"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←دوسری تعبیریں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 52: | سطر 52: | ||
#فریقین کی بعض احادیث کے مطابق ان بہشتوں میں سے ایک کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس کے درختوں کو خدا نے خود لگایا ہے جسے نہ کسی نے دیکھا ہے اور نہ اس کی نعمتوں سے کوئی واقف ہے۔ مفسرین نے سورہ سجدہ کی آیت نمبر 17 کو اس بہشت کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں شروع میں اہل بہشت پر خدا کی "تجلی" اور آخر میں اس بہشت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲۶-۱۲۷.</ref> شیعہ اور اہل سنت مجامع حدیثی میں موجود بہت ساری احادیث میں انسان کی تصور سے بالاتر نعمات پر مشتمل بہشت کا تذکرہ ملتا ہے۔ <ref> بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.</ref> | #فریقین کی بعض احادیث کے مطابق ان بہشتوں میں سے ایک کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس کے درختوں کو خدا نے خود لگایا ہے جسے نہ کسی نے دیکھا ہے اور نہ اس کی نعمتوں سے کوئی واقف ہے۔ مفسرین نے سورہ سجدہ کی آیت نمبر 17 کو اس بہشت کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں شروع میں اہل بہشت پر خدا کی "تجلی" اور آخر میں اس بہشت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲۶-۱۲۷.</ref> شیعہ اور اہل سنت مجامع حدیثی میں موجود بہت ساری احادیث میں انسان کی تصور سے بالاتر نعمات پر مشتمل بہشت کا تذکرہ ملتا ہے۔ <ref> بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.</ref> | ||
==اوصاف اور خصوصیات== | ==اوصاف اور خصوصیات== | ||
قرآن کریم اور معصومین کی احادیث میں بہشت کے بعض اوصاف اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں۔ قرآن کے مطابق بہشت دنیاوی زندگی کے بعد خدا کے نیک بندوں (الذین سُعِدوا)<ref>سورہ ہود، آیہ ۱۰۸.</ref> کی مستقل رہنے کی جگہ ہے جو سرسبز و شاداب سایہ دار درختوں کے باغ یا باغات، <ref>سورہ رعد، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ الرحمن، آیہ ۴۸ و ۶۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۳۰؛ سورہ انسان، آیہ ۱۴</ref> جاری نہریں (بعض تعبیر کے مطابق "{{حدیث|تجری مِنْ تحتہا الانہار}})،<ref>۳۵ اور بعض دوسری تعبیروں کے مطابق </ref> ابلتے اور جاری چشمے <ref>سورہ یس، آیہ ۳۴؛ سورہ ذاریات، آیہ ۱۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۰ و ۶۶؛ سورہ انسان، آیہ ۶ و ۱۸؛ سورہ مطففین، آیہ ۲۸</ref> مختلف میوہ جات سے سرشار، <ref>سورہ ص، آیہ ۵۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۷۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۵.</ref> اور معتدل آب و ہوا کا حامل ہے۔<ref>سورہ انسان، آیہ ۱۳؛ تفاسیر، از جملہ طبری، تفسیر طبری؛ طبرسی، مجمع البیان؛ فخر رازی، تفسیر کبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل ہمین آیہ.</ref> | |||
وسعت | سورہ آل عمران کی آیت نمبر 133 میں بہشت کی وسعت کو زمین اور آسمانوں کے برابر اور سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۱ میں آسمانوں اور زمین کی وسعت کے برابر جانا گیا ہے۔ طبرسی، فخر رازی اور علامہ طباطبایی جیسے مفسرین نے این آیات کی روشنی میں بہشت کی وسعت کو انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر قرار دیا ہے۔ <ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ فصّلت، آیہ ۱۲.</ref> | ||
===مخلوق | ===مخلوق اور جسمانی ہونا===<!-- | ||
مخلوق بودن و ہمچنین خلق بہشت پیش از وقوع قیامت، از جملہ موضوعہایی است کہ در احادیث معصومان بہ آنہا اشارہ شدہ و حتی یکی از اعتقادات شیعہ معرفی شدہ است.<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، و ۱۹۶-۱۹۷.</ref> از [[امام رضا]] (ع) نقل شدہ است کہ مراد از مخلوق بودن بہشت، خلق تقدیری نیست، بلکہ بہشت وجود خارجی دارد و [[پیامبر(ص)]]، در [[معراج]]، بہشت واقعی را دیدہ است و بنابراین، نفی مخلوق بودن بہشت، بہ منزلہ دروغگو خواندن پیامبر است.<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۹.</ref> | مخلوق بودن و ہمچنین خلق بہشت پیش از وقوع قیامت، از جملہ موضوعہایی است کہ در احادیث معصومان بہ آنہا اشارہ شدہ و حتی یکی از اعتقادات شیعہ معرفی شدہ است.<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۴۶، و ۱۹۶-۱۹۷.</ref> از [[امام رضا]] (ع) نقل شدہ است کہ مراد از مخلوق بودن بہشت، خلق تقدیری نیست، بلکہ بہشت وجود خارجی دارد و [[پیامبر(ص)]]، در [[معراج]]، بہشت واقعی را دیدہ است و بنابراین، نفی مخلوق بودن بہشت، بہ منزلہ دروغگو خواندن پیامبر است.<ref>ر.ک: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۹.</ref> | ||