صارف:Waziri/تختہ مشق
نئی ترمیم
سوانح حیات مولانا مقبول احمد دہلوی
زندگی نامہ
مولانا مقبول احمدد ہلوی ہندوستان کے مفسر و مترجم قرآن ہیں جو سنہ1287 ھ بمطابق سنہ 1870ء کو " دہلی"پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کا نام" غضنفر علی "تھا جواپنے زمانے کے خطباء میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم پانی پت میں حاصل کرکے" دہلی "کا رخ کیا اور "اینگلو عربک ہائی اسکول" میں داخلہ لے لیا۔ سنہ 1889ء میں مشن کالج سے ایف۔اے کی سند اعلی نمبروں کے ساتھ حاصل کی جس کے بعد تصنیف و تالیف اور خطابت میں مصروف ہو گۓ۔ مدرسہ اثنا عشریہ (دہلی) میں کچھ عرصہ سے سرگرم عمل رہنے کے بعد سنہ 1894ء میں راجہ سید باقر علی خان والی ریاست "پنڈراول" نے آپ کو اپنا پرائویٹ سکریٹری مقرر کیا۔
مذہب تشیع اور دینی تعلیم
سنہ1886ء میں اپنی تحقیق سے مذہب تشیع اختیار کیا اور اسکا اعلان جامع مسجد (دہلی) میں کرتے ہوۓ مناظرہ کا چیلنج کیا۔
خطابت
آپ کی خطابت میں دہلی کی زبان، طبعی مزاح ،علمی وزن ،شیریں بیانی اور مناظرانہ اسلوب تھا ، موصوف نے خطابت کےذریعہ منبر کو نیا اسلوب دیا اور مجلس کو نیا رنگ دیا ، انگریزی علوم سے واقفیت اور فریقین کی کتابوں کے مطالعے نے ان کے بیان میں جدّت پیدا کر دی تھی آپ شیعہ خطباء میں عظیم خطیب مانے جاتے تھے ، جس وقت آپ نواب حامد علی خان کی مسجد میں وعظ کر رہے تھےتو راجہ سید ابو جعفر کا تار آیا وہ 19 رمضان کی تاریخ اور جمعہ کا دن تھا لہذا مولانا 21 رمضان المبارک کی مجلس پڑھنے فیض آباد چلے گۓ ، یہ مجلس اتنی معرکے کی ہوئی کہ مولانا شہرت و عزت کے بام عروج پر پہنچ گۓ فیض آباد ،جونپور، لکھنؤ غرض شہرت کا دائرہ وسیع ہو گیا ،نواب صاحب رامپور نے آپ کی علمی اور عملی صلاحیت دیکھی تو ریاست میں آڈٹ آفیسر رکھ لیا ،بارہ سنہ تک اس منصب پر قائم رہے ،اس دوران آپ مجلسیں بھی پڑھتے تھے اور نواب صاحب کی خواہش پر تفسیر وترجمہ قرآن مجید بھی لکھتے تھے جس میں مولانا اعجاز حسن بدایونی کی مدد شامل حال رہی۔
تفسیر قرآن
مولانا مقبول احمد نے اپنی تفسیر میں عام طور سے تفسیر صافی کو ترجیح دی ہے اور بعض مقامات پر دوسری معتبر تفسیروں سے بھی استفادہ کیا ہے،آپ نے قرآن کا بطور کامل ترجمہ کیا، حواشی میں تفسیری نکات تحریر کئے اور اس سلسلے میں روایات سے بھرپور استفادہ کیاہے ، زیادہ تر شیعہ و سنی اختلافی مسائل کو بیان کیا اور انہی مطالب پر مشتمل ایک علیحدہ ضمیمہ بھی لکھا چونکہ ضمائم کا حجم زیادہ تھا اس لئے وہ ایک مستقل جلد میں طبع ہوۓ ۔
ترجمہ قرآن
ترجمہ قرآن کا وہ نسخہ جو مقبول پریس کی طرف سے تیسری بار چھپا ہے، اس ترجمہ کے ابتدائی صفحات پر چند علماء کی تقریظات مرقوم ہیں جن میں مولانا سید احمد علی؛سید کلب حسین ؛سید محمد دہلوی؛سید نجم الحسن امروہوی؛سید سبط نبی نوگانوی ؛سید محمد باقر؛سید محمد ہادی؛سید آقا حسن،سید ناصر حسین وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں یہ ترجمہ 966 صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ نے ترجمہ اور تفسیر لکھنے میں جیسے اصول کافی ٬تفسیر قمی ٬تفسیرعیاشی احتجاج طبرسی ٬تفسیر مجمع البیان اور تفسیر صافی وغیرہ سے استفادہ کیا ان کاترجمہ با محاورہ ہے، اگر چہ بعض جگہوں پر اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ آیات کے تحت اللفظی ترجمہ سے استفادہ کریں ۔
مذہب تشیع میں داخلہ اور اس کی تبلیغ
سنہ 1920ء میں تقریباً سو اورسنہ 1921ءمیں دوبارہ اسی تعداد میں آغا خانی حضرات کو مذہب حقّہ کی طرف لاۓ،اسی لۓ ممبئ کے حضرات آپ کے قدر دان ہو گۓ اسی زمانے میں موصوف حج و زیارات سے مشرف ہوۓ۔ مولانا مقبول احمد انتہائی ملنسار،ہمدرد اور سخی انسان تھے ،انہوں نے قومی ترقی کیلۓ تجارت ،مدارس، وظیفہ سادات و مومنین جیسے اداروں کی بڑی خدمت انجام دی۔
تصانیف
وعظ و تبلیغ اور دوسرے امور کی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا،ترجمہ وتفسیرقرآن مجید جو تین صورتوں میں چھپا (1) حمائل متن و ترجمہ حواشی، (2) قرآن مجید ترجمہ و حواشی،(3) قرآن مجید ترجمہ, حواشی و ضمیمہ ،مفتی مکّہ "سید احمد دحلان " کی کتاب" اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب" کا ترجمہ،مقبول دینیات 5 حصّے، زائچہ تقدیر،فال نامہ دانیال،تہذیب الاسلام ،وظائف مقبول چودہ سورتوں اور کچھ دعاؤں کا مجموعہ اور مفتاح القرآن جن میں سے مقبول صاحب کا قرآنی ترجمہ اب تک مقبول ہے اور بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے۔
وفات
آخر کا یہ علم و فضل کا آفتاب سنہ 1340ھ بمطابق 24 ستمبرسنہ 1921ء میں سرزمین دہلی پر غروب ہو گیا ، نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ پنجہ شریف "دہلی" میں سپرد خاک کر دیا گیا ،ملک بھر میں تعزیتی جلسوں اور مجلسوں کا طویل سلسلہ قائم رہا ،آپ کی یاد میں دہلی میں "مدرسۃ القرآن "اور آگرہ میں "مقبول المدارس" کی بنیاد رکھی گئ۔ ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص263، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔