مندرجات کا رخ کریں

"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق

12 بائٹ کا اضافہ ،  22 جنوری 2022ء
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
سطر 16: سطر 16:


===دوسری تعبیریں===
===دوسری تعبیریں===
[[قرآن کریم]] کی 200 سے زیادہ [[آیات]] اور معصومین سے منقول بہت ساری احادیث میں میں بہشت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۳، ذیل مدخل جنت.</ref><ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.</ref> قرآن کریم میں بہشت سے مربوط ایات میں جن مظامین سے بحث کی گئی ہے وہ یہ ہیں: بہشت کے اوصاف اور خصوصیات کا بیان، مشخصات اصلی، اندازہ، مکان کے اعتبار سے اس کی وسعت اور نوعیت، نعمتوں کے اقسام، نعمات کے ثبوتی اور سلبی اوصاف، خلقت بہشت کی غرض و غایت، وہ خصوصیات جو انسان کو بہشتی بناتی ہیں، بہشت سے محروم لوگوں کی خصوصیات اور ساکنان بہشت کا ایک دوسرے اور جہنمیوں کے ساتھ رابطہ۔ <ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۴، ذیل مدخل جنت.</ref> قرآن کریم میں اس دنیا کے ختتام اور [[قیامت]] کے برپا ہونے کی تاکید کے ساتھ ساتھ دوسری دنیا میں انسان کی زندگی جاری رہنے اور وہاں بہشتیوں کے مقام و منصب کو مختلف تعبیرات کے ساتھ بیان کیا ہے:
[[قرآن کریم]] کی 200 سے زیادہ [[آیات]] اور معصومین سے منقول بہت ساری احادیث میں میں بہشت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔<ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۳، ذیل مدخل جنت.</ref><ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۹، ذیل مدخل جنت.</ref> قرآن کریم میں بہشت سے مربوط ایات میں جن مظامین سے بحث کی گئی ہے وہ یہ ہیں: بہشت کے اوصاف اور خصوصیات کا بیان، مشخصات اصلی، اندازہ، مکان کے اعتبار سے اس کی وسعت اور نوعیت، نعمتوں کے اقسام، نعمات کے ثبوتی اور سلبی اوصاف، خلقت بہشت کی غرض و غایت، وہ خصوصیات جو انسان کو بہشتی بناتی ہیں، بہشت سے محروم لوگوں کی خصوصیات اور ساکنان بہشت کا ایک دوسرے اور جہنمیوں کے ساتھ رابطہ۔<ref> حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۴، ذیل مدخل جنت.</ref> قرآن کریم میں اس دنیا کے ختتام اور [[قیامت]] کے برپا ہونے کی تاکید کے ساتھ ساتھ دوسری دنیا میں انسان کی زندگی جاری رہنے اور وہاں بہشتیوں کے مقام و منصب کو مختلف تعبیرات کے ساتھ بیان کیا ہے:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
#جنت (اور جنات):سو دفعہ سے زیادہ،<ref>محمد فؤاد عبدالباقی، ذیل «ج ن ن»</ref> کبھی کسی صفت کے ساتھ یا کبھی کسی چیز کی طرف اضافہ ہو کر استعمال ہوا ہے؛ مانند جنّۃ الخلد، جنّۃ نعیم، جنۃ النعیم، جنّات النعیم، جنّۃ المأوی، جنّات المأوی، جنّاتُ عدن اور جنّات الفردوس وغیرہ۔
#جنت (اور جنات):سو دفعہ سے زیادہ،<ref> محمد فؤاد عبدالباقی، ذیل «ج ن ن»</ref> کبھی کسی صفت کے ساتھ یا کبھی کسی چیز کی طرف اضافہ ہو کر استعمال ہوا ہے؛ مانند جنّۃ الخلد، جنّۃ نعیم، جنۃ النعیم، جنّات النعیم، جنّۃ المأوی، جنّات المأوی، جنّاتُ عدن اور جنّات الفردوس وغیرہ۔
#روضہ: سورہ روم، آیت ۱۵.
#روضہ: سورہ روم، آیت ۱۵.
#رَوضاتُ الجَنّات: سورہ شوری، آیت ۲۲.
#رَوضاتُ الجَنّات: سورہ شوری، آیت ۲۲.
سطر 36: سطر 36:
'''قرآن میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں'''
'''قرآن میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں'''


'''جنّات عدن‌'''، بہشت کا سب سے اعلی درجہ، خدا کے مقرب بندوں سے مختص بہشت، انبیاء، معصومین، [[شہید|شہداء]]، صالحین اور صدیقین کے مقام کو کہا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس قدر اعلی اور ارفع ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے اور نہ کسی دل میں خطور ہوا ہے۔<ref> طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سوریہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref> لیکن بعض مفسرین نے اس لفظ کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے جو جمع کے صیغے میں استعال ہوتا ہے،  لفظ "عَدْن" کو اقامتگاہ اور جنت کی عمومی صفت قرار دیا ہے۔<ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref>
'''جنّات عدن‌'''، بہشت کا سب سے اعلی درجہ، خدا کے مقرب بندوں سے مختص بہشت، انبیاء، معصومین، [[شہید|شہداء]]، صالحین اور صدیقین کے مقام کو کہا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس قدر اعلی اور ارفع ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے اور نہ کسی دل میں خطور ہوا ہے۔<ref> طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سوریہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref> لیکن بعض مفسرین نے اس لفظ کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے جو جمع کے صیغے میں استعال ہوتا ہے،  لفظ "عَدْن" کو اقامتگاہ اور جنت کی عمومی صفت قرار دیا ہے۔<ref> طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref>


'''دارالسّلام‌'''، بہشت کیلئے استعمال ہونے والی ایک اور تعبیر اور اس کی اوصاف میں سے ایک صفت قرار دیا ہے؛ بعض مفسرین کے مطابق چونکہ "سلام" خدا کے اسماء میں سے ایک نام ہے، پس دارالسّلام یعنی خدا کا گھر یہ تعبیر بہشت کی شرافت اور مرتبے کو بیان کرنے کیلئے ہے۔ <ref>ابونُعَیم اصفہانی، صفۃ الجنۃ، ج ۱، ص ۳۴؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سورہ انعام، آیہ ۱۲۷.</ref>
'''دارالسّلام‌'''، بہشت کیلئے استعمال ہونے والی ایک اور تعبیر اور اس کی اوصاف میں سے ایک صفت قرار دیا ہے؛ بعض مفسرین کے مطابق چونکہ "سلام" خدا کے اسماء میں سے ایک نام ہے، پس دارالسّلام یعنی خدا کا گھر یہ تعبیر بہشت کی شرافت اور مرتبے کو بیان کرنے کیلئے ہے۔ <ref> ابو نُعَیم اصفہانی، صفۃ الجنۃ، ج ۱، ص ۳۴؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سورہ انعام، آیہ ۱۲۷.</ref>


[[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ جنّۃ المأوی، جنّۃ النعیم، دارالخلد یا جنّۃ الخلد، دارالسّلام، جنّۃ الفردوس، جنّۃ عدْن اور دارالجلال جیسی تعبیریں خاص بہشت کی طرف اشارہ ہے۔<ref> قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج‌ ۲، ص ۱۷۵؛ بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۱۶۹، اس تفاوت کے ساتھ کہ دارالجلال کی بجای جنّہ النور آیا ہے۔</ref>
[[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ جنّۃ المأوی، جنّۃ النعیم، دارالخلد یا جنّۃ الخلد، دارالسّلام، جنّۃ الفردوس، جنّۃ عدْن اور دارالجلال جیسی تعبیریں خاص بہشت کی طرف اشارہ ہے۔<ref> قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج‌ ۲، ص ۱۷۵؛ بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۱۶۹، اس تفاوت کے ساتھ کہ دارالجلال کی بجای جنّہ النور آیا ہے۔</ref>


[[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] [[بحارالانوار]] میں،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، «باب الجنۃ و نعیمہا»، صص ۷۱-۱۱۶.</ref> اپنی روش کے مطابق شروع میں جنت سے مربوط آیات (تقریبا ۲۷۵ آیت) کو سوروں کی ترتیب سے درج کرکے ان کی تفسیر کو عمدتا [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]]، [[فخر رازی]] اور [[بیضاوی]] سے نقل کیا ہے۔
[[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] [[بحارالانوار]] میں،<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، «باب الجنۃ و نعیمہا»، صص ۷۱-۱۱۶.</ref> اپنی روش کے مطابق شروع میں جنت سے مربوط آیات (تقریبا ۲۷۵ آیت) کو سوروں کی ترتیب سے درج کرکے ان کی تفسیر کو عمدتا [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]]، [[فخر رازی]] اور [[بیضاوی]] سے نقل کیا ہے۔


'''احادیث میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں'''
'''احادیث میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں'''
معصومین سے منقول بعض احادیث میں قرآن میں آنے والے بہشت کے اسامی کی توضیح دی گئی ہے منجملہ یہ کہ:
معصومین سے منقول بعض احادیث میں قرآن میں آنے والے بہشت کے اسامی کی توضیح دی گئی ہے منجملہ یہ کہ:
#جنۃ المأوی، ایک حدیثی نبوی میں بہشت کے کسی نہر کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے اسی طرح جنّت عدْن اور جنّت فردوس، دو بہشت کے درمیان دو بہشت کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۷ و ۱۹۶.</ref>
#جنۃ المأوی، ایک حدیثی نبوی میں بہشت کے کسی نہر کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے اسی طرح جنّت عدْن اور جنّت فردوس، دو بہشت کے درمیان دو بہشت کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۷ و ۱۹۶.</ref>
#[[امام باقر (ع)]] سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن میں چار جنات: جنّت عَدْن، فردوس، نعیم، اور مأوی کا نام لیا گیا ہے جن کے اطراف میں دوسرے اکثر بہشت واقع ہیں۔<ref> بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۸۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۶۱.</ref>
#[[امام باقر (ع)]] سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن میں چار جنات: جنّت عَدْن، فردوس، نعیم، اور مأوی کا نام لیا گیا ہے جن کے اطراف میں دوسرے اکثر بہشت واقع ہیں۔<ref> بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۸۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۶۱.</ref>
#[[سعید بن جناح|سُعید بن جناح]] نے امام باقر(ع) سے روایت کرنے والی حدیث میں [[سورہ الرحمن]] کی آیت نمبر 46 اور 62 کو چار بہشت کی موجودگی پر گواہ قرار دیا ہے؛ اس توضیح کے ساتھ کہ پہلی آیت میں مذکورہ دو بہشت میں سے ایک ترک [[گناہ]] کا صلہ اور دوسری "خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے" (خافَ مقامَ ربّہ) کے صلے میں خدا کے مقرب بندوں ملے گی جبکہ آیت ۶۲ میں مذکور جنت نعیم اور جنت مأوی [[اصحاب یمین]] کیلئے ہے جو مزایا اور رتبے میں دوسرے جنات سے بالاتر ہے نہ قربت کے لحاظ سے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۲۱۸ </ref>  
#[[سعید بن جناح|سُعید بن جناح]] نے امام باقر (ع) سے روایت کرنے والی حدیث میں [[سورہ الرحمن]] کی آیت نمبر 46 اور 62 کو چار بہشت کی موجودگی پر گواہ قرار دیا ہے؛ اس توضیح کے ساتھ کہ پہلی آیت میں مذکورہ دو بہشت میں سے ایک ترک [[گناہ]] کا صلہ اور دوسری "خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے" (خافَ مقامَ ربّہ) کے صلے میں خدا کے مقرب بندوں ملے گی جبکہ آیت ۶۲ میں مذکور جنت نعیم اور جنت مأوی [[اصحاب یمین]] کیلئے ہے جو مزایا اور رتبے میں دوسرے جنات سے بالاتر ہے نہ قربت کے لحاظ سے۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۲۱۸ </ref>  
#[[امام صادق (ع)]] سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ سورہ الرحمن کی آیت نمبر 62 متعدد بہشت کی موجودگی پر دلیل ہے اسی طرح "درجات" کی تعبیر بہشت کے مراتب کے اختلاف پر دلیل ہے۔<ref> طبرسی، ذیل رحمن: ۶۲؛ با اندکی تفاوت در مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۹۸.</ref>
#[[امام صادق (ع)]] سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ سورہ الرحمن کی آیت نمبر 62 متعدد بہشت کی موجودگی پر دلیل ہے اسی طرح "درجات" کی تعبیر بہشت کے مراتب کے اختلاف پر دلیل ہے۔<ref> طبرسی، ذیل رحمن: ۶۲؛ با اندکی تفاوت در مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۹۸.</ref>
#فریقین کی بعض احادیث کے مطابق ان بہشتوں میں سے ایک کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس کے درختوں کو خدا نے خود لگایا ہے جسے نہ کسی نے دیکھا ہے اور نہ اس کی نعمتوں سے کوئی واقف ہے۔ مفسرین نے سورہ سجدہ کی آیت نمبر 17 کو اس بہشت کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں شروع میں اہل بہشت پر خدا کی "تجلی" اور آخر میں اس بہشت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌۸، ص۱۲۶-۱۲۷.</ref> شیعہ اور اہل سنت مجامع حدیثی میں موجود بہت ساری احادیث میں انسان کی تصور سے بالاتر نعمات پر مشتمل بہشت کا تذکرہ ملتا ہے۔ <ref> بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.</ref>
#فریقین کی بعض احادیث کے مطابق ان بہشتوں میں سے ایک کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس کے درختوں کو خدا نے خود لگایا ہے جسے نہ کسی نے دیکھا ہے اور نہ اس کی نعمتوں سے کوئی واقف ہے۔ مفسرین نے سورہ سجدہ کی آیت نمبر 17 کو اس بہشت کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں شروع میں اہل بہشت پر خدا کی "تجلی" اور آخر میں اس بہشت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ <ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌۸، ص۱۲۶-۱۲۷.</ref> شیعہ اور اہل سنت مجامع حدیثی میں موجود بہت ساری احادیث میں انسان کی تصور سے بالاتر نعمات پر مشتمل بہشت کا تذکرہ ملتا ہے۔ <ref> بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.</ref>


==اوصاف اور خصوصیات==
==اوصاف اور خصوصیات==
گمنام صارف