مندرجات کا رخ کریں

"فطرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

20,670 بائٹ کا ازالہ ،  7 اپريل 2023ء
ویرایش اساسی
(ویرایش اساسی)
سطر 9: سطر 9:


==فطرہ کے معانی اور اس کی اہمیت==
==فطرہ کے معانی اور اس کی اہمیت==
فطرہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو [[عید فطر]] کے دن فقیروں کو دینا یا دیگر امور میں خرچ کرنا واجب ہے۔<ref>مروج، اصطلاحات فقهی، ۱۳۷۹ش، ص۲۵۷.</ref>
فطرہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو [[عید فطر]] کے دن فقیروں کو دینا یا دیگر امور میں خرچ کرنا واجب ہے۔<ref>مروج، اصطلاحات فقہی، 1379شمسی، ص257.</ref>
اسلامی احادیث میں فطرہ کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ احادیث کی روشنی میں فطرہ زورہ کامل ہونے کا باعث بنتا ہے<ref>صدوق، من لایحضره الفقیه، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۳.</ref> اور اسے نہ دینا موت کا باعث بن سکتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۷، ص۶۶۸.</ref>
اسلامی احادیث میں فطرہ کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ احادیث کی روشنی میں فطرہ زورہ کامل ہونے کا باعث بنتا ہے<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص183.</ref> اور اسے نہ دینا موت کا باعث بن سکتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1429ھ، ج7، ص668.</ref>
 
زکات فطرہ کو فطریہ<ref>ملاحظہ کریں:مؤسسه دایرةالمعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۲ش، ج۴، ص۲۵۹؛ جعفرپیشه فرد، درآمدی بر فقه مقارن، ۱۳۸۸ش، ص۴۴۳.</ref> اور فطرہ<ref>مرعی، القاموس الفقهی، ۱۴۱۳ق، ص۱۵۹؛ سرور، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیه و الدینیه، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۲۰۶؛ شبیری زنجانی، رساله توضیح‌المسائل، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۴؛  سیستانی، توضیح‌المسائل، ۱۳۹۳ق، ص۳۶۹.</ref> بھی کہا جاتا ہے۔


زکات فطرہ کو فطریہ<ref>ملاحظہ کریں:مؤسسہ دایرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1392شمسی، ج4، ص259؛ جعفرپیشہ فرد، درآمدی بر فقہ مقارن، 1388شمسی، ص443.</ref> اور فطرہ<ref>مرعی، القاموس الفقہی، 1413ھ، ص159؛ سرور، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیہ و الدینیہ، 1429ھ، ج1، ص206؛ شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1388شمسی، ص414؛  سیستانی، توضیح‌المسائل، 1393ھ، ص369.</ref> بھی کہا جاتا ہے۔


==فطرہ کی مقدار، جنس اور واجب ہونے کے شرایط==
==فطرہ کی مقدار، جنس اور واجب ہونے کے شرایط==
فقہا کے فتوے کے مطابق فطرہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو بالغ، عاقل اور ہوش میں ہو، نیز [[فقیر]] یا غلام نہ ہو۔<ref>ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۱۵۸؛ یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۳۵۳-۳۵۴.</ref> العروۃ الوثقی کے مؤلف اور شیعہ فقیہ سید محمد کاظم یزدی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں مسلم علما کا اجماع ہے۔<ref>یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۳۵۳.</ref>
فقہا کے فتوے کے مطابق فطرہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو بالغ، عاقل اور ہوش میں ہو، نیز [[فقیر]] یا غلام نہ ہو۔<ref>ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص158؛ یزدی، العروة الوثقی، 1409ھ، ج2، ص353-354.</ref> العروۃ الوثقی کے مؤلف اور شیعہ فقیہ سید محمد کاظم یزدی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں مسلم علما کا اجماع ہے۔<ref>یزدی، العروة الوثقی، 1409ھ، ج2، ص353.</ref>


ایسا شخص اپنا اور ہر اس شخص کا جو اس کی کفالت میں آتا ہے، ایک «صاع» (تقریباً تین کلو) گندم، جو، خرما، كشمش، چاول، مکئی یا ان جیسے دیگر غلات یا ان کی قیمت کسی مستحق کو ادا کرے۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۶۹.</ref>
ایسا شخص اپنا اور ہر اس شخص کا جو اس کی کفالت میں آتا ہے، ایک «صاع» (تقریباً تین کلو) گندم، جو، خرما، كشمش، چاول، مکئی یا ان جیسے دیگر غلات یا ان کی قیمت کسی مستحق کو ادا کرے۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص169.</ref>


ان غلات میں سے کس کو فطرہ کے طور پر دیا جائے اس میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ فرہنگ فقہ نامی کتاب میں متاخر فقہا کا مشہور فتوا یہ ہے کہ اس غلہ کو یا اس کی قیمت کو فطرہ کے طور پر نکالے جو سال بھر میں اس شہر کی اکثریتی خوارک («قُوت غالب») سمجھی جاتی ہو؛ یعنی جہاں یہ شخص رہ رہا ہے وہاں کی رائج خوراک ہو۔<ref>مؤسسه دایرةالمعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه، ۱۳۹۲ش، ج۶، ص۶۸۹.</ref> فقہا میں سے [[سید علی حسینی سیستانی|سیستانی]] اور [[لطف‌الله صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] کی یہی رائے ہے؛ لیکن [[سید علی حسینی خامنہ ای|خامنہ ای]]، [[ناصر مکارم شیرازی|مکارم شیرازی]] اور [[حسین نوری همدانی|نوری همدانی]] کا کہنا ہے کہ مذکورہ غلات میں سے کسی ایک کو فطرہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے۔<ref>[https://noo.rs/JAN3f وبگاه حوزه‌نت، «عید فطر و احکام فطریه».]</ref>
مذکورہ غلات میں سے کس کو فطرہ کے طور پر دیا جائے اس میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ فرہنگ فقہ نامی کتاب میں متاخر فقہا کا مشہور فتوا یہ ہے کہ اس غلہ کو یا اس کی قیمت کو فطرہ کے طور پر نکالے جو سال بھر میں اس شہر کی اکثریتی خوارک («قُوت غالب») سمجھی جاتی ہو؛ یعنی جہاں یہ شخص رہ رہا ہے وہاں کی رائج خوراک ہو۔<ref>مؤسسہ دایرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1392شمسی، ج6، ص689.</ref> فقہا میں سے [[سید علی حسینی سیستانی|سیستانی]] اور [[لطف‌اللہ صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] کی یہی رائے ہے؛ لیکن [[سید علی حسینی خامنہ ای|خامنہ ای]]، [[ناصر مکارم شیرازی|مکارم شیرازی]] اور [[حسین نوری ہمدانی|نوری ہمدانی]] کا کہنا ہے کہ مذکورہ غلات میں سے کسی ایک کو فطرہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے۔<ref>[https://noo.rs/JAN3f وبگاہ حوزہ‌نت، «عید فطر و احکام فطریہ».]</ref>


==فطرہ ادا کرنے کا وقت==
==فطرہ ادا کرنے کا وقت==
* متأخرین میں سے مشہور کا قول ہے کہ زکات فطرہ [[ماہ رمضان]] کی آخری تاریخ کو مغرب کے وقت واجب ہوتی ہے۔ بعض نے فطرہ کے وجوب کے وقت کو عید کے دن فجر تک ذکر کیا ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۲۷؛ یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۲۲</ref> فطرہ کی ادائیگی کے آخری وقت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض اسے [[نماز عید]] کی ادائیگی کے وقت جبکہ بعض عید کے دن زوال اور بعض اسے اسی روز مغرب تک ذکر کرتے ہیں.<ref>بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج ۱۲، ص۳۰۱.</ref>
مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق فطرہ کی ادائیگی کا وقت [[عید فطر]] کے دن ظہر تک ہے؛<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص180.</ref> لیکن [[سید موسی شبیری زنجانی|شبیری زنجانی]] کے فتوے کے مطابق عید کے پورے دن میں کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے۔<ref>شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1388شمسی، ص418.</ref> البتہ جو شخص عید کی نماز پڑھتا ہے وہ عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کرے یا بعض فقہا کے فتوے کے مطابق نماز سے پہلے فطرہ کو الگ کر دے۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص180.</ref>  
* ماہ رمضان میں چاند رات سے پہلے فطرہ کی ادائیگی کے جواز میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ جائز ہونے کی صورت میں ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی جائز ہو گی۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۲۹.</ref>
* اگر کوئی شخص مقرره مدت میں فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں اگر قصد قربت کے ساتھ اپنے مال سے اسے الگ کر کے رکھا ہو تو اسی کو فطرہ کے طور پر ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر اس نے الگ نہ کیا ہو تو آیا زکات اس کے گردن سے ساقط ہو گی یا نہیں اور اگر اس سے ساقط نہ ہونے کی صورت میں فطرہ کو ادا کی نیت سے ادا کرنا چاہئے یا قضا کی نیت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۴ ـ ۵۳۶.</ref>
* اگر فطرہ کو اپنے مال سے الگ رکھا ہو اور ادائیگی کی امکان کے باوجود ادا نہ کی گئی ہو تو شخص اس کا ضامن ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۸</ref>
 
مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق فطرہ کی ادائیگی کا وقت [[عید فطر]] کے دن ظہر تک ہے؛<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۸۰.</ref> لیکن [[سید موسی شبیری زنجانی|شبیری زنجانی]] کے فتوے کے مطابق عید کے پورے دن میں کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے۔<ref>شبیری زنجانی، رساله توضیح‌المسائل، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۸.</ref> البتہ جو شخص عید کی نماز پڑھتا ہے وہ عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کرے یا بعض فقہا کے فتوے کے مطابق نماز سے پہلے فطرہ کو الگ کر دے۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۸۰.</ref>
 
[[محمد حسن نجفی|صاحب جواهر]] کا کہنا ہے کہ مشہور فقہا کے کلمات کے مطابق فطرہ رمضان کے آخری دن غروب کے وقت واجب ہوتا ہے،<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۵، ص۵۲۷.</ref> جبکہ بعض فقہا کے مطابق فطرہ عید کے دن طلوعِ فجر کے واجب ہوتا ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۵، ص۵۲۷.</ref> صاجب جواہر کا کہنا ہے کہ شاید ان لوگوں کا مراد فطرہ کا وجوب نہ ہو بلکہ فطرہ الگ کرنے کا وقت مراد ہو۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۵، ص۵۲۷.</ref> مجتہدوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ  فطرہ کو [[رمضان|رمضان المبارک]] سے پہلے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ [[سید روح‌ اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] اور [[ناصر مکارم شیرازی|مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ [[احتیاط واجب]] یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں بھی نہیں دے سکتے ہیں؛ لیکن [[سید علی حسینی سیستانی|سیستانی]]، [[سید ابوالقاسم خویی|خوئی]]، [[میرزا جواد تبریزی|تبریزی]] اور شبیری زنجانی جائز سمجھتے ہیں؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں نہ دیا جائے۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۸۰.</ref>
 
 
 
فطرہ کے کئی معنی ہیں:
 
* خلقت کے معنی میں: یعنی کسی مخلوق کی شکل و صورت جسے خدا نے اسے دی ہو، اس معنی کے اعتبار سے زکات فطرہ سے مراد خلقت کی زکات ہوگی اسی وجہ سے زکات فطرہ کو زکات بدن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زکات فطرہ انسان کے جسم کا مختلف آفتوں اور مصیبتوں سے بچنے کا سبب ہوتا ہے۔
 
* [[اسلام]] کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد زکات اسلام ہوگی۔ یہاں اسلام اور زکات فطرہ کے درمیان جو نسبت  ہے وہ یہ ہے کہ زکات فطرہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔
 
* روزہ کے مقابلے میں افطار کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد روزہ کھولنے کی زکات ہوگی۔<ref>عاملی، مدارک الأحکام، ج۵، ص۳۰۷؛ انصاری، کتاب الزکاة، ص۳۹۷.</ref>
 
==احادیث کی روشنی میں==
*[[امام صادقؑ]] سے اس آیت {{قرآن کا متن|قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ|ترجمہ=وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔}}<ref>اعلی، ۱۴</ref> کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے فطرہ ادا کی ہو"۔  کہا گیا: پھر {{قرآن کا متن|وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ|ترجمہ=اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔}}<ref>اعلی، ۱۵</ref> سے کیا مراد ہے تو فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے صحرا میں جا کر نماز عید ادا کی۔"<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۵۱۰.</ref>
* امام صادقؑ فرماتے ہیں: روزے کا کمال زکات فطرہ کی ادائیگی میں ہے۔ جس طرح نماز کا کمال [[پیغمبر اکرمؐ]] اور آپ کی آل پر [[صلوات]] بھیجنے میں ہے۔ کیونکہ جس نے [[روزہ]] رکھا لیکن عمدا فطرہ ادا نہ کیا تو گویا اس نے روزہ رکھا ہی نہیں اسی طرح جس نے نماز ادا کی لیکن پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے کو ترک کیا تو گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ خداوند متعال نماز سے پہلے زکات ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں : {{قرآن کا متن|قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ|ترجمہ=وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔ (14) اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔}}<ref>اعلی: ۱۴-۱۵.، صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۸۳.</ref>
* [[امام علیؑ]] فرماتے ہیں: "جو بھی فطرہ ادا کرتا ہے خداوند عالم اس کے ذریعے اس کے مال میں سے زکات کی کمی رہ گئی ہے اسے پورا کرتا ہے۔<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۸۳.</ref>
* [[امام صادقؑ]] نے فرمایا: جس نے بھی اپنا روزہ کسی اچھی بات یا اچھے کام سے اختتام کو پہنچایا، خدا اس کا روزہ قبول کرتا ہے۔ لوگوں نے سوال کیا فرزند رسولؐ، اچھی بات سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اور اچھے کام سے مراد فطرہ کی ادائیگی ہے۔"<ref>صدوق، التوحید، ص۲۲.</ref>
*امام صادقؑ نے اپنے وکیل متعب سے فرمایا: "جاؤ جن جن کے اخراجات ہمارے ذمہ ہے ان سب کا فطرہ ادا کرو اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑو۔ کیونکہ اگر کسی کو چھوڑا یا فراموش کیا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ فوت ہو جائے"  معتب نے سوال کیا: فوت سے کیا مراد ہے؟ (عربی میں فوت کا ایک معنی مفقود ہونا بھی ہے شاید راوی نے اس لئے یہ سوال کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ فوت سے مراد کیا ہے) تو امام نے فرمایا: "موت"۔ <ref>کلینی، الکافی، ج۷، ص۶۶۸.</ref>


== حکم==
[[محمد حسن نجفی|صاحب جواہر]] کا کہنا ہے کہ مشہور فقہا کے کلمات کے مطابق فطرہ رمضان کے آخری دن غروب کے وقت واجب ہوتا ہے،<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج15، ص527.</ref> جبکہ بعض فقہا کے مطابق فطرہ عید کے دن طلوعِ فجر کے واجب ہوتا ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج15، ص527.</ref> صاجب جواہر کا کہنا ہے کہ شاید ان لوگوں کا مراد فطرہ کا وجوب نہ ہو بلکہ فطرہ الگ کرنے کا وقت مراد ہو۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج15، ص527.</ref> مجتہدوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ  فطرہ کو [[رمضان|رمضان المبارک]] سے پہلے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ [[سید روح‌ اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] اور [[ناصر مکارم شیرازی|مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ [[احتیاط واجب]] یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں بھی نہیں دے سکتے ہیں؛ لیکن [[سید علی حسینی سیستانی|سیستانی]]، [[سید ابوالقاسم خویی|خوئی]]، [[میرزا جواد تبریزی|تبریزی]] اور شبیری زنجانی جائز سمجھتے ہیں؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں نہ دیا جائے۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص180.</ref>


زکات فطرہ ایک [[واجب]] عبادت ہے اس لئے اس کی ادائیگی میں قصد قربت شرط ہے۔<ref>یزدی، العروۃ الوثقی، ج۴، ص۲۰۴.</ref>
== مصرف کے موارد==
امام خمینی، بہجت اور شبیری زنجانی جیسے بعض فقہا نے فطرہ کے مَصرَف کے موارد کو زکات کے وہی آٹھ موارد ذکر کیا ہے<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص176-177.</ref> جو مندرجہ ذیل ہیں:


==واجب ہونے کی شرائط==
1. فقیر، 2. مسكين، 3.  زکوٰۃ كی جمع آوری كرنے والے، 4. وہ کافر جسے زکوٰۃ دینے سے اسلام قبول کرتا ہے یا جنگ میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے، 5. غلاموں کو خریدنا اور انہیں آزاد کرنا، 6. وہ مقروض شخص جو قرض ادا نہیں کرسکتا ہے، 7. ان دینی کاموں کے لئے جو عام لوگوں کے نفع میں ہیں؛ جیسے مسجد اور پل وغیرہ، 8. وہ مسافر جو سفر میں محتاج ہوگیا ہو۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص140.</ref>


# بلوغ اور عقل: پس زکات فطرہ (نابالغ اور دیوانہ) سے ساقط ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۲۷۹</ref>
لیکن حسینی سیستانی، [[سید محمدرضا گلپایگانی|گلپایگانی]]، [[لطف‌اللہ صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] اور مکارم شیرازی جیسے بعض فقہا احتیاط واجب کی بنا پر فقیر کا شیعہ ہونا شرط سمجھتے ہیں۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص177.</ref> البتہ فقہا کا پہلا گروہ بھی اسی کو [[احتیاط مستحب]] قرار دیتے ہیں۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص176-177.</ref>
# ہوش میں ہو: جو شخص [[ماہ رمضان]] کی آخری تاریخ کو بے ہوشی کی حالت میں ہو تو اس پر زکات فطرہ [[واجب]] نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۸۵.</ref>
# بی‌نیازی: فقیر پر زکات فطرہ واجب ہے۔ مشہور قول کی بنا پر فقیر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ابھی یا مستقبل میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کا خرچہ نہ ہو۔ یعنی ابھی کو مال موجود بھی نہیں ہے یا کوئی ایسا شغل بھی نہیں ہے جس سے وہ اپنا خرچہ پورا کر سکے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۸۸ ـ ۴۹۰</ref> گذشتہ بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ: فقیر وہ شخص ہے جو [[زکات]] کے کسی ایک نصاب یا اس کی قیمت کا مالک نہ ہو۔ <ref>الخلاف، ج ۲، ص۱۴۶.</ref> بعض فقہاء سے منقول ہے کہ جس شخص کے پاس فقط ایک دن اور رات کا خرچہ ہو تو اس پر بھی زکات واجب ہے۔<ref>مختلف الشیعۃ، ج ۳، ص۲۶۱</ref> البتہ فقیر پر بھی فطرہ کے مستحب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور کم از کم یہ کہ ایک صاع(تقریبا تین کلو گرام) گندم یا دوسری اشیاء جو وہ فطرہ کے طور پر دینا چاہتا ہے، کو اپنے اہل خانہ کے ایک فرد کے ہاتھ میں دے اور وہ دوسرے کو اسی طرح پورا اہل خانہ آخر میں اسے فطرہ کے عنوان سے اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور فقیر کو دے دے۔ <ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۹۲.</ref>
* اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ زکات فطرہ [[واجب]] ہونے کیلئے علاوہ بر مخارج سال خود فطرہ کا بھی مالک ہونا شرط ہے یا نہیں؟۔ اس صورت میں اگر اسے بھی شرط قرار دے تو جس کے پاس پورے ایک سال کے خرچے کی علاوہ فطرہ کی مقدار کا بھی مالک نہ ہو تو یعنی سال کے اخراجات کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔
* تعض فقہاء غنی بالفعل اور غنی بالقوھ یعنی ابھی اخراجات اس کے پاس ہونے اور کسی شغل کے ذریعے رفتہ رفتہ اخراجات کے حاصل ہونے میں فرق کے قائل ہوئے ہیں اس وقت دوسری صورت میں یہ شرط رکھی ہے کہ سال کے اخراجات سے ہٹ کر زکات فطرہ کا بھی مالک ہو۔<ref>حکیم، مستمسک العروۃ، ص۹، ص۳۹۰ ـ ۳۹۲.</ref>
* فطرہ واجب ہونے کے لئے عید کی رات مغرب تک شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ بنابراین اگر کوئی عید کی رات مغرب سے پہلے تک تو شرائط رکھتا ہو لیکن مغرب کے دوران اس میں شرائط مفقود ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔ ہاں اگر عید کی رات مغرب سے عید کی صبح نماز عید تک شرائط محقق ہو جائے مثلا اس دوران کوئی نابالغ، بالغ ہو جائے تو اس پر فطرہ ادا کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۹۹</ref>
* بعض معاصرین کہتے ہیں: اگر عید کی رات مغرب سے عید کے صبح نماز عید تک شرائط متحقق ہو جائے تو فطرہ بنابر احتیاط واجب ہے۔<ref>منہاج الصالحین (خویی)، ج ۱، ص۳۲۰</ref> بعض دیگر کہتے ہیں: عید کی رات مغرب کے وقت شرائط کا موجود ہونا کافی ہے اس سے پہلے شرائط کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے.<ref>یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۰۵ ـ ۲۰۶.</ref>


==وہ افراد جن پر فطرہ واجب ہے==
جو بھی [[عید فطر|عید الفطر]] کی رات غروب کے وقت کسی شخص کے ہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ وہ شخص ان کا فطرہ دے، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے [[مسلمان]] ہوں یا [[کافر]] اگر اس شخص میں فطرہ کے واجب ہونے کے شرائط ہوں میں اس پر ان سب کا فطرہ واجب ہے۔<ref>حکیم، مستمسک العروۃ، ج ۹، ص۳۹۶ ـ ۳۹۷.</ref>
آیا بیوی کا فطرہ اس کے شوہر پر اسی طرح غلام کا فطرہ اس کے آقا پر ہر صورت میں واجب ہے اگرچہ یہ اس کے عیال میں شامل نہ ہوتے ہوں؟ یا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ یہ ان کے عیال میں شامل ہوتا ہو؟ یا ان کا نفقہ ان پر واجب ہونے کی صورت میں واجب ہے؟ فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۰۲ ـ ۵۰۴</ref> البتہ اختلاف صرف اس صورت میں ہے کہ زوجہ اور غلام کسی اور کا عیال شمار نہ ہوتے ہوں ورنہ اگر یہ دونوں کسی اور کے عیال میں شمار ہوتے ہوں تو شوہر اور مالک سے ان کا فطرہ ساقط ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۰۴.</ref>
جس شخص کا فطرہ کسی اور پر واجب ہے خود اس کے اوپر اس کا فطرہ واجب نہیں<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۰۵</ref> اگرچہ وہ اسکا فطرہ ادا نہ بھی کرے . لیکن اس صورت میں کہ معیل(وہ شخص جو گھر کا ذمہ دارہے) فقیر ہو جبکہ عیال غنی ہو تو اس صورت میں عیال کے اوپر اپنی طرف سے اپنا فطرہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں؟ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ <ref>یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۰۹.</ref>
===مہمان کا فطرہ===
==مہمان کا فطرہ==
==مہمان کا فطرہ==
فقہا کے فتوا کے مطابق ایسا مہمان جو شب عید فطر کے غروب سے پہلے میزان کے گھر آجائے اور وہ میزبان کی زیر کفالت (نان خور) شمار ہوتا ہو تو اس کا فطرہ میزبان پر [[واجب]] ہے۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۷۱.</ref> لیکن نان خور کسے کہا جاتا ہے اس میں فتوئے مختلف ہیں:
فقہا کے فتوا کے مطابق ایسا مہمان جو شب عید فطر کے غروب سے پہلے میزان کے گھر آجائے اور وہ میزبان کی زیر کفالت (نان خور) شمار ہوتا ہو تو اس کا فطرہ میزبان پر [[واجب]] ہے۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص171.</ref> لیکن نان خور کسے کہا جاتا ہے اس میں فتوئے مختلف ہیں:
 
بہجت ایک رات کے مہمان کو بھی نان خور سمجھتے ہیں۔<ref>سیستانی، توضیح‌المسائل، ۱۳۹۳ق، ص۳۶۹؛ بهجت، رساله توضیح‌المسائل، ۱۳۸۶ش، ص۳۰۵.</ref> جبکہ حسینی سیستانی،<ref>[https://www.sistani.org/urdu/qa/01854/ سوال نمبر ۶. سوال و جواب فطره]</ref> شبیری زنجانی، فاضل لنکرانی و مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ صرف ایک افطاری سے کوئی شخص میزبان کی عیال اور نان خور(کفالت) شمار نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ میزبان کے ہاں کچھ عرصہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔<ref>شبیری زنجانی، رساله توضیح‌المسائل، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۳؛ فاضل لنکرانی، رساله توضیح‌المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۳۳۱؛مکارم شیرازی، رساله توضیح‌المسائل، ۱۳۸۴ش، ص۳۱۴.</ref>
 
==جنس اور مقدار==
زکات فطرہ کے جنس کے بارے میں فقہاء کے کلمات مختلف ہیں۔ بعض فقط گندم، جو، خرما اور کشمش کو ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات مذکورہ اشیاء کے علاوہ مکئی اور خشک دھی کو بھی ذکر کرتے ہیں۔ ایک تیسرا گروہ مذکورہ اشیاء پر دودھ کو جبکہ چوتھا گروہ چاول کو بھی اضافہ کرتے ہیں۔
 
متاخرین میں سے مشہور علماء زکات فطرہ کی جنس کو عرف عام میں غالبا اور اکثرا استعمال ہونے والی چیز کو قرار دیتے ہیں۔<ref>بحرانی، الحدائق الناضرة، ج ۱۲، ص۲۷۹؛ نراقی، مستند الشیعۃ، ج ۹، ص۴۰۵ ـ ۴۰۶؛ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۱۴ ـ ۵۱۸</ref>
 
زکات فطره میں مذکورہ اشیاء کی قیمت کی ادائیگی بھی کافی ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۱۸</ref>
 
زکات فطرہ کی مقدار ہر شخص کے مقابلے میں دودھ کے علاوہ باقی اشیاء میں ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) ہے۔ جبکہ دودھ میں اس کی مقدار کو بعض نے چار رطل ذکر کیا ہے اگرچہ مشہور دودھ میں بھی باقی اشیاء کی طرح ایک صاع ذکر کرتے ہیں۔ قول اول کی بنا پر رطل سے مراد "رطل عراقی" ہے یا "رطل مدنی" علماء کے درمیان اختلاف ہے۔<ref>خویی، موسوعۃ الخوئی، ج ۲۴، ص۴۵۳</ref>
 
==زمان وجوب==
* متأخرین میں سے مشہور کا قول ہے کہ زکات فطرہ [[ماہ رمضان]] کی آخری تاریخ کو مغرب کے وقت واجب ہوتی ہے۔ بعض نے فطرہ کے وجوب کے وقت کو عید کے دن فجر تک ذکر کیا ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۲۷؛ یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۲۲</ref> فطرہ کی ادائیگی کے آخری وقت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض اسے [[نماز عید]] کی ادائیگی کے وقت جبکہ بعض عید کے دن زوال اور بعض اسے اسی روز مغرب تک ذکر کرتے ہیں.<ref>بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج ۱۲، ص۳۰۱.</ref>
* ماہ رمضان میں چاند رات سے پہلے فطرہ کی ادائیگی کے جواز میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ جائز ہونے کی صورت میں ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی جائز ہو گی۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۲۹.</ref>
* اگر کوئی شخص مقرره مدت میں فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں اگر قصد قربت کے ساتھ اپنے مال سے اسے الگ کر کے رکھا ہو تو اسی کو فطرہ کے طور پر ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر اس نے الگ نہ کیا ہو تو آیا زکات اس کے گردن سے ساقط ہو گی یا نہیں اور اگر اس سے ساقط نہ ہونے کی صورت میں فطرہ کو ادا کی نیت سے ادا کرنا چاہئے یا قضا کی نیت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۴ ـ ۵۳۶.</ref>
* اگر فطرہ کو اپنے مال سے الگ رکھا ہو اور ادائیگی کی امکان کے باوجود ادا نہ کی گئی ہو تو شخص اس کا ضامن ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۸</ref>
 
== مصرف==
==موارد مصرف==
امام خمینی، بهجت اور شبیری زنجانی جیسے بعض فقہا نے فطرہ کے مَصرَف کے موارد کو زکات کے وہی آٹھ موارد ذکر کیا ہے<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۷۶-۱۷۷.</ref> جو مندرجہ ذیل ہیں:
 
۱. فقیر، ۲. مسكين، ۳.  زکوٰۃ كی جمع آوری كرنے والے، ۴. وہ کافر جسے زکوٰۃ دینے سے اسلام قبول کرتا ہے یا جنگ میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے، ۵. غلاموں کو خریدنا اور انہیں آزاد کرنا، ۶. وہ مقروض شخص جو قرض ادا نہیں کرسکتا ہے، ۷. ان دینی کاموں کے لئے جو عام لوگوں کے نفع میں ہیں؛ جیسے مسجد اور پل وغیرہ، ۸. وہ مسافر جو سفر میں محتاج ہوگیا ہو۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۴۰.</ref>
 
لیکن حسینی سیستانی، [[سید محمدرضا گلپایگانی|گلپایگانی]]، [[لطف‌الله صافی گلپایگانی|صافی گلپایگانی]] اور مکارم شیرازی جیسے بعض فقہا احتیاط واجب کی بنا پر فقیر کا شیعہ ہونا شرط سمجھتے ہیں۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۷۷.</ref> البتہ فقہا کا پہلا گروہ بھی اسی کو [[احتیاط مستحب]] قرار دیتے ہیں۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۷۶-۱۷۷.</ref>
 


* فقہاء کے درمیان مشہور قول کی بنا پر زکات فطرہ کا مصرف وہی زکات مال کا مصرف ہے۔<ref>نجفی، جواiر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۸</ref>
بہجت ایک رات کے مہمان کو بھی نان خور سمجھتے ہیں۔<ref>سیستانی، توضیح‌المسائل، 1393ھ، ص369؛ بہجت، رسالہ توضیح‌المسائل، 1386شمسی، ص305.</ref> جبکہ حسینی سیستانی،<ref>[https://www.sistani.org/urdu/qa/01854/ سوال نمبر 6. سوال و جواب فطرہ]</ref> شبیری زنجانی، فاضل لنکرانی و مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ صرف ایک افطاری سے کوئی شخص میزبان کی عیال اور نان خور(کفالت) شمار نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ میزبان کے ہاں کچھ عرصہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔<ref>شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1388شمسی، ص413؛ فاضل لنکرانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1426ھ، ص331؛مکارم شیرازی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1384شمسی، ص314.</ref>
* بعض قدماء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات فطرہ فقط فقراء کے ساتھ مختص ہے۔<ref>المقنعۃ، ص۲۵۲</ref> بعض معاصرین بھی زکات فطرہ کو فقط فقیروں کے ساتھ مختص ہونے کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔<ref>یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۲۵</ref>
* فقہاء کے ایک گروہ کے مطابق مؤمن([[شیعہ]]) فقیر نہ  ہونے کی صورت میس فطرہ سنی مستحق کو دینا جائز ہے۔<ref>طوسی، النہایۃ، ص۱۹۲؛ حلی، الجامع للشرائع، ص۱۴۰ ؛ عاملی، شرائع الإسلام، ج ۱، ص۱۳۱ ـ ۱۳۲.</ref>
* مالک فطرہ کو براہ راست مستحق کو ادا کر سکتا ہے اگرچہ امام یا نائب امام کو دینا افضل ہے۔<ref>حائری، ریاض المسائل، ج ۵، ص۲۲۱ ـ ۲۲۰.</ref>
* قول مشہور کی بنا پر کسی پ فقیر کو ایک صاع سے کم مقدار میں زکات کے عنوان سے دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ فقراء بہت زیادہ ہوں اور سب کو ایک ایک صاع دینا ممکن نہ ہو اس صورت میں بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ ایک فقیر کو ایک صاع سے کم بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک صاع سے زیادہ دینا یہاں تک کہ اس کا فقر دور ہو جائے جائز ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۴۱ ـ ۵۴۲؛ حکیم، مستمسک العروۃ، ج ۹، ص۴۳۸ ـ ۴۳۹</ref>
* [[مستحب]] ہے پہلے اپنے رشتہ دار فقراء کو فطرہ دی جائے پھر ہمسایوں میں سے جو فقیر ہوں انہیں دیا جائے اسی طرح اہل علم فقراء کو دوسروں پر ترجیح دینا بھی مستحب ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۴۲ ـ ۵۴۳</ref>
* سید غیر سید سے  زکات مال اور فطرہ نہیں لے سکتا لیکن [[خمس]] اور دوسری وجوہات اگر اس کی زندگی کے اخراجات پورا نہ کرسکے اور زکات لینے پر محبور ہو تو غیر سید کا فطرہ بھی لے سکتا ہے۔<ref>امام خمینی، توضیح المسائل، ص۲۹۸، ر.ک: امام خمینی، تحریرالوسیلہ(ترجمہ فارسی)، ج۱، ص۳۸۶؛ یزدی، العروہ الوثقی(محشی)، ج۴، ص۱۳۷ ـ ۱۳۶.</ref>


==بعض دیگر احکام==
==بعض دیگر احکام==
سطر 116: سطر 46:
* اگر کوئی شخص فطرہ واجب ہونے پر اسے ادا نہ کرے اور الگ بھی نہ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر بعد میں [[اداء|ادا]] یا [[اداء|قضا]] کی نیت کئے بغیر فطرہ دیدے۔
* اگر کوئی شخص فطرہ واجب ہونے پر اسے ادا نہ کرے اور الگ بھی نہ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر بعد میں [[اداء|ادا]] یا [[اداء|قضا]] کی نیت کئے بغیر فطرہ دیدے۔


* فطره الگ کرنے کے بعد اسے اپنی استعمال میں لاکر کوئی اور مال اس کی جگہ نہیں دے سکتے ہیں۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۱، ج۲، ص۱۷۴-۱۸۳</ref>
* فطرہ الگ کرنے کے بعد اسے اپنی استعمال میں لاکر کوئی اور مال اس کی جگہ نہیں دے سکتے ہیں۔<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص174-183</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
سطر 123: سطر 53:
== مآخذ==
== مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* امام خمینی، تحریر الوسیلہ(ترجمہ فارسی)، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۶ش.
* بنی‌ہاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح‌المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1381ہجری شمسی۔
* امام خمینی، توضیح المسائل، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۷ش.
* بہجت، محمدتقی، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، دفتر آیت‌اللہ العظمی محمدتقی بہجت، 1386ہجری شمسی۔
* انصاری، مرتضی، کتاب الزکاۃ، کنگرہ شیخ اعظم انصاری، قم، ۱۴۱۵ق.
* جعفرپیشہ فرد، مصطفی، درآمدی بر فقہ مقارن، تہران، بعثہ مقام معظم رہبری، 1388ہجری شمسی۔
* بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناظرہ فی احکام العترہ الطاہرہ، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۰۵ق.
* سرور، ابراہیم حسین، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیہ و الدینیہ، بیروت، دارالہادی، 1429ھ۔
* حائری، علی بن محمد، ریاض المسائل فی تحقیق الاحکام بالدلائل، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۱۸ق.
* سیستانی، سیدعلی، توضیح‌المسائل، قم، بی‌نا، 1393ھ۔
* حکیم، محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، موسسہ دارالتفسیر، قم، ۱۴۱۶ق.
* شبیری زنجانی، موسی، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، سلسبیل، 1388ہجری شمسی۔
* حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۳ق.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
* حلی، یحیی بن سعید، الجامع للشرایع، موسسہ سیدالشہداءالعلمیہ، قم، ۱۴۰۵ق.
* [https://noo.rs/JAN3f «عید فطر و احکام فطریہ»]، وبگاہ حوزہ‌نت،  تاریخ درج مطلب: 14 خرداد 1398، تاریخ بازدید: 25 دی 1401ہجری شمسی۔
* خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، نشر مدینہ العلم، قم، ۱۴۱۰ق.
* فاضل لنکرانی، محمد، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، امیرالعلم، 1426ھ۔
* خویی، ابوالقاسم، موسوعہ الامام الخوئی، موسسہ احیاء آثار الامام الخوئی، قم، ۱۴۱۸ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ چہارم، 1407ق‏.
* صدوق، محمد بن علی، التوحید، مصحح: حسینی، ہاشم، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۹۸ق.
* مرعی، حسین، القاموس الفقہی، بیروت دارالمجتبی، 1413ھ۔
* صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، مصحح: غفاری، علی اکبر، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۳ق.
* مروج، حسین، اصطلاحات فقہی، قم، بخشایش، 1379ہجری شمسی۔
* طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۰۷ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، 1384ہجری شمسی۔
* طوسی، محمد بن حسن، النہایہ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۴۰۰ق.
* مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل‌بیت علیہم‌السلام، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دارالحدیث، قم، ۱۴۲۹ق.
* نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
* مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.
* نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، دار احیاءالثراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
* نراقی، احمد بن محمد، مستند الشیعہ فی احکام الشریعہ، موسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۱۵ق.
* یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروہ الوثقی فیما تعم بہ البلوی(محشی)، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ق.
*عاملی، محمد بن علی موسوی، مدارک الاحکام فی شرح عبادات شرائع الاسلام، موسسہ آل البیت علیہم السلام، بیروت، ۱۴۱۱ق.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{احکام زکات}}
{{رمضان المبارک}}
{{رمضان المبارک}}
{{وجوہات شرعی}}
{{وجوہات شرعی}}
سطر 149: سطر 75:
[[زمرہ:عید فطر]]
[[زمرہ:عید فطر]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
[[زمرہ:فقہی اصطلاحات]]
[[زمرہ:احکام]]
[[زمرہ:احکام زکات]]
[[زمرہ:شوال کے اعمال]]
[[زمرہ:شوال کے اعمال]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[زمرہ:اصطلاحات باب روزہ]]
[[زمرہ:واجبات تعبدی]]
[[زمرہ:وجوہات شرعی]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099

ترامیم