"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←کلامی دلائل
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←کلامی دلائل) |
||
سطر 72: | سطر 72: | ||
'''جسمانی بہشت کی تاویل "باطنیہ" کی نگاہ میں''' | '''جسمانی بہشت کی تاویل "باطنیہ" کی نگاہ میں''' | ||
[[ | مذہب [[باطنیہ]] اپنی فلسفی روش کی بنیاد پر بہشت کے جسمانی ہونے اور اس کی دوسری خصوصیات سے متعلق قرآنی مضامین کی تأویل کرتے ہیں اور ان مطالب کو اسرار و رموز قرار دیتے ہیں۔ [[ابوحامد محمد غزالی|غزالی]]<ref>غزالی، فضائح الباطنیہ، ۱۳۸۳ق، ص۴۴-۴۶، ۴۸-۵۴، ۶۱.</ref> نے ان پر صریح تنقید کرتے ہوئے اس طرح تفکر کے لازمی نتائج میں سے ایک کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کو جھٹالانا یا کم از کم صاحب شریعت کی مخالفت اور دین سے خارج ہونا قرار دیتے ہیں؛ خاص کر یہ کہ قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر بہشت اور عالم آخرت کے مختلف اوصاف بیان ہوئی ہیں۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۱، ذیل مدخل جنت.</ref> | ||
اعتقاد | بہشت کے موجود ہونے پر اعتقاد رکھنا، انہی خصوصیات کے ساتھ جن کی طرف قرآن کریم اور احادیث میں اشارہ ہوا ہے، دین [[اسلام]] کی ضروریات میں سے شمار کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ قرآن آیات کی اس طرح تأویل کرنا کہ جس سے بہشت کے جسمانی ہونے کا انکار لازم آئے، تو اسے دین اسلام سے انکار شمار کیا جاتا ہے۔<ref>رجوع کنید بہ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص ۹۱-۹۳.</ref> | ||
مسلمان متکلمین قرآنی آیات میں بہشت کے جسمانی ہونے جیسے موضوعات کی تاویل کرنے اور قرآن کریم کی تعبیر کو اسرار و رموز قرار دینے کو صرف اس صورت میں جائز قرار دیتے ہیں جہاں پر ان کی تأویل نہ کرنے سے عقلی طور پر تناقض وجود میں آجاتے ہوں۔<ref> قاضی عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسہ، ۱۴۲۲ق، ص ۴۹۹؛ غزالی، المضنون بہ علی غیراہلہ، ۱۴۱۷ق، ص۱۱۳؛ لاہیجی، گوہرمراد، ۱۳۸۳ش، ص ۶۶۱.</ref> [[سلیمان بن صالح غصن]]<ref>سلیمان بن صالح غصن، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۹۷۹-۱۹۸۹م، ج ۲، ص ۷۳۲.</ref> معتقد ہے کہ بہشت کا جسمانی ہونے جیسے موضوعات عقلاً قابل قبول ہیں اور نقلا بھی اس پر اجماع قائم ہے بنابراین اس کی نظرمیں ان کی تاویل آن کرنا اور جسمانی ہونے کی نفی کرنا امکان پذیر نہیں ہے۔<ref>حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ۱۳۸۶ش، ج ۱۱، ص ۱۲، ذیل مدخل جنت.</ref> | |||
==نعمتہا==<!-- | ==نعمتہا==<!-- |