سورہ ہود آیت نمبر 107
سورہ ہود آیت نمبر 107 اہل جہنم کے دائمی عذاب کے بارے میں ہے جس کی بقا زمین اور آسمان کی بقا کے ساتھ مشروط ہے۔ یہی بات مذکورہ آیت اور اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف کا سبب بنی ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی بنیاد پر کہا ہے کہ جہنم میں کافروں کی سزا زمین و آسمان کی بقا تک محدود ہے اور یہ کسی وقت ختم ہو جائے گی۔ جبکہ طباطبائی اور جوادی آملی جیسے بعض دوسرے علما اپنی اپنی توضیح کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس آیت کا ایسا کوئی مطلب نہیں ہے۔
آیت کی اہمیت
سوہ ہود کی آیت نمبر 107 اس سے پہلی والی آیت کے مفہوم سے مرتبط ہے جس میں اہلِ شقاوت کا تعارف جہنم کے باشندوں کے طور پر کی گئی ہے، اس کے بعد مذکورہ آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاء رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ اِلا یہ کہ آپ کا پروردگار (کچھ اور) چاہے بے شک آپ کا پروردگار (قادرِ مختار ہے) جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
سورہ ہود: آیت 107
شیعہ مفسر طَبرِسی (متوفی 548ھ) نے اس آیت کو قرآن کی ایک مشکل عبارت قرار دیا ہے، جس کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے۔[1] اس آیت کی تفسیر میں دو جہت سے مشکل ہے ایک ابدی سزا کا آسمانوں اور زمین کی بقا سے مشروط ہونا اور دوسرا «إلّا مَا شاءَ اللہ» ("سوائے خدا کی مرضی کے") میں استثناء کے معنی اور سزا کی ہمیشگی کو خدا کی مرضی سے محدود کرنا ہے۔[2] اس آیت کے مسائل سے ملتے جلتے مسائل سورہ ہود کی آیت نمبر 108 میں بھی اٹھائے گئے ہیں۔[3]
کافروں کی ابدی عذاب کے ساتھ آیت کی ناسازگاری
سورہ ہود کی آیت نمبر 107 کو ان لوگوں کی دلیل قرار دی جاتی ہے جو لوگ عذاب کی ابدیت کو نہیں مانتے ہیں۔[4] ابن قَیّم جوزی جیسے بعض لوگوں نے مذکورہ آیات سے جہنم کی آگ کی ابدیت کی نفی اور جہنم میں خلود نہ ہونے کو اخذ کیا ہے۔[5] محمد رشید رضا اپنی کتاب تفسیر المنار میں کہتے ہیں کہ اہلِ جنت کے لافانی ہونے کے وعدے کے برخلاف اہلِ جہنم کی بقا کا دارومدار مشیت الہی پر ہے، یعنی اگر خدا چاہے تو وہ آگ کی عذاب سے نجات پائیں گے۔[6]
تفسیر تسنیم کے مطابق تفسیر کنز الدقائق کے مصنف کی طرح بعض لوگوں نے مذکورہ آیت میں آسمان اور زمین سے اسی دنیا کے آسمان اور زمین اور جنت اور جہنم سے برزخی جنت اور جہنم مراد لیا ہے جو قیامت برپا ہونے اور موجودہ زمین اور آسمان کا نظام ختم ہونے کے ساتھ ختم ہونگے۔[7]
جہنم میں خلود کے ساتھ آیت کی سازگاری
علامہ طباطبایی کے مطابق قرآن میں عذاب کی ہمیشگی اور ابدیت پر تصریح ہوئی ہے: سورہ بقرہ کی آیت نمبر 167 میں «و ما ہم بخارجین من النار» کی عبارت اور شیعہ ائمہ کی متعدد روایات اس باب میں پائی جاتی ہیں؛ اسی لئے بعض غیر شیعہ روایات جو عذاب کے خاتمے پر دلالت کرتی ہیں کو قرآن کے مخالف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں مانتے ہیں۔[8]
علامہ طباطبائی «ما دامَت السَّمواتُ و الأَرض» کی تشریح میں دوسری آیات سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کے آسمان اور زمین اس دنیا کے آسمانوں اور زمینوں سے مختلف ہیں اور جو ختم ہوتے ہیں وہ اس دنیا کے آسمان اور زمین ہیں۔ لیکن آخرت کا آسمان اور زمین ناقابل فنا ہیں، اس لیے ان میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے اور خلود اپنی جگہ پر باقی ہے۔[9]
شیعہ مفسر اور فقیہ جوادی آملی کا خیال ہے کہ اس آیت میں زمین و آسمان کی پائیداری کا ذکر کرنا ابدیت اور پائیداری کی طرف اشارہ ہے۔ اور آیت میں جو استثنا ذکر ہوا ہے وہ بھی اسی ابدیت کی تاکید ہے۔[10] اس کا مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا ہے اور اللہ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔[11]
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1408ق، ج5، ص296۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1395ش، ج39، ص400۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1395ش، ج39، ص447۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1395ش، ج39، ص387۔
- ↑ ابن قیم جوزی، حادی الارواح، 1392ق، ص404۔
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1371ق، ج8، ص69۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1395، ج39، ص415۔
- ↑ طباطبائی، تفسیر المیزان، ج1، ص412-413۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ذیل سورہ ہود: آیہ 107-108۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1395ش، ج39، ص387۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1395ش، ج39، ص387۔
مآخذ
- ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، چاپ سید جمیلی، بیروت شاکر، قاہرہ، 1392/1972ش، ج22، چاپ احمد محمد شاکر و احمد عمر ہاشم، قاہرہ، 1989ء.
- جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، انتشارات اسراء، 1395ہجری شمسی۔
- رشیدرضا، محمد، تفسیر القرآن الحکیم الشہیر بتفسیر المنار، [تقریرات درس] شیخ محمد عبدہ، ج8، قاہرہ، 1371/1952.
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفہ، 1408ھ۔