صارف:Waziri/تختہ مشق
![](http://commons.wikishia.net/w/images/b/b8/%D8%A8%D8%B3%D9%85_%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87_%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%AD%D9%85%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%AD%DB%8C%D9%85-%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%82.jpg)
نئی ترمیم
قیمتی پتھر وہ جواہرات ہیں جن کا ذکر اہل بیتؑ کی احادیث میں آیا ہے اور ان کے مادی و معنوی اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور عقیق، فیروزہ، یاقوت اور زمرد ہیں۔ احادیث میں عقیق کو مصیبتوں سے حفاظت کرنے والا، فیروزہ کو سینہ کشادہ کرنے والا اور یاقوت کو غربت دور کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ دیگر قیمتی پتھروں میں زمرد، بلور اور جزع یمانی شامل ہیں، جن کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
مختلف تاریخی ذرائع کے مطابق، اہل بیت(ع) اور ان کی پیروی میں شیعہ علماء نے ان قیمتی پتھروں کو انگوٹھی میں پہننے کو اہمیت دی ہے۔ دینی متون میں بھی جنتیوں اور جنت کے گھروں کو قیمتی پتھروں سے مزین بتایا گیا ہے۔
فقہ میں، قیمتی پتھر معادن میں شمار کیے گئے ہیں اور ان کے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں، جیسے کہ:
ان پر تیمم اور سجدہ جائز نہیں۔ حج کے دوران رمی جمرات کے لیے ان کا استعمال درست نہیں۔ قیمتی پتھروں سے بنے برتنوں کا استعمال جائز ہے۔
مقام اور اہمیت
قیمتی پتھر جیسے عقیق، فیروزی، یاقوت وغیرہ وہ جواہرات ہیں جن کا اہل بیت(ع) کی روایات میں ذکر آیا ہے اور انہیں پہننے کی سفارش کی گئی ہے۔ احادیث کے مطابق، اہل بیت(ع) خود بھی ان پتھروں کو اپنی انگوٹھیوں میں رکھتے تھے، اور شیعہ علماء بھی اس عمل کی پیروی کرتے رہے ہیں۔
دینی متون میں جنت کے گھروں اور جنتیوں کی زینت کو قیمتی پتھروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک حدیث میں نبی اکرم(ص) نے فرمایا کہ جنت کے گھر وہ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے اولیاء کے لیے موتی، یاقوت اور زبرجد سے بنایا ہے، اور ان کے چھت سونے کے ہیں۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ روزِ قیامت، امام علی(ع) اور ان کی اولاد سفید و سیاہ دھاری والے گھوڑوں پر سوار ہوں گے، اور ان کے سروں پر موتیوں اور یاقوت کے تاج ہوں گے، اور اللہ کے حکم سے وہ جنت کی طرف روانہ ہوں گے۔
فقہ میں، طہارت، نماز، خمس اور حج کے ابواب میں قیمتی پتھروں کے متعلق مختلف احکام بیان کیے گئے ہیں۔ قیمتی پتھروں کی اقسام اور ان کے فوائد یاقوت
غربت دور کرتا ہے۔ اسے پہننا مستحب ہے۔
جزع یمانی
شیطانوں کے فریب کو دور کرتا ہے۔
بلور
امام صادق(ع) کے مطابق، یہ ایک بہترین پتھر ہے۔
زمرد
اس میں آسانی ہے اور کوئی سختی نہیں۔
عقیق یمنی
عقیق کو بہت سی برکتوں کا حامل سمجھا گیا ہے، جیسے کہ:
غربت دور کرتا ہے۔ غم و اندوہ کو ختم کرتا ہے۔ نفاق کو مٹاتا ہے۔ مصیبتوں سے حفاظت کرتا ہے، خاص طور پر سفر میں۔ تقدیر بہتر ہوتی ہے۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ برکت لاتا ہے۔ رزق میں اضافہ کرتا ہے۔ مقربین میں شمار ہونے کا سبب بنتا ہے۔
احادیث میں عقیق کے ساتھ دعا مانگنے کی سفارش کی گئی ہے، اور خاص طور پر سرخ عقیق پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ فیروزی
روایات کے مطابق، فیروزی جنت کا پتھر ہے، جو جبرائیل نے نبی اکرم(ص) کو ہدیہ کیا، اور نبی(ص) نے امام علی(ع) کو دیا۔ اس کے فوائد درج ذیل ہیں:
غربت نہیں آنے دیتا۔ آنکھوں کی بینائی تیز کرتا ہے۔ سینہ کشادہ کرتا ہے۔ دل کی طاقت بڑھاتا ہے۔ دیکھنے والے مومن مردوں اور عورتوں کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے۔ اولاد عطا ہونے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
روایات میں فیروزی پر "اللہ الملک" کندہ کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ شرعی احکام
فقہ میں قیمتی پتھروں کے بارے میں درج ذیل احکام موجود ہیں:
قیمتی پتھروں پر سجدہ کرنا جائز نہیں۔ رمی جمرات میں ان کا استعمال جائز نہیں۔ ان سے بنے برتنوں کا استعمال جائز ہے۔ ان پر تیمم کرنا صحیح نہیں۔ فقہاء کے مطابق، قیمتی پتھر معادن میں شمار ہوتے ہیں اور ان پر مخصوص شرائط کے تحت خمس واجب ہوتا ہے۔
اجازتِ اجتہاد
اجازتِ اجتہاد، فقہی استنباط کی صلاحیت پر ایک گواہی ہے جو دینی متون سے شرعی احکام اخذ کرنے کی قدرت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اجازت عام طور پر حوزہ ہائے علمیہ کے ممتاز اساتذہ، جو خود مجتہد سمجھے جاتے ہیں، اپنے ان شاگردوں کو عطا کرتے ہیں جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ گواہی تحریری یا زبانی ہو سکتی ہے اور یہ یا تو اجتہادِ مطلق کی تصدیق کرتی ہے یا اجتہادِ تجزی (جزوی اجتہاد) کی۔ نامگذاری اور مقام
حالیہ صدیوں میں یہ رواج پایا جاتا تھا کہ جب کوئی طالبِ فقہ کسی بلند علمی مقام تک پہنچ جاتا تو اس کے اساتذہ اس کے لیے تصدیق نامہ جاری کرتے، جو زیادہ تر تحریری اور بعض اوقات زبانی ہوا کرتا تھا، تاکہ اس کے درجۂ اجتہاد کو ثابت کیا جا سکے۔ اس تصدیق کو "اجازتِ اجتہاد" کہا جاتا ہے۔
شیعہ تاریخ کے محقق رسول جعفریان کے مطابق، اجازتِ اجتہاد کا رواج تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری میں عام ہوا، جب اجتہاد کا تصور زیادہ منظم اور سنجیدہ انداز میں پیش کیا گیا۔ ان کے بقول، اجازتِ اجتہاد کا اجرا اُن مجتہدین کی تصدیق اور مقبولیت کے لیے ہوتا تھا جو نجف اور کربلا سے دیگر شہروں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔
شیعہ حوزہ ہائے علمیہ میں اس قسم کی اجازتوں کا اجرا ایک عام امر تھا اور کسی کے پاس متعدد اجازت ناموں کا ہونا، خاص طور پر اگر وہ بڑے فقہاء سے حاصل کیے گئے ہوں، اس کی عملی مہارت کا ثبوت سمجھا جاتا تھا۔ مثلاً، آیت اللہ بروجردی کے حالاتِ زندگی میں آیا ہے کہ جب وہ اصفہان میں مقیم تھے، تو ۲۸ سال کی عمر میں انہیں تین مشہور اساتذہ سے اجازتِ اجتہاد ملی۔
بعض فقہاء اجازتِ اجتہاد دینے میں سخت گیر سمجھے جاتے تھے، مثلاً مشہور ہے کہ شیخ انصاری کسی کو اجازتِ اجتہاد نہیں دیا کرتے تھے، جبکہ شیخ حسین حلی نے بھی صرف سید علی سیستانی کو اجتہادِ مطلق کی اجازت دی۔ اجتہاد اور اس کی اقسام
اجتہاد ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا مطلب شرعی احکام کو مخصوص اصول و قواعد کی روشنی میں دینی مصادر سے اخذ کرنا ہے۔ یعنی "دلائل اور اصولوں سے شرعی احکام و عملی فرائض کا استنباط"۔ جو شخص اس درجے تک پہنچ جاتا ہے، اسے مجتہد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کے لیے دینی و ادبی علوم کی متعدد شاخوں میں مہارت ضروری ہوتی ہے۔ دینی طلاب اس مقام تک پہنچنے کے لیے سالہا سال عربی زبان و ادب، اصول فقہ، منطق، آیات الاحکام، رجال و درایہ، فقہ، سابقہ فقہاء کے نظریات، تفسیرِ قرآن اور دیگر متعلقہ علوم کا عمومی اور تخصصی (دروسِ خارج) طور پر مطالعہ کرتے ہیں۔
ایسا مجتہد جو فقہ کے تمام ابواب میں رائے رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ادلہ اربعہ (قرآن، سنت، عقل اور اجماع) سے تمام ابواب میں شرعی احکام اخذ کر سکے، اسے مجتہدِ مطلق کہا جاتا ہے، اور اگر وہ تمام شرائطِ اجتہاد پر پورا اترے، تو اسے مجتہد جامع الشرائط کہتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ مجتہد جو صرف بعض فقہی ابواب میں احکام استنباط کر سکے، مجتہد متجزی کہلاتا ہے۔
بولُس سَلامہ
(1902-1979ء) بولُس سلامہ ایک مسیحی لبنانی شاعر اور مصنف تھے جنہوں نے اپنے کاموں میں امام علیؑ اور امام حسینؑ کا تعارف پیش کیا۔ ان کا سب سے اہم کام عید الغدیر ہے، جو قصیدوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں امام علیؑ کے فضائل اور واقعہ کربلا کے مصائب کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی دیگر تخلیقات میں علی و الحسین اور فلسطین و اخواتہا شامل ہیں۔
بولُس سلامہ کو اہلِ بیتؑ رسولِ اسلام سے خاص عقیدت تھی۔ اپنی شاعری میں انہوں نے امام علیؑ کو عدل و انصاف کا نمونہ اور امام حسینؑ کو ظلم کے خلاف جرات و استقامت کی علامت قرار دیا ہے۔
بولس کا اہل بیتؑ سے عقیدت بولس سلامہ، ایک مسیحی شاعر، کا تعلق لبنان سے تھا اور انہیں قرآن، رسول اکرمؐ، اور اہل بیتؑ کا عاشق قرار دیا گیا ہے۔[1] ان کے بیٹے رشاد کے مطابق، بولس نے اپنی طویل بیماری کے دوران مسلمانوں کی مذہبی کتب، خصوصاً قرآن، حدیث، اور تفسیر کا مطالعہ کیا۔[2] انہوں نے نہج البلاغہ کو سینکڑوں بار پڑھا تھا۔[3]
بولس نے امام علیؑ کی بہادری، عدل پسندی، اور اخلاقیات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امام علیؑ کے اخلاقیات نبی اکرمؐ کی طرح ہیں۔[4] انہوں نے امام علیؑ کی تقویٰ اور عاجزی کو ان کی نمایاں خصوصیات کے طور پر بیان کیا اور انہیں زاہدوں، خطیبوں، اور مفکرین کا رہنما قرار دیا۔[5] بولس نے امام علیؑ کو اپنا رول ماڈل بنایا[6] اور اپنی فیملی کو نصیحت کی کہ وہ اہل بیتؑ کو اپنا نمونہ عمل بنائیں۔[7]
بولس نے کہا: "اگر شیعہ ہونے کا مطلب علیؑ اور ان کے خاندان سے محبت کرنا، ظلم کے خلاف کھڑا ہونا، اور امام حسینؑ اور ان کے بچوں پر تاریخ میں ڈھائے جانے والے مظالم پر غمزدہ ہونا ہے، تو میں بھی شیعہ ہوں۔" [8]
تألیفات قصیدہ عید الغدیر بولس سلامہ نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا اور ایک نئے ادبی طرز، یعنی حماسی شاعری کو اپنایا؛ لیکن بعد کے سالوں میں اپنے بیشتر کام نثر میں تحریر کیے۔[9] انہوں نے شاعری اور نثر میں مجموعی طور پر 16 کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے زیادہ تر نثری تخلیقات ہیں۔[10]
عید الغدیر ایک حماسی قصیدہ ہے جو تقریباً پچاس قصائد پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب تاریخ کا بیان ہے جو رسول اللہؐ کی ولادت سے قبل کے زمانے سے لے کر واقعہ کربلا اور اہل بیتؑ کی اسیری تک کے حالات کا احاطہ کرتی ہے۔[11] بولس کے مطابق، یہ کتاب سید عبدالحسین شرف الدین کی تجویز پر لکھی گئی تھی۔[12] اس کتاب کا سب سے اہم حصہ عید غدیر کے متعلق ہے۔[13]
اس قصیدے کا مقصد امام علیؑ کو قہرمانی، علم، اور اصلاح کے میدان میں ایک نمونہ اور امام حسینؑ کو ظلم کے خلاف بہادری کی علامت کے طور پر متعارف کرانا تھا۔[14] محققین کے مطابق، اس کتاب کا دلکش موضوع، خوبصورت شاعری، اور شاندار مقدمہ، مسلم اور غیر مسلم قارئین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔[15] یہ کتاب عربی زبان کی جدید ادبیات میں بہترین حماسی شاعری کے طور پر شمار کی جاتی ہے۔[16]
قصیدہ علی و الحسین علی و الحسین ایک قصیدہ ہے جو امام علیؑ کی مدح اور امام حسینؑ اور اہل بیتؑ کے مصائب پر مبنی ہے۔[17] بولس نے اس کتاب کو لکھنے کا سبب اپنی محبت اور عقیدت کو قرار دیا جو وہ امام علیؑ اور امام حسینؑ سے رکھتے تھے۔[18] یہ کتاب 1946ء میں شائع ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ اس قصیدے نے کتاب عید الغدیر کے لیے بنیاد فراہم کی۔[19]
دیگر تخلیقات بولس کی دیگر تخلیقات میں شامل ہیں:
فلسطین و اخواتہا (1947ء) عید الریاض (1955ء)، جو نظم میں لکھی گئی ہے۔[20] الصراع فی الوجود خبز و ملح مع المسیح و فی ذلک الزمان (نثری تخلیقات)[21][22] کتاب عید الریاض میں سات ہزار سے زائد اشعار شامل ہیں، جو عبدالعزیز آل سعود، بانی حکومت آل سعود، کی جنگی فتوحات کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔[23]
زندگینامہ بولس سلامہ 1902ء میں لبنان کے جنوبی علاقے کے گاؤں بِتِدین اللُقش میں پیدا ہوئے۔[24] وہ ایک شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔[25] 1919ء میں، 18 سال کی عمر سے پہلے، انہیں عوام کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے شیخ صلح کے طور پر منتخب کیا گیا۔[26] بولس نے فرانسیسی یونیورسٹی سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1928ء سے 1944ء تک عدالت کے منصب پر فائز رہے۔[27]
1936ء میں، بولس ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہو گئے اور انہیں متعدد سرجریوں سے گزرنا پڑا۔[28] ان کی بیماری اتنی شدید اور طویل تھی کہ انہوں نے خود کو "ایوبِ عصر" کہا۔[29] آخر کار، طویل بیماری کے باعث 1979ء میں ان کا انتقال ہوا۔[30]
یادگاری تقاریب ایران کی ثقافتی مشاورت نے 1384ھ ش (2005ء) میں بیروت میں بولس سلامہ کی یاد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔[31] یہ تقریب اس مسیحی شاعر کی 25ویں برسی کے موقع پر منعقد کی گئی۔[32] اطلاعات کے مطابق، بولس کی حیات میں بھی لبنان میں ان کی عزت افزائی کے لیے متعدد تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔[33]
یکجائی (تکنگاری) بولس سلامہ پر لکھی گئی ایک معروف کتاب، بولس سلامہ: شاعرُ الغدیر و کربلاء فی الزَمَن الاَخیر، کمال السید کی تصنیف ہے، جو بیروت کے دارالغدیر پبلشرز نے شائع کی۔[34]
مقبول احمد دہلوی
مولانا مقبول احمدد ہلوی ہندوستان کے مفسر اور مترجم قرآن ہیں۔ جو اپنے زمانے کے مشہور خطباء میں سے تھے۔ سنہ1886ء میں اپنی تحقیق سے مذہب تشیع اختیار کیا اور اسکا اعلان جامع مسجد (دہلی) میں کرتے ہوۓ مناظرہ کا چیلنج کیا۔ سنہ 1920ء میں تقریباً سو اور سنہ 1921ء میں دوبارہ اسی تعداد میں آغا خانی حضرات کو مذہب حقّہ کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے۔ قرآن کریم کی تفسیر میں اکثر شیعہ اور سنی اختلافی مسائل کی وضاحت کرتے تھے۔ آپ کا قرآنی ترجمہ اب بھی مقبول ہے اور بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے۔
زندگی نامہ
مولانا مقبول احمدد ہلوی ہندوستان کے مفسر اور مترجم قرآن ہیں جو سنہ1287ھ کو دہلی پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کا نام" غضنفر علی "تھا جو اپنے زمانے کے خطباء میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم پانی پت میں حاصل کرکے" دہلی "کا رخ کیا اور "اینگلو عربک ہائی اسکول" میں داخلہ لے لیا۔ سنہ 1889ء میں مشن کالج سے ایف۔اے کی سند اعلی نمبروں کے ساتھ حاصل کی جس کے بعد تصنیف و تالیف اور خطابت میں مصروف ہو گۓ۔ مدرسہ اثنا عشریہ (دہلی) میں کچھ عرصہ سرگرم رہنے کے بعد سنہ 1894ء میں راجہ سید باقر علی خان والی ریاست "پنڈراول" نے آپ کو اپنا پرائویٹ سکریٹری مقرر کیا۔[1]
مذہب کی تبدیلی، دینی تعلیم اور تبلیغ
سنہ1886ء میں اپنی تحقیق سے مذہب تشیع اختیار کیا اور اسکا اعلان جامع مسجد (دہلی) میں کرتے ہوۓ مناظرہ کا چیلنج کیا۔[2] علوم دینیہ میں مولانا آفتاب حسین کی شاگردی اختیار کی اور مدرسہ اثنا عشریہ (دہلی) میں کچھ عرصہ سے سرگرم عمل رہا۔[3] سنہ 1920ء میں تقریباً سو اور سنہ 1921ء میں دوبارہ اسی تعداد میں آغا خانی حضرات کو مذہب حقّہ کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے۔[4]
خطابت اور عہدے
آپ کی خطابت میں دہلی کی زبان، طبعی مزاح ،علمی وزن ،شیریں بیانی اور مناظرانہ اسلوب تھا۔ موصوف نے خطابت کے ذریعہ منبر کو نیا اسلوب اور مجلس کو نیا رنگ دیا۔ انگریزی علوم سے واقفیت اور فریقین کی کتابوں کے مطالعے نے ان کے بیان میں جدّت پیدا کر دی تھی۔ آپ شیعہ خطباء میں عظیم خطیب مانے جاتے تھے۔[5]
نواب صاحب رامپور نے آپ کی علمی اور عملی صلاحیت سے متأثر ہو کر آپ کو ریاست میں آڈٹ آفیسر رکھ لیا، اس منصب پر آپ 12 برس تک قائم رہے، اس دوران آپ مجلسیں بھی پڑھتے تھے اور نواب صاحب کی خواہش پر تفسیر وترجمہ قرآن مجید بھی لکھتے تھے جس میں مولانا اعجاز حسن بدایونی کی مدد شامل حال رہی۔[6] سنہ 1894ء میں راجہ سید باقر علی خان والی ریاست "پنڈراول" اور میر آف کوٹا نے مولانا مقبول احمد سے بہت متاثر کر انہیں اپنا پرائویٹ سکریٹری تجویز بنایا۔[7]
تفسیر قرآن
مولانا مقبول احمد نے اپنی تفسیر میں عام طور سے تفسیر صافی کو ترجیح دی ہے اور بعض مقامات پر دوسری معتبر تفسیروں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ آپ نے قرآن کا بطور کامل ترجمہ کیا، حواشی میں تفسیری نکات تحریر کئے اور اس سلسلے میں روایات سے بھرپور استفادہ کیاہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں زیادہ تر شیعہ و سنی اختلافی مسائل کو بیان کیا اور انہی مطالب پر مشتمل ایک علیحدہ ضمیمہ بھی لکھا چونکہ ضمائم کا حجم زیادہ تھا اس لئے وہ ایک مستقل جلد میں طبع ہوا ہے ۔[8]
ترجمہ قرآن
ترجمہ قرآن کا وہ نسخہ جو مقبول پریس کی طرف سے تیسری بار چھپا ہے، اس ترجمہ کے ابتدائی صفحات پر چند علماء کی تقریظات مرقوم ہیں جن میں مولانا سید احمد علی؛سید کلب حسین ؛سید محمد دہلوی؛سید نجم الحسن امروہوی؛سید سبط نبی نوگانوی ؛سید محمد باقر؛سید محمد ہادی؛سید آقا حسن،سید ناصر حسین وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں یہ ترجمہ 966 صفحات پر مشتمل ہے ۔[9] آپ نے ترجمہ اور تفسیر لکھنے میں اصول کافی، تفسیر قمی، تفسیرعیاشی، احتجاج طبرسی، تفسیر مجمع البیان اور تفسیر صافی وغیرہ سے استفادہ کیا ہے اور ان کا با محاورہ ترجمہ کیا ہے، اگر چہ بعض جگہوں پر آیات کے تحت اللفظی ترجمہ سے استفادہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔[10]
تصانیف
وعظ و تبلیغ اور دوسرے امور کی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کے تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے:
- ترجمہ و تفسیر قرآن مجید جو تین نسخوں میں منظر عام پر آگیا (1) حمائل متن و ترجمہ حواشی، (2) قرآن مجید ترجمہ و حواشی،(3) قرآن مجید ترجمہ، حواشی و ضمیمہ۔
- مفتی "سید احمد دحلان " کی کتاب" اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب" کا ترجمہ،
- مقبول دینیات کے 5 حصّے،
- زائچہ تقدیر،
- فال نامہ دانیال،
- تہذیب الاسلام ،
- وظائف مقبول چودہ سورتوں اور کچھ دعاؤں کا مجموعہ
- مفتاح القرآن
مولانا مقبول صاحب کا قرآنی ترجمہ اب تک مقبول ہے اور بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے۔[11]
وفات
مولانا مقبول احمد دہلوی سنہ 1340ھ کو دہلی میں انتقال کر گئے اور وہیں پر نماز جنازہ کے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ہندوستان بھر میں تعزیتی جلسوں اور مجلسوں کا طویل سلسلہ قائم رہا، آپ کی یاد میں دہلی میں "مدرسۃ القرآن "اور آگرہ میں "مقبول المدارس" کی بنیاد رکھی گئ ہے۔[12]
حوالہ جات
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
- ↑ ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32
مآخذ
- نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص263، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔
- ہندوستانی علمائے اعلام کا تعارف | مولانا مقبول احمد دہلوی، قسط نمبر 32، حوزہ نیوز ایجنسی۔
سپاہ پاسداران
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایک عسکری ادارہ ہے، جو اسلامی انقلاب ایران اور اس کی کامیابیوں کی حفاظت کے لیے قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ 2 اردیبهشت 1358 شمسی (22 اپریل 1979) کو امام خمینی کے باضابطہ حکم سے تشکیل پایا۔
تنظیمی ارتقا اور توسیع 26 شهریور 1364 شمسی (17 ستمبر 1985) کو امام خمینی کے حکم پر سپاہ پاسداران کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا: نیروی زمینی (زمینی فورس)، نیروی هوایی (فضائی فورس)، اور نیروی دریایی (بحری فورس)۔ بعد ازاں، 1369 شمسی (1990) میں رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہای کے حکم پر نیروی قدس اور سازمان مقاومت بسیج (بسیج فورس) کے اضافے کے ساتھ، یہ تنظیم پانچ شعبوں پر مشتمل ہوگئی۔
ذمہ داریاں اور دائرہ کار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نہ صرف عسکری ذمہ داریوں تک محدود ہے، بلکہ یہ تنظیم اطلاعاتی، تعمیری، اور ثقافتی شعبوں میں بھی سرگرم عمل ہے۔ آئین ایران کے آرٹیکل 110 کے مطابق، سپاہ پاسداران کے کمانڈر ان چیف کی تقرری، برطرفی، اور استعفیٰ کی منظوری رہبر انقلاب اسلامی کے اختیارات میں شامل ہے۔ حسین سلامی، 1 اردیبهشت 1398 شمسی (21 اپریل 2019) کو سید علی خامنہای کے حکم پر سپاہ پاسداران کے کمانڈر ان چیف مقرر کیے گئے۔
امریکا کی پابندیاں اور ایرانی جواب 19 فروردین 1398 شمسی (8 اپریل 2019) کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی حکومت نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور خاص طور پر نیروی قدس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ جواباً، ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل نے امریکا کو "دہشت گردی کا حامی حکومت" قرار دیا اور مغربی ایشیا میں موجود امریکی سینٹکام (CENTCOM) کو "دہشت گرد تنظیم" کا درجہ دیا۔
سپاہ پاسداران کے بارے میں امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات امام خمینی نے سپاہ پاسداران کے اہلکاروں کو "اسلام کے سپاہی" کا خطاب دیا اور عوام سے اس تنظیم کی حمایت کی اپیل کی۔ ایک ملاقات میں انہوں نے فرمایا: "میں سپاہ سے راضی ہوں اور کبھی میری نظر تم پر سے نہیں ہٹے گی۔ اگر سپاہ نہ ہوتی تو ملک بھی نہ ہوتا۔ میں سپاہ پاسداران کو نہایت عزیز اور محترم سمجھتا ہوں۔ میری نگاہ تم پر ہے۔"
رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہای نے سپاہ پاسداران کو انقلاب اسلامی کے ستونوں میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا کہ یہ تنظیم انقلاب کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی ہے اور اس کا وجود انقلاب کی بقا کے لیے لازم ہے۔ ان کے بقول: "اگر سپاہ نہ ہو تو انقلاب کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔"
تاریخی پس منظر اور قیام سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا قیام امام خمینی کے حکم پر 2 اردیبهشت 1358 شمسی (22 اپریل 1979) کو عمل میں آیا۔ محسن رفیق دوست (سابق سربراہ بنیاد مستضعفان) کے مطابق، اس ادارے کے قیام کا تصور محمد منتظری نے پیش کیا تھا۔ ابتدائی طور پر، چار مسلح گروہوں نے انقلاب کے تحفظ کے مشترکہ ہدف کے تحت کام شروع کیا۔ بعد میں یہ گروہ ایک تنظیم میں ضم ہو گئے، جس کا ایک 12 رکنی کونسل بنایا گیا۔ قم میں امام خمینی سے تین نمائندوں کی ملاقات کے بعد، انہوں نے ایک مستقل مسلح تنظیم کے قیام کا حکم دیا، جو حکومتِ وقت سے آزاد ہو۔ یوں سپاہ پاسداران کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔
سپاہ کے مختلف شعبے 1. نیروی زمینی (زمینی فورس) نیروی زمینی سپاه، جسے "نزسا" بھی کہا جاتا ہے، 1364 شمسی میں تشکیل دیا گیا۔ اس فورس کے بریگیڈ اور یونٹ ایران کے مختلف صوبوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ اس کی موجودہ قیادت محمد پاکپور کے سپرد ہے، جنہیں 9 اردیبهشت 1388 شمسی کو مقرر کیا گیا۔
2. نیروی دریایی (بحری فورس) نیروی دریایی سپاه، جسے "ندسا" کہا جاتا ہے، 1364 شمسی میں حسین علایی کی کمان میں تشکیل دیا گیا۔ اس فورس کی بنیادی ذمہ داری ایران کی سمندری سرحدوں کا دفاع اور دشمنوں کے بحری حملوں کو ناکام بنانا ہے۔ علیرضا تنگسیری 1 شهریور 1397 شمسی کو اس فورس کے کمانڈر مقرر کیے گئے۔
3. نیروی هوافضا (فضائی اور خلائی فورس) نیروی هوایی سپاه 1364 شمسی میں قائم ہوئی۔ 1388 شمسی میں فضائی شعبے کے ساتھ خلائی شعبے کو شامل کر کے "نیروی هوافضا" کا قیام عمل میں آیا۔ یہ فورس نہ صرف فضائی آپریشنز، بلکہ میزائل اور خلائی مشنز کی ذمہ داری بھی نبھاتی ہے۔ اس کے موجودہ کمانڈر امیر علی حاجی زاده ہیں، جنہیں 1388 شمسی میں مقرر کیا گیا۔
4. نیروی قدس (سپاہ قدس) نیروی قدس، جسے عام طور پر سپاہ قدس کہا جاتا ہے، 1369 شمسی میں ایران کے بیرون ملک مشنز کو منظم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی۔ اس فورس کی قیادت قاسم سلیمانی کے بعد اسماعیل قاآنی کے سپرد ہے، جنہیں 13 دی 1398 شمسی کو مقرر کیا گیا۔ سپاہ قدس، حزب اللہ لبنان، حشد الشعبی عراق، اور انصار اللہ یمن جیسے گروہوں کی معاونت کرتی ہے۔
5. سازمان بسیج مستضعفین (بسیج فورس) بسیج، جو ابتدا میں "نیروی مقاومت بسیج" کے نام سے جانا جاتا تھا، 1358 شمسی میں امام خمینی کے حکم پر تشکیل دیا گیا۔ 1369 شمسی میں اسے سپاه پاسداران کے تحت کر دیا گیا اور 1388 شمسی میں اس کا نام "سازمان بسیج مستضعفین" رکھا گیا۔
غیر عسکری سرگرمیاں 1. اطلاعاتی سرگرمیاں سپاہ پاسداران کی اطلاعاتی سرگرمیاں "سازمان اطلاعات سپاه" کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔ یہ تنظیم داخلی اور خارجی سیکیورٹی کے معاملات میں متحرک ہے۔
2. تعمیری منصوبے سپاه پاسداران کی تعمیری سرگرمیاں "قرارگاه سازندگی خاتمالانبیاء" کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں، جو 1368 شمسی میں ملک کی تعمیر نو کے لیے قائم کیا گیا۔
3. ثقافتی اور میڈیا سرگرمیاں سپاه پاسداران کی ثقافتی سرگرمیاں "قرارگاه فرهنگی اجتماعی بقیةالله" کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں، جو انقلاب کے اصولوں کو فروغ دینے اور ثقافتی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔
سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، ایران کی سیاست، معیشت، اور دفاع میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور انقلاب کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔
مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی کے قلمی آثار
اہم لینکس
محسن علی نجفی کی خدمات، محسن علی نجفی پاکستان کے معروف شیعہ عالم دین ہیں جنہوں نے دینی تعلیم، تبلیغ، مدارس کے قیام، اور فلاحی کاموں کے ذریعے قوم و ملت کے لئے مختلف خدمات انجام دی ہیں۔
تعلیم و علمی خدمات شیخ محسن علی نجفی کا تعلق پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم کے بعد اعلیٰ اسلامی تعلیم کے لیے عراق کے شہر نجف اشرف کا رخ کیا۔ وہاں انہوں نے مرجعیت کے مرکز، حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی۔ علمی میدان میں ان کی خدمات درج ذیل ہیں:
قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر پر کام کیا، جسے اردو زبان میں پیش کیا۔ کئی اسلامی موضوعات پر کتابیں تحریر کیں، جو عقائد، فقہ، اور اخلاقیات سے متعلق ہیں۔ اسلامی معارف کی ترویج کے لیے ہزاروں طلبا کی تربیت کی، جو آج پاکستان اور دیگر ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مدارس کا قیام شیخ محسن علی نجفی نے پاکستان میں دینی تعلیم کے فروغ کے لیے مدارس کا جال بچھایا۔ ان کے قائم کردہ مدارس کا مقصد نوجوانوں کو اسلامی تعلیم کے ساتھ جدید علوم سے آراستہ کرنا ہے۔ ان کے زیر انتظام درج ذیل خدمات شامل ہیں:
جامعۃ المنتظر (لاہور): ایک مرکزی ادارہ جہاں طلبہ و طالبات کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم کا انتظام ہے۔ مدارس نیٹ ورک: پورے پاکستان میں سینکڑوں مدارس کی سرپرستی، جہاں دینی علوم کے ساتھ اخلاقی تربیت پر زور دیا جاتا ہے۔ فلاحی خدمات شیخ محسن علی نجفی نے فلاحی میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی فلاحی خدمات میں شامل ہیں:
تعلیمی ادارے: غریب اور مستحق بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع فراہم کیے۔ صحت کے شعبے میں خدمات: دیہی علاقوں میں طبی مراکز اور ہسپتالوں کا قیام، جہاں مفت یا کم قیمت پر علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ رفاہ عامہ کے منصوبے: یتیموں، بیواؤں، اور بے سہارا افراد کی مدد کے لیے مستقل منصوبے۔ تبلیغی خدمات انہوں نے اسلام کی تبلیغ کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کام کیا۔ ان کی تبلیغی خدمات درج ذیل ہیں:
دنیا بھر میں مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو پیش کیا۔ مختلف زبانوں میں دینی کتابوں کا ترجمہ کروا کر اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا۔ اتحاد بین المسلمین شیخ محسن علی نجفی نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کو فروغ دیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ تعصبات سے بچنے اور اخوت و بھائی چارے کو اپنانے کی تلقین کی۔
معاشرتی خدمات ان کی قیادت میں کئی معاشرتی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے، جن میں صاف پانی کی فراہمی، روزگار کے مواقع، اور تعلیمی و سماجی اصلاحات شامل ہیں۔
شیخ محسن علی نجفی کی زندگی اسلام، انسانیت، اور علم کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ ان کی علمی، فلاحی، اور تبلیغی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
مفسر قرآن، شیخ محسن علی نجفی کا شمار پاکستان کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ نے شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی ایک موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے جس کے نتیجے میں آپ کے کئی علمی آثار منظر عام پر آچکے ہیں۔ ذیل میں آپ کے قلمی آثار کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔
اسوہ ایجوکیشن سسٹم اسوہ ایجوکیشن سسٹم پاکستان میں ایک معروف تعلیمی نظام ہے جو اسلامی اقدار اور جدید تعلیمی معیارات کو یکجا کرکے طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ایسے طلبہ کی تربیت کرنا ہے جو دینی اور دنیاوی علوم میں مہارت رکھتے ہوں اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔
مقاصد اسوہ ایجوکیشن سسٹم کا بنیادی مقصد تعلیم اور تربیت کا ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جہاں طلبہ:
اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوں۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کریں۔ اخلاقیات، کردار سازی، اور معاشرتی ذمہ داری کو سمجھیں۔ قائدانہ صلاحیتیں اور خود اعتمادی پیدا کریں۔ تعلیمی ماڈل اسوہ ایجوکیشن سسٹم کا تعلیمی ماڈل درج ذیل خصوصیات پر مبنی ہے:
1. قرآنی اور دینی تعلیم قرآن پاک کی تعلیم بمع ترجمہ اور تفسیر۔ اسلامی عقائد، فقہ، اور احادیث کی تعلیم۔ طلبہ کو اسلامی تہذیب و ثقافت کے اصولوں کے مطابق تربیت دینا۔ 2. جدید نصاب جدید تعلیمی نظام کے مطابق سائنس، ریاضی، کمپیوٹر سائنس، اور زبانوں کی تعلیم۔ جدید تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینا۔ پاکستان کے تعلیمی بورڈز اور کیمبرج سسٹم کے مطابق نصاب۔ 3. اخلاقی تربیت طلبہ کی کردار سازی پر خصوصی توجہ۔ اسلامی اخلاقیات اور آداب کی تربیت۔ سیرت النبی (ص) کو طلبہ کی زندگیوں میں عملی طور پر شامل کرنا۔ 4. ہم نصابی سرگرمیاں طلبہ کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے کھیل کود اور دیگر سرگرمیاں۔ تقریری مقابلے، کوئز، اور علمی مباحثے۔ فیلڈ ٹرپس اور مطالعاتی دورے۔ شاخیں اسوہ ایجوکیشن سسٹم کی شاخیں پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم ہیں۔ یہ شاخیں طلبہ کو ابتدائی (پرائمری)، ثانوی (سیکنڈری)، اور اعلیٰ ثانوی (ہائیر سیکنڈری) تعلیم فراہم کرتی ہیں۔
ہر شاخ میں طلبہ کے لیے معیاری سہولیات اور تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی، اور دیگر بڑے شہروں میں نمایاں کیمپس۔ خصوصیات اسوہ ایجوکیشن سسٹم کو دیگر تعلیمی نظاموں سے ممتاز کرنے والی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1. اسلامی ماحول اسکولوں میں طلبہ کو ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ طالبات کے لیے پردے کا خاص انتظام۔ نماز اور دیگر دینی عبادات کو تعلیمی نظام کا حصہ بنانا۔ 2. اساتذہ کی تربیت اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر خصوصی توجہ۔ دینی اور دنیاوی علوم میں ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ 3. ٹیکنالوجی کا استعمال کلاس رومز میں جدید ٹیکنالوجی جیسے سمارٹ بورڈز اور آن لائن تعلیمی وسائل کا استعمال۔ طلبہ کو کمپیوٹر اور آئی ٹی کی تعلیم دینا۔ 4. فلاحی پروگرام مستحق طلبہ کے لیے اسکالرشپ اور مالی معاونت۔ فیس میں رعایت اور دیگر سہولیات۔ کارکردگی اسوہ ایجوکیشن سسٹم نے پاکستان میں تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس کے فارغ التحصیل طلبہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
ویژن اور مشن ویژن: پاکستان میں ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینا جو اسلامی اصولوں اور جدید تقاضوں کا امتزاج ہو۔ مشن: طلبہ کو علمی، عملی، اور اخلاقی طور پر مضبوط بنانا تاکہ وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ نتیجہ اسوہ ایجوکیشن سسٹم نہ صرف تعلیمی معیار بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اسلامی اقدار کی روشنی میں طلبہ کی تربیت بھی کرتا ہے۔ یہ نظام ایک مثالی تعلیمی ماڈل کے طور پر پاکستان میں اپنی پہچان رکھتا ہے۔
You said:
ان کا حوالہ بھی ذکر کریں
ChatGPT said:
اسوہ ایجوکیشن سسٹم کے بارے میں مستند حوالہ جات عام طور پر ان کے سرکاری ویب سائٹ، ادارے کی شائع شدہ دستاویزات، اور ان کے متعلقہ حکام کے انٹرویوز یا بیانات سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ حوالہ جات چاہتے ہیں تو درج ذیل ذرائع کی مدد لی جا سکتی ہے:
اسوہ ایجوکیشن سسٹم کی ویب سائٹ ادارے کی سرکاری ویب سائٹ پر ان کے تعلیمی فلسفے، نصاب، اور مقاصد کی تفصیل موجود ہوتی ہے۔
ادارے کی شائع شدہ رپورٹس اور دستاویزات اسوہ ایجوکیشن سسٹم وقتاً فوقتاً اپنی سالانہ رپورٹس، نصاب کا تعارف، اور ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں دستاویزات شائع کرتا ہے۔
میڈیا رپورٹس اور انٹرویوز اس ادارے کے بانی یا اعلیٰ عہدیداروں کے انٹرویوز مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نشر کیے گئے ہیں جن میں ان کے تعلیمی ماڈل اور مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
طلبہ اور والدین کے تجربات مختلف فورمز پر اسوہ ایجوکیشن سسٹم سے تعلیم یافتہ طلبہ اور ان کے والدین کے تجربات بھی حوالہ کے طور پر دستیاب ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ کو کسی مخصوص حوالہ یا تفصیلی معلومات کی ضرورت ہے تو ادارے کی سرکاری ویب سائٹ یا قریبی کیمپس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری ویب سائٹ کا ممکنہ لنک: اسوہ ایجوکیشن سسٹم - رابطہ کریں
- نکاح موقت ایک تحقیقی جائزہ شیخ محسن علی نجفی نے اپنی تفسیر قرآن میں نکاح موقت (متعہ) کو ایک جائز عقد قرار دیا ہے، جو…
- نبی کریم اور ان کی آل پر درود شیخ الجامعہ محسن ملت کی ایک اور منفرد علمی خدمت ”نبی کریم] اور ان کی آل اطہارD پر درود“ کے…
- تحریف قرآن ایک باطل نظریہ محسن ملت 7 نے تحریف قرآن کے حوالے سے صرف شیعوں کے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا عدم تحریف قرآن…
- مقدمہ قرآن کسی بھی علم یا فن کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی تمہیدی امور کا جاننا ضروری ہوتا…
- سیدۃ نساء العالمین فاطمۃ ُ الزہراء قرآن مجید کے آئینے میں مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی 7 کی تفسیر الکوثر دینی معارف کا ایک ذخیرہ ہے جس میں بہت سے…
- اسرار حج مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی 7 کی ایک اور دلکش تالیف”اسرار حج”ہے جو منفرد انداز اور منظم مضامین کے…
- قرآن کی نظر میں خواتین کا مقام،حقوق اور ذمہ داریاں یہ کتاب بھی شیخ محسن علی نجفی 7 کی تفسیر الکوثر سے اقتباس کی گئی ہے۔ جس میں خواتین کے…
- نہالان اسوہ ایک مختصر مگر جامع کتابچہ،جسے محسن ملت نے اپنے دل کے بے حد قریب ان بچوں کے نام منسوب کیا…
- تلخیص المعانی کسی بھی کلام و گفتگو کو خوبصورت انداز میں بیان کرنا بھی ایک فن ہے جس سے سننے والے کو…
- تَلخیصُ المنطِق شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب "المنطق” عربی زبان میں لکھی گئی ہے جو "منطق مظفر” کے نام سے مشہور…
- الکوثر فی تفسیر القرآن کتاب کا نام: الکوثر فی تفسیرالقرآن موضوع: تفسیر قرآن مؤلف: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر:…
- بلاغ القرآن کتاب کا نام: بلاغ القرآن موضوع: قرآن ترجمہ و مختصر تفسیر مترجم: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مد…
- علی امام بنص ذاتہ وخصائص صفاتہ جب کوئی انسان قرآن و احادیث کے دلائل کو تسلیم نہ کرے یا پھر اس کے بارے میں اس کے…
- خطبہ بنت علی زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا کتاب کا نام:خطبہ بنت علی زینب کبریٰ E خطبہ فدک کے آخر میں حضرت فاطمہ الزہراء E کی شیر دل…
- انسان اور کائنات میں اللہ کی تجلّی کتاب کا نام: انسان اور کائنات میں اللہ کی تجلّی موضوع: مصنف: علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر:…
- دراساتٌ عَصریةٌ فی الالهیات کتاب کا نام:دراساتٌ عَصریةٌ فی الالهیات موضوع: مصنف: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: جامعۃ الکوثر،…
- النھج السوی فی معنیٰ المولیٰ والولی کتاب کا نام: النھج السوی فی معنیٰ المولیٰ والولی موضوع: مصنف: علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: جامعہ…
- خطبہ فدک کتاب کا نام: خطبہ فدک موضوع: مصنف: علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: جامعہ الکوثر اسلام آباد سال…
- دوستی اہل بیتؑ کی نظر میں کتاب کانام: دوستی اہل بیتD کی نظر میں موضوع: اخلاقیات مترجم: مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر:…
- آئین بندگی کتاب کا نام: آئین بندگی موضوع: اخلاقایت مصنف: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: معراج کمپنی…
- دراسات في الایدیولوجیة المقارنة کتاب کا نام:دراسات في الایدیولوجیة المقارنة موضوع: مصنف: علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: مؤسسۃ البلاغ للطباعۃ و…
- محنت کا اسلامی تصور کتاب کا نام: محنت کا اسلامی تصور موضوع: اقتصادیات مصنف: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر:…
- انقلاب حسین علیہ السلام کتاب کا نام:انقلاب حسینG موضوع: تاریخ اسلام مترجم: مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: معراج کمپنی لاہور…
- تدوین و تحفظ قرآن کتاب کا نام: تدوین و تحفظ قرآن موضوع: قرآنیات مصنف: مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: جامعہ…
- دعا قرآن و سنت کی روشنی میں کتاب کا نام: دعا قرآن و سنت کی روشنی میں موضوع: اخلاقیات مصنف: علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره…
- اسلامی فلسفہ اور مارکزم کتاب کا نام: اسلامی فلسفہ اور مارکزم موضوع: مصنف: مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: جامعۃ اہل…
- فلسفۂ نماز کتاب کا نام: فلسفۂ نماز موضوع: عبادات مصنف: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: امامیہ پبلیکشنز…
- اسلامی اقتصاد کتاب کا نام: اسلامی اقتصاد موضوع: ترجمہ: مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره ناشر: جامعہ اہلبیتؑ اسلام…
- رہنما اصولکتاب کا نام: رہنما اصول برائے تنظیمی انقلاب وانقلابی تنظیم موضوع: اخلاقیات مصنف: علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سره…
حدیث رفع القلم کا متن اور ترجمہ
متن | ترجمه |
قَالَ السَّيِّدُ بْنُ طَاوُسٍ ره فِي كِتَابِ زَوَائِدِ الْفَوَائِدِ رَوَى ابْنُ أَبِي الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ الْوَاسِطِيُّ وَ يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حُوَيْجٍ الْبَغْدَادِيُّ قَالا تَنَازَعْنَا فِي ابْنِ الْخَطَّابِ وَ اشْتَبَهَ عَلَيْنَا أَمْرُهُ فَقَصَدْنَا جَمِيعاً أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ الْقُمِّيَّ صَاحِبَ أَبِي الْحَسَنِ الْعَسْكَرِيِّ ع بِمَدِينَةِ قُمَّ فَقَرَعْنَا عَلَيْهِ الْبَابَ فَخَرَجَتْ عَلَيْنَا صَبِيَّةٌ عِرَاقِيَّةٌ فَسَأَلْنَاهَا عَنْهُ فَقَالَتْ هُوَ مَشْغُولٌ بِعِيدِهِ فَإِنَّهُ يَوْمُ عِيدٍ
فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّمَا الْأَعْيَادُ أَرْبَعَةٌ لِلشِّيعَةِ- الْفِطْرُ وَ الْأَضْحَى وَ الْغَدِيرُ وَ الْجُمُعَةُ قَالَتْ فَإِنَّ أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ يَرْوِي عَنْ سَيِّدِهِ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَسْكَرِيِّ ع أَنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمُ عِيدٍ وَ هُوَ أَفْضَلُ الْأَعْيَادِ عِنْدَ أَهْلِ الْبَيْتِ ع وَ عِنْدَ مَوَالِيهِمْ قُلْنَا فَاسْتَأْذِنِي عَلَيْهِ وَ عَرِّفِيهِ مَكَانَنَا قَالا فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ فَعَرَّفَتْهُ فَخَرَجَ عَلَيْنَا وَ هُوَ مَسْتُورٌ بِمِئْزَرٍ يَفُوحُ مِسْكاً وَ هُوَ يَمْسَحُ وَجْهَهُ فَأَنْكَرْنَا ذَلِكَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَا عَلَيْكُمَا فَإِنِّي اغْتَسَلْتُ لِلْعِيدِ قُلْنَا أَوَّلًا هَذَا يَوْمُ عِيدٍ قَالَ نَعَمْ وَ كَانَ يَوْمُ التَّاسِعِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ قَالا فَأَدْخَلَنَا دَارَهُ وَ أَجْلَسَنَا ثُمَّ قَالَ إِنِّي قَصَدْتُ مَوْلَايَ أبي [أَبَا] الْحَسَنِ ع كَمَا قَصَدْتُمَانِي بِسُرَّمَنْرَأَى فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ ع فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ وَ هُوَ يَوْمُ التَّاسِعِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ فَرَأَيْتُ سَيِّدَنَا عَلَيْهِ وَ عَلَى آبَائِهِ السَّلَامُ قَدْ أَوْعَزَ إِلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ خَدَمِهِ أَنْ يَلْبَسَ مَا يُمْكِنُهُمْ مِنَ الثِّيَابِ الْجُدُدِ وَ كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِجْمَرَةٌ يُحْرِقُ الْعُودَ فِيهَا بِنَفْسِهِ فَقُلْتُ لَهُ بِآبَائِنَا وَ أُمَّهَاتِنَا يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ هَلْ تَجَدَّدَ لِأَهْلِ الْبَيْتِ فِي هَذَا الْيَوْمِ فَرَحٌ فَقَالَ ع وَ أَيُّ يَوْمٍ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنْ هَذَا الْيَوْمِ التَّاسِعِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ وَ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي ع أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ دَخَلَ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ عَلَى جَدِّي رَسُولِ اللَّهِ ص قَالَ حُذَيْفَةُ رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ وَلَدَيْهِ ع يَأْكُلُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ هُوَ يَتَبَسَّمُ فِي وُجُوهِهِمْ وَ يَقُولُ لِوَلَدَيْهِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع كُلَا هَنِيئاً لَكُمَا بَرَكَةُ هَذَا الْيَوْمِ وَ سَعَادَتُهُ فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي يُهْلِكُ اللَّهُ فِيهِ عَدُوَّهُ وَ عَدُوَّ جَدِّكُمَا وَ إِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي يَقْبَلُ اللَّهُ أَعْمَالَ شِيعَتِكُمَا وَ مُحِبِّيكُمَا وَ الْيَوْمُ الَّذِي يُصَدَّقُ فِيهِ قَوْلُ اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ- فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا وَ الْيَوْمُ الَّذِي نُسِفَ فِيهِ فِرْعَوْنُ أَهْلِ الْبَيْتِ وَ ظَالِمُهُمْ وَ غَاصِبُهُمْ حَقَّهُمْ وَ الْيَوْمُ الَّذِي يُقْدِمُ اللَّهُ إِلَى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً قَالَ حُذَيْفَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ص وَ فِي أُمَّتِكَ وَ أَصْحَابِكَ مَنْ يَنْتَهِكَ هَذِهِ الْمَحَارِمَ قَالَ نَعَمْ يَا حُذَيْفَةُ جِبْتٌ مِنَ الْمُنَافِقِينَ يَرْتَاسُ عَلَيْهِمْ وَ يَسْتَعْمِلُ فِي أُمَّتِي الرُّؤْيَا وَ يَحْمِلُ عَلَى عَاتِقِهِ دِرَّةَ الْخِزْيِ وَ يَصُدُّ النَّاسَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ يُحَرِّفُ كِتَابَ اللَّهِ وَ يُغَيِّرُ سُنَّتِي وَ يَشْتَمِلُ عَلَى إِرْثِ وُلْدِي وَ يَنْصِبُ نَفْسَهُ عَلَماً وَ يَتَطَاوَلُ عَلَى إِمَامِهِ مِنْ بَعْدِي وَ يَسْتَخْلِبُ أَمْوَالَ النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حِلِّهَا وَ يُنْفِقُهَا فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّهِ وَ يُكَذِّبُنِي وَ يُكَذِّبُ أَخِي وَ وَزِيرِي وَ يَحْسُدُ ابْنَتِي عَنْ حَقِّهَا فَتَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِ فَيَسْتَجِيبُ دُعَاءَهَا فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ قَالَ حُذَيْفَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ص فَادْعُ رَبَّكَ لِيُهْلِكَهُ فِي حَيَاتِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا حُذَيْفَةُ لَا أُحِبُّ أَنْ أَجْتَرِئَ عَلَى قَضَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لِمَا قَدْ سَبَقَ فِي عِلْمِهِ لَكِنْ سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ يَجْعَلَ لِلْيَوْمِ الَّذِي يُهْلِكُهُ فِيهِ فَضِيلَةً عَلَى سَائِرِ الْأَيَّامِ لِيَكُونَ ذَلِكَ سُنَّةً يَسْتَنُّ بِهَا أَحِبَّائِي وَ شِيعَةُ أَهْلِ بَيْتِي وَ محبيهم [مُحِبُّوهُمْ] فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُ كَانَ فِي سَابِقِ عِلْمِي أَنْ تَمَسَّكَ وَ أَهْلَ بَيْتِكَ مِحَنُ الدُّنْيَا وَ بَلَاؤُهَا وَ ظُلْمُ الْمُنَافِقِينَ وَ الْغَاصِبِينَ مِنْ عِبَادِي مَنْ نَصَحْتَ لَهُمْ وَ خَانُوكَ وَ مَحَضْتَ لَهُمْ وَ غَشُّوكَ وَ صَافَيْتَهُمْ وَ كَشَحُوكَ وَ أَرْضَيْتَهُمْ وَ كَذَّبُوكَ وَ جَنَيْتَهُمْ وَ أَسْلَمُوكَ فَإِنِّي بِحَوْلِي وَ قُوَّتِي وَ سُلْطَانِي لَأَفْتَحَنَّ عَلَى مَنْ يَغْصِبُ بَعْدَكَ عَلِيّاً- وَصِيَّكَ حَقّاً أَلْفَ بَابٍ مِنَ النِّيرَانِ مِنْ أَسْفَلِ الْفَيْلُوقِ وَ لَأُصْلِيَنَّهُ وَ أَصْحَابَهُ قَعْراً يُشْرِفُ عَلَيْهِ إِبْلِيسُ آدَمَ فَيَلْعَنُهُ وَ لَأَجْعَلَنَّ ذَلِكَ الْمُنَافِقَ عِبْرَةً فِي الْقِيَامَةِ كَفَرَاعِنَةِ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَعْدَاءِ الدِّينِ فِي الْمَحْشَرِ وَ لَأَحْشُرَنَّهُمْ وَ أَوْلِيَاءَهُمْ وَ جَمِيعَ الظَّلَمَةِ وَ الْمُنَافِقِينَ إِلَى جَهَنَّمَ زُرْقاً كَالِحِينَ أَذِلَّةً حَيَارَى نَادِمِينَ وَ لَأُضِلَّنَّهُمْ فِيهَا أَبَدَ الْآبِدِينَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ مُرَافِقَكَ وَ وَصِيَّكَ فِي مَنْزِلَتِكَ يَمَسَّهُ الْبَلْوَى مِنْ فِرْعَوْنِهِ وَ غَاصِبِهِ الَّذِي يَجْتَرِئُ وَ يُبَدِّلُ كَلَامِي وَ يُشْرِكُ بِي وَ يَصُدُّ النَّاسَ عَنْ سَبِيلِي وَ يَنْصِبُ مِنْ نَفْسِهِ عِجْلًا لِأُمَّتِكَ وَ يَكْفُرُ بِي فِي عَرْشِي إِنِّي قَدْ أَمَرْتُ مَلَائِكَتِي فِي سَبْعِ سَمَاوَاتِي وَ شِيعَتَكَ وَ مُحِبِّيكَ أَنْ يُعَيِّدُوا فِي الْيَوْمِ الَّذِي أَهْلَكْتُهُ فِيهِ وَ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يَنْصِبُوا كُرْسِيَّ كَرَامَتِي بِإِزَاءِ الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَ يُثْنُوا عَلَيَّ وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِشِيعَتِكَ وَ لِمُحِبِّيكَ مِنْ وُلْدِ آدَمَ يَا مُحَمَّدُ وَ أَمَرْتُ الْكِرَامَ الْكَاتِبِينَ أَنْ يَرْفَعُوا الْقَلَمَ عَنِ الْخَلْقِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ لَا يَكْتُبُونَ شَيْئاً مِنْ خَطَايَاهُمْ كَرَامَةً لَكَ وَ لِوَصِيِّكَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ ذَلِكَ الْيَوْمَ يَوْمَ عِيدٍ لَكَ وَ لِأَهْلِ بَيْتِكَ وَ لِمَنْ يَتْبَعُهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ شِيعَتِهِمْ وَ آلَيْتُ عَلَى نَفْسِي بِعِزَّتِي وَ جَلَالِي وَ عُلُوِّي فِي مَكَانِي لَأَحْبُوَنَّ مَنْ يُعَيِّدُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مُحْتَسِباً فِي ثَوَابِ الْحَافِّينَ وَ لَأُشَفِّعَنَّهُ فِي ذَوِي رَحِمِهِ وَ لَأَزِيدَنَّ فِي مَالِهِ إِنْ وَسَّعَ عَلَى نَفْسِهِ وَ عِيَالِهِ وَ لَأُعْتِقَنَّ مِنَ النَّارِ فِي كُلِّ حَوْلٍ فِي مِثْلِ ذَلِكَ الْيَوْمِ آلَافاً مِنْ شِيعَتِكُمْ وَ مُحِبِّيكُمْ وَ مَوَالِيكُمْ وَ لَأَجْعَلَنَّ سَعْيَهُمْ مَشْكُوراً وَ ذَنْبَهُمْ مَغْفُوراً وَ عَمَلَهُمْ مَقْبُولًا قَالَ حُذَيْفَةُ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَدَخَلَ بَيْتَ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ رَجَعْتُ عَنْهُ وَ أَنَا غَيْرُ شَاكٍّ فِي أَمْرِ الثَّانِي حَتَّى رَأَيْتُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ أُتِيحَ الشَّرَّ وَ عَاوَدَ الْكُفْرَ وَ ارْتَدَّ عَنِ الدِّينِ وَ شَمَّرَ لِلْمُلْكِ وَ حَرَّفَ الْقُرْآنَ وَ أَحْرَقَ بَيْتَ الْوَحْيِ وَ ابْتَدَعَ السُّنَنَ وَ غَيَّرَهَا وَ غَيَّرَ الْمِلَّةَ وَ نَقَلَ السُّنَّةَ وَ رَدَّ شَهَادَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ كَذَّبَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ وَ اغْتَصَبَ فَدَكَ مِنْهَا وَ أَرْضَى الْيَهُودَ وَ النَّصَارَى وَ الْمَجُوسَ وَ أَسْخَطَ قُرَّةَ عَيْنِ الْمُصْطَفَى وَ لَمْ يُرْضِهَا وَ غَيَّرَ السُّنَنَ كُلَّهَا وَ دَبَّرَ عَلَى قَتْلِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ أَظْهَرَ الْجَوْرَ وَ حَرَّمَ مَا حَلَّلَهُ اللَّهُ وَ حَلَّلَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَ أَبْقَى النَّاسَ أَنْ يَحْتَذُوا النَّقْدَ مِنْ جُلُودِ الْإِبِلِ وَ لَطَمَ وَجْهَ الزَّكِيَّةِ ع وَ صَعِدَ مِنْبَرَ رَسُولِ اللَّهِ ص ظُلْماً وَ عُدْوَاناً وَ افْتَرَى عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ عَانَدَهُ وَ سَفَّهَ رَأْيَهُ قَالَ حُذَيْفَةُ فَاسْتَجَابَ اللَّهُ دَعْوَةَ مَوْلَايَ عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَ السَّلَامِ عَلَى ذَلِكَ الْمُنَافِقِ وَ جَرَى كَمَا جَرَى قَتْلُهُ عَلَى يَدِ قَاتِلِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى قَاتِلِهِ قَالَ حُذَيْفَةُ فَدَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع لَمَّا قُتِلَ ذَلِكَ الْمُنَافِقُ لِأُهَنِّئَهُ بِقَتْلِهِ وَ مَصِيرِهِ إِلَى ذَلِكَ الْخِزْيِ وَ الِانْتِقَامِ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع يَا حُذَيْفَةُ تَذْكُرُ الْيَوْمَ الَّذِي دَخَلْتَ فِيهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ أَنَا وَ سِبْطَاهُ نَأْكُلُ مَعَهُ فَدَلَّكَ عَلَى فَضْلِ هَذَا الْيَوْمِ دَخَلْتَ فِيهِ عَلَيْهِ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا أَخَا رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ ع هُوَ وَ اللَّهِ هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي أَقَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فِيهِ عُيُونَ أَوْلَادِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ إِنِّي لَأَعْرِفُ لِهَذَا الْيَوْمِ اثْنَيْنِ وَ سَبْعِينَ اسْماً قَالَ حُذَيْفَةُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع إِنِّي أُحِبُّ أَنْ تُسْمِعَنِي أَسْمَاءَ هَذَا الْيَوْمِ التَّاسِعِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ فَقَالَ ع يَا حُذَيْفَةُ هَذَا يَوْمُ الِاسْتِرَاحَةِ وَ يَوْمُ تَنْفِيسِ الْهَمِّ وَ الْكَرْبِ وَ الْغَدِيرُ الثَّانِي وَ يَوْمُ تَحْطِيطِ الْأَوْزَارِ وَ يَوْمُ الْحَبْوَةِ وَ يَوْمُ رَفْعِ الْقَلَمِ وَ يَوْمُ الْهَدْي وَ يَوْمُ الْعَقِيقَةِ وَ يَوْمُ الْبَرَكَةِ وَ يَوْمُ الثَّارَاتِ وَ عِيدُ اللَّهِ الْأَكْبَرُ وَ يَوْمٌ يُسْتَجَابُ فِيهِ الدَّعَوَاتُ وَ يَوْمُ الْمَوْقِفِ الْأَعْظَمِ وَ يَوْمُ التَّوْلِيَةِ وَ يَوْمُ الشَّرْطِ وَ يَوْمُ نَزْعِ الْأَسْوَارِ وَ يَوْمُ نَدَامَةِ الظَّالِمِينَ وَ يَوْمُ انْكِسَارِ الشيعة [الشَّوْكَةِ] وَ يَوْمُ نَفْيِ الْهُمُومِ وَ يَوْمُ الْفَتْحِ وَ يَوْمُ الْعَرْضِ وَ يَوْمُ الْقُدْرَةِ وَ يَوْمُ التَّصْفِيحِ وَ يَوْمُ فَرَحِ الشِّيعَةِ وَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَ يَوْمُ الْإِنَابَةِ وَ يَوْمُ الزَّكَاةِ الْعُظْمَى وَ يَوْمُ الْفِطْرِ الثَّانِي وَ يَوْمُ سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى وَ يَوْمُ التَّجَرُّعِ بِالرِّيقِ وَ يَوْمُ الرِّضَا وَ عِيدُ أَهْلِ الْبَيْتِ ع وَ يَوْمٌ ظَفِرَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَ يَوْمٌ قَبِلَ اللَّهُ أَعْمَالَ الشِّيعَةِ وَ يَوْمُ تَقْدِيمِ الصَّدَقَةِ وَ يَوْمُ طَلَبِ الزِّيَادَةِ وَ يَوْمُ قَتْلِ الْمُنَافِقِ وَ يَوْمُ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ وَ يَوْمُ سُرُورِ أَهْلِ الْبَيْتِ ع وَ يَوْمُ الْمَشْهُودِ وَ يَوْمٌ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَ يَوْمُ هَدْمِ الضَّلَالَةِ وَ يَوْمُ النَّيْلَةِ وَ يَوْمُ الشَّهَادَةِ وَ يَوْمُ التَّجَاوُزِ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ وَ يَوْمُ الْمُسْتَطَابِ وَ يَوْمُ ذَهَابِ سُلْطَانِ الْمُنَافِقِ وَ يَوْمُ التَّسْدِيدِ وَ يَوْمٌ يَسْتَرِيحُ فِيهِ الْمُؤْمِنُونَ وَ يَوْمُ الْمُبَاهَلَةِ وَ يَوْمُ الْمُفَاخَرَةِ وَ يَوْمُ قَبُولِ الْأَعْمَالِ وَ يَوْمُ النَّحِيلِ وَ يَوْمُ النَّحِيلَةِ وَ يَوْمُ الشُّكْرِ وَ يَوْمُ نُصْرَةِ الْمَظْلُومِ وَ يَوْمُ الزِّيَارَةِ وَ يَوْمُ التَّوَدُّدِ وَ يَوْمُ النَّحِيبِ وَ يَوْمُ الْوُصُولِ وَ يَوْمُ الْبَرَكَةِ وَ يَوْمُ كَشْفِ الْبِدَعِ وَ يَوْمُ الزُّهْدِ فِي الْكَبَائِرِ وَ يَوْمُ الْمُنَادِي وَ يَوْمُ الْمَوْعِظَةِ وَ يَوْمُ الْعِبَادَةِ وَ يَوْمُ الْإِسْلَامِ قَالَ حُذَيْفَةُ فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَوْ لَمْ أُدْرِكْ مِنْ أَفْعَالِ الْخَيْرِ مَا أَرْجُو بِهِ الثَّوَابَ إِلَّا حُبَّ هَذَا الْيَوْمِ لَكَانَ مُنَايَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ وَ يَحْيَى بْنُ جَرِيحٍ فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا نُقَبِّلُ رَأْسَ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ وَ قُلْنَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي مَا قَبَضَنَا حَتَّى شَرَّفَنَا بِفَضْلِ هَذَا الْيَوْمِ الْمُبَارَكِ وَ انْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِهِ وَ عِيدُنَا فِيهِ فَهُوَ عِيدُ الشِّيعَةِ تَمَّ الْخَبَرُ۔[1] |
سید بن طاؤس اپنی کتاب "زوائد الفوائد" میں کہتے ہیں کہ: ابن ابی العلاء ہمدانی اور یحییٰ بن محمد بن حویج بغدادی کہتے ہیں کہ ہم ابن خطاب کے بارے میں بحث کر رہے تھے اور ہمیں اس کا معاملہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ تو ہم دونوں قم میں احمد بن اسحاق قمی کے پاس گئے، جو امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ ہم نے ان کے دروازے پر دستک دی، تو ایک عراقی لڑکی باہر آئی۔ ہم نے ابن اسحاق کے بارے میں پوچھا، تو اس نے کہا کہ وہ عید کی تیاری میں مصروف ہیں، کیونکہ آج عید کا دن ہے۔
میں نے کہا: سبحان اللہ، عیدیں تو شیعوں کے لیے صرف چار ہیں: فطر، قربانی، غدیر اور جمعہ۔ اس نے کہا: لیکن احمد بن اسحاق اپنے آقا ابو الحسن علی بن محمد عسکریؑ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ دن عید ہے اور اہل بیتؑ اور ان کے پیروکاروں کے نزدیک یہ سب سے بڑی عید ہے۔ ہم نے کہا: تو اس سے اجازت لے کر ہمیں مطلع کر دو۔ وہ اندر گئی اور اسے بتا دیا۔ پھر وہ ہمارے پاس باہر آیا، جبکہ وہ ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس سے مشک کی خوشبو آ رہی تھی، اور وہ اپنا چہرہ مسح کر رہا تھا۔ ہم نے اس پر اعتراض کیا، تو اس نے کہا: تم پر کوئی بات نہیں، میں نے عید کے لیے غسل کیا ہے۔ ہم نے کہا: کیا یہ واقعی عید کا دن ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، اور یہ ربیع الاول کی نویں تاریخ ہے۔ پھر اس نے ہمیں اپنے گھر کے اندر لے گیا اور ہمیں بٹھایا۔ پھر اس نے کہا: میں اپنے مولیٰ ابو الحسنؑ کی طرف گیا تھا، جیسا کہ تم دونوں میرے پاس آئے ہو، تو میں نے ان سے اجازت لی اور ان کے پاس اسی دن داخل ہوا، جو ربیع الاول کی نویں تاریخ تھی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے آقاؑ نے اپنے تمام خدام کو نئے کپڑے پہننے کا حکم دیا ہوا تھا۔ اور ان کے سامنے ایک عود جلانے والی جگہ تھی، جس میں وہ خود عود جلا رہے تھے۔ میں نے کہا: اے ابن رسول اللہ (ص)، کیا اس دن اہل بیتؑ کے لیے کوئی خوشی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اور کون سا دن اہل بیتؑ کے نزدیک اس دن سے زیادہ محترم ہے؟ یہ ربیع الاول کی نویں تاریخ ہے۔ پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ حذیفہ بن یمان اسی دن رسول اللہ (ص) کے پاس آئے تھے۔ حذیفہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ امیر المؤمنینؑ اور ان کے دونوں بیٹےؑ رسول اللہ (ص) کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، اور وہ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں، اور اپنے بیٹوں حسن اور حسینؑ سے کہہ رہے ہیں: "کھاؤ، تمہارے لیے اس دن کی برکت اور خوشی ہے، کیونکہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ اپنے دشمن کو ہلاک کرتا ہے۔ یہ دن وہ ہے جس میں اللہ اپنے شیعوں اور محبت کرنے والوں کے اعمال قبول کرتا ہے، اور یہ وہ دن ہے جس میں اللہ فرماتا ہے: "یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کی وجہ سے خالی ہیں۔" یہ وہ دن ہے جب فرعون اہل بیتؑ اور ان کے ظالموں کو ہلاک کرتا ہے، اور یہ وہ دن ہے جب اللہ ان کے اعمال کو برباد کرتا ہے۔ حذیفہ نے کہا: میں نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا: "کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا شخص ہے جو ان حرام چیزوں کی خلاف ورزی کرے گا؟" تو انہوں نے فرمایا: "جی ہاں، حذیفہ، کچھ منافقین ہیں جو ان پر حملہ آور ہوں گے اور اپنی امت میں میری سنت کو بدلیں گے۔ اور وہ میرے بعد میرے بیٹوں کے میراث پر قابض ہو جائے گا، اپنے آپ کو رہنما کے طور پر پیش کرے گا، اپنے امام پر برتری جتائے گا، لوگوں کے مال کو ناحق طریقے سے حاصل کرے گا اور اسے اللہ کی اطاعت کے علاوہ مقاصد پر خرچ کرے گا، مجھ کو جھٹلائے گا، میرے بھائی اور وزیر کو جھٹلائے گا، اور میری بیٹی کے حق پر حسد کرے گا۔ پس میری بیٹی اللہ عز و جل سے اس کے خلاف دعا کرے گی، اور اس دن اللہ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا۔ حذیفہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اے رسول اللہؐ! اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اسے آپ کی زندگی میں ہی ہلاک کر دے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: "اے حذیفہ! میں اللہ عز و جل کے فیصلے پر جسے وہ اپنے علم میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہے، تجاوز کرنا پسند نہیں کرتا۔ لیکن میں نے اللہ عز و جل سے دعا کی ہے کہ جس دن وہ اسے ہلاک کرے، اس دن کو دیگر دنوں پر فضیلت عطا کرے تاکہ یہ ایک سنت بن جائے، جس پر میرے دوست، میرے اہل بیت کے شیعہ، اور ان کے محب عمل کریں۔" اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی، جو کہ سب سے بلند کلام کرنے والا ہے: "اے محمدؐ! میرے علم سابق میں یہ بات تھی کہ تم اور تمہارے اہل بیت دنیا کی آزمائشوں اور اس کے مصائب میں مبتلا ہوں گے، اور میرے ان بندوں کے ظلم کا سامنا کرو گے جو منافق اور غاصب ہوں گے۔ وہ لوگ جنہیں تم نے نصیحت کی، لیکن انہوں نے تم سے خیانت کی؛ جن کے لیے تم نے خلوصِ دل سے خیر خواہی کی، مگر انہوں نے تمہیں دھوکہ دیا؛ جن سے تم نے محبت کا اظہار کیا، مگر انہوں نے تم سے کینہ رکھا؛ جنہیں تم نے راضی کیا، مگر انہوں نے تمہیں جھٹلایا؛ جنہیں تم نے نوازا، مگر انہوں نے تمہیں تنہا چھوڑ دیا۔ پس میرے قوت، قدرت اور سلطنت کے ذریعے میں ان پر، جو تمہارے بعد علیؑ کے حق کو غصب کرے گا، عذاب کے ایک ہزار دروازے کھولوں گا، جو کہ نیچے والے درجےم میں ہوں گے۔ میں اسے اور اس کے ساتھیوں کو دوزخ کی گہرائی میں ڈالوں گا، جہاں ابلیس نما انسان ان پر لعنت کرے گا۔ میں اس منافق کو قیامت کے دن عبرت بناؤں گا، جیسے انبیاء کے فرعون اور دین کے دشمن عبرت بنے۔ میں انہیں، ان کے دوستوں، اور تمام ظالموں اور منافقوں کو جھنم کی طرف زرد آنکھوں، سیاہ چہروں، ذلت و خواری، حیرانی، اور پشیمانی کے عالم میں لے جاؤں گا۔ اور میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دوں گا۔ اے محمدؐ! یقیناً تمہارا رفیق اور وصی، جو تمہارے مرتبے پر فائز ہوگا، آزمائشوں میں مبتلا ہوگا۔ وہ اپنے فرعون اور غاصب کی طرف سے مصیبت اٹھائے گا، جو جرأت کرے گا اور میرے کلام کو بدل ڈالے گا، میرے ساتھ شرک کرے گا، لوگوں کو میرے راستے سے روکے گا، تمہاری امت کے لیے اپنی ذات سے ایک بچھڑا (باطل رہنما) کھڑا کرے گا، اور میرے عرش پر میری ذات کے ساتھ کفر کرے گا۔ میں نے اپنے آسمانوں کے سات طبقات میں موجود اپنے فرشتوں، تمہارے شیعوں اور تمہارے محبین کو حکم دیا ہے کہ جس دن میں نے اسے ہلاک کیا، اس دن کو عید کے طور پر منائیں۔ اور انہیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ میرے کرسیٔ کرامت کو بیت المعمور کے سامنے رکھیں، میری تعریف کریں، اور تمہارے شیعوں اور محبین کے لیے، جو اولادِ آدم سے ہیں، مغفرت طلب کریں۔ اے محمدؐ! میں نے کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتوں) کو حکم دیا ہے کہ اُس دن مخلوق کے لیے قلم اٹھا لیں اور اُن کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہ لکھیں، یہ تمہاری اور تمہارے وصی کی عزت افزائی کے طور پر ہے۔ اے محمدؐ! میں نے اس دن کو تمہارے لیے، تمہارے اہلِ بیت کے لیے، اور تمہارے پیروکار مومنوں اور ان کے شیعوں کے لیے عید کا دن بنایا ہے۔ میں نے اپنی ذات پر اپنی عزت، جلال، اور اپنے بلند مقام کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص اس دن کو ثواب کی نیت سے عید کے طور پر منائے گا، میں اسے اپنے قرب کے فرشتوں کے اجر میں شریک کروں گا۔ میں اسے اس کے رشتہ داروں کے بارے میں شفاعت کا حق عطا کروں گا، اور اگر وہ اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال پر فراخی کرے گا تو میں اس کے مال میں اضافہ کروں گا۔ ہر سال، اس دن کے موقع پر، میں تمہارے شیعوں، محبوں، اور وفاداروں میں سے ہزاروں کو جہنم کی آگ سے آزاد کروں گا۔ میں ان کی کوششوں کو مقبول، ان کے گناہوں کو معاف، اور ان کے اعمال کو قبول کروں گا۔ حذیفہ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ اٹھے اور امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے۔ میں واپس لوٹا تو دوسرے (فرد) کے معاملے میں مجھے کوئی شک نہیں رہا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد میں نے دیکھا کہ شر (پھیلایا گیا)، کفر دوبارہ ظاہر ہوا، دین سے انحراف کیا گیا، حکومت کے لیے سازشیں کی گئیں، قرآن کو تحریف کا نشانہ بنایا گیا، بیتِ وحی کو جلا دیا گیا، بدعات ایجاد کی گئیں اور سنت کو تبدیل کر دیا گیا۔ ملت کو بدلا گیا، سنت کی خلاف ورزی کی گئی، امیرالمومنین علیؑ کی گواہی کو رد کیا گیا، فاطمہؑ بنت رسول اللہؐ کو جھٹلایا گیا، ان سے فدک کو غصب کیا گیا۔ یہودیوں، عیسائیوں، اور مجوسیوں کو خوش کیا گیا، جبکہ مصطفیؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک (فاطمہؑ) کو ناراض کیا گیا اور ان کو راضی نہ کیا گیا۔ تمام سنتوں کو تبدیل کر دیا گیا۔ امیرالمومنینؑ کے قتل کی سازش کی گئی۔ ظلم کو عام کیا گیا، اللہ کے حلال کو حرام اور اللہ کے حرام کو حلال کر دیا گیا۔ لوگوں کو اونٹوں کی کھال سے سکہ بنانے پر مجبور کر دیا گیا۔ زکیہ (فاطمہؑ) کے چہرے پر طمانچہ مارا گیا۔ ظلم و تعدی کے ساتھ رسول اللہؐ کے منبر پر چڑھا گیا۔ امیرالمومنینؑ پر جھوٹ باندھا گیا، ان سے عناد رکھا گیا، اور ان کی رائے کو کم عقل قرار دیا گیا۔ حذیفہ نے کہا: اللہ نے میرے مولا علیہ افضل الصلاة والسلام کی اس منافق کے خلاف دعا قبول فرما لی، اور وہی کچھ ہوا جو ہونا تھا، اس کا قتل اس کے قاتل کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اللہ اس کے قاتل پر رحمت فرمائے۔ حذیفہ نے کہا: میں امیرالمومنینؑ کے پاس گیا جب اس منافق کو قتل کر دیا گیا تھا تاکہ انہیں اس کے قتل اور اس کے ذلت آمیز انجام پر مبارکباد پیش کروں۔ اس پر امیرالمومنینؑ نے فرمایا...حذیفہ نے کہا: پھر میں نے امیر المؤمنینؑ کے پاس جا کر انہیں اس منافق کی موت کی خبر دی، اور ان کی حالت پر خوشی کا اظہار کیا۔ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: "کیا تم اس دن کو یاد کرتے ہو جب تم رسول اللہ (ص) کے پاس آئے تھے؟" میں نے کہا: جی ہاں، اے رسول اللہ (ص) کے بھائی۔ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: "یہ وہ دن ہے جس میں اللہ نے رسول اللہ (ص) کی نسل کے آنکھوں کو تسکین دی۔" حذیفہ نے کہا: پھر میں نے امیر المؤمنینؑ سے کہا: "میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس دن کے نام بتائیں جو ربیع الاول کی نویں تاریخ ہے۔" تو انہوں نے فرمایا: "یہ دن راحت کا دن ہے، اور یہ دن غم و اندوہ کو دور کرنے کا دن ہے، اور یہ غدیر کا دوسرا دن ہے، اور یہ بوجھ اتارنے کا دن ہے، اور یہ دعا کا دن ہے، اور یہ برکت کا دن ہے، اور یہ مظلوم کی مدد کا دن ہے۔" حذیفہ نے کہا: پھر میں نے امیر المؤمنینؑ سے کہا: "میں نے اس دن کی محبت میں جو کچھ بھی کیا، اس کی امید رکھتا ہوں۔" محمد بن ابی العلاء ہمذانی اور یحییٰ بن جریح نے کہا: پھر ہم نے احمد بن اسحاق کا سر چوم لیا، اور کہا: "اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مبارک دن کی فضیلت سے نوازا۔" ہم ان کے پاس سے چلے گئے، اور ہمارا یہ دن عید ہے، اور یہ شیعوں کی عید ہے۔ یہ خبر مکمل ہوئی۔ |
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج95، ص351-355۔