مندرجات کا رخ کریں

"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق

27 بائٹ کا اضافہ ،  22 جنوری 2022ء
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 53: سطر 53:


==اوصاف اور خصوصیات==
==اوصاف اور خصوصیات==
قرآن کریم اور معصومین کی احادیث میں بہشت کے بعض اوصاف اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں۔ قرآن کے مطابق بہشت دنیاوی زندگی کے بعد خدا کے نیک بندوں (الذین سُعِدوا)<ref>سورہ ہود، آیہ ۱۰۸.</ref> کی مستقل رہنے کی جگہ ہے جو سرسبز و شاداب سایہ دار درختوں کے باغ یا باغات، <ref>سورہ رعد، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ الرحمن، آیہ ۴۸ و ۶۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۳۰؛ سورہ انسان، آیہ ۱۴</ref> جاری نہریں (بعض تعبیر کے مطابق "{{حدیث|تجری مِنْ تحتہا الانہار}})،<ref>۳۵ اور بعض دوسری تعبیروں کے مطابق </ref> ابلتے اور جاری چشمے <ref>سورہ یس، آیہ ۳۴؛ سورہ ذاریات، آیہ ۱۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۰ و ۶۶؛ سورہ انسان، آیہ ۶ و ۱۸؛ سورہ مطففین، آیہ ۲۸</ref> مختلف میوہ جات سے سرشار، <ref>سورہ ص، آیہ ۵۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۷۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۵.</ref> اور معتدل آب و ہوا کا حامل ہے۔<ref>سورہ انسان، آیہ ۱۳؛  تفاسیر، از جملہ طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی‌، مجمع البیان؛ فخر رازی‌، تفسیر کبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل ہمین آیہ.</ref>  
قرآن کریم اور معصومین کی احادیث میں بہشت کے بعض اوصاف اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں۔ قرآن کے مطابق بہشت دنیاوی زندگی کے بعد خدا کے نیک بندوں (الذین سُعِدوا)<ref> سورہ ہود، آیہ ۱۰۸.</ref> کی مستقل رہنے کی جگہ ہے جو سرسبز و شاداب سایہ دار درختوں کے باغ یا باغات، <ref> سورہ رعد، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ الرحمن، آیہ ۴۸ و ۶۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۳۰؛ سورہ انسان، آیہ ۱۴</ref> جاری نہریں (بعض تعبیر کے مطابق "{{حدیث|تجری مِنْ تحتہا الانہار}})،<ref>۳۵ اور بعض دوسری تعبیروں کے مطابق </ref> ابلتے اور جاری چشمے <ref>سورہ یس، آیہ ۳۴؛ سورہ ذاریات، آیہ ۱۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۰ و ۶۶؛ سورہ انسان، آیہ ۶ و ۱۸؛ سورہ مطففین، آیہ ۲۸</ref> مختلف میوہ جات سے سرشار، <ref> سورہ ص، آیہ ۵۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۷۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۵.</ref> اور معتدل آب و ہوا کا حامل ہے۔<ref> سورہ انسان، آیہ ۱۳؛  تفاسیر، از جملہ طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی‌، مجمع البیان؛ فخر رازی‌، تفسیر کبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل ہمین آیہ.</ref>  


سورہ آل عمران کی آیت نمبر 133 میں بہشت کی وسعت کو زمین اور آسمانوں کے برابر اور سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۱ میں آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر جانا گیا ہے۔ طبرسی، فخر رازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین نے این آیات کی روشنی میں بہشت کی وسعت کو انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر قرار دیا ہے۔ <ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ فصّلت، آیہ ۱۲.</ref>
[[سورہ آل عمران]] کی آیت نمبر 133 میں بہشت کی وسعت کو زمین اور آسمانوں کے برابر اور سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۱ میں آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر جانا گیا ہے۔ طبرسی، فخر رازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین نے این آیات کی روشنی میں بہشت کی وسعت کو انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر قرار دیا ہے۔ <ref> طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ فصّلت، آیہ ۱۲.</ref>


===مخلوق اور جسمانی ہونا===
===مخلوق اور جسمانی ہونا===
بہشت کا مخلوق ہونا اسی طرح قیامت سے پہلے خلق ہونا ان موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں معصومین سے منقول احادیث میں بحث ہوئی ہے یہاں نک کہ اسے شیعوں کی اعتقادات میں سے شمار کیا گیا ہے۔<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، و ۱۹۶-۱۹۷.</ref> [[امام رضا]] (ع) سے منقول ہے کہ بہشت کے مخلوق ہونے سے مراد خلق تقدیری نہیں ہے بلکہ بہشت وجود خارجی رکھتا ہے اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے شب [[معراج]] کو حقیقی بہشت کا نظارہ فرمایا ہے بنابراین بہشت کے مخلوق ہونے کی نفی کرنا پیغمبر اکرم(ص) کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌ ۸، ص ۱۱۹.</ref>
بہشت کا مخلوق ہونا اسی طرح قیامت سے پہلے خلق ہونا ان موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں معصومین سے منقول احادیث میں بحث ہوئی ہے یہاں نک کہ اسے شیعوں کی اعتقادات میں سے شمار کیا گیا ہے۔<ref> ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، و ۱۹۶-۱۹۷.</ref> [[امام رضا]] (ع) سے منقول ہے کہ بہشت کے مخلوق ہونے سے مراد خلق تقدیری نہیں ہے بلکہ بہشت وجود خارجی رکھتا ہے اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے شب [[معراج]] کو حقیقی بہشت کا نظارہ فرمایا ہے بنابراین بہشت کے مخلوق ہونے کی نفی کرنا پیغمبر اکرم(ص) کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔<ref> ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌ ۸، ص ۱۱۹.</ref>


بعض احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر شخص کیلئے بہشت اور جہنم میں پہلے سے جگہ مخصوص کی گئی ہے اور اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال بتدریج بہشت یا دوزخ میں اس کے مکان کے اجزاء کو تکمیل کرتی ہیں۔ یہ احادیث بہشت اور دوزخ کے موجود ہونے کیلئے مستند قرار پائے ہیں۔ <ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲۳، ۱۲۵، ۱۴۹؛ برای این بحث، با برخی تفاوت‌ہا، بیہقی، شعب الایمان، ۱۴۲۱ق، ج ۱، ص ۳۴۲ و ۳۴۶؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۱۶۴-۱۶۵؛ ابن‌قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص۴۴-۵۱.</ref>
بعض احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر شخص کیلئے بہشت اور جہنم میں پہلے سے جگہ مخصوص کی گئی ہے اور اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال بتدریج بہشت یا دوزخ میں اس کے مکان کے اجزاء کو تکمیل کرتی ہیں۔ یہ احادیث بہشت اور دوزخ کے موجود ہونے کیلئے مستند قرار پائے ہیں۔ <ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲۳، ۱۲۵، ۱۴۹؛ برای این بحث، با برخی تفاوت‌ہا، بیہقی، شعب الایمان، ۱۴۲۱ق، ج ۱، ص ۳۴۲ و ۳۴۶؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۱۶۴-۱۶۵؛ ابن‌قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص۴۴-۵۱.</ref>


قرآن کریم اور معصومین کی احادیث اس نکتہ پر تاکید کرتی ہیں کہ بہشت اور عالم آخرت، جسمانی ہے اسی بنا پر جسمانی ہونے میں دنیا اور آخرت میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے دوسری خصوصیات کے۔ علامہ مجلسی اور سید نعمت اللہ جزایری نے امام رضا (ع) سے منقول ایک حدیث سے یہ نتیجہ لیا ہے کہ امام رضا(ع) کی نگاہ میں آخرت کے حالات کو دنیا کے حالات سے مقایسہ کرنا چاہئے جس کا لازمی نتیجہ بہشت کا جسمانی ہونا ہے۔ امام رضا (ع) نے [[عمران صابی]] کے ایک سوال کے جواب میں بہشت میں خدا کا بندوں کیلئے قابل روئیت ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بہشت میں رونما ہونے والے واقعات پر استدلال صرف اور صرف دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ جملہ [[علامہ مجلسی]]<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌ ۱۰، ص ۳۱۶، ۳۲۷ </ref> اور اس کے شاگر [[سید نعمت اللہ جزایری]]،<ref>جزایری، نور البراہین، ۱۴۱۷ق، ج‌ ۲، ص ۴۷۹.</ref> کے دو توضیح میں سے ایک کی بنا پر، اس "اصل" اور قاعدے کا متضمن ہے کہ [[آخرت]] کے حالات اور واقعات کو دنیا کے حالات اور واقعات سے مقایسہ کرنا چاہئے۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref>
قرآن کریم اور معصومین کی احادیث اس نکتہ پر تاکید کرتی ہیں کہ بہشت اور عالم آخرت، جسمانی ہے اسی بنا پر جسمانی ہونے میں دنیا اور آخرت میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے دوسری خصوصیات کے۔ علامہ مجلسی اور سید نعمت اللہ جزایری نے امام رضا (ع) سے منقول ایک حدیث سے یہ نتیجہ لیا ہے کہ امام رضا(ع) کی نگاہ میں آخرت کے حالات کو دنیا کے حالات سے مقایسہ کرنا چاہئے جس کا لازمی نتیجہ بہشت کا جسمانی ہونا ہے۔ امام رضا (ع) نے [[عمران صابی]] کے ایک سوال کے جواب میں بہشت میں خدا کا بندوں کیلئے قابل روئیت ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بہشت میں رونما ہونے والے واقعات پر استدلال صرف اور صرف دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ جملہ [[علامہ مجلسی]]<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌ ۱۰، ص ۳۱۶، ۳۲۷ </ref> اور اس کے شاگر [[سید نعمت اللہ جزایری]]،<ref> جزایری، نور البراہین، ۱۴۱۷ق، ج‌ ۲، ص ۴۷۹.</ref> کے دو توضیح میں سے ایک کی بنا پر، اس "اصل" اور قاعدے کا متضمن ہے کہ [[آخرت]] کے حالات اور واقعات کو دنیا کے حالات اور واقعات سے مقایسہ کرنا چاہئے۔<ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref>


====کلامی دلائل====
====کلامی دلائل====
بہشت کے مخلوق ہونے پر قرآن کریم کی کئی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے؛ [[سورہ نجم]] کی پانچویں آیت جس میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی معراج کا واقعہ بیان ہوا ہے، [[سورہ آل عمران|آل‌عمران]] کی آیت نمبر 133 اور [[سورہ حدید|حدید]] کی آیت نمبر 21 میں سے ہر ایک میں "اُعدَّت" (= آمادہ کیا گیا ہے) کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اور [[سورہ توبہ]] کی آیت نمبر 100 جس میں لفظ "اَعَدَّ" آیا ہے<ref> یہی دو تعبیر  آل‌عمران کی آیت نمبر 131 اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 میں دوزخ کیلئے استعمال ہوا ہے</ref> جو بہشت اور دوزخ کے ابھی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ <ref>جوینی، العقیدۃ النظامیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۲۴۹-۲۵۰؛ متولی شافعی، الغنیہ فی اصول الدین، ۱۴۰۶ق، ص۱۶۷-۱۶۸؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج‌ ۵، ص ۱۰۹؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج ۸، ص ۳۰۱؛ سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج‌ ۲، ص ۹۱۸-۹۱۹.</ref>
بہشت کے مخلوق ہونے پر قرآن کریم کی کئی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے؛ [[سورہ نجم]] کی پانچویں آیت جس میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی معراج کا واقعہ بیان ہوا ہے، [[سورہ آل عمران|آل‌عمران]] کی آیت نمبر 133 اور [[سورہ حدید|حدید]] کی آیت نمبر 21 میں سے ہر ایک میں "اُعدَّت" (آمادہ کیا گیا ہے) کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اور [[سورہ توبہ]] کی آیت نمبر 100 جس میں لفظ "اَعَدَّ" آیا ہے<ref> یہی دو تعبیر  آل‌عمران کی آیت نمبر 131 اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 میں دوزخ کیلئے استعمال ہوا ہے</ref> جو بہشت اور دوزخ کے ابھی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ <ref> جوینی، العقیدۃ النظامیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۲۴۹-۲۵۰؛ متولی شافعی، الغنیہ فی اصول الدین، ۱۴۰۶ق، ص۱۶۷-۱۶۸؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج‌ ۵، ص ۱۰۹؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج ۸، ص ۳۰۱؛ سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج‌ ۲، ص ۹۱۸-۹۱۹.</ref>


[[ائمہ معصومین]] سے منقول احادیث میں بھی بہشت کے ابھی موجود ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور [[امام رضا(ع)]] نے اس حوالے سے پیغمبر اکرم(ص) کی [[معراج]] سے بھی استدلال فرمایا ہے۔ ابن حزم‌<ref>ابن حزم، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، ۱۹۹۵م، ج ۲، ص ۳۹۲.</ref> اور ابن قیم جوزیہ‌<ref>ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ص ۴۴، ۴۹-۵۰، ۸۱ </ref> نے بھی بہشت کے مخلوق ہونے پر استدلال کرتے ہوئے پیغمبر اکرم(ص) کی معراج کے بعض واقعات کو ذکر کیا ہے۔ <ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۴، ذیل مدخل جنت.</ref>
[[ائمہ معصومین]] سے منقول احادیث میں بھی بہشت کے ابھی موجود ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور [[امام رضا(ع)]] نے اس حوالے سے پیغمبر اکرم(ص) کی [[معراج]] سے بھی استدلال فرمایا ہے۔ ابن حزم‌<ref> ابن حزم، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، ۱۹۹۵م، ج ۲، ص ۳۹۲.</ref> اور ابن قیم جوزیہ‌<ref> ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ص ۴۴، ۴۹-۵۰، ۸۱ </ref> نے بھی بہشت کے مخلوق ہونے پر استدلال کرتے ہوئے پیغمبر اکرم(ص) کی معراج کے بعض واقعات کو ذکر کیا ہے۔ <ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۴، ذیل مدخل جنت.</ref>


اس کے مقابلے میں بعض افراد معتقد ہیں کہ بہشت اور جہنم ابھی خلق نہیں ہوا اس حوالے سے انہوں نے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ پہلی اور سب سے قدیمی عقلی دلیل، [[قیامت]] سے پہلے بہشت کی خلقت کا عبث اور بے ہودہ ہونا ہے۔<ref> مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص ۱۲۴.</ref> اس استدلال کیلئے دئے گئے بعض جواب یہ ہے کہ خدا کے تمام افعال کی حکمت بندوں پر واضح نہیں ہے اس بنا پر بہشت کی خلقت کو عبث اور بے ہودہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج‌ ۲، ص ۹۲۰.</ref>
اس کے مقابلے میں بعض افراد معتقد ہیں کہ بہشت اور جہنم ابھی خلق نہیں ہوا اس حوالے سے انہوں نے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ پہلی اور سب سے قدیمی عقلی دلیل، [[قیامت]] سے پہلے بہشت کی خلقت کا عبث اور بے ہودہ ہونا ہے۔<ref> مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص ۱۲۴.</ref> اس استدلال کیلئے دیئے گئے بعض جواب یہ ہے کہ خدا کے تمام افعال کی حکمت بندوں پر واضح نہیں ہے اس بنا پر بہشت کی خلقت کو عبث اور بے ہودہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔<ref> سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج‌ ۲، ص ۹۲۰.</ref>


'''جسمانی بہشت کی تاویل "باطنیہ" کی نگاہ میں'''
'''جسمانی بہشت کی تاویل "باطنیہ" کی نگاہ میں'''
مذہب [[باطنیہ]] اپنی فلسفی روش کی بنیاد پر بہشت کے جسمانی ہونے اور اس کی دوسری خصوصیات سے متعلق قرآنی مضامین کی تأویل کرتے ہیں اور ان مطالب کو اسرار و رموز قرار دیتے ہیں۔ [[ابوحامد محمد غزالی|غزالی]]<ref>غزالی، فضائح الباطنیہ، ۱۳۸۳ق، ص۴۴-۴۶، ۴۸-۵۴، ۶۱.</ref> نے ان پر صریح تنقید کرتے ہوئے اس طرح تفکر کے لازمی نتائج میں سے ایک کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کو جھٹالانا یا کم از کم صاحب شریعت کی مخالفت اور دین سے خارج ہونا قرار دیتے ہیں؛ خاص کر یہ کہ قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر بہشت اور عالم آخرت کے مختلف اوصاف بیان ہوئی ہیں۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref>
مذہب [[باطنیہ]] اپنی فلسفی روش کی بنیاد پر بہشت کے جسمانی ہونے اور اس کی دوسری خصوصیات سے متعلق قرآنی مضامین کی تأویل کرتے ہیں اور ان مطالب کو اسرار و رموز قرار دیتے ہیں۔ [[ابو حامد محمد غزالی|غزالی]]<ref> غزالی، فضائح الباطنیہ، ۱۳۸۳ق، ص۴۴-۴۶، ۴۸-۵۴، ۶۱.</ref> نے ان پر صریح تنقید کرتے ہوئے اس طرح تفکر کے لازمی نتائج میں سے ایک کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کو جھٹالانا یا کم از کم صاحب شریعت کی مخالفت اور دین سے خارج ہونا قرار دیتے ہیں؛ خاص کر یہ کہ قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر بہشت اور عالم آخرت کے مختلف اوصاف بیان ہوئی ہیں۔<ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref>


بہشت کے موجود ہونے پر اعتقاد رکھنا، انہی خصوصیات کے ساتھ جن کی طرف قرآن کریم اور احادیث میں اشارہ ہوا ہے، دین [[اسلام]] کی ضروریات میں سے شمار کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ قرآن آیات کی اس طرح تأویل کرنا کہ جس سے بہشت کے جسمانی ہونے کا انکار لازم آئے، تو اسے دین اسلام سے انکار شمار کیا جاتا ہے۔<ref>رجوع کنید بہ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص ۹۱-۹۳.</ref>
بہشت کے موجود ہونے پر اعتقاد رکھنا، انہی خصوصیات کے ساتھ جن کی طرف قرآن کریم اور احادیث میں اشارہ ہوا ہے، دین [[اسلام]] کی ضروریات میں سے شمار کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ قرآن آیات کی اس طرح تأویل کرنا کہ جس سے بہشت کے جسمانی ہونے کا انکار لازم آئے، تو اسے دین اسلام سے انکار شمار کیا جاتا ہے۔<ref> رجوع کنید بہ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص ۹۱-۹۳.</ref>


مسلمان متکلمین قرآنی آیات میں بہشت کے جسمانی ہونے جیسے موضوعات کی تاویل کرنے اور قرآن کریم کی تعبیر کو اسرار و رموز قرار دینے کو صرف اس صورت میں جائز قرار دیتے ہیں جہاں پر ان کی تأویل نہ کرنے سے عقلی طور پر تناقض وجود میں آجاتے ہوں۔<ref> قاضی عبدالجبار بن‌ احمد، شرح الاصول الخمسہ، ۱۴۲۲ق، ص ۴۹۹؛ غزالی، المضنون بہ علی غیراہلہ، ۱۴۱۷ق، ص۱۱۳؛ لاہیجی، گوہرمراد، ۱۳۸۳ش، ص ۶۶۱.</ref> [[سلیمان بن صالح غصن]]<ref>سلیمان بن صالح غصن، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۹۷۹-۱۹۸۹م، ج ۲، ص ۷۳۲.</ref> معتقد ہے کہ بہشت کا جسمانی ہونے جیسے موضوعات عقلاً قابل قبول ہیں اور نقلا بھی اس پر اجماع قائم ہے بنابراین اس کی نظرمیں ان کی تاویل آن کرنا اور جسمانی ہونے کی نفی کرنا امکان پذیر نہیں ہے۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۲، ذیل مدخل جنت.</ref>
مسلمان متکلمین قرآنی آیات میں بہشت کے جسمانی ہونے جیسے موضوعات کی تاویل کرنے اور قرآن کریم کی تعبیر کو اسرار و رموز قرار دینے کو صرف اس صورت میں جائز قرار دیتے ہیں جہاں پر ان کی تأویل نہ کرنے سے عقلی طور پر تناقض وجود میں آجاتے ہوں۔<ref> قاضی عبدالجبار بن‌ احمد، شرح الاصول الخمسہ، ۱۴۲۲ق، ص ۴۹۹؛ غزالی، المضنون بہ علی غیراہلہ، ۱۴۱۷ق، ص۱۱۳؛ لاہیجی، گوہرمراد، ۱۳۸۳ش، ص ۶۶۱.</ref> [[سلیمان بن صالح غصن]]<ref> سلیمان بن صالح غصن، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۹۷۹-۱۹۸۹م، ج ۲، ص ۷۳۲.</ref> معتقد ہے کہ بہشت کا جسمانی ہونے جیسے موضوعات عقلاً قابل قبول ہیں اور نقلا بھی اس پر اجماع قائم ہے بنابراین اس کی نظر میں ان کی تاویل آن کرنا اور جسمانی ہونے کی نفی کرنا امکان پذیر نہیں ہے۔<ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۲، ذیل مدخل جنت.</ref>


==نعمات==
==نعمات==
گمنام صارف