مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 111: سطر 111:


== خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ ==<!--
== خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ ==<!--
{| class="mw-collapsible mw-collapsed wikitable" style="margin:auto;min-width:50%;"
{| class="infobox" style="text-align:center; width:97%; margin-right:10px; font-size:120%"
!
|+ style="font-weight:bold" |
{{ quote box
| title  ={{حديث|خطبه شقشقیه}}
|bgcolor = #ecfcf4
|title_bg = Lavender
| align = center
|fontsize=1em
}}
|-
|-
! style="background:#FFB60B;" |متن
! style="background:#FFB60B;" |ترجمہ
|
|
{{quote box
|-
| quote = :
| style="background:#FFEAB7;text-align:center" |
{{حديث| <center>'''بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـ?نِ الرَّ‌حِيمِ''' </center>
{{حدیث|أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه ُ.فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ ـ ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الْأَعْشَى ـ :شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِهَا * وَ يَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ فَيَا عَجَباً بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَافِي حَيَاتِهِ إِذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهِ لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْهَا فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا وَ يَخْشُنُ مَسُّهَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْهَا فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ إِنْ أَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّهِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِرَاضٍ فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِهِ جَعَلَهَا فِي جَمَاعَةٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ فَيَا لَلَّهِ وَ لِلشُّورَى مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْهُمْ حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى هَذِهِ النَّظَائِرِ لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِهِ وَ مَالَ الْآخَرُ لِصِهْرِهِ مَعَ هَنٍ وَ هَنٍ إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْهِ بَيْنَ نَثِيلِهِ وَ مُعْتَلَفِهِ وَ قَامَ مَعَهُ بَنُو أَبِيهِ يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّهِ خِضْمَةَ الْإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْهِ فَتْلُهُ وَ أَجْهَزَ عَلَيْهِ عَمَلُهُ وَ كَبَتْ بِهِ بِطْنَتُهُ. فَمَا رَاعَنِي إِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وَ شُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ وَ مَرَقَتْ أُخْرَى وَ قَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّهَ سُبْحَانَهُ يَقُولُ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ بَلَى وَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعُوهَا وَ وَعَوْهَا وَ لَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا وَ لَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا وَ لَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ . قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِهِ إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهِ فَنَاوَلَهُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيهِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيهِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِهِ] قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ . فَقَالَ : هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّهِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليه السلام) بَلَغَ مِنْهُ حَيْثُ أَرَادَ .}}
اَما وَالل‍هِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ اَبی قُحافَةَ (فی بعضُ النّسخ: فُلانٌ) وَ اِنَّهُ لَیعْلَمُ اَنَّ مَحَلّی مِنْها مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحی، ینْحَدِرُ عَنِّی السَّیلُ، وَ لایرْقی اِلَی الطَّیرُ.|ترجمہ=خدا کی قسم ! فرزند2 ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج)  كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا3۔)
| style="background:#FFF2D2;text-align:center" |
خدا کی قسم ! فرزند2 ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج)  كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا3۔)


" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔"  
" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔"  
سطر 131: سطر 128:
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت4 کو ایک جماعت میں محدود کر گیا۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ5 فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن ﷷ اور حسین ﷷ کچلے جارہے تھے اور میری ردا  کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔« ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم پانی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت4 کو ایک جماعت میں محدود کر گیا۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ5 فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن ﷷ اور حسین ﷷ کچلے جارہے تھے اور میری ردا  کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔« ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم پانی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔


لوگوں کا بیان ہے کہ جب حضرت خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرت سامنے پیش کیا، آپ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا یا امیرالمومنین ﷷ آپ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا۔ وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اے ابن عباس یہ تو شقشقہ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا، جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے ) تھا جو ابھر کر د ب گیا۔ ابن عباس کہتے تھے کہ مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے علامہ رضی کہتے ہیں کہ خطبے کے ان الفاظ کو کاب الصعبة ان اشنق لھا خرم و ان اسلس لھا تقھم سے مراد یہ ہے کہ سوار جب مہار کھینچنے میں ناقہ پر سختی کرتا ہے تو اس کھینچا تانی میں اس کی ناک زخمی ہوئی جاتی ہے اور اگر اسکی سرکشی کے باوجود باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اسے کہیں نہ کہیں گرا دیگی اور اس کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اشنق الناقہ اس وقت بولا جاتا ہے۔ جب سوار باگوں کو کھینچ کر اس کے سر کو اوپر کی طرف اٹھائے اور اسی طرح اشنق الناقہ استعمال ہوتا ہے۔ ابن سکیت نے اصلاح المنطق میں اس کا ذکر کیا ہے حضرت نے اشنقہا کے بجائے اشنق لہا استعمال کیا ہے۔ چونکہ آپ نے یہ لفظ اسلس لہا کے بالمقابل، استعمال کیا ہے۔ اور سلاست اسی وقت باقی رہ سکتی تھی۔ جب ان دونوں لفظوں کا نہج استعمال ایک ہو۔ گویا حضرت ان اشنق لہا کو ان رفع لہا کی جگہ استعمال کیا ہے یعنی اس کی باگیں اوپر کی طرف اٹھا کر روک رکھے۔}}
لوگوں کا بیان ہے کہ جب حضرت خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرت سامنے پیش کیا، آپ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا یا امیرالمومنین ﷷ آپ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا۔ وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اے ابن عباس یہ تو شقشقہ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا، جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے ) تھا جو ابھر کر د ب گیا۔ ابن عباس کہتے تھے کہ مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے علامہ رضی کہتے ہیں کہ خطبے کے ان الفاظ کو کاب الصعبة ان اشنق لھا خرم و ان اسلس لھا تقھم سے مراد یہ ہے کہ سوار جب مہار کھینچنے میں ناقہ پر سختی کرتا ہے تو اس کھینچا تانی میں اس کی ناک زخمی ہوئی جاتی ہے اور اگر اسکی سرکشی کے باوجود باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اسے کہیں نہ کہیں گرا دیگی اور اس کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اشنق الناقہ اس وقت بولا جاتا ہے۔ جب سوار باگوں کو کھینچ کر اس کے سر کو اوپر کی طرف اٹھائے اور اسی طرح اشنق الناقہ استعمال ہوتا ہے۔ ابن سکیت نے اصلاح المنطق میں اس کا ذکر کیا ہے حضرت نے اشنقہا کے بجائے اشنق لہا استعمال کیا ہے۔ چونکہ آپ نے یہ لفظ اسلس لہا کے بالمقابل، استعمال کیا ہے۔ اور سلاست اسی وقت باقی رہ سکتی تھی۔ جب ان دونوں لفظوں کا نہج استعمال ایک ہو۔ گویا حضرت ان اشنق لہا کو ان رفع لہا کی جگہ استعمال کیا ہے یعنی اس کی باگیں اوپر کی طرف اٹھا کر روک رکھے۔
| archive date =
||bgcolor= #ecfcf4
| title_bg = Lavender
|qalign =justify
| align = right
}}
 
|}
|}
|-
{{جدا کنندہ}}
|}
{{نقل قول دوقلو طبقاتی
|شکل بندی عنوان=
|شکل بندی عنوان ستون راست=
|شکل بندی عنوان ستون چپ=
|شکل بندی ستون راست=
|شکل بندی ستون چپ=
|رنگ حاشیه=
|تراز=
|عرض=
|عنوان=وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَهُ علیه‌السلام وَ هِی الْمَعْرُوفَةُ بِالشِّقْشِقِیة
|عنوان ستون راست=
|عنوان ستون چپ= ترجمه حسین انصاریان
|
|هان! به خدا قسم ابوبكر پسر ابوقحافه (برخی نسخه‌ها: فلانی) جامه خلافت را پوشید در حالی كه می‌دانست جایگاه من در خلافت چون محور سنگ آسیا به آسیاست، سیل دانش از وجودم همچون سیل سرازیر می‌شود، و مرغ اندیشه به قلّه منزلتم نمی‌رسد.
|فَسَدَلْتُ دُونَها ثَوْباً، وَطَوَیتُ عَنْها كَشْحاً،
| اما از خلافت چشم پوشیدم، و روی از آن برتافتم،
|وَ طَفِقْتُ اَرْتَأی بَینَ اَنْ اَصُولَ بِید جَذّاءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلی طِخْیة عَمْیاءَ، یهْرَمُ فیهَا الْكَبیرُ، وَ یشیبُ فیهَا الصَّغیرُ، وَ یكْدَحُ فیها مُؤْمِنٌ حَتّی یلْقی رَبَّهُ!
|و عمیقاً اندیشه كردم كه با دست بریده و بدون یاور بجنگم، یا آن عرصه گاه ظلمت كور را تحمل نمایم، فضایی كه پیران در آن فرسوده، و كم سالان پیر، و مؤمن تا دیدار حق دچار مشقت می‌شود!
|فَرَاَیتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلی هاتا اَحْجی، فَصَبَرْتُ وَ فِی الْعَینِ قَذًی، وَ فِی الْحَلْقِ شَجاً!
|دیدم خویشتنداری در این امر عاقلانه‌تر است، پس صبر كردم در حالی كه گویی در دیده‌ام خاشاك بود، و غصه راه گلویم را بسته بود!
|اَری تُراثی نَهْباً. حَتّی مَضَی الاَوَّلُ لِسَبیلِهِ، فَاَدْلی بِها اِلَی ابْنِ الْخَطّابِ بَعْدَهُ. [ثُمِّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الاَعْشی:]
|می دیدم كه میراثم به غارت می‌رود. تا نوبت اولی سپری شد و خلافت را پس از خود به پسر خطّاب واگذارد. [سپس امام وضع خود را به شعر شاعر عرب، اَعشی، مثل زد:]
|شَتّانَ ما یوْمی عَلی كُورِها *** وَ یوْمُ حَیانَ اَخی جابِرِ
|«چه تفاوت فاحشی است بین امروز من با این همه مشكلات، و روز حیان برادر جابر كه غرق خوشی است».
|فَیا عَجَباً بَینا هُوَ یسْتَقیلُها فی حَیاتِهِ، اِذْ عَقَدَها لاِخَرَ بَعْدَ وَفاتِهِ.
|شگفتا! اولی بااینكه در زمان حیاتش می‌خواست حكومت را واگذارد، ولی برای بعد از خود عقد خلافت را جهت دیگری بست.
|لَشَدَّ ما تَشَطَّرا ضَرْعَیها! فَصَیرَها فی حَوْزَة خَشْناءَ، یغْلُظُ كَلْمُها، وَ یخْشُنُ مَسُّها، وَ یكْثُرُ الْعِثارُ فیها، وَ الْاِعْتِذارُ مِنْها.
|چه سخت هر كدام به یكی از دو پستان حكومت چسبیدند! حكومت را به فضایی خشن كشانیده، و به كسی رسید كه كلامش درشت، و همراهی با او دشوار، و لغزشهایش فراوان، و معذرت خواهیش زیاد بود.
|فَصاحِبُها كَراكِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَها خَرَمَ، وَ اِنْ اَسْلَسَ لَها تَقَحَّمَ!
|بودن با حكومت او كسی را می‌ماند كه بر شتر چموش سوار است، كه اگر مهارش را بكِشد بینی اش زخم شود، و اگر رهایش كند خود و راكب را به هلاكت اندازد!
|فَمُنِی النَّاسُ لَعَمْرُ الل‍هِ بِخَبْطٍ وَ شِماس، وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِراض.
|به خدا قسم امت در زمان اودچاراشتباه و ناآرامی، و تلوّن مزاج و انحراف از راه خدا شدند.
|فَصَبَرْتُ عَلی طُولِ الْمُدَّةِ، وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ. حَتّی اِذا مَضی لِسَبیلِهِ، جَعَلَها فی جَماعَة زَعَمَ اَنِّی اَحَدُهُمْ.
|آن مدت طولانی را نیز صبر كردم، و بار سنگین هر بلایی را به دوش كشیدم. تا زمان او هم سپری شد، و امر حكومت را به شورایی سپرد كه به گمانش من هم (با این منزلت خدایی) یكی از آنانم!
|فَیالَلّهِ وَ لِلشُّوری! مَتَی اعْتَرَضَ الرَّیبُ فِی مَعَ الْاَوَّلِ مِنْهُمْ حَتّی صِرْتُ اُقْرَنُ اِلی هذِهِ النَّظائِرِ؟!
|خداوندا چه شورایی! من چه زمانی در برابر اولین آنها در برتری و شایستگی مورد شك بودم كه امروز همپایه این اعضای شورا قرار گیرم؟!
|لكِنّی اَسْفَفْتُ اِذْ اَسَفُّوا، وَ طِرْتُ اِذْ طارُوا. فَصَغی رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِهِ، وَ مالَ الاْخَرُ لِصِهْرِهِ، مَعَ هَن وَ هَن.
| ولی (به خاطر احقاق حق) در نشیب و فراز شورا با آنان هماهنگ شدم، در آنجا یكی به خاطر كینه‌اش به من رأی نداد، و دیگری برای بیعت به دامادش تمایل كرد،
و مسائلی دیگر كه ذكرش مناسب نیست.
|اِلی اَنْ قامَ ثالِثُ الْقَوْمِ نافِجاً حِضْنَیهِ بَینَ نَثیلِهِ وَ مُعْتَلَفِهِ، وَ قامَ مَعَهُ بَنُو اَبیهِ یخْضِمُونَ مالَ الل‍هِ خِضْمَ الاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبیعِ،
|تا سومی به حكومت رسید كه برنامه‌ای جز انباشتن شكم و تخلیه آن نداشت، و دودمان پدری او (بنی امیه) به همراهی او برخاستند و چون شتری كه گیاه تازه بهار را با ولع می‌خورد به غارت بیت المال دست زدند،
|اِلی اَنِ انْتَكَثَ فَتْلُهُ، وَ اَجْهَزَ عَلَیهِ عَمَلُهُ، وَ كَبَتْ بِهِ بِطْنَتُهُ.
| در نتیجه این اوضاع رشته‌اش پنبه شد، و اعمالش كار او را تمام ساخت، و شكمبارگی سرگونش نمود.
|فَما راعَنی اِلاّ وَالنَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُع ِ اِلَی، ینْثالُونَ عَلَی مِنْ كُلِّ جانِب، حَتّی لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنانِ، وَ شُقَّ عِطْفای، مُجْتَمِعینَ حَوْلی كَرَبیضَةِ الْغَنَمِ.
|آن گاه چیزی مرا به وحشت نینداخت جز اینكه مردم همانند یال كفتار بر سرم ریختند، و از هر طرف به من هجوم آورند، به طوری كه دو فرزندم در آن ازدحام كوبیده شدند، و ردایم از دو جانب پاره شد، مردم چونان گله گوسپند محاصره‌ام كردند.
| فَلَمّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِنَكَثَتْ طائِفَةٌ، وَ مَرَقَتْ اُخْری، وَ قَسَطَ آخَرُونَ، كَاَنَّهُمْ لَمْ یسْمَعُوا كَلامَ الل‍هِ حَیثُ یقُولُ: «تِلْكَ الدّارُ الاْخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذینَ لایریدُونَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لافَساداً وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقینَ.»
|اما همین كه به امر خلافت اقدام نمودم گروهی پیمان شكستند، و عده‌ای از مدار دین بیرون رفتند، و جمعی دیگر سر به راه طغیان نهادند، گویی هر سه طایفه این سخن خدا را نشنیده بودند كه می‌فرماید: «این سرای آخرت را برای كسانی قرار داده ایم كه خواهان برتری و فساد در زمین نیستند، و عاقبت خوش از پرهیزكاران است.»
|بَلی وَ الل‍هِ لَقَدْ سَمِعُوها وَ وَعَوْها، وَلكِنَّهُمْ حَلِیتِ الدُّنْیا فی اَعْینِهِمْ، وَ راقَهُمْ زِبْرِجُها.
|چرا، به خدا قسم شنیده بودند و آن را از حفظ داشتند، امّا زرق و برق دنیا چشمشان را پر كرد، و زیور و زینتش آنان را فریفت.
|اَما وَ الَّذی فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ، لَوْلا حُضُورُ الْحاضِرِ، وَ قیامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النّاصِرِ، وَ ما اَخَذَ الل‍هُ عَلَی الْعُلَماءِ اَنْ لایقارُّوا عَلی كِظَّةِ ظالِم وَ لاسَغَبِ مَظْلُوم، لاََلْقَیتُ حَبْلَها عَلی غارِبِها، وَ لَسَقَیتُ آخِرَها بِكَاْسِ اَوَّلِها،
|هان! به خدایی كه دانه را شكافت، و انسان را بهوجود آورد، اگر حضور حاضر، و تمام بودن حجت بر من به خاطر وجود یاور نبود، و اگر نبود عهدی كه خداوند از دانشمندان گرفته كه در برابر شكمبارگی هیچ ستمگر و گرسنگی هیچ مظلومی سكوت ننمایند، دهنه شتر حكومت را بر كوهانش می‌انداختم، و پایان خلافت را با پیمانه خالی اولش سیراب می‌كردم،
|وَ لَاَلْفَیتُمْ دُنْیاكُمْ هذِهِ اَزْهَدَ عِنْدی مِنْ عَفْطَةِ عَنْز!
|آنوقت می‌دیدید كه ارزش دنیای شما نزد من از اخلاط دماغ بز كمتر است!
|فصل
| چون سخن مولا به اینجا رسید مردی از اهل عراق برخاست و نامه‌ای به او داد، حضرت سرگرم خواندن شد، پس از خواندن، ابن عباس گفت: ای امیرالمؤمنین، كاش سخنت را از همان جا كه بریدی ادامه می‌دادی! حضرت فرمود:
| هَیهاتَ یا ابْنَ عَبّاس، تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.
| هیهات ای پسر عباس، این آتش درونی بود كه شعله كشید سپس فرو نشست!
|فصل
| ابن عباس می‌گوید: به خدا قسم بر هیچ سخنی به مانند این كلام ناتمام امیرالمؤمنین غصه نخوردم كه آن انسان والا، درد دلش را با این سخنرانی به پایان نبرد.
}}
{{پاک کن}}
 
== پانویس ==
== پانویس ==
{{پانویس۲}}
{{پانویس۲}}
confirmed، templateeditor
8,932

ترامیم