مندرجات کا رخ کریں

"عبید اللہ بن زیاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  8 نومبر 2015ء
م
imported>Jaravi
imported>Jaravi
سطر 44: سطر 44:
عمر بن سعد اس وقت ری کا حاکم مقرر ہو چکا تھا اور ری جانے کیلئے تیار تھا لیکن عبید اللہ نے اسے یزید کی بیعت لینے کیلئے یا جنگ کرنے کی ذمہ داری کی سونپی اس کے حوالے کی  عمر نے اس کام سے معذرت چاہی تو عبید اللہ نے ری کی حاکمیت کو اسی کام سے مشروط کر دیا<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۸؛ دینوری، اخبار الطوال، ج۱، ص۲۵۳</ref>.
عمر بن سعد اس وقت ری کا حاکم مقرر ہو چکا تھا اور ری جانے کیلئے تیار تھا لیکن عبید اللہ نے اسے یزید کی بیعت لینے کیلئے یا جنگ کرنے کی ذمہ داری کی سونپی اس کے حوالے کی  عمر نے اس کام سے معذرت چاہی تو عبید اللہ نے ری کی حاکمیت کو اسی کام سے مشروط کر دیا<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۸؛ دینوری، اخبار الطوال، ج۱، ص۲۵۳</ref>.


عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ سے مذکرے کے بعد عبید اللہ کو لکھا کہ حسین ؑ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا ان سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے. ابتدائی طور پر عبید اللہ یہ خبر سن کر خواشحال ہوا لیکن وہاں پر موجود شمر بن ذی الجوشن نے اسے اس صلح سے منع کیا.پس عبید اللہ نے عمر کو خط لکھا :اگر حسین سے بیعت لے لو تو اسے کوفے روانہ کرو ورنہ اس سے جنگ کر اور تم حسین سے لڑنے پر راضی نہیں تو لشکر کی سرداری شمر کے حوالے کرو.<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۱۵-۳۱۶؛ مفید، الارشاد، ج۱، ص۴۳۸</ref>
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ سے مذکرے کے بعد عبید اللہ کو لکھا کہ حسین ؑ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا ان سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے. ابتدائی طور پر عبید اللہ یہ خبر سن کر خوشحال ہوا لیکن وہاں پر موجود شمر بن ذی الجوشن نے اسے اس صلح سے منع کیا.پس عبید اللہ نے عمر کو خط لکھا: "اگر حسین سے بیعت لے لو تو اسے کوفے روانہ کرو ورنہ اس سے جنگ کر اور تم حسین سے لڑنے پر راضی نہیں تو لشکر کی سرداری شمر کے حوالے کرو."<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۱۵-۳۱۶؛ مفید، الارشاد، ج۱، ص۴۳۸</ref>


==اہل بیت ؑ کی اسیری==
==اہل بیت ؑ کی اسیری==
گمنام صارف