"حدیث من مات" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Mabbassi |
||
سطر 12: | سطر 12: | ||
علمائے [[اہل سنت]] مذکورہ حدیث کو صحیح<ref>ابونعیم اصفہانی، حليۃ الأولياء وطبقات الأصفياء،۱۳۹۴ق، ج۳، ص۲۲۴.</ref> اور حسن<ref>ابن ابی عاصم، کتاب السنہ، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.</ref> سمجھتے ہیں ۔ | علمائے [[اہل سنت]] مذکورہ حدیث کو صحیح<ref>ابونعیم اصفہانی، حليۃ الأولياء وطبقات الأصفياء،۱۳۹۴ق، ج۳، ص۲۲۴.</ref> اور حسن<ref>ابن ابی عاصم، کتاب السنہ، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.</ref> سمجھتے ہیں ۔ | ||
==معنائے | ==معنائے حدیث == | ||
[[شیعہ]] اور سنی علما نے اپنے اپنے کلامی عقائد کے مطابق اس [[حدیث]] سے استفادہ کیا اور اپنے نظریات کیلئے اس [[حدیث]] سے استناد کیا ہے۔ | [[شیعہ]] اور سنی علما نے اپنے اپنے کلامی عقائد کے مطابق اس [[حدیث]] سے استفادہ کیا اور اپنے نظریات کیلئے اس [[حدیث]] سے استناد کیا ہے۔ | ||
سطر 29: | سطر 29: | ||
البتہ [[اہل سنت]]، منابع نے اس [[حدیث]] میں امام کے لفظ کو [[پیغمبر]] کے معنا میں ذکر کیاہے اور وہ معتقد ہیں کہ انسان کو [[پیغمبر]] ایمان رکھنا چاہئے کیونکہ اس دنیا میں نبی ہی اہل زمین کا امام ہے <ref>ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۴۳۴.</ref> | البتہ [[اہل سنت]]، منابع نے اس [[حدیث]] میں امام کے لفظ کو [[پیغمبر]] کے معنا میں ذکر کیاہے اور وہ معتقد ہیں کہ انسان کو [[پیغمبر]] ایمان رکھنا چاہئے کیونکہ اس دنیا میں نبی ہی اہل زمین کا امام ہے <ref>ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۴۳۴.</ref> | ||
==حوالہ جات == | ==حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات|2}} | {{حوالہ جات|2}} | ||
==کتابیات== | ==کتابیات== |
نسخہ بمطابق 07:55، 13 جنوری 2017ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Mabbassi|imported>Mabbassi]] ([[Special:Contributions/imported>Mabbassi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Mabbassi|شراکت]]) نے 7 سال قبل کی۔ |
حدیث من مات رسول اللہ کی ایک معروف حدیث ہے کہ جس میں اپنے زمانے کے امام کی شناخت و پہچان کے بغیر مرنے کو جاہلیت کی موت کہا گیا ہے ۔یہ حدیث مختلف الفاط کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت مآخذوں میں نقل ہوئی ہے۔اہل شیعہ اس حدیث کو مسئلہ امامت سے متعلق سمجھتے ہیں اور قائل ہیں کہ اس کی رو سے امام کی شناخت اور اسکی اطاعت واجب اور ضروری ہے ۔ اہل سنت اس حدیث کو لوگوں کے حاکم اسلامی سے مرتبط اور اسکی بیعت کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں ۔
الفاظ حدیث
شیعہ مآخذ
روایات میں من مات کے الفاظ سے نقل ہوئی ہیں۔[1] اس (حدیث «من مات») سے رسول اللہ کی معروف حیدث:مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة جو شخص بھی اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر فوت ہوا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔[2]
ابن ابی یعفور نقل کرتا ہے : امام صادق(ع) سے پیغمبر اسلام کی روایت :مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِيتَتُهُ مِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ کے بارے میں سوال کیا :اس حدیث میں جاہلیت کی موت مرنے سے حالت کفر میں مرنا مراد ہے ؟ امام صادق(ع) نے فرمایا:حالت گمراہی میں مرنا مراد ہے ۔میں نے عرض کیا: جو بھی اس زمانے میں مر جائے اپنے پیشوا کو نہ جانتا ہو تو اسکی موت بھی جاہلیت کی ہو گی ؟ فرمایا: ہاں۔[3] بعض شیعہ علما اسے شیعہ اور سنی مآخذوں میں اسے متواتر مانتے ہیں ۔[4]
اہل سنت مآخذ
من مات کی حدیث اہل سنت مآخذوں میں کچھ اختلاف سے نقل ہوئی ہے ۔مثلا مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةًجو شخص امام کے بغیر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔[5] بعض مآخذوں میں اس طرح نقل ہوئی ہے:مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً جو شخص اپنا ہاتھ بیعت سے کھینچ لے وہ روز قیامت خدا کا سامنا کرے گا کہ جس کے پاس اپنے اس عمل پر کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جس شخص کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں ہو گی اور وہ مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔[6]
علمائے اہل سنت مذکورہ حدیث کو صحیح[7] اور حسن[8] سمجھتے ہیں ۔
معنائے حدیث
شیعہ اور سنی علما نے اپنے اپنے کلامی عقائد کے مطابق اس حدیث سے استفادہ کیا اور اپنے نظریات کیلئے اس حدیث سے استناد کیا ہے۔
شیعہ
شیعیان بحث امامت میں اس حدیث کو تمام زمانوں میں امام کے ضروری ہونے پر دلیل کے طور پر ذکر کرتے ہیں [9] اورامام کی پیروی اور اس کی پہچان کو ضروری سمجھتے ہیں۔[10] پس اس بنا بر اس روایت کی روشنی میں شیعہ اعتقادات کے مطابق اس روایت میں امام سے اہل بیت اور امام معصوم ہے اور موجودہ دور میں امام مہدی پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے ۔[11]
اہل سنت
اہل سنت حضرات اس حدیث سے ایک اور مراد ذکر کرتے ہیں:
صحیح مسلم میں یہ حدیث اس باب :بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر(فتنوں کے ظاہر ہونے کے وقت جماعت و اتفاق کے حفظ اور کفر کی دعوت دینے والوں سے اجتناب کا ضروری ہونا) کے ذیل میں مذکور ہے۔[12]اسی سے مسلم کے نزدیک اس کے معنی کو مشخص کیا جا سکتا ہے ۔دوسرے بعض مآخذوں میں اس حدیث کو ایک دوسری حدیث :من مات مفارقًا للجماعة مات ميتة جاهلية(جماعت سے جدائی کی حالت میں مرنے والا شخص جاہلیت کی موت مرا ہے)کے ہم معنا سمجھتے ہیں۔[13]
اہل سنت اس روایت میں امام سے مراد اسلامی حکومت کا حاکم سمجھتے ہیں کہ حفظ جماعت اور وحدت کی خاطر اس کی پیروی اور اتباع ضروری ہے [14]
یہ حاکم اسلامی کی پیروی کا ضروری ہونا تمام مسلمان حاکموں کو شامل ہے ۔کسی حاکم کا ظالم اور گناگار ہونا اس حاکم کی پیروی میں کسی قسم کا خلل ایجاد نہیں کرتا ہے ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی وضاحت میں یزید بن معاویہ کی صحابہ اور تابعین کی بیعت کی تبعیت کو استنباط کیا ہے :
(واقعہ حرہ کے بعد مدینے کے یزید بن معاویہ کے سخت ترین مخالف عبدالله بن مطیع نے مکہ فرار کیا تو عبد اللہ بن عمر اسکی ملاقات کیلئے گیا تو انکے درمیان یہ گفگتو ہوئی :ابن مطیع: ابن عمر کے ٹیک لگانے کیلئے تکیہ رکھو۔ ابن عمر:میں تیرے پاس بیٹھنے کیلئے نہیں آیا۔میں تمہیں رسول خدا کی حدیث سنانے آیا ہوں:جس شخص نے اپنے ہاتھ کو (حاکم کی)اطاعت سے کھینچ لیا وہ قیات کے روز اس حال میں خدا کے روبرو ہوگا کہ وہ اپنے اس عمل کی کوئی دلیل نہیں رکھتا ہوگا اور اسی طرح جو شخص کسی شخص کی بیعت کے بغیر اس دنیا سے چلا جائاے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔اس حدیث کو عبدالله بن عمر نے عبدالله بن مطیع کیلئے اسوقت بیان کی جب وہ یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑ چکا تھا جبکہ واقعہ حرہ میں یزید کے تحت فرمان لشکر ظلم اور ناشائستہ امور انجام دے چکا تھا ۔اس حدیث سے ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ حاکمان اسلامی کے مقابلے میں شمشیر سے قیام نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی ان حاکمان کی بیعت کے بغیر اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔[15]
البتہ اہل سنت، منابع نے اس حدیث میں امام کے لفظ کو پیغمبر کے معنا میں ذکر کیاہے اور وہ معتقد ہیں کہ انسان کو پیغمبر ایمان رکھنا چاہئے کیونکہ اس دنیا میں نبی ہی اہل زمین کا امام ہے [16]
حوالہ جات
- ↑ ر.ک: برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ق، ج۱، ص۸۸.
- ↑ سید بن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۵۲؛ ابن بابویہ، كمال الدين و تمام النعمہ، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۱۰
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۷۶
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۳۶۸.
- ↑ احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ق، ج۲۸، ص۸۸؛ ابو داوود، مسند، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۴۲۵؛ طبرانی، مسند الشامیین، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۴۳۷.
- ↑ مسلم، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۷۸.
- ↑ ابونعیم اصفہانی، حليۃ الأولياء وطبقات الأصفياء،۱۳۹۴ق، ج۳، ص۲۲۴.
- ↑ ابن ابی عاصم، کتاب السنہ، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.
- ↑ روض الجنان و روح الجنان في تفسيرالقرآن، ج ۴، ص ۱۷۳
- ↑ ملاصدرا، شرح أصول الكافي، ۱۳۸۳ش، ج ۲، ص ۴۷۴.
- ↑ مجلسی، مرآه العقول، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۷.
- ↑ مسلم، صحیح مسلم، ج ۳، ص ۱۴۷۵ق.
- ↑ الحلیمی، منہاج فی شعب الایمان، ۱۳۹۵ق، ج۳، ص۱۸۱.
- ↑ صہیب عبدالجبار، تعلیقہ الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، ۲۰۱۴م، ج۴، ص۲۳۴.
- ↑ ابن تیمیہ، مختصر منہاج السنہ، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۴۹.
- ↑ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۴۳۴.