدا نے اس کائنات میں موجود تمام نعمتوں کو اصل میں مؤمنین اور خاص کر پیغمبر اکرمؐ کے لئے پیدا کی ہیں اور جو لوگ مؤمن نہیں ہیں حقیقت میں ان لوگوں نے ان اموال پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہیں(اگرچہ شرعی یا عرفی قوانین کے اعتبار سے یہ لوگ ان اموال کے مالک محسوب ہوتے ہیں)۔ اس بنا پر جب یہ اموال ان کے اصلی مالکان کے یہاں پہنچ جاتے ہیں تو انہیں «فیء» کہا جاتا ہے۔[8] فیء لغت میں بازگشت اور واپس آنے کو کہا جاتا ہے۔[9]
محتوا
بسیاری از مفسران معتقدند اگر چہ در این آیہ، حکم غنائم غزوہ بنینضیر مطرح شدہ؛ امّا این حکم کلی است و شامل ہمہ غنائمی میشود کہ بدون زحمت و جنگ بہ دست مسلمانان افتادہ باشد۔[10]
مصارف فیء
در این آیہ مصارف ششگانہ «فیء» ذکر شدہ است:
- سہم خداوند: گفتہ شدہ این سہم یک نوع سہم یا نسبت تشریفی است تا گروہہای دیگری کہ در ذیل آن ذکر میشوند، احساس حقارت نکنند و سہم خود را در کنار سہم خداوند ببینند؛ چرا کہ خداوند نیازمند نیست و در حقیقت مالک ہمہ چیز خداوند است۔[11]
- سہم پیامبرؐ : شامل نیازمندیہای شخصی و نیازمندیہای مرتبط با ریاست حکومت اسلامی میشود۔[12]
- سہم ذویالقربی: بسیاری از مفسران معتقدند کہ ذوی القربی شامل نزدیکان و خویشاوندان پیامبرؐ میشود[13] کہ از گرفتن زکات محروماند۔[14] برخی گزارش کردہاند کہ عدہای از مفسران ذوی القربی را ہمہ مردم دانستہاند۔[15] برخی دیگر معتقدند کہ در تحقق این سہم، نیازمندی و فقر شرط است۔[16]
- سہم یتیمان، مسکینان و در راہ ماندگان: در اینکہ این سہ سہم مخصوص بہ نزدیکان حضرت رسولؐ یا عموم مردم است، اختلافنظر وجود دارد۔ بسیاری از مفسران شیعہ با استناد بہ روایاتی از اہلبیتؑ، این سہ سہم را مخصوص نزدیکان و اہلبیت پیامبرؐ میدانند؛[17] اما گفتہ شدہ بسیاری از فقہا و مفسران اہلسنت معتقدند کہ این سہ سہم عمومیت داشتہ و اختصاص بہ گروہ خاصی ندارد،[18] مکارم شیرازی در تفسیر نمونہ روایتہایی را نقل کردہ کہ در آنہا این سہ سہم عمومی معرفی شدند و مختص بہ نزدیکان پیامبرؐ شمردہ نشدند۔[19] او ہمچنین بہ سیرہ پیامبرؐ در مورد غزوہ بنینضیر اشارہ میکند کہ پیامبرؐ ہمہ اموال بہ دست آمدہ از این جنگ را میان مہاجران و سہ تن از نیازمندان انصار تقسیم کرد و نتیجہ میگیرد کہ این سہ سہم مخصوص نزدیکان پیامبرؐ نیست۔[20]
بہ گفتہ برخی از مفسران خداوند بعد از بیان مصارف «فیء»، بہ فلسفہ تقسیم این اموال بہ گروہہای ششگانہ پرداختہ و آن را بہ این دلیل دانستہ کہ این اموال، میان ثروتمندان دست بہ دست نشود و نیازمندان از آن محروم نشوند۔[21] بہ گفتہ مکارم شیرازی دلیل تعلق فیء بہ پیامبرؐ جایگاہ ریاست حکومت اسلامی است۔ بر این اساس مفہوم تعلق این اموال بہ پیامبرؐ این نیست کہ پیامبرؐ تمام آنہا را در مصارف شخصی مصرف کند؛ بلکہ پیامبرؐ چون حاکم اسلامی، مدافع و حافظ حقوق نیازمندان است، این اموال را باید در مصارفی کہ در آیہ مطرح شدہ، مصرف کند۔[22]
ہمچنین خداوند در بخش پایانی آیہ، اصلی کلی را برای ہمہ مسلمانان بیان کردہ کہ طبق آن ہمہ مسلمانان موظفند اوامر و نواہی پیامبرؐ را در ہمہ زمینہہا اطاعت کنند و ہر کس چنین نکند گرفتار ہلاکت ابدی و عذاب شدید خواہد شد۔[23]
نسخ آیہ فیء
بہ گزارش برخی مفسران، گروہی معتقدند آیہ فیء با آیہ خمس نسخ شدہ است۔ براساس نظر آنہا این آیہ در بیان حکم غنیمت قبل از آیہ خمس است۔ ازاینرو، تا پیش از نزول آیہ خمس، حکم ہمہ غنائم بر اساس این آیہ بود؛ اما بعد از نزول آیہ خمس، حکم غنائم تغییر کرد و فقط یک پنجم غنائم برای خداوند و رسولش در نظر گرفتہ شدہ و باقی اموال برای مسلمانانی بود کہ در جنگ حضور داشتند۔[24]
آیا آیہ شامل غزوہ بنینضیر میشود؟
برخی از مفسران سؤالی ذیل آیہ مطرح کردہاند۔ آن اینکہ اگر فیء بہ معنای آن چیزی باشد کہ بدون جنگ بہ دست مسلمانان افتادہ است، پس نباید آیہ شامل غزوہ بنینضیر شود؛ زیرا غنائم بنینضیر بدون جنگ در اختیار مسلمانان قرار نگرفت؛ بلکہ با جنگ و لشکرکشی بہ دست آمد۔[25]
دو پاسخ برای این سوال مطرح شدہ است۔ اول اینکہ برخی گفتہاند این آیہ در مورد غزوہ بنینضیر نازل نشدہ، بلکہ شأن نزول آن فدک بود، چون در جریان فدک، یہودیانی کہ در فدک بودند، آنجا را بدون جنگ و خونریزی ترک کردند۔[26] دوم اینکہ برخی این آیہ را در مورد غزوہ بنینضیر دانستہاند؛ اما معتقدند جنگ و مواجہہ مسلمانان با بنینضیر جنگ واقعی نبود؛ زیرا در مورد جنگ و خونریزی گزارش تاریخی صحیحی ارائہ نشدہ است۔ از ہمین رو، خداوند غنائم حاصلشدہ از این جنگ را در حکم غنائم بدون جنگ قرار دادہ است۔[27]
جستار ہای وابستہ
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص501؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص208؛ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص96؛ طبری، جامعالبیان، 1412ھ، ج28، ص24؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص429۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص501؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص564؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ طبرسی، مجمعالبیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص392۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص208؛ طبری، جامعالبیان، 1412ھ، ج28، ص24-25؛ ابوحیان اندلسی، البحر المحیط فی التفسیر، 1420ھ، ج10، ص140۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص203؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص562؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص94؛ قمی کاشانی، منہجالصادقین، 1330ہجری شمسی، ج9، ص223۔
- ↑ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص563۔
- ↑ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص430۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص430۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص502؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص203؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص562؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ،ج 29، ص506۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص501؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص203؛ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص95؛ طبری، جامعالبیان، 1412ھ، ج28، ص25؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی، 1373ہجری شمسی،ج4، ص429۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص504؛ مظہری، تفسیر المظہری، 1412ھ، ج9، ص238۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص205؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص430؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص564؛ قمی کاشانی، منہجالصادقین، 1330ہجری شمسی، ج9، ص224۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص505؛ طبرسی، مجمعالبیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص391-392۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص506۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص506۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص506؛ قمی کاشانی، منہجالصادقین، 1330ہجری شمسی، ج9، ص224۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص504۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص507؛ قمی کاشانی، منہجالصادقین، 1330ہجری شمسی، ج9، ص224۔
- ↑ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص563؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص433-434؛
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص503۔
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506۔
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج23، ص503-504۔
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمد حسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1419ھ۔
- ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، تحقیق صدقی محمد جمیل، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
- شريف لاہيجى، محمد بن على، تفسير شريف لاہيجى، تحقيق ميرجلالالدين حسينى ارموى، تہران، داد، 1373ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، لبنان، دار المعرفہ، 1412ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- قمی کاشانی، ملا فتح اللہ، منہج الصادقین ، تہران، چاپخانہ محمد حسن علمی، 1330ہجری شمسی۔
- مظہری، محمد ثناءاللہ، تفسیر المظہری، پاکستان، مکتبہ رشدیہ، 1412ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
سوانح حیات مولانا مقبول احمد دہلوی
زندگی نامہ
مولانا مقبول احمدد ہلوی ہندوستان کے مفسر و مترجم قرآن ہیں جو سنہ1287 ھ بمطابق سنہ 1870ء کو " دہلی"پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کا نام" غضنفر علی "تھا جواپنے زمانے کے خطباء میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم پانی پت میں حاصل کرکے" دہلی "کا رخ کیا اور "اینگلو عربک ہائی اسکول" میں داخلہ لے لیا۔ سنہ 1889ء میں مشن کالج سے ایف۔اے کی سند اعلی نمبروں کے ساتھ حاصل کی جس کے بعد تصنیف و تالیف اور خطابت میں مصروف ہو گۓ۔ مدرسہ اثنا عشریہ (دہلی) میں کچھ عرصہ سے سرگرم عمل رہنے کے بعد سنہ 1894ء میں راجہ سید باقر علی خان والی ریاست "پنڈراول" نے آپ کو اپنا پرائویٹ سکریٹری مقرر کیا۔
مذہب تشیع اور دینی تعلیم
سنہ1886ء میں اپنی تحقیق سے مذہب تشیع اختیار کیا اور اسکا اعلان جامع مسجد (دہلی) میں کرتے ہوۓ مناظرہ کا چیلنج کیا۔
خطابت
آپ کی خطابت میں دہلی کی زبان، طبعی مزاح ،علمی وزن ،شیریں بیانی اور مناظرانہ اسلوب تھا ، موصوف نے خطابت کےذریعہ منبر کو نیا اسلوب دیا اور مجلس کو نیا رنگ دیا ، انگریزی علوم سے واقفیت اور فریقین کی کتابوں کے مطالعے نے ان کے بیان میں جدّت پیدا کر دی تھی آپ شیعہ خطباء میں عظیم خطیب مانے جاتے تھے ، جس وقت آپ نواب حامد علی خان کی مسجد میں وعظ کر رہے تھےتو راجہ سید ابو جعفر کا تار آیا وہ 19 رمضان کی تاریخ اور جمعہ کا دن تھا لہذا مولانا 21 رمضان المبارک کی مجلس پڑھنے فیض آباد چلے گۓ ، یہ مجلس اتنی معرکے کی ہوئی کہ مولانا شہرت و عزت کے بام عروج پر پہنچ گۓ فیض آباد ،جونپور، لکھنؤ غرض شہرت کا دائرہ وسیع ہو گیا ،نواب صاحب رامپور نے آپ کی علمی اور عملی صلاحیت دیکھی تو ریاست میں آڈٹ آفیسر رکھ لیا ،بارہ سنہ تک اس منصب پر قائم رہے ،اس دوران آپ مجلسیں بھی پڑھتے تھے اور نواب صاحب کی خواہش پر تفسیر وترجمہ قرآن مجید بھی لکھتے تھے جس میں مولانا اعجاز حسن بدایونی کی مدد شامل حال رہی۔
تفسیر قرآن
مولانا مقبول احمد نے اپنی تفسیر میں عام طور سے تفسیر صافی کو ترجیح دی ہے اور بعض مقامات پر دوسری معتبر تفسیروں سے بھی استفادہ کیا ہے،آپ نے قرآن کا بطور کامل ترجمہ کیا، حواشی میں تفسیری نکات تحریر کئے اور اس سلسلے میں روایات سے بھرپور استفادہ کیاہے ، زیادہ تر شیعہ و سنی اختلافی مسائل کو بیان کیا اور انہی مطالب پر مشتمل ایک علیحدہ ضمیمہ بھی لکھا چونکہ ضمائم کا حجم زیادہ تھا اس لئے وہ ایک مستقل جلد میں طبع ہوۓ ۔
ترجمہ قرآن
ترجمہ قرآن کا وہ نسخہ جو مقبول پریس کی طرف سے تیسری بار چھپا ہے، اس ترجمہ کے ابتدائی صفحات پر چند علماء کی تقریظات مرقوم ہیں جن میں مولانا سید احمد علی؛سید کلب حسین ؛سید محمد دہلوی؛سید نجم الحسن امروہوی؛سید سبط نبی نوگانوی ؛سید محمد باقر؛سید محمد ہادی؛سید آقا حسن،سید ناصر حسین وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں یہ ترجمہ 966 صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ نے ترجمہ اور تفسیر لکھنے میں جیسے اصول کافی ٬تفسیر قمی ٬تفسیرعیاشی احتجاج طبرسی ٬تفسیر مجمع البیان اور تفسیر صافی وغیرہ سے استفادہ کیا ان کاترجمہ با محاورہ ہے، اگر چہ بعض جگہوں پر اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ آیات کے تحت اللفظی ترجمہ سے استفادہ کریں ۔
مذہب تشیع میں داخلہ اور اس کی تبلیغ
سنہ 1920ء میں تقریباً سو اورسنہ 1921ءمیں دوبارہ اسی تعداد میں آغا خانی حضرات کو مذہب حقّہ کی طرف لاۓ،اسی لۓ ممبئ کے حضرات آپ کے قدر دان ہو گۓ اسی زمانے میں موصوف حج و زیارات سے مشرف ہوۓ۔ مولانا مقبول احمد انتہائی ملنسار،ہمدرد اور سخی انسان تھے ،انہوں نے قومی ترقی کیلۓ تجارت ،مدارس، وظیفہ سادات و مومنین جیسے اداروں کی بڑی خدمت انجام دی۔
تصانیف
وعظ و تبلیغ اور دوسرے امور کی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا،ترجمہ وتفسیرقرآن مجید جو تین صورتوں میں چھپا (1) حمائل متن و ترجمہ حواشی، (2) قرآن مجید ترجمہ و حواشی،(3) قرآن مجید ترجمہ, حواشی و ضمیمہ ،مفتی مکّہ "سید احمد دحلان " کی کتاب" اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب" کا ترجمہ،مقبول دینیات 5 حصّے، زائچہ تقدیر،فال نامہ دانیال،تہذیب الاسلام ،وظائف مقبول چودہ سورتوں اور کچھ دعاؤں کا مجموعہ اور مفتاح القرآن جن میں سے مقبول صاحب کا قرآنی ترجمہ اب تک مقبول ہے اور بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے۔
وفات
آخر کا یہ علم و فضل کا آفتاب سنہ 1340ھ بمطابق 24 ستمبرسنہ 1921ء میں سرزمین دہلی پر غروب ہو گیا ، نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ پنجہ شریف "دہلی" میں سپرد خاک کر دیا گیا ،ملک بھر میں تعزیتی جلسوں اور مجلسوں کا طویل سلسلہ قائم رہا ،آپ کی یاد میں دہلی میں "مدرسۃ القرآن "اور آگرہ میں "مقبول المدارس" کی بنیاد رکھی گئ۔ ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص263، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔