صارف:Waziri/تختہ مشق
نئی ترمیم
حرم حضرت رقیہ دمشق میں ایک زیارتگاہ ہے جو امام حسینؑ کی بیٹی رقیہ سے منسوب ہے۔ یہ روضہ حرم حضرت زینب(س) کے بعد اس شہر میں شیعوں کی دوسری زیارتگاہ ہے۔ یہ مقام پہلی دفعہ چودہویں صدی ہجری کے منابع میں حضرت رقیہ سے منسوب کی گئی ہے؛ اس سے پہلے دسویں صدی ہجری میں اس مقام کو امام حسینؑ کی کسی بیٹی کا محل دفن قرار دیا جاتا تھا جن کا نام منابع میں ذکر نہیں ہوتا تھا۔
بعض علماء اس حرم کو حضرت رقیہ سے منسوب کرنے میں تردید کا اظہار کرتے ہیں؛ بعض اسے رقیہ بنت امام علیؑ کا محل دفن اور بعض اسے مقام رأس الحسین قرار دیتے ہیں۔ البتہ اس حرم کی توسیع اور مرمت کے بارے میں ایک داستان مشہور ہے جس کے مطابق یہ حرم ایک چوٹھی بچی کا محل دفن ہے۔ حضرت رقیہ کا حرم اس وقت ایک وسیع عمارت پر مشتمل ہے جو اسلامی معماری اور مقامی و ایرانی فن تعمیر کا امتزاج ہے۔
اہمیت
حرم حضرت رقیہ دمشق میں ایک زیارتگاہ ہے جو امام حسینؑ کی بیٹی رقیہ سے منسوب ہے۔ یہ زیارتگاہ حرم حضرت زینب(س) کے بعد اس شہر میں دوسری زیارتگاہ کے عنوان سے شیعوں کی توجہ کا مرکز ہے۔[1] یہ حرم دمشق کے ایک قدمی بازار «سوق العمارہ» میں باب الفرادیس (دمشق کے ایک تاریخ دروازہ) کے قریب مسجد اموی اور بازار شام سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔[2]
انتساب
اس مقام کو رقیہ بنت امام حسینؑ یا رقیہ بنت امام علیؑ سے منسوب کئے جانے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعہ مورخ احمد خامہ یار کے مطابق یہ مقام اصل میں دمشق میں مقام راس الحسین کے نام سے مشہور تھا جہاں ایک قول کی بنا پر امام حسینؑ کا سر اقدس دفن ہیں۔ عثمانی دور حکومت سے مربوط منابع میں اس مقام کو حضرت رقیہ کے مزار کے عنوان سے معرفی کی گئی ہے۔ البتہ اسی دور سے مربوط بعض منابع میں اسے قبر حضرت رقیہ ہونے کے ساتھ مقام راس الحسین ہونے کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے؛ اس تفاوت کے ساتھ کہ حضرت رقیہ کو قدیمی منابع میں امام علیؑ کی بیٹی جبکہ نئے منابع میں امام حسینؑ کسی بیٹی قرار دی گئی ہیں۔[3]
کہا جاتا ہے کہ موجودہ حرم کو حضرت رقیہ سے منسوب کرنے والی پہلی سند دسویں صدی ہجری سے متعلق محمّد بن ابی طالب حائری کَرَکی (زندہ در ۹۵۵ق) کی کتاب «تسلیۃ المجالس» ہے۔[4] او گفتہ است در بخش شرقی مسجد جامع اموی دمشق، خرابہای را دیدہ کہ در گذشتہ، مسجد بودہ و بر سنگْنوشتہ درِ آن، نامہای پیامبر(ص)، خاندانش و امامان دوازدہ گانہ شیعہ نوشتہ شدہ بود۔ ہمچنین بر سر در آن نوشتہ شدہ بود کہ این، قبر خانم مَلَکہ، دختر حسین بن امیرالمؤمنین(ع) است۔[5]
سید محسن امین در اعیان الشیعہ دربارہ این حرم تنہا نوشتہ است قبری کہ بہ رقیہ دختر امام حسین منسوب است در محلہ العمارہ دمشق، زیارتگاہ است و میرزا علی اصغرخان [اتابک، امین السلطان]، وزیر اعظم ایران، بہ سال ۱۳۲۳ق، آن را بازسازی کردہ و در بالای در آن تاریخ بازسازی را حَک کردہاند۔[6]
در دانشنامہ امام حسین(ع) پس از بررسی انتساب حرم بہ رقیہ(س)، آمدہ است کہ براساس منابع روایی و تاریخی نمیتوان دربارہ این حرم نظر قطعی ارائہ کرد؛ اما کراماتی کہ از این مزار دیدہ شدہ و میشود، مؤید اعتبار معنوی آن است و باید این مکان را گرامی داشت۔[7]
ماجرای آب گرفتگی و نبش قبر
در برخی منابع دو قرن اخیر، بہ ماجرای نبش قبر و آشکار شدن بدن رقیہ(س) اشارہ شدہ کہ نشان میدہد کہ قبر متعلق بہ دختر خردسالی است۔ گفتہ شدہ دست کم سہ نفر این ماجرا را نقل کردہاند۔[8] نخستین آنہا مؤمن شِبلَنجی در نورالابصار، از علمای اہل سنت در قرن سیزدہم قمری، است[9] کہ صاحب مزار را رقیہ دختر امام علی(ع) معرفی کردہ و گفتہ است ہنگامی کہ برای بازسازی جنازہ را از قبر بیرون آوردند، جنازہ دیدہ شدہ کہ دختر کوچک نابالغی بودہ است۔[10]
شیخ محمدہاشم خراسانی (درگذشت ۱۳۵۲ق) در کتاب منتخب التواریخ، این مزار را متعلّق بہ رقیہ بنت الحسین(ع) دانستہ و داستان آسیب دیدن قبر را با تفصیل و ہمراہ با کراماتی ذکر کردہ است۔ وی آوردہ است سید ابراہیم دمشقی سہ دختر داشت کہ در سال ۱۲۸۰ق سہ شب بہ ترتیب از بزرگ بہ کوچک، رقیہ را در خواب دیدند کہ بہ آنہا گفت: «بہ پدرت بگو قبر مرا آب گرفتہ، بیاید و آن را تعمیر کند»۔ سید ابراہیم بہ خواب دخترانش ترتیب اثر نداد تا اینکہ شب چہارم خود رقیہ(س) را در خواب دید۔ پس از آن با حضور علمای شیعہ و اہل سنت، اقدام بہ نبش قبر کردند۔ سید ابراہیم جنازہ را کہ صحیح و سالم بود، روی زانوی خود نگہداشت تا آن را تعمیر کردند۔[11]
بہ گفتہ نویسندگان دانشنامہ امام حسین(ع)، با اینکہ انگیزہ برای ثبت و گزارش این ماجرا وجود داشت؛ اما ہیچ کس بہ جز متولیان حرم، این داستان را نقل نکردہ و سید محسن امین نیز با اینکہ در منطقہ حضور داشتہ، بہ این ماجرا اشارہ نکردہ است۔[12]
[[پروندہ:تصویر ہوایی حرم حضرت رقیہ۔jpg|بندانگشتی|240px|تصویر ہوایی حرم حضرت رقیہ در شہر دمشق]]
تاریخچہ بنا و بازسازی آن
بندانگشتی|250px|منارہ حرم حضرت رقیہ اطلاعاتی دربارہ بنای نخستین زیارتگاہ و روند بازسازی آن تا پیش از قرن نہم قمری در دست نیست۔[13] بہ نوشتہ ابن طولون دمشقی، نویسندہ کتاب الشذرات الذہبیۃ، در نیمہ دوم قرن نہم، امیر بردبک ظاہری کہ در سال ۸۷۱ق منصب نیابت دمشق را از سوی پادشاہ مملوکی بر عہدہ گرفت، ساختمان مزار را بازسازی کرد۔ یکی از کتیبہہای سنگی کہ در مزار وجود داشتہ نشان میدہد کہ میرزا بابا مستوفی گیلانی، در سال ۱۱۲۵ق بنای حرم را بازسازی کرد۔ سپس در اواخر دورہ عثمانی، میرزا علیاصغرخان اتابک، صدر اعظم دربار قاجار، مزار را در سال ۱۳۲۳ق بازسازی کرد۔[14]
بنا بہ گفتہ برخی از تاریخپژوہان، در ابتدا سلاطین ایوبی (شروع حکومت از ۱۱۷۱م) بر قبر رقیہ(ع) کہ داخل مسجد رأس الحسین قرار داشت، مقبرہای کوچک بہ ہمراہ ضریح و گنبد ساختند و در سال ۱۱۲۵ق و ۱۳۲۳ق ترمیم و بازسازی شد۔[15]
در سال ۱۳۴۳ق، کامل و محمدعلی آل نظام، از شیعیان دمشق، بنای زیارتگاہ را با ہزینہ خود بازسازی کردند۔ بنای زیارتگاہ حضرت رقیہ پیش از آن، شامل اتاقی بودہ کہ قبر میان آن قرار داشت۔ مسجد کوچکی نیز در مجاورت آن وجود داشتہ و مساحت بنا در مجموع از ۶۰ مترمربع فراتر نمیرفتہ است۔[16]
توسعہ حرم
در اوایل دہہ ۷۰ قرن بیستم میلادی تعدادی از شیعیان از جملہ نصراللہ خلخالی و امام موسی صدر کمیتہای را با ہدف توسعہ زیارتگاہ حضرت رقیہ تشکیل دادند۔ آنہا تعدادی از خانہہا و مغازہہای مجاور را خریداری کردند۔ کار توسعہ بنا در سال ۱۴۰۴ق برابر با ۱۹۸۴م۔ آغاز شد و بخش عمدہ آن در سال ۱۴۱۰ق۔ بہ پایان رسید۔[17]
گفتہ شدہ، نصراللہ خلخالی در سال ۱۳۵۰ش درصدد توسعہ حرم برآمد؛ اما برخی در اطراف حرم بہ فروش خانہہایشان راضی نبودند و وضع بہ ہمین حال ماندہ بود تا در سال ۱۳۶۳ش۔ با خرید آن خانہہا و پرداخت چندین برابر قیمت آنہا، توسعہ و ساخت بنای جدید حرم از سوی جمہوری اسلامی ایران و با حضور مقامات سوریہ آغاز شد۔[18]
در توسعہ اخیر، مجموع مساحت حرم بہ حدود ۴۵۰۰ متر مربع رسید کہ ۶۰۰ متر مربع آن مساحت فضای باز و باقی زیربنا است و در قسمت جنوبی ساختمان مسجدی بہ وسعت ۸۰۰ متر مربع ساختہ شدہ است۔ وسعت حرم و رواقہایش در بنای جدید تقریباً ۲۶۰۰ متر مربع است۔[19]
معماری
[[پروندہ:ضریح حضرت رقیہ۔jpg|بندانگشتی|250px|ضریح حضرت رقیہ]] نوع معماری کہ در توسعہ اخیر حرم حضرت رقیہ از آن استفادہ شدہ، معماری اسلامی - ایرانی است[20] و گفتہ شدہ مصالح و تزئینات آن متمایز با سایر آثار معماری و دینی دمشق است۔[21]
بنای حرم دارای چند ورودی است کہ مہمترین آن، ورودی جنوب غربی است۔ سردر این ورودی دارای طاقی است کہ در آن مقرنسہایی پوشیدہ شدہ با کاشی است و بالای آن نوشتہ شدہ «ہذا مقام السیدۃ رقیۃ بنت الحسین الشہید بکربلاء» و بالای این سردر، منارہای بہ ارتفاع ۳۴ متر از کف زمین قرار دارد۔ ورودی متصل بہ صحن اصلی حرم بہ شکل مستطیل است و گرداگرد آن رواقہایی وجود دارد۔[22]
بخش اصلی بنا شامل حرم اصلی در غرب و دو شبستان وسیع در مرکز و شرق است کہ ہر بخش نیز دارای یک ورودی در رواقہای شمالی صحن است۔ گرداگرد حرم رواقہایی با سقف آینہکاری شدہ وجود دارد۔ سقف حرم با کاشیکاریہایی پوشیدہ و بخشہایی از آن مقرنسکاری شدہ است۔ میان کاشیکاریہا، نوشتہہایی از آیات قرآن و احادیثی در فضایل اہلبیت(ع) بہ چشم میخورد۔[23]
قبر حضرت رقیہ وسط حرم قرار گرفتہ است و روی آن نیز یک صندوقچہ چوبی پوشیدہ از پارچہہای سبزرنگ و حاوی آیات قرآن وجود دارد۔ روی قبر یک ضریح نقرہای وجود دارد کہ در سال ۱۳۷۶ق/۱۹۵۶م۔ از سوی مجمع بنیزہرای تہران، بہ حرم حضرت رقیہ اہدا شد۔ این ضریح، میان ضریح نقرہ و طلاکوب جدید و بزرگتری قرار گرفتہ کہ در اصفہان ساختہ و در سال ۱۴۱۴ق/۱۹۹۴م نصب شد۔ بالای ضریح نیز گنبد اصلی حرم بہ ارتفاع ۱۴ متر از کف زمین قرار دارد کہ سطح خارجی آن با تزیینات ہندسی پوشیدہ و سطح داخلی آن نیز مقرنسکاری و آینہکاری شدہ است۔[24] بندانگشتی|170px|نبیل حلباوی، تولیت حرم حضرت رقیہ
تولیت
پس از ماجرای خواب دختران سید ابراہیم دمشقی، سلطان عبدالمجید از سلاطین عثمانی، تولیت زینبیہ، مرقد رقیہ، مرقد امکلثوم و سکینہ را بہ سید ابراہیم واگذار نمود۔ پس از سید ابراہیم دمشقی فرزند و نوہاش متولی این اماکن بودہاند۔[25] اکنون احمد الاشقر تولیت حرم حضرت رقیہ را بر عہدہ دارد۔[26]
حملہہای تروریستی بہ حرم
در سال اول وقوع تحرکات تروریستہای تکفیری در سوریہ، شیخ عباس اللحام، امام جماعت حرم حضرت رقیہ در مقابل درب ورودی حرم ہدف حملہ تروریستہا قرار گرفت و با شلیک چندین گلولہ بہ شہادت رسید۔[27] تروریستہای مستقر در منطقہ جوبر واقع در شرق شہر دمشق چندین بار اقدام بہ پرتاب خمپارہ بہ سمت مقام حضرت رقیہ کردہاند؛ ولی خمپارہہا بہ ہدف اصابت نکرد۔[28]
حوالہ جات
- ↑ قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۷۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۳۷۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۴۱ـ۲۳۷۔
- ↑ محمدی ریشہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۸۹۔
- ↑ حائری، تسلیۃ المجالس، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۹۳۔
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۲۱ق، ج۷ ص۳۴۔
- ↑ محمدی ریشہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۹۳۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۴۱۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۴۱۔
- ↑ شبلنجی، نورالأبصار، نشر رضی، ص۱۹۵۔
- ↑ خراسانی، منتخب التواریخ، ۱۳۸۸ش، ص۳۸۸۔
- ↑ محمدی ریشہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۹۲۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۴۶۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۴۶۔
- ↑ قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۷ و ۵۸؛ مقدس، راہنمای اماکن زیارتی در سوریہ، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۹ و ۱۲۰۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ص۲۴۷
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۴۹ و ۲۵۰۔
- ↑ قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۸؛ مقدس، راہنمای اماکن زیارتی در کشور سوریہ، ۱۳۸۹ش، ص۱۲۰۔
- ↑ مقدس، راہنمای اماکن زیارتی در کشور سوریہ، ۱۳۸۹ش، ۱۲۱۔
- ↑ قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۹؛ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۵۰۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۵۰
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۵۰۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۵۱۔
- ↑ خامہیار، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، ص ۲۵۲ـ۲۵۱۔
- ↑ خراسانی، منتخب التواریخ، ۱۳۸۸ش، ص۳۸۸؛ «آیا تروریستہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہاند»، سایت مشرقنیوز۔
- ↑ دیدار تولیت حرم حضرت رقیہ با تولیت آستان قدس رضوی
- ↑ «آیا تروریستہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہاند»، سایت مشرقنیوز۔
- ↑ «آیا تروریستہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہاند»، سایت مشرقنیوز۔
مآخذ
- «آیا تروریستہا بہ حرم حضرت رقیہ حملہ کردہاند»، سایت مشرقنیوز، تاریخ درج مطلب: ۸ آذر ۱۳۹۳ش، تاریخ بازدید: ۲۰ مرداد ۱۴۰۱ش۔
- امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، ۱۴۲۱ق۔
- حائری، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، ۱۴۱۸ق۔
- خامہیار، احمد، آثار پیامبر(ص) و زیارتگاہہای اہل بیت(ع) در سوریہ، پژوہشکدہ حج و زیارت، تہران، مشعر، ۱۳۹۳ش۔
- خراسانی، محمدہاشم، منتخب التواریخ، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، چاپ ہفتم، ۱۳۸۸ش۔
- «زندگی نامہ شیخ نبیل الحلباوی»، سایت مجمع جہانی اہلبیت(ع)، تاریخ بازدید: ۲۰ مرداد ۱۴۰۱ش۔
- شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الأبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار(ص)، قم، رضی، بیتا۔
- قائدان، اصغر، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، تہران، مشعر، ۱۳۸۷ش۔
- محمدی ریشہری، محمد و ہمکاران، دانشنامہ امام حسین بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، دارالحدیث، چاپ دوم، ۱۳۸۸ش۔
- مقدس، احسان، راہنمای اماکن زیارتی در کشور سوریہ (ویژہ کارگزاران حج و زیارت)، تہران، مشعر، ۱۳۸۹ش۔
- نماز جمعہ حتی یکبار تعطیل نشد، خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ انتشار: ۱۸ آذر ۱۳۹۳ش، تاریخ بازدید: ۲۰ مرداد ۱۴۰۱ش۔
سانچہ:زیارتگاہہای شیعیان سانچہ:سوریہ سانچہ:حرمہای شیعہ
ردہ:زیارتگاہہای شیعیان در دمشق ردہ:مقالہہای با درجہ اہمیت ج ردہ:بناہای تاریخی شیعہ در دمشق