مندرجات کا رخ کریں

"عبید اللہ بن زیاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  8 نومبر 2015ء
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
سطر 36: سطر 36:
یعقوبی کی روایت مطابق ہانی بن عروۃ پہلے سے عبید اللہ سے آشنائی رکھتا تھا اور وہ گمان کرتا تھا اس وجہ سے  وہ اس کی عیادت کیلئے آئے گا.  اس نے عبید اللہ کے قتل کی خاطر  مسلم بن عقیل کو گھر میں پناہ دے رکھی تھی .<ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳</ref>. ایک دوسری روایت کے مطابق کوفے کے نامور شیعہ رہنماؤں میں سے شریک بن اعور ہانی کے گھر میں مریض ہو گیا ؛ تو ہانی نے مسلم سے کہا کہ جب عبید اللہ اس کے گھر آئے تو وہ اسے قتل کر ڈالے<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۴۸</ref>.
یعقوبی کی روایت مطابق ہانی بن عروۃ پہلے سے عبید اللہ سے آشنائی رکھتا تھا اور وہ گمان کرتا تھا اس وجہ سے  وہ اس کی عیادت کیلئے آئے گا.  اس نے عبید اللہ کے قتل کی خاطر  مسلم بن عقیل کو گھر میں پناہ دے رکھی تھی .<ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳</ref>. ایک دوسری روایت کے مطابق کوفے کے نامور شیعہ رہنماؤں میں سے شریک بن اعور ہانی کے گھر میں مریض ہو گیا ؛ تو ہانی نے مسلم سے کہا کہ جب عبید اللہ اس کے گھر آئے تو وہ اسے قتل کر ڈالے<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۴۸</ref>.


اس کے باوجود ہانی اپمے گھر میں قتل کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے مسلم کو اس قتل سے روک دیا لہذا عبید اللہ صحیح و سالم واپس چلا گیا <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۸ و ۹۹</ref>.
اس کے باوجود ہانی اپنے گھر میں قتل کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے مسلم کو اس قتل سے روک دیا لہذا عبید اللہ صحیح و سالم واپس چلا گیا <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۸ و ۹۹</ref>.


طبری کی گزارش کے مطابق عبید اللہ ہانی کے گھر آنے پر مسلم کی چھپائے جانے سے آگاہ ہو تھا لہذا اس نے واپسی پر ہانی کو "دار الامارہ' میں اسے طلب کیا اور اسے زندانی کیا اور جلد ہی مسلم کر گرفتار کر کے اسے قتل کیا اور اس کا سر یزید کے پاس شام روانہ کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹-۲۳۱ و ۲۷۰</ref>.
طبری کی گزارش کے مطابق عبید اللہ ہانی کے گھر آنے پر مسلم کی چھپائے جانے سے آگاہ ہو تھا لہذا اس نے واپسی پر ہانی کو "دار الامارہ' میں اسے طلب کیا اور اسے زندانی کیا اور جلد ہی مسلم کر گرفتار کر کے اسے قتل کیا اور اس کا سر یزید کے پاس شام روانہ کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹-۲۳۱ و ۲۷۰</ref>.
گمنام صارف