مندرجات کا رخ کریں

"بہشت" کے نسخوں کے درمیان فرق

94 بائٹ کا اضافہ ،  26 جنوری 2017ء
م
سطر 34: سطر 34:
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


'''قرآن میں بہشت کے مختلف معانی اور تعابیریں'''
'''قرآن میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں'''


'''جنّات عدن‌'''، بہشت کا سب سے اعلی درجہ، خدا کے مقرب بندوں سے مختص بہشت، انبیاء، معصومین، [[شہید|شہداء]]، صالحین اور صدیقین کے مقام کو کہا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس قدر اعلی اور ارفع ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے اور نہ کسی دل میں خطور ہوا ہے۔<ref> طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سوریہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref> لیکن بعض مفسرین نے اس لفظ کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے جو جمع کے صیغے میں استعال ہوتا ہے،  لفظ "عَدْن" کو اقامتگاہ اور جنت کی عمومی صفت قرار دیا ہے۔<ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref>
'''جنّات عدن‌'''، بہشت کا سب سے اعلی درجہ، خدا کے مقرب بندوں سے مختص بہشت، انبیاء، معصومین، [[شہید|شہداء]]، صالحین اور صدیقین کے مقام کو کہا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس قدر اعلی اور ارفع ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے اور نہ کسی دل میں خطور ہوا ہے۔<ref> طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل سوریہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref> لیکن بعض مفسرین نے اس لفظ کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے جو جمع کے صیغے میں استعال ہوتا ہے،  لفظ "عَدْن" کو اقامتگاہ اور جنت کی عمومی صفت قرار دیا ہے۔<ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل سورہ توبہ، آیہ ۷۲.</ref>
سطر 42: سطر 42:
[[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ جنّۃ المأوی، جنّۃ النعیم، دارالخلد یا جنّۃ الخلد، دارالسّلام، جنّۃ الفردوس، جنّۃ عدْن اور دارالجلال جیسی تعبیریں خاص بہشت کی طرف اشارہ ہے۔<ref> قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج‌ ۲، ص ۱۷۵؛ بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۱۶۹، اس تفاوت کے ساتھ کہ دارالجلال کی بجای جنّہ النور آیا ہے۔</ref>
[[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ جنّۃ المأوی، جنّۃ النعیم، دارالخلد یا جنّۃ الخلد، دارالسّلام، جنّۃ الفردوس، جنّۃ عدْن اور دارالجلال جیسی تعبیریں خاص بہشت کی طرف اشارہ ہے۔<ref> قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ، ۱۴۱۰ق، ج‌ ۲، ص ۱۷۵؛ بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۱۶۹، اس تفاوت کے ساتھ کہ دارالجلال کی بجای جنّہ النور آیا ہے۔</ref>


[[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] [[بحارالانوار]] میں،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، «باب الجنۃ و نعیمہا»، صص ۷۱-۱۱۶.</ref> اپنی روش کے مطابق شروع میں جنت سے مربوط آیات (تقریبا ۲۷۵ آیت) کو سوروں کی ترتیب سے درج کرکے ان کی تفسیر کو عمدتا [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]]، [[فخر رازی]] اور [[بیضاوی]] سے نقل کیا ہے۔
[[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] [[بحارالانوار]] میں،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، «باب الجنۃ و نعیمہا»، صص ۷۱-۱۱۶.</ref> اپنی روش کے مطابق شروع میں جنت سے مربوط آیات (تقریبا ۲۷۵ آیت) کو سوروں کی ترتیب سے درج کرکے ان کی تفسیر کو عمدتا [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]]، [[فخر رازی]] اور [[بیضاوی]] سے نقل کیا ہے۔


'''احادیث میں بہشت کے مختلف معانی اور تعابیریں'''<!--
'''احادیث میں بہشت کے مختلف معانی اور تعبیریں'''
در برخی احادیث نقل شدہ از معصومان، اسامی بہشت در قرآن توضیح دادہ شدہ است؛ از جملہ:
معصومین سے منقول بعض احادیث میں قرآن میں آنے والے بہشت کے اسامی کی توضیح دی گئی ہے منجملہ یہ کہ:
#جنۃ المأوی، در حدیثی نبوی، نام رودی در بہشت معرفی شدہ و جنّت عدْن و جنّت فردوس، نام دو بہشت در میانہ دو بہشت دیگر دانستہ شدہ است.<ref>رجوع کنید بہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۷ و ۱۹۶.</ref>
#جنۃ المأوی، ایک حدیثی نبوی میں بہشت کے کسی نہر کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے اسی طرح جنّت عدْن اور جنّت فردوس، دو بہشت کے درمیان دو بہشت کے نام کے طور پر معرفی ہوا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۱۷ و ۱۹۶.</ref>
#در حدیثی از [[امام باقر (ع)]] آمدہ است کہ قرآن از چہار جنّت عَدْن، فردوس، نعیم، و مأوی نام بردہ کہ شمار زیادی بہشت، در اطراف این چہار مورد قرار گرفتہ است.<ref>رجوع کنید بہ بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۸۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۶۱.</ref>
#[[امام باقر (ع)]] سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن میں چار جنات: جنّت عَدْن، فردوس، نعیم، اور مأوی کا نام لیا گیا ہے جن کے اطراف میں دوسرے اکثر بہشت واقع ہیں۔<ref> بحرانی، معالم الزلفی فی معارف النشأہ الاولی و الاخری، ۱۳۸۲ش، ج ۳، ص ۸۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۸، ص ۱۶۱.</ref>
#در حدیثی کہ [[سعید بن جناح|سُعید بن جناح]] از امام باقر (ع) روایت کردہ، آیہ ۴۶ و ۶۲ [[سورہ الرحمن]]، شاہدی بر وجود چہار بہشت ذکر شدہ است؛ با این توضیح کہ دو بہشت ذکر شدہ در آیہ نخست، یکی حاصل ترک [[گناہ]] و دیگری ثمرہ «خدا را مراقب خویش دیدن» (خافَ مقامَ ربّہ) و برای مقربان است و دو بہشت ذکر شدہ در آیہ ۶۲ سورہ الرحمن (نعیم و مأوی) برای [[اصحاب یمین]] است و از حیث مزایا، نہ از لحاظ قرب، فرو‌تر است.<ref>رجوع کنید بہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۲۱۸ </ref>  
#[[سعید بن جناح|سُعید بن جناح]] نے امام باقر(ع) سے روایت کرنے والی حدیث میں [[سورہ الرحمن]] کی آیت نمبر 46 اور 62 کو چار بہشت کی موجودگی پر گواہ قرار دیا ہے؛ اس توضیح کے ساتھ کہ پہلی آیت میں مذکورہ دو بہشت میں سے ایک ترک [[گناہ]] کا صلہ اور دوسری "خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے" (خافَ مقامَ ربّہ) کے صلے میں خدا کے مقرب بندوں ملے گی جبکہ آیت ۶۲ میں مذکور جنت نعیم اور جنت مأوی [[اصحاب یمین]] کیلئے ہے جو مزایا اور رتبے میں دوسرے جنات سے بالاتر ہے نہ قربت کے لحاظ سے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۲۱۸ </ref>  
#در حدیث نقل شدہ از [[امام صادق (ع)]]، آیہ ۶۲ سورہ الرحمن، دلیل وجود بہشت‌ہای متعدد، و ہمچنین تعبیر «درجات»، حاکی از تفاوت مراتب اہل بہشت دانستہ شدہ است.<ref>رجوع کنید بہ طبرسی، ذیل رحمن: ۶۲؛ با اندکی تفاوت در مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۹۸.</ref>
#[[امام صادق (ع)]] سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ سورہ الرحمن کی آیت نمبر 62 متعدد بہشت کی موجودگی پر دلیل ہے اسی طرح "درجات" کی تعمبیر بہشت کے مراتب کے اختلاف پر دلیل ہے۔<ref> طبرسی، ذیل رحمن: ۶۲؛ با اندکی تفاوت در مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۹۸.</ref>
#بنابر مضمون برخی احادیث شیعہ و سنی، یکی از بہشت‌ہا را خدا بہ دست خود ساختہ و نہال درختانش را نشاندہ است؛ دیدنی‌ہای آن را ہیچ کس ندیدہ و ہیچ کس از نعمت‌ہای آن مطلع نیست. مفسران، آیہ ۱۷ سورہ سجدہ را اشارہ‌ای بہ این بہشت دانستہ‌اند. در حدیثی از امام صادق (ع)، ابتدا از «تجلی» خدا بر اہل بہشت سخن بہ میان آمدہ و در پایان، بہ این جنّت خاص اشارہ شدہ است.<ref>رجوع کنید بہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌۸، ص۱۲۶-۱۲۷.</ref> در بسیاری از آثار حدیثی شیعہ و اہل سنت، احادیثی مبنی بر وجود بہشتی کہ نعمت‌ہایی فراتر از تصور انسان دارد، ذکر شدہ است.<ref>برای نمونہ رجوع کنید بہ بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.</ref>
#فریقین کی بعض احادیث کے مطابق ان بہشتوں میں سے ایک کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس کے درختوں کو خدا نے خود لگایا ہے جسے نہ کسی نے دیکھا ہے اور نہ اس کی نعمتوں سے کوئی واقف ہے۔ مفسرین نے سورہ سجدہ کی آیت نمبر 17 کو اس بہشت کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں شروع میں اہل بہشت پر خدا کی "تجلی" اور آخر میں اس بہشت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‌۸، ص۱۲۶-۱۲۷.</ref> شیعہ اور اہل سنت مجامع حدیثی میں موجود بہت ساری احادیث میں انسان کی تصور سے بالاتر نعمات پر مشتمل بہشت کا تذکرہ ملتا ہے۔ <ref> بغوی، مصابیح السنۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۵۵۵؛ منذری، الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۵۰۲-۵۰۶؛ ابن قیم جوزیہ، حادی الارواح الی بلاد الافراح، ۱۴۰۹ق، ص ۳۰۸-۳۱۱، ۳۱۹-۳۲۵.</ref>


==اوصاف و ویژگی‌ہا==
==اوصاف اور خصوصیات==<!--
برخی از اوصاف بہشت، در قرآن کریم و روایات معصومین ذکر شدہ است. بہشت بر اساس قرآن، محل زندگی بعد از دنیای نیک‌بختان (الذین سُعِدوا)<ref>سورہ ہود، آیہ ۱۰۸.</ref> است؛ باغ یا باغ‌ہایی با درختان بسیار و سرسبز و سایہ‌گستر،<ref>سورہ رعد، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ الرحمن، آیہ ۴۸ و ۶۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۳۰؛ سورہ انسان، آیہ ۱۴.</ref> با نہرہای روان (بر اساس تعبیر «تجری مِنْ تحتہا الانہار»)،<ref>۳۵بار و برخی تعبیرات دیگر </ref> چشمہ‌ہای جوشان و جاری<ref>سورہ یس، آیہ ۳۴؛ سورہ ذاریات، آیہ ۱۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۰ و ۶۶؛ سورہ انسان، آیہ ۶ و ۱۸؛ سورہ مطففین، آیہ ۲۸.</ref> و سرشار از میوہ‌ہای مختلف،<ref>سورہ ص، آیہ ۵۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۷۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۵.</ref> و ہمچنین با دمایی معتدل.<ref>سورہ انسان، آیہ ۱۳؛ نیز رجوع کنید بہ تفاسیر، از جملہ طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی‌، مجمع البیان؛ فخر رازی‌، تفسیر کبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل ہمین آیہ.</ref>  
برخی از اوصاف بہشت، در قرآن کریم و روایات معصومین ذکر شدہ است. بہشت بر اساس قرآن، محل زندگی بعد از دنیای نیک‌بختان (الذین سُعِدوا)<ref>سورہ ہود، آیہ ۱۰۸.</ref> است؛ باغ یا باغ‌ہایی با درختان بسیار و سرسبز و سایہ‌گستر،<ref>سورہ رعد، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۵۶؛ سورہ الرحمن، آیہ ۴۸ و ۶۴؛ سورہ واقعہ، آیہ ۳۰؛ سورہ انسان، آیہ ۱۴.</ref> با نہرہای روان (بر اساس تعبیر «تجری مِنْ تحتہا الانہار»)،<ref>۳۵بار و برخی تعبیرات دیگر </ref> چشمہ‌ہای جوشان و جاری<ref>سورہ یس، آیہ ۳۴؛ سورہ ذاریات، آیہ ۱۵؛ سورہ الرحمن، آیہ ۵۰ و ۶۶؛ سورہ انسان، آیہ ۶ و ۱۸؛ سورہ مطففین، آیہ ۲۸.</ref> و سرشار از میوہ‌ہای مختلف،<ref>سورہ ص، آیہ ۵۱؛ سورہ زخرف، آیہ ۷۳؛ سورہ دخان، آیہ ۵۵.</ref> و ہمچنین با دمایی معتدل.<ref>سورہ انسان، آیہ ۱۳؛ نیز رجوع کنید بہ تفاسیر، از جملہ طبری‌، تفسیر طبری؛ طبرسی‌، مجمع البیان؛ فخر رازی‌، تفسیر کبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل ہمین آیہ.</ref>  


confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم