"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 57: | سطر 57: | ||
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 133 میں بہشت کی وسعت کو زمین اور آسمانوں کے برابر اور سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۱ میں آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر جانا گیا ہے۔ طبرسی، فخر رازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین نے این آیات کی روشنی میں بہشت کی وسعت کو انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر قرار دیا ہے۔ <ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ فصّلت، آیہ ۱۲.</ref> | سورہ آل عمران کی آیت نمبر 133 میں بہشت کی وسعت کو زمین اور آسمانوں کے برابر اور سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۱ میں آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر جانا گیا ہے۔ طبرسی، فخر رازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین نے این آیات کی روشنی میں بہشت کی وسعت کو انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر قرار دیا ہے۔ <ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ فصّلت، آیہ ۱۲.</ref> | ||
===مخلوق اور جسمانی ہونا=== | ===مخلوق اور جسمانی ہونا=== | ||
مخلوق | بہشت کا مخلوق ہونا اسی طرح قیامت سے پہلے خلق ہونا ان موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں معصومین سے منقول احادیث میں بحث ہوئی ہے یہاں نک کہ اسے شیعوں کی اعتقادات میں سے شمار کیا گیا ہے۔<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، و ۱۹۶-۱۹۷.</ref> [[امام رضا]] (ع) سے منقول ہے کہ بہشت کے مخلوق ہونے سے مراد خلق تقدیری نہیں ہے بلکہ بہشت وجود خارجی رکھتا ہے اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے شب [[معراج]] کو حقیقی بہشت کا نظارہ فرمایا ہے بنابراین بہشت کے مخلوق ہونے کی نفی کرنا پیغمبر اکرم(ص) کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۹.</ref> | ||
بعض احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر شخص کیلئے بہشت اور جہنم میں پہلے سے جگہ مخصوص کی گئی ہے اور اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال بتدریج بہشت یا دوزخ میں اس کے مکان کے اجزاء کو تکمیل کرتی ہیں۔ یہ احادیث بہشت اور دوزخ کے موجود ہونے کیلئے مستند قرار پائے ہیں۔ <ref> مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲۳، ۱۲۵، ۱۴۹؛ برای این بحث، با برخی تفاوتہا، بیہقی، شعب الایمان، ۱۴۲۱ق، ج ۱، ص ۳۴۲ و ۳۴۶؛ قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۱۶۴-۱۶۵؛ ابنقیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص۴۴-۵۱.</ref> | |||
قرآن کریم | قرآن کریم اور معصومین کی احادیث اس نکتہ پر تاکید کرتی ہیں کہ بہشت اور عالم آخرت، جسمانی ہے اسی بنا پر جسمانی ہونے میں دنیا اور آخرت میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے دوسری خصوصیات کے۔ علامہ مجلسی اور سید نعمت اللہ جزایری نے امام رضا (ع) سے منقول ایک حدیث سے یہ نتیجہ لیا ہے کہ امام رضا(ع) کی نگاہ میں آخرت کے حالات کو دنیا کے حالات سے مقایسہ کرنا چاہئے جس کا لازمی نتیجہ بہشت کا جسمانی ہونا ہے۔ امام رضا (ع) نے [[عمران صابی]] کے ایک سوال کے جواب میں بہشت میں خدا کا بندوں کیلئے قابل روئیت ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بہشت میں رونما ہونے والے واقعات پر استدلال صرف اور صرف دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ جملہ [[علامہ مجلسی]]<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۱۰، ص ۳۱۶، ۳۲۷ </ref> اور اس کے شاگر [[سید نعمت اللہ جزایری]]،<ref>جزایری، نور البراہین، ۱۴۱۷ق، ج ۲، ص ۴۷۹.</ref> کے دو توضیح میں سے ایک کی بنا پر، اس "اصل" اور قاعدے کا متضمن ہے کہ [[آخرت]] کے حالات اور واقعات کو دنیا کے حالات اور واقعات سے مقایسہ کرنا چاہئے۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref> | ||
==== | ====کلامی دلائل==== | ||
بہشت کے مخلوق ہونے پر قرآن کریم کی کئی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے؛ [[سورہ نجم]] کی پانچویں آیت جس میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی معراج کا واقعہ بیان ہوا ہے، [[سورہ آل عمران|آلعمران]] کی آیت نمبر 133 اور [[سورہ حدید|حدید]] کی آیت نمبر 21 میں سے ہر ایک میں "اُعدَّت" (= آمادہ کیا گیا ہے) کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اور [[سورہ توبہ]] کی آیت نمبر 100 جس میں لفظ "اَعَدَّ" آیا ہے<ref> یہی دو تعبیر آلعمران کی آیت نمبر 131 اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 57 میں دوزخ کیلئے استعمال ہوا ہے</ref> جو بہشت اور دوزخ کے ابھی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ <ref>جوینی، العقیدۃ النظامیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۲۴۹-۲۵۰؛ متولی شافعی، الغنیہ فی اصول الدین، ۱۴۰۶ق، ص۱۶۷-۱۶۸؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص ۱۰۹؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج ۸، ص ۳۰۱؛ سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج ۲، ص ۹۱۸-۹۱۹.</ref> | |||
[[ائمہ معصومین]] سے منقول احادیث میں بھی بہشت کے ابھی موجود ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور [[امام رضا(ع)]] نے اس حوالے سے پیغمبر اکرم(ص) کی [[معراج]] سے بھی استدلال فرمایا ہے۔ ابن حزم<ref>ابن حزم، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، ۱۹۹۵م، ج ۲، ص ۳۹۲.</ref> اور ابن قیم جوزیہ<ref>ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ص ۴۴، ۴۹-۵۰، ۸۱ </ref> نے بھی بہشت کے مخلوق ہونے پر استدلال کرتے ہوئے پیغمبر اکرم(ص) کی معراج کے بعض واقعات کو ذکر کیا ہے۔ <ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۴، ذیل مدخل جنت.</ref> | |||
اس کے مقابلے میں بعض افراد معتقد ہیں کہ بہشت اور جہنم ابھی خلق نہیں ہوا اس حوالے سے انہوں نے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ پہلی اور سب سے قدیمی عقلی دلیل، [[قیامت]] سے پہلے بہشت کی خلقت کا عبث اور بے ہودہ ہونا ہے۔<ref> مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص ۱۲۴.</ref> اس استدلال کیلئے دئے گئے بعض جواب یہ ہے کہ خدا کے تمام افعال کی حکمت بندوں پر واضح نہیں ہے اس بنا پر بہشت کی خلقت کو عبث اور بے ہودہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ۱۴۱۱ق، ج ۲، ص ۹۲۰.</ref> | |||
'''تاویل | '''جسمانی بہشت کی تاویل "باطنیہ" کی نگاہ میں''' | ||
[[باطنیگری|باطنیہ]] بر پایہ روش فلسفی خود، بہ تأویل دادہہای قرآنی دربارہ جسمانی بودن بہشت و دیگر ویژگیہای آن روی آوردہ و این موارد را رمزی و نمادین دانستہاند. [[ابوحامد محمد غزالی|غزالی]]<ref>غزالی، فضائح الباطنیہ، ۱۳۸۳ق، ص۴۴-۴۶، ۴۸-۵۴، ۶۱.</ref> در نقدی صریح بر آنان، یکی از دلالتہای التزامی این رویکرد را نسبت دادن جہل بہ [[پیامبر(ص)]] یا دستکم گونہای مخالفت با صاحب شرع و در نتیجہ خروج از دین دانستہ است؛ بہویژہ آنکہ در قرآن، موارد زیادی در وصف بہشت و مجموعہ عالم آخرت ذکر شدہ است.<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref> | [[باطنیگری|باطنیہ]] بر پایہ روش فلسفی خود، بہ تأویل دادہہای قرآنی دربارہ جسمانی بودن بہشت و دیگر ویژگیہای آن روی آوردہ و این موارد را رمزی و نمادین دانستہاند. [[ابوحامد محمد غزالی|غزالی]]<ref>غزالی، فضائح الباطنیہ، ۱۳۸۳ق، ص۴۴-۴۶، ۴۸-۵۴، ۶۱.</ref> در نقدی صریح بر آنان، یکی از دلالتہای التزامی این رویکرد را نسبت دادن جہل بہ [[پیامبر(ص)]] یا دستکم گونہای مخالفت با صاحب شرع و در نتیجہ خروج از دین دانستہ است؛ بہویژہ آنکہ در قرآن، موارد زیادی در وصف بہشت و مجموعہ عالم آخرت ذکر شدہ است.<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref> | ||
سطر 78: | سطر 78: | ||
متکلمان مسلمان، تأویل دادہہای دینی در مقولاتی از قبیل جسمانی بودن بہشت در آیات قرآن کریم، و تعبیرہای نمادین از این آیات را جز در صورت وجود محذور عقلی، ناروا دانستہاند.<ref>رجوع کنید بہ قاضی عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسہ، ۱۴۲۲ق، ص ۴۹۹؛ غزالی، المضنون بہ علی غیراہلہ، ۱۴۱۷ق، ص۱۱۳؛ لاہیجی، گوہرمراد، ۱۳۸۳ش، ص ۶۶۱.</ref> [[سلیمان بن صالح غصن]]<ref>سلیمان بن صالح غصن، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۹۷۹-۱۹۸۹م، ج ۲، ص ۷۳۲.</ref> معتقد است کہ اموری از قبیل جسمانی بودن بہشت، عقلاً پذیرفتنیاند و از نظر نقلی نیز دربارہ آنہا اجماع وجود دارد؛ بنابراین بہ نظر او، تاویل آن و نفی جسمانی بودن، ممکن نیست.<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۲، ذیل مدخل جنت.</ref> | متکلمان مسلمان، تأویل دادہہای دینی در مقولاتی از قبیل جسمانی بودن بہشت در آیات قرآن کریم، و تعبیرہای نمادین از این آیات را جز در صورت وجود محذور عقلی، ناروا دانستہاند.<ref>رجوع کنید بہ قاضی عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسہ، ۱۴۲۲ق، ص ۴۹۹؛ غزالی، المضنون بہ علی غیراہلہ، ۱۴۱۷ق، ص۱۱۳؛ لاہیجی، گوہرمراد، ۱۳۸۳ش، ص ۶۶۱.</ref> [[سلیمان بن صالح غصن]]<ref>سلیمان بن صالح غصن، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۹۷۹-۱۹۸۹م، ج ۲، ص ۷۳۲.</ref> معتقد است کہ اموری از قبیل جسمانی بودن بہشت، عقلاً پذیرفتنیاند و از نظر نقلی نیز دربارہ آنہا اجماع وجود دارد؛ بنابراین بہ نظر او، تاویل آن و نفی جسمانی بودن، ممکن نیست.<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۲، ذیل مدخل جنت.</ref> | ||
==نعمتہا== | ==نعمتہا==<!-- | ||
{{جعبہ نقل قول| عنوان =| نقلقول ={{حدیث|مَثَلُ الْجَنَّۃ الَّتی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْری مِنْ تَحْتِہا الْأَنْہارُ أُکلُہا دائِمٌ وَ ظِلُّہا تِلْک عُقْبَی الَّذینَ اتَّقَوْا وَ عُقْبَی الْکافِرینَ النَّارُ|ترجمہ= توصیف بہشتی کہ بہ پرہیزگاران وعدہ دادہ شدہ، (این است کہ) نہرہای آب از زیر درختانش جاری است، میوہ آن ہمیشگی، و سایہاش دائمی است؛ این سرانجام کسانی است کہ پرہیزگاری پیشہ کردند؛ و سرانجام کافران، آتش است!}}|تاریخ بایگانی| منبع = <small>[[سورہ رعد|رعد]]، ۳۵، ترجمہ فولادوند.</small>| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| اندازہ خط = ۱۲px|رنگ پسزمینہ =#ecfcf4| گیومہ نقلقول =| تراز منبع = چپ}} | {{جعبہ نقل قول| عنوان =| نقلقول ={{حدیث|مَثَلُ الْجَنَّۃ الَّتی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْری مِنْ تَحْتِہا الْأَنْہارُ أُکلُہا دائِمٌ وَ ظِلُّہا تِلْک عُقْبَی الَّذینَ اتَّقَوْا وَ عُقْبَی الْکافِرینَ النَّارُ|ترجمہ= توصیف بہشتی کہ بہ پرہیزگاران وعدہ دادہ شدہ، (این است کہ) نہرہای آب از زیر درختانش جاری است، میوہ آن ہمیشگی، و سایہاش دائمی است؛ این سرانجام کسانی است کہ پرہیزگاری پیشہ کردند؛ و سرانجام کافران، آتش است!}}|تاریخ بایگانی| منبع = <small>[[سورہ رعد|رعد]]، ۳۵، ترجمہ فولادوند.</small>| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| اندازہ خط = ۱۲px|رنگ پسزمینہ =#ecfcf4| گیومہ نقلقول =| تراز منبع = چپ}} | ||
در فرہنگ اسلامی، رضوان خدا و برخورداری از خشنودی او، برترین نعمت بہشت دانستہ شدہ است. علاوہ بر این، نعمتہای مختلف بہشت، از خوردنیہا و آشامیدنیہا، خانہہا و باغہا و کاخہا، پوشاک و موارد دیگر، در سورہہای مختلف قرآن کریم ذکر شدہ است؛ از جملہ در سہ سورہ [[سورہ الرحمن|الرحمن]]،<ref>سورہ الرحمن، آیہ ۴۶ و ۷۶.</ref> [[سورہ واقعہ|واقعہ]]،<ref>سورہ واقعہ، آیہ ۱۰ و ۳۷.</ref> [[سورہ انسان|انسان]]<ref>سورہ انسان، ۵، ۶، ۱۲، ۲۲.</ref> و آیاتی از سورہہای دیگر.<ref>مثلاً سورہ صافات، آیہ ۴۱ و ۴۹؛ زخرف، آیہ ۷۰ و ۷۳؛ نبأ، آیہ ۳۲ و ۳۵؛ مطففین، آیہ ۲۲ و ۲۸؛ غاشیہ، آیہ ۱۰ و ۱۶.</ref> | در فرہنگ اسلامی، رضوان خدا و برخورداری از خشنودی او، برترین نعمت بہشت دانستہ شدہ است. علاوہ بر این، نعمتہای مختلف بہشت، از خوردنیہا و آشامیدنیہا، خانہہا و باغہا و کاخہا، پوشاک و موارد دیگر، در سورہہای مختلف قرآن کریم ذکر شدہ است؛ از جملہ در سہ سورہ [[سورہ الرحمن|الرحمن]]،<ref>سورہ الرحمن، آیہ ۴۶ و ۷۶.</ref> [[سورہ واقعہ|واقعہ]]،<ref>سورہ واقعہ، آیہ ۱۰ و ۳۷.</ref> [[سورہ انسان|انسان]]<ref>سورہ انسان، ۵، ۶، ۱۲، ۲۲.</ref> و آیاتی از سورہہای دیگر.<ref>مثلاً سورہ صافات، آیہ ۴۱ و ۴۹؛ زخرف، آیہ ۷۰ و ۷۳؛ نبأ، آیہ ۳۲ و ۳۵؛ مطففین، آیہ ۲۲ و ۲۸؛ غاشیہ، آیہ ۱۰ و ۱۶.</ref> |