تبادلۂ خیال صارف:Waziri/تختہ مشق

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
ویکی شیعہ سے

غلام مرتضی قاضی

غلام مرتضی قاضی سنہ 1959 میں ضلع راولپنڈی کے گاؤں بگرہ سیداں میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد دینی تعلیم کے لیے جامعۃ المنتظر لاہور میں داخلہ لیا وہاں سے کچھ عرصہ بعد جامعہ اہلبیت اسلام آباد چلے گئے۔ اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی اور مزید تعلیم کے لیے قم (ایران) کا رخ کیا جامعہ المصطفیٰ العالمیہ ایران سے ایم فل کے بعد 1988 میں آپ پاکستان واپس چلے گئے اور مدرسہ کلیہ اہلبیت ( چنیوٹ) کی مسئولیت سنبھالی اور 31 مارچ سنہ2020 کو طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں وفات پا گئے۔

آپ نے ملت تشیع کے لئے کئی گرانبہا خدمات انجام دئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہیں: (1) پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ :

قوم و ملت کے بچوں کو ہنر سکھانےاور انہیں معاشرے کا مفید حصہ بنانے کے لیے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ ہمیشہ فکر مند اور سرگرم عمل رہتے ہیں چنانچہ 2003 میں پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی آپ کے اسی مشن کا آئینہ دار ہے جہاں مختلف شعبہ جات کی ورکشاپس اور ضروری آلات کے ذریعے بچوں کو ہنر مند بنانے کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔اس ادارے سے اب تک 1800 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم مکمل کر کے باعزت روز گار سے وابستہ ہو چکے ہیں جبکہ حکومت پنجاب کے تعاون سے اب تک 4200 طلبہ و طالبات مختلف شعبہ جات کے شارٹ کورسز مکمل کرنے کے بعد قوم و ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔

(2) کلیۃ اہلبیت :

مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی کی مساعی جمیلہ سے 1987 میں قائم ہوا یہ مدرسہ 24کنال رقبے پر محیط ہے جس کا ایک حصہ طلبہ کے لیے جبکہ دوسرا حصہ دانشگاہ بتول برائے طالبات کے لیے مختص قرار پایا اور علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور 1988 میں اس کی مدیریت سنبھالنے کے بعد تادمِ آخر اپنی مسؤلیت کو با احسن خوبی نبھاتے رہے۔اس مدرسے میں اس وقت 10 اساتذہ کرام کی زیر نگرانی کم و بیش 100 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں حوزوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔

(3) تعمیر مساجد پراجیکٹ :

اسلامی معاشرے میں مساجد کے قیام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ متبرک مقام دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں مقام و منزلت کا حامل ہے جبکہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ اپنے تمام دینی و فلاحی اداروں کے قیام میں تعمیر و توسیع مساجد کو ہمیشہ فو قیت دیتے ہیں پس اسی پالیسی کے تحت علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں مختلف جگہوں پر مساجد کی تعمیر کو ممکن بنایا جن میں شہر چنیوٹ کی مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان بھی شامل ہے جہاں 2000 سے زائد افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے جبکہ یہ مسجد ادایئگی نماز جمعہ المبارک سمیت دروس قرآن ، محافل و مجالس اور قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز ہے اس کے علاوہ مختلف مقامات پر 15 مساجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جہاں نماز کے علاوہ قرآن سنٹر ز بھی قائم ہیں جن میں اِن علاقوں کے بچے قرآن اور بنیادی عقائد کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

(4) قرآن سنٹرز:

چینیوٹ کمپلیکس کے اس پراجیکٹ سے 100 سے زائد پیش نماز مربوط ہیں جو مختلف علاقوں میں100قرآن سینٹرز چلا رہے ہیں جن میں ہزاروں بچوں کو ناظرہ قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔قرآن سنٹرز کے یہ طلبہ وقتاً فوقتاً مقابلہ حسن قرائت اور اسلامی کیوز کے پروگرامز میں بھی شرکت کرتے ہیں۔

(5) حفظ القرآن ماڈل سکول :

دور حاضر کی آلودہ فضاء میں سانس لینے والی نئی نسل میں قرآن مجید سے دوری معاشرتی زوال کا بنیادی سبب ہے جسے دور کرنے ،قرآن فہمی کا شعور اُجاگر کرنے اور نئی نسل کو قرآن حفظ کرانے کے لیے 2007 میں حفظ القرآن ماڈل سکول کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس ادارے میں قرآن مجید حفظ کرانے اور اس کے مفاہیم ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حفاظ کی قابل ذکر تعداد کو چھٹی تا مڈل کلاس کی عصری تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جا رہا ہے۔تا حال 427 طلبہ حفظ مکمل کر کے دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

(6) دانشگاہ بتول :

مومن بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اُن کی عمدہ تربیت کے لیے دانش گاہ بتول کا قیام ایک انقلاب آفریں قدم ہے 1990 سے قائم اس ادارے میں دختران ِ قوم کی ایک بڑی تعداد دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم سے بھی بہرہ مند ہو رہی ہے ۔ جبکہ سینکڑوں بچیاں اب تک فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں اسلامی قدروں کو فروغ دے رہی ہیں ۔دانشگاہ بتول میں طالبات کے لیے بہترین صحت مند ماحول اور سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے جہاں اس وقت 8 خاتون اساتذہ کی زیر نگرانی ایک سو سے زائد طالبات اقامت پذیر ہیں ۔

(7) کلیۃ العباس بھوانہ:

بھوانہ جیسے دور دراز علاقے میں اس دینی مدرسے کا قیام 2005 میں عمل میں لایا گیا جہاں اس وقت 40 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں دینی و عصری تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ یہ ادارہ بھوانہ اور اس کے گردونواح کے عوام کے لیے دینی و شرعی مسائل سے آگاہی کا واحد مرکز ہے ۔

(8) دینی مدرسہ برائے طالبات :

پنڈی بھٹیاں میں ایک دینی مدرسہ طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔

(9) اُسوہ کالج بھوانہ :

چنیوٹ کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے بھوانہ میں طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی اس تعلیمی ادارے کا قیام 2018 میں عمل میں آیا ۔ اس وقت اس ادارے میں 350 طلبہ و طالبات کو محنتی اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ایف اے ۔ ایف ایس سی ۔ آئی سی ایس اور آئی ٹی کی تعلیم دی جار ہی ہے۔

(10) خدیجۃالکبریٰ ہسپتال :

صحت کی سہولت دور حاضر کی اولین ضرورت ہے اسی اہمیت کے پیش نظر فیصل آباد چنیوٹ مین روڈ پر 50 بستروں پر مشتمل اور جدید سہولیات سے آراستہ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں6 مستند ڈاکٹرز کی زیر نگرانی علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی سمیت ہر قسم کے آپریشن اور نارمل ڈلیوری کی سہولت موجود ہے ۔ اس ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے ۔ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال میں وقتاً فوقتاًمفت میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جن میں مریضوں کو مفید مشوروں اور علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے ۔

(11) علی ہسپتال رجوعہ سادات:

رجوعہ سادات میں 4 کنال رقبہ پر مشتمل علی ہسپتال کا قیام علاقے کی طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ہسپتال کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس وقت یہاں تجربہ کار ڈاکٹرز کی زیر نگرانی گائنی ، آنکھوں کے علاج اور میڈیکل کے دیگر شعبہ جات کے ذریعے دکھی انسانیت کی شبانہ روز خدمت کی جارہی ہے ۔

(12) پیرا میڈیکل کالج :

اس ادارے کا شمار پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے بعد چنیوٹ کمپلیکس کے فعال ترین اداروں میں ہوتا ہے جہاں طلبہ و طا لبات کی ایک بڑی تعداد کو طبی شعبے کی خدمات کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور انہیں ڈسپینسر ، ٹیکنیشن ، لیب ٹیکنیشن اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اب تک 250 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر مختلف ہسپتالوں و دیگر اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

(13) فارمیسی کالج :

یہ ادارہ دوا سازی کے میدان میں سرگرم عمل ہے اور پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔جہاں پاکستان فارمیسی کونسل کے تحت فارمیسی ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کامیاب فرد میڈیکل سٹور کے لیے لائسنس حاصل کر سکتا ہے ۔ اب تک 100 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔

(14) نرسنگ کالج :

نرسنگ کالج چنیوٹ کمپلیکس کا ذیلی ادارہ ہے جہاں لیڈی ہیلتھ وزیٹر(LHV) اور سرٹیفائیڈ نرسنگ اسسٹنٹ (CNA)کے تربیتی کورسز کامیابی سے چلائے جارہے ہیں۔

(15) فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد :

کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی چینوٹ کے دور افتادہ و پسماندہ علا قوں میں وقتاً فوقتاً فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں میڈیسن کے علاوہ فری ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ ان میڈیکل کیمپس کے علاوہ ان علاقوں کے ہونہار طلبہ کو سکالرشپ ، کتب ، یونیفارم اور بیوگان کو ماہانہ راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

(16) ورچوئل سب کمپلیکس :

یہ ادارہ جدید برقیاتی تدریس کے آلات سے لیس ہے جہاں یونیورسٹی سطح کے طلباء کو علوم اداریہ، علوم تجاریہ ،اقتصادیات بینکاری، مالیات، ریاضیات، نفسیات کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین میں بی ایس اور ایم ایس کرنے کی سہولت میسر ہے اس وقت 4200 سے زائد طلبہ و طالبات ڈگری و ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 450 طلبہ و طالبات اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔درج بالا کامیاب اداروں کا قیام اور قومی و ملی سرگرمیوں میں متحرک کردار مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی محنت و تربیت اور علامہ قاضی غلام مرتضی مرحوم و مغفور کے اخلاص عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم نے فیصل آباد میں اپنی تعلیمی زندگی کے دوران مرحوم علامہ قاضی کی برجستہ صفات اور خصوصیات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ہم ان کی چند ایک خدمات سے آگاہ تھے لیکن اس مضمون کو لکھنے کے لئے جب ان کے فرزند ارجمند علامہ شیخ علی رضا قاضی سے استفسار کیا تو انہوں نے مرحوم کی خدمات کے حوالے سے مذکورہ نکات سے آگاہ کیا ـ ہماری دعا ہے خدا علی رضا قاضی کو اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورے اخلاص سے ان کے دینی مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق دے اور علامہ قاضی مرحوم کی مغفرت فرما کر انہیں جوار ائمہ میں جگہ عنایت فرمائے ( آمین ) حوالہ جات تحریر : محمد حسن جمالی

علامہ اختر عباس

اختر عباس نجفی پنجاب پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقہ کوٹ ادو میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صدیق محمد بلوچ نے اپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اختیار کر لیا۔ اختر عباس نجفی کا شمار پاکستان کےممتاز علماء میں ہوتا ہے۔ ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں دین کی ترویج و تحفظ کے لئے آپ کی جد و جہد ناقابل فراموش ہیں۔ آپ ایک علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ مکسر المزاج اور قومی درد رکھنے والے علماء میں سے تھے۔

علمی سفر: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی اور 1938ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد علوم دین حاصل کرنے کے لئے ملتان چلے گئے جہاں مدرسہ باب العلوم میں داخلہ لے لیا۔ آپ کےابتدائی اساتذہ میں مولانا شیخ محمد یار اور مولاسید زین العابدین شامل تھے۔ اس کے بعد آپ سید محمد باقر چکڑالوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انکے خاص شاگردوں میں شامل رہے۔ 1940ء میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد اچھروی کے پاس اور پھر دیوبند مکتب فکر کے مولانا عبد الخالق کے پاس حاضر ہوئے اور انہی کے ہمراہ دیوبند چلے گئے۔ جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کسبِ فیض کیا۔ اسی طرح آپ سید محمد یار شاہ نجفی اور سید گلاب علی شاہ نقوی آف ملتان سے بھی کسب فیض کیا اور 1945ء میں نجف اشرف (عراق) روانہ ہوئے۔

قیام در نجف : نجف اشرف میں آپ آیت اللہ مجتبیٰ لنکرانی، آیت اللہ ابو القاس رشتی، آیت اللہ میرزا محمد باقر زنجانی اور آیت اللہ سید ابو القاسم الخوئی سے بہرہ مند هوئے۔ اسی طرح عراق میں قیام کے دوران آپ آیت اللہ شہید باقر الصدر، آیت اللہ شہید میرزا علی غروی اور آیت اللہ موسوی اردبیلی کے ہم درس تھے۔ نجف اشرف قیام نجف کے دروان آپ نے معروف عالم دین شیخ علی کشمیری نجفی کی صاحبزادی سے شادی کی۔

تاسیس جامعۃ المنتظر:1954ء میں علامہ اختر عباس حضرت معصومہ کی زیارت کے لئے قم پہنچے اور اس وقت کے مرجع تقلید آیت اللہ برو جردی کی خدمت میں حاضری دی۔ آیت اللہ بروجردی نے لاہور کے کچھ مومنین کی درخواست پر علامہ اختر عباس کو لاہور جا کر مدرسہ قائم کرنے کا حکم دیا بعد از آن بعض مخیر حضرات کی مالی تعاون سے جامعہ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی 1964ء تک دس سال آپ نے جامعہ میں بطور مدرّس اعلیٰ خدمات انجام دیں اور پھر واپس نجف اشرف تشریف لے گئے۔ جہاں تین سال قیام کیا۔

قُم میں آمد اسی زمانہ میں قم مقدس (ایران) میں اس وقت کے آیت اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم شریعتمداریؒ نے ایک جامع علمی ادارہ دار التبلیغ اسلامی کے نام قائم کیا۔ علامہ صاحبؒ بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ علمائے ایران جن میں آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازیؒ مد ظلہ اور آیت اللہ جعفر سبحانی مد ظلہ شامل تھے۔ نجف اشرف تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ملاقات میں آقائے شریعتمداریؒ کی طرف سے قم آنے کی دعوت دی۔ تاکہ دار التبلیغ کے شعبہ اردو میں معاونت لی جا سکے۔ قم میں آپ نے اپنی ذمہ داری سنبھالی تو آقائے موصوف کے دروس خارج میں بھی شرکت کی اور پہلی بار دروس کو ٹیپ ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا۔

پاکستان واپسی 1974ء میں آپ پاکستان تشریف لائے تو کوٹ ادو میں دار التبلیغ اسلامی جامعتہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی علاقے کا حق اس طرح علمی و دینی خدمت کے ذریعے ادا کیا۔ علامہ بتایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ کیلئے دار التبلیغ اسلامی قم کی کسی قسم کی معاونت شامل نہیں تھی۔ 1987ء میں وہاں ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد بھی رکھی جس میں ہزاروں افراد کی گنجائش ہے۔ شروع میں لوگ متعجب تھے کہ اتنے نمازی کہاں سے جمع ہونگے لیکن اب یہ مسجد نماز جمعہ، ماہ رمضان المبارک اور عیدین کی موقعوں پر لو گوں سے پُر ہو جاتی ہے۔ اس کی تعمیر ہنوز تشنہ ء تکمیل ہے۔ ملی اور سیاسی صورتحال ایک ذمہ دار عالم دین کی حیثیت سے علامہ اختر عباس ؒ نے کبھی بھی اپنے فریضہ ء شرعی میں تساہل نہیں برتا۔ تحفظ عقائد کا معاملہ ہو یا ملت کے تشخص کا یا ملک میں نفاذ اسلام کا ۔ علامہ مرحوم نے اپنی صوابدید کے مطابق اپنا کردار بھر پور اور بے باکانہ ادا کیا ۔ سن ساٹھ کے عشرے میں جب شیخی نظریات کو شیعیت میں مدغم کرنے کی کو شش ہوئی تو محراب و منبر کی سچی پاسداری کیلئے علماء نے اپنی آواز بلند کی۔ حضرت علامہ مفتی جعفر حسینؒ، مولانا محمد یار شاہ نجفی ؒ، مولانا گلاب علی شاہؒ، مولانا محمد حسین نجفی مد ظلہ ، مولانا حسین بخش آف جاڑا ؒ، اور مولانا حافظ سیف اللہ جعفری ؒ کے ساتھ علامہ اختر عباس ؒ کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ 1977ء میں پاکستان عام انتخابات کا غلغلہ ہوا تو اسلامی فکر رکھنے والی قوتوں نے نظام مصطفی ؐ کے عنوان سے تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ علامہ اختر عباسؒ نے اس کی تائید کرتے ہوئے مفتی محمود مرحوم کے ساتھ کوٹ ادو میں جلسہ عام سے خطاب بھی کیا۔ اس سے پہلے تحریک ختم نبوت میں بھی انہوں نے نہایت سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے اسلامی نظام حکومت کیلئے ظاہری کاروائیاں شروع کیں تو شیعہ قوم نظر انداز کی جانے لگی۔ مفتی جعفر حسین مرحوم نے جو دینی و ملی و ملکی خدمات میں ہمیشہ نمایاں رہے تھے اور 1951ء کے مشہور بائیس نکاتی اعلان پر دستخط بھی کر چکے تھے، 1979ءمیں جنرل ضیا ء الحق کی اسلامی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا۔ جس کے بعد ملت شیعہ جعفریہ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی شیعہ قوم کے نمائندہ علماء اور زعماء ، خواص و عوام نے بھکر میں قصر زینبؑ کے مقام پر ایک کنونشن منعقد کیا جہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور مفتی جعفر حسین مرحوم کو قائد ملت جعفریہ کا درجہ دیا گیا۔ اس فیصلہ میں علامہ اختر عباس مرحوم پیش پیش تھے۔ بعد میں بھی جب کبھی ملت پر کوئی مشکل وقت آن پڑا، علامہ کی خدمات نمایاں رہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے موقع پر جنرل ضیاء الحق نے علامہ مرحوم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو اس ملاقات میں بھی علامہ نے شیعہ مؤقف کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا۔ علامہ صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں علماء کمیٹی کی طرف سے ایک اعلامیہ سامنے آیا جو ملت شیعہ کیلئے متوازن نہیں تھا۔ اس پر علامہ نے شدید ناراحتی کا اظہار کرتے ہوئے علماء کو متوجہ کیا جس کے بعد کمیٹی کی ہیئت ہی تبدیل کر دی گئی۔ انقلاب اسلامی ایران اس صدی کا سب سے بڑا اسلامی انقلاب 1979ءمیں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔ جس کے نتیجہ میں وہاں قدیمی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ انقلاب دنیا بھر میں جہاں غلامی اور آمریت کے خلاف تحریکوں میں رہنما ثابت ہوا، وہیں عالمِ اسلام کے تشخص کیلئے اس کا کردار قابل فخر رہا۔ علامہ مرحوم چونکہ ان دنوں میں قم سے پاکستان تشریف لائے تھے لہذا عوام الناس کے سامنے اس انقلاب کا بھر پور مثبت طریقے سے تعارف پیش کیا۔ اور جگہ جگہ انہوں نے اپنی تقاریر میں اسلامی انقلاب کے مؤقف کو اجاگر کیا۔ نجف اشرف میں جب رہبر انقلاب حضرت امام خمینیؒ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے تو علامہ موصوف کے ان سے نزدیکی تعلق کے باعث ایران میں شاہ کی بد نامِ زمانہ پولیس (ساداک) نے آپ کی قم آمد پر آپ کیلئے مشکلات پیدا کیں اور پر سش بھی کی۔ آپ اپنی زندگی کے آخری ایام تک انقلاب اسلامی ایران کی مخالفت کو حرام سمجھتے تھے۔ اس بات پر ان کے متعدد احباب گواہ ہیں۔

کلیۃ القضاء کا قیام شیخ الجامعہ مرحوم سیاسی آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنی علمی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوئے بلکہ پاکستان میں جب حکومت نے اسلامی نظام کے نفاذ کا عندیہ دیا تو آپ نے علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ کے ساتھ مل کر فقہ جعفریہ کے مطابق شرعی عدالتوں کے جج کے منصب کیلئے موزوں اور اہل افراد تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس کیلئے سیٹھ نوازش علی نے بھر پور مالی معاونت کی۔ اس طرح 1982ءمیں لاہور میں کلیۃ القضاء (The Faculty of Islamic Laws)قائم کی گئی۔ آپ نے اس کے نگران اور مدرس اعلیٰ کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ ابتداء میں پورے پاکستان سے تیرہ فاضل ترین طلباء کو خالصتاً ان کی علمی اور ذہنی استعداد کو جانچ کر داخلہ دیا گیا۔ کورس کی مدت دو سال مقرر ہوئی۔ طلباء کو قضاوت، قصاص، شہادات اور حدود تعزیرات کے بارے میں مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ علامہ نے کئی کورس اپنے طلباء کو مکمل کروائے۔ آپ کے دروس اپنے بیان ، تشریح، دلیل اور کاملیت میں خود اپنا جواب تھے۔ ان دروس کو باقاعدہ ویڈیو ریکارڈ کیا گیا ۔ علامہ نے چند سال قبل ایک بار راقم کو بتایا کہ رسائل کا درس شروع سے آخر تک مکمل طور پر برِ صغیر میں پہلی بار شاید انہوں نے دیا اور اس کے کئی دورے کروائے۔ کلیۃ القضاۃ میں ان کے درس و تدریس کا سلسلہ 11 اپریل 1999ءتک جاری رہا۔ دخترانِ ملت کی تربیت یہ دور تہذیب اور اخلاق کے لحاظ سے ابتلاء کا دور ہے اور سامان لہو و لعب، فکر انسانی کی غفلت کیلئے فراواں ہے۔ نوجوان نسل کسی بھی قوم و ملت کیلئے مستقبل کی امید ہوتی ہے۔ ایک صاحب فکر نے درست کہا تھا، آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو اچھی نسل کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت شیخ الجامعہؒ نے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ فرمائی اور ملت شیعہ کی بیٹیوں کیلئے دینی تعلیم کی ضرورت کو خصوصی اہمیت دی۔ انہوں نے 1994ءمیں لاہور میں جامعہ الخدیجۃ الکبرؑیٰ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مقصد کیلئے اپنی ذاتی توجہ اور آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ کے تعاون سے ماڈل ٹاؤن لاہور کے نزدیک ایک مکان کرایہ پر حاصل کیا اور یکم مئی 1994ءکو وہاں درس کا آغاز کر دیا۔ اس مدرسہ میں نصاب، درس نظامی مقرر کیا گیا جو تمام حوزہ ہائے علمیہ میں مروج ہے۔ شروع میں بیس طالبات تھیں جن کی رہائش کا انتظام بھی کیا گیا اور اس کو یقینی تحفظ فراہم کرنے کیلئے علامہ مرحوم نے خود وہاں رہائش اختیار کی۔ الحمد للہ کہ اب طالبات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شیخ الجامعہؒ مرحوم نے اس درس کی برقرار کیلئے اپنے وصیت نامہ میں بھی خواہش کا اظہار کیا۔

تلامذہ دور حاضر کے بہت سےجید علماء کرام کو حضرت علامہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ ان میں چند ایک کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی مد ظلہ (مرجع تقلید۔ نجف اشرف) محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم۔ حضرت علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی مد ظلہ (پرنسپل حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور)۔ وکیلِ آل محمدؐ حضرت شہید علامہ غلام حسین نجفی (لاہور)۔ حضرت علامہ شیخ محمد شفیع نجفی مد ظلہ (لاہور)۔ مولانا شہید سجاد حسین خان (سیالکوٹ)۔ مولانا ظفر عباس مد ظلہ ( متحدہ عرب امارات)۔ مولانا احمد حسین نوری مد ظلہ (اسلام آباد)۔ مولانا سید حسن ظہیر نجفی مد ظلہ (لاہور) ۔ مولانا شہید غلام رضا ناصر نجفی( جوہر آباد) ۔ غرض اکثر علماء بذاتِ خود یا بالواسطہ آپ کے شاگرد رہے۔

تالیفات آپ نے طبع زاد کتب تحریر کرنے کی بجائے تراجم کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی۔ ایک بار راقم نے استفسار کیا تو فرمانے لگے۔ عربی اور فارسی میں اتنا بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے کہ نئی کتاب تصنیف کرنے کی بجائے انہی کا اردو ترجمہ کر دیا جائے تو کافی ہے۔

بہت مدت پہلے خاتم المحدثین آقا عباس قمی ؒ کی کتاب’’مفاتیح الجنان‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ جس کو بہت قبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی مؤمنین اس کو حرز جان بنائے رکھتے ہیں۔ حضرت علامہ کی بہت سی کاوشیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کچھ مسودات ہنوز تشنہء اشاعت ہیں۔ شائع شدہ چند کتب درج ذیل ہیں :فضائل پنج تن پاک ؑ (از آیت اللہ مرتضیٰ فیروز آبادی) تین جلدیں۔آموزشِ دین ( از آیت اللہ ابراہیم امینی) چار دجلدیں۔ فاطمۃ الزہراؑ اسلام کی مثالی خاتون ( از آیت اللہ ابراہیم امینی) ۔ قیام مختار ( از آیت اللہ اردکانی)۔ خود سازی ( از آیت اللہ ابراہیم امینی)۔ علم فقہ اور علم قضاوت پر آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ کی تحریر کردہ مندرجہ ذیل کتب کا ترجمہ کیا :کتاب الدیات۔ کتاب الحدود و التعزیرات۔ کتاب الشہادات۔ کتاب القضاء(دو جلدیں)۔ کتاب القصاص ( دو جلدیں)۔

اس کے علاوہ تقریباً 800 ویڈیو کیسٹیں اور ہزاروں کی تعداد میں آڈیو کیسٹیں ان کی دروس پر مشتمل ریکارڈ ہو چکی ہیں اور جامعۃ المنتظر کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ مجالس عزا، تقاریر او ر دیگر گفتگوؤں پر مشتمل کیسٹ ریکارڈ ز اس کے علاوہ ہیں۔ خطابت

تحریر کے ساتھ ساتھ علامہ صاحب کی خطابت بھی منفرد تھی۔ ان کا اپنا ایک اسلوب تھا۔ اُس میں جہاں دقیق علمی نکتے بیان ہوتے وہاں تاریخی واقعات کا حوالہ بھی ہوتا ۔جہاں کسی معاملہ میں شدت اختیار کرتے وہاں برجستہ مزاح سے سامعین کو محظوظ بھی فرماتے۔ مصائب بیان کرتےتو لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔ پاکستان ہی میں نہیں۔ بلکہ بیرون ملک بھی متعدد مقامات پر مجالس سے خطاب کیا۔ لیکن کبھی مشاہرہ طے نہیں کیا۔ اگر کوئی خدمت کرتا تو اس کو اپنے واجبات اور سہم امام ؑ ادا کرنے کی نصیحت کرتے۔ ایسی رقوم کو ترویج علوم دین کیلئے استعمال کرتے۔ بعض مثالیں مستحقین کی مخفی امداد کرنے کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ اگر مجلس کے بعد کوئی ہدیہ نہ ملتا تو اصرار نہ کرتے۔ ایک بار بتایا کہ وہ اور مفتی جعفر حسین مرحوم کسی دور افتادہ دیہات میں ایک مجلس سے خطاب کیلئے تشریف لے گئے اور بانی مجلس کے زبانی شکریہ کے بعد دونوں بزرگ حضرات کی واپسی ہوئی۔ زادِ راہ کی قلت نے مشکل پیدا کی مگر پھر بھی کبھی مشاہرہ طے نہ کیا۔

وضع داری کا یہ عالم تھا کہ تقریباً چالیس سال قبل وزیر آباد اور سیالکوٹ میں عشرہ محرم الحرام کی مجالس پڑھنا شروع کیں اور پھر ساری زندگی عشرہ محرم وہیں پڑھا۔ تقریر کی خوبی یہ کہ بلا تفریق ِ مذہب ہزاروں افراد ان کی مجالس میں شرکت کرتے اور متاثر ہوتے ۔ ان شہروں کے باسیو ں نے ہر برس ان کا اتنظار کیا اور انہی شہروں میں عشرہ محرم پڑھتے اور حسین ؑ حسین کرتے آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آخری ایام حضرت علامہؒ 1994ءسے عارضہ قلب میں مبتلا تھے جو روز بروز شدت اختیار کرتا گیا ۔ ان کی عالی ہمتی کا یہ عالم تھا کہ باوجود کہ پیرانہ سالی اور مرض کے اپنی معمول کی مصروفیات کو قطعا ترک نہ کیا۔ جناب امیر المؤمنینؑ کے قول ’’ مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے رہو‘‘ کے بمصداق انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور مجالس عزاء سے بھی خطاب فرماتے رہے۔ ملیّ و قومی امور کی طرف بھی متوجہ رہے۔ حتیٰ کہ زندگی کے آخری تین برس باقاعدگی سے زیارات ِ مقدسہ کیلئے عراق و ایران تشریف لے جاتے رہے۔ ایک بار ناسازی طبع کے باعث مشہد ومقدس (ایران) کے ایک ہسپتال میں زیر علام بھی رہنا پڑا۔ آخری دو ماہ میں مرض انتہا تک پہنچ گیا اور اس مرتبہ عشرہ محرم الحرام پڑھنے سے بھی خود کو معذور سمجھ رہے تھے لیکن اہلیان وزیر آباد و سیالکوٹ ک انتہائی اصرار پر وہاں تشریف لے گئے۔ محرم کی ابتدائی مجالس ہی میں آپ نے اس امر کی نشاندہی کر دی تھی کہ شاہد میں یہ عشرہ بھی پورا نہ کر سکوں۔

رحلت اور تدفین حضرت علامہ اختر عباسؒ آٹھ محرم الحرام 1420ہجری کی شام سیالکوٹ میں مجلس عزا سے خطاب کرنے کے بعد وزیر آباد تشریف لے گئے اور نویں محرم کی شب وہاں مجلس عزا سے خطاب کیا۔ یہ ان کی زندگی کی آخری مجلس تھی۔ وزیر آباد ہی میں نو محرم الحرام (26 اپریل 1999ء بروز دو شنبہ) کی صبح نماز فجر کیلئے وُضو کرتے ہوئے آخری مسح کے دوران حرکت قلب بند ہوگئی۔ اور اپنی جان، جان ِ آفریں کے سپرد کر دی۔

موت کے بعد آپ کے چہرے کی مسکراہٹ نفس مطمئنہ کے مقام اعلیٰ علیین کو رجوع کرنے کا اشارہ دے رہی تھی۔

نشان مردِ مؤمن بہ تو گویم چو مرگ آید، تبسم بر ابِ اوست (اقبالؒ)

علامہ مرحوم کے چاہنے والوں نے جسد خاکی کو وزیر آباد اور سیالکوٹ میں نماز جنازہ ادا کئے بغیر لاہور نہ آنے دیا۔ ہزاروں زن و مرد نالہ ہائے الم بلند کر رہے تھے۔ وزیر آباد نماز جناہ مولانا موسیٰ بیگ مد ظلہ نے اور سیالکوٹ میں مولانا فیض کرپالوی نے پڑھائی۔ اور یوں ہر دو مقامات پر ’’الوداع‘‘الوداع‘‘ کی دلسوز صداؤں کے ساتھ اپنے مربی کو رخصت کیا گیا۔ سیالکوٹ میں نماز جنازہ عین اس وقت اور اسی مقام پر ادا کی گئی جہاں سالہا سال سے حضرت علامہ خطاب فرمایا کرتے تھے اور اس روز بھی آخری خطاب کرنے والے تھے۔ لاہور میں آپ کے گھر سے جامعۃ المنتظر تک پوری راہ سوگوار تھی۔ روز عاشوراء حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں آپکی نماز جنازہ علامہ حافظ ریاض حسین نجفی مد ظلہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ جس میں ہر طبقہ زندگی سے ہزاروں سوگواروں نے شرکت کی۔ آخری دیدار کیلئے میت مرکزی مقام پہ رکھی گئی تو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے۔ پھر حضرت علامہ کے کمرہ درس میں آپکی طالبات اور دیگر خواتین نے اپنے روحانی پد ر بزرگوار کی الوداعی مسکراہٹ کی زیارت کی۔ جس کے بعد ذکر و فکرِ حسینؑ کے مبلغ اور اس دور میں ملک و ملت کے سب سے جید فقیہ کو عین اذان ظہر عاشور کے وقت جامعۃ المنتظر لاہور ہی میں آسودہ ء لحد کر دیا گیا۔

داستانِ کربلا کے ترجماں، تجھ پر سلام اختر عباس! عظمت کے نشان تجھ پر سلام

اظہار ِ تعزیت میں آپ کے والد گرامی آیت اللہ (اختر عباس) کی رحلت پر تعزیت پیش کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے ان کیلئے جنت الفردوس اور آپ کیلئے صبر(جمیل) اور اجر (عظیم) کا خواستگار ہوں۔ یقیناً ہم اللہ کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

(آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ) اس بلند ہمت و دور اندیش مرحوم نے جامعۃ المنتظر کے عنوان سے جو پودا لگایا، آج وہ تناور ہو چکا ہے اور اس کے اثرات و برکات پورے پاکستان میں پھیل گئے ہیں اور اس دور میں انہوں نے جس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جامعہ خدیجۃ الکبرؑیٰ کی بنیاد رکھی ( اس سے ظاہر ہے کہ ) وہ لمحہ بھر کیلئے مقام تعلیم و تربیت سے جدا نہ ہوئے اور اپنے مقصد کی راہ میں مشکلات اور سختیوں کے ہجوم سے بھی کبھی نا امید نہ ہوئے۔

(آیت اللہ العظمیٰ سید حسن طاہری خرم آبادی مد ظلہ) مولانا مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک دبستان تھے۔ وہ بیک وقت مدرس ، مقرر اور مؤلف تھے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا اور جینا و مرنا سرکار محمد ؐ و آلہ ؑ محمدؐ علیہم السلام کے علوم کی نشر و اشاعت تھی جسے وہ زندگی کے آخری لمحہ تک انجام دیتے رہے۔

(آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی مد ظلہ ) حضرت آیت اللہ استاذی و استاذ العلماء آقائی الشیخ اختر عباس صاحب قبلہ مرحوم ہمارے ناصح اور شفیق اساتذہ میں سے بزرگترین استاذ تھے۔ سرکار مرحوم پاکستان میں علم اصول الفقہ اور فقہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ (حجتہ الالسلام حضرت مولانا ملک اعجاز حسین نجفی مد ظلہ ) حوالہ زندگی نامہ شیخ الجامعہ

تحریر: ن ، ع، شیرازی

جامعۃ المنتظر لاہور

جامعتہ المنتظر، پاکستان کے شہر لاہور میں موجود شیعہ دینی درسگاہ ہے جس کی تاسیس سنہ 1954ء میں ہوئی۔ جناب الحاج شیخ محمد طفیل کو اس عظیم کام کے آغاز کی سعادت نصیب ہوئی۔ شروع میں لاہور موچی دروازہ میں حسینہ ہال کے نام سے ایک ہال ایک سو روپے ماہوار کرایے پر حاصل لیا گیا۔ سنہ 1956ء میں اس ادارے کو رجسٹرڈ کرایا گیا۔ سنہ 1958ء میں ایک عمارت محلہ داراشکوہ میں خریدی گئی مگر محکمہ اوقاف سے تنازعہ کی بنا پر استعمال میں نہ لائی جا سکی۔ دسمبر 1960ء میں دارالشریعہ وسن پورہ 32 ہزار روپے میں خریدا گیا۔ سنہ 1965ء میں جامعتہ المنتظر ٹرسٹ تشکیل پائی۔ سنہ 1969ء سید محمد حسین نقوی، حاجی شیخ غلام حسین اور محمد عباس مرزا کی کاوشوں سے حسینی ٹرسٹ ماڈل ٹاؤن نے ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن میں 21 کنال سے زائد رقبہ جامعتہ المنتظر کے لئے وقف کیا اس طرح دونوں ٹرسٹ، باہمی انضمام سے خدمت دین و تعلیمات اہلبیت کی نشر و اشاعت کے لئے یکجا ہو گئے۔

بانی

تاریخچہ

علی مسجد

المنتظر لائبریری

المنتظر کسیٹ لائبریری

نماز جمعہ

المتنظر فری ڈسپنسری

عزاخانہ فاطمیہ

دار الافتاء

شعبہ تبلیغات

شعبہ تصنیفات

درس خارج

تجہیز و تکفین

کاروان حج

مصباح القرآن ٹرسٹ

ماهنامہ المنتظر

مجالس و محافل

شارٹ کورسز

حافظ ریاض حسین نقوی

جاممعۃ المنتظر لاہور کے پرنسپل، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر اور وفاق علماء شیعہ پاکستان کے سرپرست ہیں۔ یکم جنوری 1941 ء ایک مذہبی گھرانے میں آپ کی ولادت ہوئی۔

آپ نے 8 سال کی عمر میں (1949ء) اپنے چچا استاد ا لعلماء یار محمد شاہ کے پاس دینی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن سے کیا اور اڑھائی سال میں قرآن حفظ کیا۔ 1956 تک اپنے چچا کے پاس رائج الوقت دروس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سنہ 1957ء میں جامعۃ المنتظر میں داخلہ لیا۔

سنہ 1958ء میں علامہ صفدر حسین نجفی نے آپ کو فقہ و اصول کی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ تدریس کرنے کا حکم دیا۔ بائیس سال کی عمر میں رسائل، مکاسب، کفایہ اور منظومہ تک علامہ اختر عباس نجفی سے پڑھ کر سنہ 1963ء کو اعلی تعلیم کے لئے نجف اشرف چلے گئے جہاں آپ نے آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔

سنہ 1969ء میں آپ پاکستان واپس آئے اور سید صفدر حسین نجفی کی وفات تک جامعہ المنتظر کے مہتمم اعلی رہے اور انکی وفات سے تا حال جامعہ ھذا کے پرنسپل ہیں۔ تقریبا بیس سال سے زائد عرصہ سے فقہ و اصول کا درس خارج دے رہے ہیں۔ https://wifaqtimes.com/21027/ https://wifaqtimes.com/19470/ https://wifaqtimes.com/19688/ https://wifaqtimes.com/22329/

https://wifaqtimes.com/44405/

نسب اور ولادت

حافظ ریاض حسین نجفی کے والد سید حسین بخش نقوی اپنی زمین میں کاشتکاری کرتے تھے۔ آپ کے تایا سید غلام سرور شاہ ایک نیک اور پرہیز گار انسان تھے جو مولانا سید صفدر حسین صاحب کے والد تھے۔ مولانا سید محمد یار شاہ آپ کے چچا اور استاد تھے۔حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کا انٹرویو

علی پور، مظفر گڑھ سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تین گھروں کی بستی "شاہ دی کھوئی" میں یکم جنوری 1941ء کو حافظ ریاض حسین کی ولادت ہوئی۔حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کا انٹرویو

سوانح حیات

حافظ ریاض حسین کو آپ چچا استاد والعلماء یار محمد شاہ نے 1949 ء میں دارالعلوم محمد جلال پورننگیانہ لے گئے جہاں قرآن مجید کے حفظ سے دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ تقریبا ڈھائی سال میں قرآن حفظ کیا اس وقت آپ کی عمر دس سال کے قریب تھی۔حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کا انٹرویو

سات سے آٹھ سال کے اندر آپ اپنے چچا یار محمد شاہ سے تقریبا سارے مروجہ دروس پڑھ کر لاہور جامعۃ المنتظر کا رخ کیا۔ سنہ 1958ء میں علامہ صفدر حسین نجفی نے آپ کو فقہ و اصول کی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ تدریس کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ 1958ء سے لے کر 1963ء تک آپ نے صرف، نحو، معانی و بیان اور منطق و فلسفہ کی کتب بشمول مختصر المعانی، مطول، سلم العلوم اور قاضی حمد اللہ تک کی تدریس کیں۔ بائیس سال کی عمر میں رسائل، مکاسب، کفایہ اور منظومہ تک علامہ اختر عباس سے پڑھ کر آپ اعلی تعلیم کے لئے نجف اشرف منتقل ہوگئے۔

آپ نے نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم ، آیت اللہ العظمی امام خمینی اور آیت اللہ العظمی شیخ جواد تبریزی و چند دیگر بڑے اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا۔

سنہ 1969ء میں آپ پاکستان تشریف لے آئے اور محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی کی وفات تک آپ جامعہ کے مہتمم اعلی رہے اور انکی وفات سے تا حال جامعہ ھذا کے پرنسپل ہیں۔ تقریبا بیس سال سے زائد عرصہ سے فقہ و اصول کا درس خارج دے رہے ہیں۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں بھی آپ کے علمی کارناموں میں شامل ہیں۔ آپ کی کتابیں زیادہ تر قرآنی موضوعات پر ہیں۔

ملک کے اندر تبلیغی اور تنظیمی سفر کرنے کے علاوہ آپ نے مشرق وسطی و یورپ کے اکثر ممالک اور امریکا و کینیڈا کے تفصیلی اور مطالعاتی دورے کئے ہیں۔حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی مدظلہ العالی کا مختصر تعارف

تدریسی خدمات

تبلیغی خدمات

سنہ 1969ء سے آپ نے امامیہ کالونی سے تبلیغ دین کا آغاز کیا جہاں پر آپ باقاعده طور پر قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مغل پورہ کی مسجد میں آپ نجف جانے سے پہلے بھی نماز جمعہ پڑھاتے تھے اور نجف سے واپسی کے بعد تقریبا گیارہ سال تک آپ نے اس مسجد میں نماز پڑھایا۔ دسمبر 1992ء سے جامعة المنتظر کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھانا شروع کیا۔ اور تقریبا 12 سال تک بلا ناغہ نماز جمعہ پڑھا چکے ہیں حتی دور دراز جگہوں سے بھی آپ جہاز کے ذریعے آ کر جمعہ پڑھایا کرتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں منھاں شریف کوٹ ادو تبلیغ کے دوران افطار کے بعد آپ ایک پارہ قرآن پاک کا زبانی پڑھتا تھا جسے اہلسنت حضرات بھی بہت پسند کرتے تھے. اسی طرح ٹھٹھہ محمد شاہ میں بھی درس قرآن دیا کرتے تھے۔حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کا انٹرویو |قسط 4