صارف:Waziri/تختہ مشق
نئی ترمیم
سانچہ:جعبہ اطلاعات روایت امام علیؑ کا اَشْعَث بن قیس کے نام خط، مکتوبات نہج البلاغہ میں سے ایک ہے جسے امام علیؑ نے قتل عثمان اور طَلحہ و زُبَیر کی بیعت شکنی جیسے واقعات کی یاددہانی کرتے ہوئے اَشعث بن قیس کے نام لکھا ہے جو اس وقت آذربایجان کے والے تھے اور وہ آپؑ کی بیعت کرنا چاہتا تھا۔[1] امام علیؑ نے اس خط کے آخر میں بیت المال کی حفاظت کے بارے میں اشعث کو خبرار کرتے ہیں۔[2] نہج البلاغہ کے شارح آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اس خط کا بنیادی مقصد اشعث کو یہ بتانا تھا کہ اسلامى حكومت میں حکومتی مناصب بھی خدا کی امانت ہے جسے ذاتی منفعت یا لوگوں پر ظلم و زیادتی کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔[3] امام علیؑ نے اس خط کو سنہ 36ھ کو جنگ جَمَل کے بعد تحریر کیا ہے[4] اور زیاد بن مرحب ہمدانی کے ذریعے اشعث تک پہنچایا ہے۔[5]
مورخ ابن اَعثَم کوفی (متوفی: 320ھ کے بعد) نے الفُتوح میں اور نصر بن مُزاحم (دوسری صدی) نے کتاب وقعۃ صفین میں اس خط کے متن مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔[6] سید رضی نے فقط اس خط کے آخری جملوں کو نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔[7] یہ خط نہج البلاغہ کے صبحی صالح، فیض الاسلام، ابنمیثم اور دورے مصححین کے نسخوں میں پانچویں نمبر پر آیا ہے۔[8]
اَشْعث بن قَیس کِندی (متوفی: 40ھ) ان افراد میں سے تھا جو آذربایجان کی فتح کے موقع پر حاضر تھا اور سنہ 25ھ سے عثمان بن عَفّان کی طرف سے آذربایجان میں بطور گورنر تعینات تھے۔[9]مورخین کے مطابق اشعث نے عثمان کی اجازت سے آذربایجان کے بیت المال سے سالانہ 1000 درہم اپنے لئے اٹھا لیتا تھا۔[10] امام علیؑ نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں اسے عزل نہیں کیا۔[11]
تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر جب اشعث نے امام علیؑ کا خط اپنے ساتھیوں کے سامنے پڑھا، تو اس کے ساتھیوں نے اسے امام علیؑ کی بیعت کی ترغیب دلائی؛ لیکن اس نے کہا کہ مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں امام علیؑ کی طرف چلا جاؤں تو علی آذربایجان کے بیت المال سے لیا ہوا مال مجھ سے واپس لے لے گا، حالانکہ اگر میں معاویہ کی طرف چلا جاؤں تو وہ مجھ سے کوئی چیز طلب نہیں کرے گا۔[12] اس روایت کے مطابق اشعث اپنے ساتھیوں کی سرزنش پر اپنی بات سے سرشمندہ ہوا[13] اور مورخین کے مطابق اشعث نے کوفہ کی سمت حرکت کیا، امام علیؑ نے آذربایجان کے بیت المال سے لیا ہوا مال اس سے واپس لیا اور اسے گورنری سے عزل کیا۔[14]
خط کا متن
متن | ترجمہ |
أَمَّا بَعْدُ فَلَوْ لَا ہَنَاتٌ كُنَّ فِيكَ كُنْتَ الْمُقَدَّمَ فِي ہَذَا الْأَمْرِ قَبْلَ النَّاسِ وَ لَعَلَّ أَمْرَكَ يَحْمِلُ بَعْضُہُ بَعْضاً إِنِ اتَّقَيْتَ اللَّہَ ثُمَّ إِنَّہُ كَانَ مِنْ بَيْعَۃِ النَّاسِ إِيَّايَ مَا قَدْ بَلَغَكَ وَ كَانَ طَلْحَۃُ وَ الزُّبَيْرُ مِمَّنْ بَايَعَانِي ثُمَّ نَقَضَا بَيْعَتِي عَلَى غَيْرِ حَدَثٍ وَ أَخْرَجَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ وَ سَارَا إِلَى الْبَصْرَۃِ فَسِرْتُ إِلَيْہِمَا فَالْتَقَيْنَا فَدَعَوْتُہُمْ إِلَى أَنْ يَرْجِعُوا فِيمَا خَرَجُوا مِنْہُ فَأَبَوْا فَأَبْلَغْتُ فِي الدُّعَاءِ وَ أَحْسَنْتُ فِي الْبَقِيَّۃِ وَ إِنَّ عَمَلَكَ لَيْسَ لَكَ بِطُعْمَۃٍ وَ لَكِنَّہُ أَمَانَۃٌ وَ فِي يَدَيْكَ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّہِ وَ أَنْتَ مِنْ خُزَّانِ اللَّہِ عَلَيْہِ حَتَّى تُسَلِّمَہُ إِلَيَّ وَ لَعَلِّي أَلَّا أَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَكَ إِنِ اسْتَقَمْتَ وَ لا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ۔[15] | اما بعد، اگر تمہاری کچھ کم کاریاں نہ ہوتی، پیش از دیگر مردمان در این امر پیشگام میشدی۔ اما شايد كاری کنی کہ آن کار تو را جبران كند اگر تقوای الہی پیشہ کنی۔ آنچہ از بیعت مردم با من رخ دادہ، بہ تو رسیدہ است و طلحہ و زبیر نیز از جملہ کسانی بودند کہ با من بیعت کردند، اما بدون اینکہ حادثہای رخ دہد، بیعت خود را شکستند۔ آنان ام المؤمنین را بہ ہمراہ خود بردہ و بہ بصرہ رفتند، پس من بہ سوی آنہا حرکت کردم۔ با آنہا روبرو شدم و آنان را دعوت کردم کہ بہ آنچہ ترک کردہاند، بازگردند، اما نپذیرفتند۔ در دعوت خود نہایت تلاش را کردم و در برخورد باقیماندہ نیز نیک رفتار کردم۔ بدان کہ کاری کہ در دست داری خوراک (طعمہ) تو نیست، بلکہ امانتی است۔ و در دستان تو مالی از اموال خداوند است و تو از خزانہداران خداوند ہستی تا اینکہ آن را بہ من بسپاری۔ و شاید من بدترین والیان تو نباشم اگر راہ راست را پیش بگیری۔ و ہیچ نیرویی جز از سوی خدا نیست۔ |
اشعث ابن قیس والی آذر بائیجان کے نام یہ عہدہ [۱] تمہارے لئے کوئی آزوقہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمہاری گردن میں ایک امانت (کا پھندا) ہے اور تم اپنے حکمران بالا کی طرف سے حفاظت پر مامور ہو۔ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ رعیت کے معاملہ میں جو چاہو کر گزرو۔ خبردار! کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ نہ ڈالا کرو۔ تمہارے ہاتھوں میں خدائے بزرگ و برتر کے اموال میں سے ایک مال ہے اور تم اس وقت تک اس کے خزانچی ہو جب تک میرے حوالے نہ کر دو۔ بہرحال میں غالباً تمہارے لئے بر احکمران تو نہیں ہوں۔ والسلام۔
پانوشت
منابع
- آقازادہ، جعفر، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان»، پژوہشنامہ تاریخ ہای محلی ایران، دورہ:7، شمارہ:1، 1397ہجری شمسی۔
- ابنابیالحدید، عبد الحمید، شرح نہج البلاغۃ، قم، مکتبۃ آیۃاللہ العظمی المرعشی النجفی، بیتا۔
- ابناعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، بیروت، دار الأضواء، 1411ھ۔
- ابنمزاحم منقری، نصر، وقعۃ صفین، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
- ابنمیثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر الکتاب۔، 1404ھ۔
- بلاذری، یحیی، فتوح البلدان، قاہرہ، مطبعۃ لجنۃ البیان العربی، 1957م۔
- سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
- عبدہ، محمد، شرح نہج البلاغۃ، قاہرہ، مطبعہ الاستقامہ، بیتا۔
- فیضالاسلام اصفہانی، علینقی، ترجمہ و شرح نہج البلاغہ،بیجا، بینا، 1368ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال نہج البلاغۃ، بیروت، دارالعلم للملایین، 1979م۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
- یعقوبی، احمد بن ابییعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بیتا۔
سانچہ:امام علی ؑ ردہ:نامہہای نہج البلاغہ ردہ:مقالہہای با درجہ اہمیت ج ردہ:مقالہہای آمادہ ترجمہ سانچہ:درجہبندی
نسخہ خطی ابنمہذب از نامہ امام علی بہ سہل بن حنیف (بہ تاریخ 469ق) نامۀ امام علی بہ سَہْل بن حُنَیف از نامہہای امام علیؑ است کہ پس از پیوستن برخی یاران سَہْل بن حُنَیف بہ معاویہ، برای دلداریدادن بہ سہل نوشتہ شد۔[16] امام علیؑ در این نامہ بہ سہل، فرماندار خود در مدینہ نوشتہ است کہ از پیوستن برخی از مردم مدینہ بہ معاویہ، ناراحت نباشد؛ زیرا آنان برای فرار از ستم و رسیدن بہ عدالت بہ معاویہ ملحق نشدند؛ زیرا عدالت حکومت و برخورد یکسان آن با مردم را دیدند؛ بلکہ برای رسیدن بہ اموال دنیوی بہ سوی معاویہ رفتند و گمراہ شدند۔[17]
سہل بن حنیف از صحابہ پیامبرؐ، کارگزار امام علیؑ در مدینہ[18] و از شرطۃ الخمیس[19] بودہ است۔
نامہ امام علیؑ بہ سہل بن حنیف در منابع مختلف شیعہ و اہلسنت ذکر شدہ است؛ البتہ نقل سید رضی در نہجالبلاغہ با متن بَلاذُری (تاریخنگار قرن سوم ہجری قمری) در اَنساب الاشراف[20] و یعقوبی در تاریخ یعقوبی اندکی متفاوت است۔ این نامہ در نسخہ ابنمیثم شمارہ 69[21] و در نسخہہای ابنابیالحدید،[22] علامہ مجلسی،[23] محمد عبدہ،[24] صبحی صالح و فیض الاسلام[25] شمارہ 70[26] ذکر شدہ است۔
متن | ترجمه |
من كتاب لہ ع إلى سہل بن حنيف الأنصاری و ہو عاملہ على المدينۃ فی معنى قوم من أہلہا لحقوا بمعاويۃ |
از نامہہاى امام عليہ السلام بہ «سہل بن حنيف» فرماندار «مدينہ» در بارہ گروہى كہ بہ معاويہ ملحق شدہ بودند |
أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِمَّنْ قِبَلَكَ يَتَسَلَّلُونَ إِلَى مُعَاوِيَۃَ فَلَا تَأْسَفْ عَلَى مَا يَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِہِمْ وَ يَذْہَبُ عَنْكَ مِنْ مَدَدِہِمْ |
اما بعد بہ من خبر رسيدہ كہ افرادى از قلمرو تو مخفيانہ بہ «معاويہ» پيوستہاند بر اين تعداد كہ از دست دادہاى و از كمك آنان بىبہرہ ماندہاى افسوس مخور |
فَكَفَى لَہُمْ غَيّاً وَ لَكَ مِنْہُمْ شَافِياً فِرَارُہُمْ مِنَ الْہُدَى وَ الْحَقِّ وَ إِيضَاعُہُمْ إِلَى الْعَمَى وَ الْجَہْلِ فَإِنَّمَا ہُمْ أَہْلُ دُنْيَا مُقْبِلُونَ عَلَيْہَا وَ مُہْطِعُونَ إِلَيْہَا |
براى آنہا ہمين گمراہى بس كہ از ہدايت حق بسوى كوردلى و جہل شتافتہاند و اين براى تو مايہ آرامش خاطر است آنہا دنياپرستانى ہستند كہ با سرعت بہ آن روى آوردہاند |
وَ قَدْ عَرَفُوا الْعَدْلَ وَ رَأَوْہُ وَ سَمِعُوہُ وَ وَعَوْہُ وَ عَلِمُوا أَنَّ النَّاسَ عِنْدَنَا فِي الْحَقِّ أُسْوَۃٌ فَہَرَبُوا إِلَى الْأَثَرَۃِ فَبُعْداً لَہُمْ وَ سُحْقاً إِنَّہُمْ وَ اللَّہِ لَمْ [يَفِرُّوا] يَنْفِرُوا مِنْ جَوْرٍ وَ لَمْ يَلْحَقُوا بِعَدْلٍ |
در حالى كہ عدالت را بہ خوبى شناختہ و ديدہ و گزارش آنرا شنيدہ اند و بخاطر سپردہاند كہ ہمہ مردم در نزد ما و در آئين حكومت ما حقوق برابر دارند آنہا از اين برابرى بہ سوى خود خواہى و تبعيض و منفعت طلبى گريختہ اند۔ دور باشند از رحمت خدا بخدا سوگند آنہا از ستم نگريختہ اند و بہ عدل روى نياوردہ اند۔ |
وَ إِنَّا لَنَطْمَعُ فِي ہَذَا الْأَمْرِ أَنْ يُذَلِّلَ اللَّہُ لَنَا صَعْبَہُ وَ يُسَہِّلَ لَنَا حَزْنَہُ إِنْ شَاءَ اللَّہُ وَ السَّلَام۔[27] |
و ما اميدواريم كہ در اين راہ خداوند مشكلات را بر ما آسان سازد۔ و سختیہا را ہموار ان شاء اللّہ۔ و السلام۔[28] |
پانویس
منابع
- ابنابیالحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
- ابنمیثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، نشر الکتاب، 1404ھ۔
- برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1342ہجری شمسی۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1394ھ۔
- سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مصحح: صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تصحیح قیومی اصفہانی، جواد، قم، موسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجامعۃ المدرسین بقم المقدسۃ، 1373ہجری شمسی۔
- عبدہ، محمد، شرح نہج البلاغہ، قاہرہ، مطبعۃ الاستقامۃ، بیتا۔
- فیض الاسلام، علینقی، ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، 1368ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، شرح نہج البلاغۃ المقتطف من بحار الانوار، تصحیح: علی انصاریان و مرتضی حاجعلی فرد، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1408ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، ترجمہ گویا و شرح فشردہای بر نہج البلاغہ، قم، ہدف، چاپ اول، بیتا۔
- یعقوبی، احمد بن ابییعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔
ردہ:نامہہای نہج البلاغہ ردہ:مقالہہای جدید ردہ:مقالہہای با درجہ اہمیت ج ردہ:مقالہہای آمادہ ترجمہ سانچہ:درجہبندی
سوانح حیات مولانا مقبول احمد دہلوی
زندگی نامہ
مولانا مقبول احمدد ہلوی ہندوستان کے مفسر و مترجم قرآن ہیں جو سنہ1287 ھ بمطابق سنہ 1870ء کو " دہلی"پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کا نام" غضنفر علی "تھا جواپنے زمانے کے خطباء میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم پانی پت میں حاصل کرکے" دہلی "کا رخ کیا اور "اینگلو عربک ہائی اسکول" میں داخلہ لے لیا۔ سنہ 1889ء میں مشن کالج سے ایف۔اے کی سند اعلی نمبروں کے ساتھ حاصل کی جس کے بعد تصنیف و تالیف اور خطابت میں مصروف ہو گۓ۔ مدرسہ اثنا عشریہ (دہلی) میں کچھ عرصہ سے سرگرم عمل رہنے کے بعد سنہ 1894ء میں راجہ سید باقر علی خان والی ریاست "پنڈراول" نے آپ کو اپنا پرائویٹ سکریٹری مقرر کیا۔
مذہب تشیع اور دینی تعلیم
سنہ1886ء میں اپنی تحقیق سے مذہب تشیع اختیار کیا اور اسکا اعلان جامع مسجد (دہلی) میں کرتے ہوۓ مناظرہ کا چیلنج کیا۔
خطابت
آپ کی خطابت میں دہلی کی زبان، طبعی مزاح ،علمی وزن ،شیریں بیانی اور مناظرانہ اسلوب تھا ، موصوف نے خطابت کےذریعہ منبر کو نیا اسلوب دیا اور مجلس کو نیا رنگ دیا ، انگریزی علوم سے واقفیت اور فریقین کی کتابوں کے مطالعے نے ان کے بیان میں جدّت پیدا کر دی تھی آپ شیعہ خطباء میں عظیم خطیب مانے جاتے تھے ، جس وقت آپ نواب حامد علی خان کی مسجد میں وعظ کر رہے تھےتو راجہ سید ابو جعفر کا تار آیا وہ 19 رمضان کی تاریخ اور جمعہ کا دن تھا لہذا مولانا 21 رمضان المبارک کی مجلس پڑھنے فیض آباد چلے گۓ ، یہ مجلس اتنی معرکے کی ہوئی کہ مولانا شہرت و عزت کے بام عروج پر پہنچ گۓ فیض آباد ،جونپور، لکھنؤ غرض شہرت کا دائرہ وسیع ہو گیا ،نواب صاحب رامپور نے آپ کی علمی اور عملی صلاحیت دیکھی تو ریاست میں آڈٹ آفیسر رکھ لیا ،بارہ سنہ تک اس منصب پر قائم رہے ،اس دوران آپ مجلسیں بھی پڑھتے تھے اور نواب صاحب کی خواہش پر تفسیر وترجمہ قرآن مجید بھی لکھتے تھے جس میں مولانا اعجاز حسن بدایونی کی مدد شامل حال رہی۔
تفسیر قرآن
مولانا مقبول احمد نے اپنی تفسیر میں عام طور سے تفسیر صافی کو ترجیح دی ہے اور بعض مقامات پر دوسری معتبر تفسیروں سے بھی استفادہ کیا ہے،آپ نے قرآن کا بطور کامل ترجمہ کیا، حواشی میں تفسیری نکات تحریر کئے اور اس سلسلے میں روایات سے بھرپور استفادہ کیاہے ، زیادہ تر شیعہ و سنی اختلافی مسائل کو بیان کیا اور انہی مطالب پر مشتمل ایک علیحدہ ضمیمہ بھی لکھا چونکہ ضمائم کا حجم زیادہ تھا اس لئے وہ ایک مستقل جلد میں طبع ہوۓ ۔
ترجمہ قرآن
ترجمہ قرآن کا وہ نسخہ جو مقبول پریس کی طرف سے تیسری بار چھپا ہے، اس ترجمہ کے ابتدائی صفحات پر چند علماء کی تقریظات مرقوم ہیں جن میں مولانا سید احمد علی؛سید کلب حسین ؛سید محمد دہلوی؛سید نجم الحسن امروہوی؛سید سبط نبی نوگانوی ؛سید محمد باقر؛سید محمد ہادی؛سید آقا حسن،سید ناصر حسین وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں یہ ترجمہ 966 صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ نے ترجمہ اور تفسیر لکھنے میں جیسے اصول کافی ٬تفسیر قمی ٬تفسیرعیاشی احتجاج طبرسی ٬تفسیر مجمع البیان اور تفسیر صافی وغیرہ سے استفادہ کیا ان کاترجمہ با محاورہ ہے، اگر چہ بعض جگہوں پر اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ آیات کے تحت اللفظی ترجمہ سے استفادہ کریں ۔
مذہب تشیع میں داخلہ اور اس کی تبلیغ
سنہ 1920ء میں تقریباً سو اورسنہ 1921ءمیں دوبارہ اسی تعداد میں آغا خانی حضرات کو مذہب حقّہ کی طرف لاۓ،اسی لۓ ممبئ کے حضرات آپ کے قدر دان ہو گۓ اسی زمانے میں موصوف حج و زیارات سے مشرف ہوۓ۔ مولانا مقبول احمد انتہائی ملنسار،ہمدرد اور سخی انسان تھے ،انہوں نے قومی ترقی کیلۓ تجارت ،مدارس، وظیفہ سادات و مومنین جیسے اداروں کی بڑی خدمت انجام دی۔
تصانیف
وعظ و تبلیغ اور دوسرے امور کی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا،ترجمہ وتفسیرقرآن مجید جو تین صورتوں میں چھپا (1) حمائل متن و ترجمہ حواشی، (2) قرآن مجید ترجمہ و حواشی،(3) قرآن مجید ترجمہ, حواشی و ضمیمہ ،مفتی مکّہ "سید احمد دحلان " کی کتاب" اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب" کا ترجمہ،مقبول دینیات 5 حصّے، زائچہ تقدیر،فال نامہ دانیال،تہذیب الاسلام ،وظائف مقبول چودہ سورتوں اور کچھ دعاؤں کا مجموعہ اور مفتاح القرآن جن میں سے مقبول صاحب کا قرآنی ترجمہ اب تک مقبول ہے اور بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے۔
وفات
آخر کا یہ علم و فضل کا آفتاب سنہ 1340ھ بمطابق 24 ستمبرسنہ 1921ء میں سرزمین دہلی پر غروب ہو گیا ، نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ پنجہ شریف "دہلی" میں سپرد خاک کر دیا گیا ،ملک بھر میں تعزیتی جلسوں اور مجلسوں کا طویل سلسلہ قائم رہا ،آپ کی یاد میں دہلی میں "مدرسۃ القرآن "اور آگرہ میں "مقبول المدارس" کی بنیاد رکھی گئ۔ ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص263، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503؛
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص 503؛ ابنمزاحم، وقعۃ صفین، 1404ق، ص20۔
- ↑ مكارم شيرازى، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386ہجری شمسی، ج9، ص67۔
- ↑ آقازادہ، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان» ص34۔
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503۔
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503؛ ابنمزاحم منقری، وقعۃ صفین، 1404ق، ص20۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامۀ 5، ص366۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامۀ 5، ص366؛ نہج البلاغہ، تصحیح و ترجمۀ فیض الاسلام، نامۀ 5، ج5، ص389؛ ابنابیالحدید، شرح نہجالبلاغہ، بیتا، ج4، ص33؛ ابنمیثم، شرح نہجالبلاغہ، 1404ھ، ج4، ص350؛ عبدہ، شرح نہجالبلاغہ، 1404ھ، قاہرہ، ج3، ص7؛ مغنیہ، في ظلال نہج البلاغۃ، 1979م، ج3، ص388۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1957م، ج2، ص420۔
- ↑ آقازادہ، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان» ص30۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیتا، ج2، ص200۔
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص503؛ ابنمزاحم، وقعۃ صفین، 1404ق، ص21۔
- ↑ ابناعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص504؛ ابنمزاحم منقری، وقعۃ صفین، 1404ق، ص21۔
- ↑ آقازادہ، «حکومت اشعث بن قیس در آذربایجان» ص38۔
- ↑ ابنمزاحم منقري، وقعۃ صفين، 1404ق، ص20
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص66؛ بلاذری، أنساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص157۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 70، ص461۔
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص66؛ بلاذری، أنساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص157۔
- ↑ برقی، رجال البرقی الطبقات، 1342ہجری شمسی، ص4۔
- ↑ بلاذری، أنساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص157
- ↑ ابنمیثم، شرح نہج البلاغۃ، 1404ھ، ج5، ص225۔
- ↑ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج18، ص52۔
- ↑ مجلسی، شرح نہج البلاغۃ المقتطف من بحار الانوار، 1408ھ، ج3، ص307۔
- ↑ عبدہ، نہج البلاغۃ، مطبعۃ الاستقامۃ، ج3، ص144۔
- ↑ فیض الاسلام، ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، 1368ہجری شمسی، ج5، ص1071۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 70، ص461۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ 70، ص461۔
- ↑ مکارم شیرازی، ترجمہ گویا و شرح فشردہای بر نہج البلاغہ، ہدف، ج3، ص199۔