مندرجات کا رخ کریں

"عمرو بن عاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 18: سطر 18:
تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق معاویہ اور حضرت علی درمیان نزاع میں عمر بن عاس معاویہ کا مشاور رہا اور بہت سے حیلہ سازیوں اور جنگی نقشے تیار کرتا ۔ان میں سے ایک یہ ہے :جب حضرت عثمان قتل ہوا اور اکثر مسلمانوں کے اصرار پر  حضرت علی نے  خلافت قبول کر لی ۔پس امام نے معاویہ کی طرف بیعت کرنے کا پیغام بھجوایا کہ جس طرح دوسروں نے انکی بیعت کی ہے وہ بھی آپ کی بیعت کرے ۔چونکہ معاویہ اپنی خلافت کے در پے تھا لہذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عمرو سے مشورہ کیا۔ عمرو نے اسے کہا :تو علی کی مانند اسلام میں سبقت رکھتے ہو اور نہ تو اسکے مقابلے کی توان رکھتے ہو ۔ اسلئے تمہیں چاہئے کہ پہلے علی کو شامیوں کے سامنے  حضرت عثمان کا قاتل بیان کرو اور پھر خون عثمان کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہو ۔اس طرح تمہاری خلافت کا راستہ ہموار ہوگا۔ معاویہ نے اسے قبول کیا اور عمرو کے تیار کردہ نقشے کے مطابق شام میں تبلیغ شروع کی کہ علی عثمان کا قاتل ہے  اور [[پیراہن عثمان]] کے ذرہعے علی سے جنگ کی راہیں ہموار کیں اور اپنی خلافت کیلئے راستہ ہموار کیا ۔ عمرو نے معاویہ سے اس معاونت کے بدلے میں مصر کا والی بنائے جانے  کا عہد لیا تھا ۔ <ref> نک: پیکار صفین/ترجمہ،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۴-۱۹۸.</ref>
تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق معاویہ اور حضرت علی درمیان نزاع میں عمر بن عاس معاویہ کا مشاور رہا اور بہت سے حیلہ سازیوں اور جنگی نقشے تیار کرتا ۔ان میں سے ایک یہ ہے :جب حضرت عثمان قتل ہوا اور اکثر مسلمانوں کے اصرار پر  حضرت علی نے  خلافت قبول کر لی ۔پس امام نے معاویہ کی طرف بیعت کرنے کا پیغام بھجوایا کہ جس طرح دوسروں نے انکی بیعت کی ہے وہ بھی آپ کی بیعت کرے ۔چونکہ معاویہ اپنی خلافت کے در پے تھا لہذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عمرو سے مشورہ کیا۔ عمرو نے اسے کہا :تو علی کی مانند اسلام میں سبقت رکھتے ہو اور نہ تو اسکے مقابلے کی توان رکھتے ہو ۔ اسلئے تمہیں چاہئے کہ پہلے علی کو شامیوں کے سامنے  حضرت عثمان کا قاتل بیان کرو اور پھر خون عثمان کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہو ۔اس طرح تمہاری خلافت کا راستہ ہموار ہوگا۔ معاویہ نے اسے قبول کیا اور عمرو کے تیار کردہ نقشے کے مطابق شام میں تبلیغ شروع کی کہ علی عثمان کا قاتل ہے  اور [[پیراہن عثمان]] کے ذرہعے علی سے جنگ کی راہیں ہموار کیں اور اپنی خلافت کیلئے راستہ ہموار کیا ۔ عمرو نے معاویہ سے اس معاونت کے بدلے میں مصر کا والی بنائے جانے  کا عہد لیا تھا ۔ <ref> نک: پیکار صفین/ترجمہ،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۴-۱۹۸.</ref>


حضرت علی(ع) نے  معاویہ اور عمرو عاص کے نقشے سے آگاہ ہونے کے بعد انہیں خط لکھا اور خط میں عمرو کو متنبہ کیا معاویہ سے اسکی معاونت اسکے صلاح میں نہیں ہے لیکن  عمرو عاص نے جواب میں لکھا کہ وہ خلافت سے علیحدگی اختیار کرے اور انتخاب خلیفہ کو شورا کے حوالے کر دے ۔ <ref>اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۰۴</ref><br />
حضرت علی(ع) نے  معاویہ اور عمرو عاص کے نقشے سے آگاہ ہونے کے بعد انہیں خط لکھا اور خط میں عمرو کو متنبہ کیا معاویہ سے اسکی معاونت اسکے صلاح میں نہیں ہے لیکن  عمرو عاص نے جواب میں لکھا کہ وہ خلافت سے علیحدگی اختیار کرے اور خلیفہ کا انتخاب شورا کے حوالے کر دے ۔ <ref>اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۰۴</ref><br />
<!--
عمرو در جنگ صفین، مشاور و از فرماندهان ارشد سپاه معاویه و گویا فرمانده سواره نظام بود.<ref>اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۱۳.</ref>به نقل برخی منابع، عمرو در جنگ صفین با علی(ع) رو به رو شد و هنگامی که علی(ع) قصد حمله به او را داشت، عورت خود را آشکار کرد و علی(ع) از او رو برگرداند و بدین ترتیب، عمرو از مرگ حتمی نجات یافت.<ref>آفرینش و تاریخ/ترجمه،ج‌۲،ص:۸۸۱؛ اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۱۹.</ref><br />
در جنگ صفین وقتی گروهی به فرماندهی مالک اشتر نخعی مقاومت سپاه شام را شکست و چیزی به پیروزی کامل سپاه علی(ع) نمانده بود، عمرو به معاویه پیشنهاد کرد که میان لشکر او قرآن پخش کنند و لشکریان قرآن را بر نیزه و تقاضا کنند که جنگ متوقف شود و قرآن میان آنها داوری کند. این حیله عمرو عاص باعث شد تا سپاه شام از شکست رهایی یابد و [[حکمیت|ماجرای حکمیت]] پیش آید.<ref> آفرینش و تاریخ/ترجمه،ج‌۲،ص:۸۸۱.</ref><br />
عمرو عاص در ماجرای حکمیت نماینده شام در مقابل [[ابوموسی اشعری]] نماینده کوفه بود. او ابوموسی را راضی کرد که رأی نهایی حکمیت این باشد که هم علی(ع) و هم معاویه از خلافت عزل شوند و کار به شورا سپرده شود. روز اعلام نظر، ابوموسی طبق قرار نخست به منبر رفت و علی(ع) را خلع کرد ولی عمرو بر خلاف قرار، معاویه را به خلافت نصب کرد و بدین ترتیب، [[حکمیت|ماجرای حکمیت]] به نتیجه‌ای جز نجات سپاه شام از شکست نیانجامید.<ref>نک: اخبار الطوال، ترجمه، ص۲۴۰-۲۴۶.</ref>


==پانویس==
جنگ صفین میں  مشاور اور لشکر کے بڑے سرداروں گویا سوار فوج کا جرنیل تھا ۔<ref>اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۱۳.</ref> بعض منابع کے مطابق  عمرو  جنگ صفین میں علی کے روبرو ہوا ۔ آپ نے اس پر حملے کا قصد کیا تو اس نے جان بچانے کی خاطر اپنی شرمگاہ ننگی کردی ۔ علی(ع) نے اس کا یہ قبیح عمل دیکھتے ہوئے  اپنا چہرہ پھیر دیا اس طرح  عمرو نے اپنی یقینی موت سے چھٹکارا حاصل کیا ۔ <ref>آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج‌۲،ص:۸۸۱؛ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۱۹.</ref><br />
{{پانویس۲}}
 
جنگ صفین میں مالک اشتر نخعی کے تحت فرمان سپاہ نے معاویہ کی فوج کو شکست دے دی اور حضرت علی کے لشکر کی کامیابی چنداں دور نہیں رہ گئی تھی تو اس وقت عمرو نے معاویہ کو تجویز دی کہ لشکر کے درمیان قرآن تقسیم کر دے اور لشکر قرآن کو نیزوں پر بلند کریں اور جنگ روکنے کا تقاضا کریں اور قرآن انکے درمیان فیصلہ کرے ۔ عمرو عاص کا یہ حیلہ باعث بنا کہ لشکر معاویہ سے شکست رہائی حاصل کر پایا  اور  [[حکمیت|ماجرای حکمیت]] کا معاملہ پیش آیا ۔<ref> آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج‌۲،ص:۸۸۱.</ref><br />
 
عمرو عاص  حکمیت کے واقعے میں شامیوں کی طرف سے  [[ابوموسی اشعری]] کے مقابلے میں نمائیندہ تھا۔ اس نے ابوموسی کو اس بات پر راضی کیا کہ نہائی فیصلہ کے طور پر علی اور معاویہ خلافت سے معزول ہوں۔اور معاملہ شورا کے حوالے کیا جائے ۔ فیصلے کے اعلان کے دن قرار کے مطابق پہلے ابوموسی  منبر پر گیا اور اس نے علی کو خلافت سے خلع کر دیا ۔
لیکن  عمرو نے طے شدہ معالے کے برخلاف معاویہ کو خلافت کیلئے معین کر دیا  اس طرح [[حکمیت|ماجرای حکمیت]] کا معاملہ صرف اور صرف سپاہ شام کی شکست سے نجات حاصل کرنے  میں تمام ہوا ۔<ref>نک: اخبار الطوال، ترجمہ، ص۲۴۰-۲۴۶.</ref>
 
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات|3}}


==منابع==
==منابع==
{{منابع}}
{{ستون آ|2}}
*دینوری، ابن قتیبه(۲۷۶)، اخبار الطوال، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، نشر نی، چ چهارم، ۱۳۷۱ش.
*دینوری، ابن قتیبہ(۲۷۶)، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چ چہارم، ۱۳۷۱ش.
*ابن عبدالبر(م. ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
*ابن عبدالبر(م. ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
*ابن مزاحم، نصر (م ۲۱۲)،وقعة صفین، ترجمه پرویز اتابکی، تهران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، چ دوم، ۱۳۷۰ش.
*ابن مزاحم، نصر (م ۲۱۲)،وقعۃ صفین، ترجمہ پرویز اتابکی، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، چ دوم، ۱۳۷۰ش.
*مطهر بن طاهر مقدسی، آفرینش و تاریخ، ترجمه محمد رضا شفیعی کدکنی، تهران، آگه، چ اول، ۱۳۷۴
*مطہر بن طاہر مقدسی، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴
*ابن سعد، الطبقات الکبری، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، انتشارات فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴ش.
*ابن سعد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرہنگ و اندیشہ، ۱۳۷۴ش.
{{چپ چین}}
*Gibb, H.A.R. ,''E.I.'' ,second ed. Leiden: E. J. Brill, 1986.
*Gibb, H.A.R. ,''E.I.'' ,second ed. Leiden: E. J. Brill, 1986.
{{پایان}}
{{ستون خ}}




[[en:‘Amr b. al-‘As]]
[[en:‘Amr b. al-‘As]]
[[id:Amru bin Ash]]
[[id:Amru bin Ash]]
[[fa:عمرو بن عاص سہمی]]

نسخہ بمطابق 22:40، 30 مارچ 2017ء

عمرو بن عاص (۴۳ق./۶۶۴م.) رسول خدا کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا جس نے فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے اسلام قبول کیا ۔سیرت نگاروں نے اسے صحابہ کی فہرست میں شمار کیا ہے ۔ امام علی(ع) سے دشمنی اور جنگوں میں حضرت علی سے فریب کاریوں کی وجہ سے شیعوں کے نزدیک منفور شخص ہے ۔کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے حضرت علی کے خلاف پیراہن عثمان سمیت بہت سے حیلوں کی نقشہ سازی میں شامل رہا ۔ جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے سرداروں میں سے تھا نیز اس جنگ میں نیزوں پر قرآن بلند کرنے کی سازش کی نسبت اسی کی طرف دی جاتی ہے ۔جنگ نہروان کے حکمیت کے معاملے میں معاویہ کا نمائندہ تھا ۔

نَسَب

مؤلفین نے اس کا نسب یوں ذکر کیا ہے: عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لؤی قرشی سہمی اور کنیت ابوعبدالله تھی۔[1] عرب کی سیرت نگاری کے منابع میں عرب کا چالاک ترین شخص کہا گیا ہے ۔ فارسی کے بہت سے مآخذ اسے «عمرو عاص» کہتے ہیں ۔

دورۂ پیامبر(ص)

فتح مکہ اور اسلام کی مکمل کامیابی سے کچھ مدت ہی پہلے عمرو سال ۸ قمری میں مسلمان ہوا۔ [2]بعض محققین نے اسکے اسلام قبول کرنے کے سبب میں تصریح کی ہے : فتح مکہ اور سعودی عرب پر اسلام کی مکمل کامیابی کے نزدیکی سالوں میں رسول اکرم ؐ کی تبلیغ کے کامیاب ہونے کے پیش نظر خالد بن ولید، عثمان بن طلحہ اور عمرو عاص جیسے اشخاص کا اسلام قبول کرنا کوئی سخت تھا۔[3]منابع میں نقل ہونے والی خود اسکی زبانی داستان کے بقول اس نے جب سمجھ لیا کہ اسلام مکہ اور سعود عرب پر غلبہ حاصل کر لے گا اس نے حبشہ میں پناہ حاصل کی حبشہ کے حاکم نجاشی نے اسکے پاس صادقت نبی اکرمؐ کے اپنی تبلیغ کے سچے ہونے کی بات کی اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے اسے قبول کیا پس وہ وہاں سے مدینے میں رسول اللہ کے پاس پہنچا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔ [4]

پیامبر(ص) نے اسکے اسلام قبول کرنے کی کچھ مدت بعد ہی اسے اسکے باپ کی قوم کے پاس اسلام کی تبلیغ کیلئے بھیجا ۔ عمرو نے ذات السلاسل سمیت چند فوجی وقائع میں شرکت کی ۔پھر کچھ مدت کیلئے تبلیغ دین کے فرائض کی خاطر عمان چلا گیا۔ کچھ مدت بعد وہاں کا والی بنا اور رسول خدا کے شہادت تک وہیں رہا ۔ [5]

پیمبر(ص)کے بعد

خلافت ابوبکر کے زمانے میں فلسطین کے کچھ علاقوں کی فتح میں عمرو کا بنیادی کردار رہا ۔ [6] لینکن مغربی تاریخ کے منابع میں دور عمر بن خطاب میں فتح مصر کی بنا پر شہرت ہے ۔[7]عمر بن خطاب نے فلسطین اور نواحی علاقوں کی حکومت کیلئے مقرر کیا ۔پھر اسے لکھا کہ مصر چلا جائے ۔عمرو بن عاص نے 3500 مسلمان سپاہیوں کی معیت میں میں مصر فتح کر لیا ۔پس عمر نے اسے وہاں کا حاکم مقرر کیا اور وہ عمر کی موت تک وہاں کا حاکم رہا ۔[8]

حضرت عمر وفات کے چند سال بعد حضرت عثمان نے اسے حکومت سے معزول کر دیا اور اسکی جگہ عبد الله بن سعد بن ابی سرح کو مقرر کیا ۔عمرو عاص مدینہ واپس لوٹ آیا اور حضرت عثمان پر لوگوں کی شورش کے موقع پر شام چلا گیا اور فلسطین میں اپنی زمین بنام سبع میں اقامت اختیار کر کی ۔[9] اسکے بقول اس فتنے اور شورش سے بچنے کی خاطر اس مزرعہ میں سکونت اختیار کی ۔[10]

حضرت عثمان کے قتل کے بعد عمرو عاص معاویہ کے پاس چلا گیا اور اسکے ہمراہ خون عثمان کی خوانخواہی میں شریک ہو گیا اور اس نے اسکی معیت میں جنگ صفین میں شرکت کی ۔معاویہ نے اسے مصر کی باگ ڈور دی ۔مصر کی حکومت کے دوران عید فطر سال ۴۳ق. کے روز فوت ہوا اور پہاڑ کے دامن میں مقطم نام کے مصری لوگوں کے قبرستان میں دفن ہوا ۔[11]

حضرت امام علی(ع) کے خلاف جنگوں میں کردار

تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق معاویہ اور حضرت علی درمیان نزاع میں عمر بن عاس معاویہ کا مشاور رہا اور بہت سے حیلہ سازیوں اور جنگی نقشے تیار کرتا ۔ان میں سے ایک یہ ہے :جب حضرت عثمان قتل ہوا اور اکثر مسلمانوں کے اصرار پر حضرت علی نے خلافت قبول کر لی ۔پس امام نے معاویہ کی طرف بیعت کرنے کا پیغام بھجوایا کہ جس طرح دوسروں نے انکی بیعت کی ہے وہ بھی آپ کی بیعت کرے ۔چونکہ معاویہ اپنی خلافت کے در پے تھا لہذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عمرو سے مشورہ کیا۔ عمرو نے اسے کہا :تو علی کی مانند اسلام میں سبقت رکھتے ہو اور نہ تو اسکے مقابلے کی توان رکھتے ہو ۔ اسلئے تمہیں چاہئے کہ پہلے علی کو شامیوں کے سامنے حضرت عثمان کا قاتل بیان کرو اور پھر خون عثمان کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہو ۔اس طرح تمہاری خلافت کا راستہ ہموار ہوگا۔ معاویہ نے اسے قبول کیا اور عمرو کے تیار کردہ نقشے کے مطابق شام میں تبلیغ شروع کی کہ علی عثمان کا قاتل ہے اور پیراہن عثمان کے ذرہعے علی سے جنگ کی راہیں ہموار کیں اور اپنی خلافت کیلئے راستہ ہموار کیا ۔ عمرو نے معاویہ سے اس معاونت کے بدلے میں مصر کا والی بنائے جانے کا عہد لیا تھا ۔ [12]

حضرت علی(ع) نے معاویہ اور عمرو عاص کے نقشے سے آگاہ ہونے کے بعد انہیں خط لکھا اور خط میں عمرو کو متنبہ کیا معاویہ سے اسکی معاونت اسکے صلاح میں نہیں ہے لیکن عمرو عاص نے جواب میں لکھا کہ وہ خلافت سے علیحدگی اختیار کرے اور خلیفہ کا انتخاب شورا کے حوالے کر دے ۔ [13]

جنگ صفین میں مشاور اور لشکر کے بڑے سرداروں گویا سوار فوج کا جرنیل تھا ۔[14] بعض منابع کے مطابق عمرو جنگ صفین میں علی کے روبرو ہوا ۔ آپ نے اس پر حملے کا قصد کیا تو اس نے جان بچانے کی خاطر اپنی شرمگاہ ننگی کردی ۔ علی(ع) نے اس کا یہ قبیح عمل دیکھتے ہوئے اپنا چہرہ پھیر دیا اس طرح عمرو نے اپنی یقینی موت سے چھٹکارا حاصل کیا ۔ [15]

جنگ صفین میں مالک اشتر نخعی کے تحت فرمان سپاہ نے معاویہ کی فوج کو شکست دے دی اور حضرت علی کے لشکر کی کامیابی چنداں دور نہیں رہ گئی تھی تو اس وقت عمرو نے معاویہ کو تجویز دی کہ لشکر کے درمیان قرآن تقسیم کر دے اور لشکر قرآن کو نیزوں پر بلند کریں اور جنگ روکنے کا تقاضا کریں اور قرآن انکے درمیان فیصلہ کرے ۔ عمرو عاص کا یہ حیلہ باعث بنا کہ لشکر معاویہ سے شکست رہائی حاصل کر پایا اور ماجرای حکمیت کا معاملہ پیش آیا ۔[16]

عمرو عاص حکمیت کے واقعے میں شامیوں کی طرف سے ابوموسی اشعری کے مقابلے میں نمائیندہ تھا۔ اس نے ابوموسی کو اس بات پر راضی کیا کہ نہائی فیصلہ کے طور پر علی اور معاویہ خلافت سے معزول ہوں۔اور معاملہ شورا کے حوالے کیا جائے ۔ فیصلے کے اعلان کے دن قرار کے مطابق پہلے ابوموسی منبر پر گیا اور اس نے علی کو خلافت سے خلع کر دیا ۔ لیکن عمرو نے طے شدہ معالے کے برخلاف معاویہ کو خلافت کیلئے معین کر دیا اس طرح ماجرای حکمیت کا معاملہ صرف اور صرف سپاہ شام کی شکست سے نجات حاصل کرنے میں تمام ہوا ۔[17]

حوالہ جات

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.
  2. نک: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.
  3. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  4. واقدی، الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۶.
  6. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  7. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  8. الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.
  9. الطبقات الکبری/ترجمہ،ج‌۷،ص:۵۰۱.
  10. اخبارالطوال/ترجمه،ص:۱۹۵.
  11. الطبقات الکبری/ترجمہ،ج‌۷،ص:۵۰۲.
  12. نک: پیکار صفین/ترجمہ،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۴-۱۹۸.
  13. اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۰۴
  14. اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۱۳.
  15. آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج‌۲،ص:۸۸۱؛ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۱۹.
  16. آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج‌۲،ص:۸۸۱.
  17. نک: اخبار الطوال، ترجمہ، ص۲۴۰-۲۴۶.

منابع

  • دینوری، ابن قتیبہ(۲۷۶)، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چ چہارم، ۱۳۷۱ش.
  • ابن عبدالبر(م. ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن مزاحم، نصر (م ۲۱۲)،وقعۃ صفین، ترجمہ پرویز اتابکی، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، چ دوم، ۱۳۷۰ش.
  • مطہر بن طاہر مقدسی، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرہنگ و اندیشہ، ۱۳۷۴ش.
  • Gibb, H.A.R. ,E.I. ,second ed. Leiden: E. J. Brill, 1986.