گمنام صارف
"عبید اللہ بن زیاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Jaravi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{زیر تعمیر}} | {{زیر تعمیر}} | ||
{{محرم کی عزاداری}} | {{محرم کی عزاداری}} | ||
عبید اللہ بن زیاد واقعہ عاشورا کے موقع پر یزید کی جانب سے کوفے کا والی | عبید اللہ بن زیاد واقعہ عاشورا کے موقع پر یزید کی جانب سے کوفے کا والی تھا. اس سے پہلے وہ بصرے کا والی کی حیثیت سے بصرے میں موجود تھا. یزید بن معاویہ نے حضرت امام حسین ؑ کے کوفے کے سفر کی اطلاع پاتے ہی اسے امام کی تحریک روکنے کیلئے بصرے سے ہٹا کر کوفے کا حاکم مقرر کیا. کربلا میں لشکر کشی اور کوفے میں اہل بیت آل محمد سے برے سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے خاص طور پر شیعوں کے نزدیک اور حضرت امام حسین ؑ کے سر مبارک کے ساتھ بے ادبی کرنے کی وجہ سے تمام مسلمانوں کے نزدیک منفور ترین شخص سمجھا جاتا ہے. | ||
==پیدائش اور خاندانی تعارف== | ==پیدائش اور خاندانی تعارف== | ||
عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ کی کنیت ابو حفص ہے تھی اور اس کی ماں کنیز "مرجانہ" نامی کنیز تھی.<ref>بلاذری احمد ،انساب الاشراف ج 4 ص 75</ref> کہ جس نے بعد میں شیرویہ ایرانی کے ساتھ شادی کی. عبید اللہ نے اسی کے گھر پرورش پائی.اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اسکی زبان بعض عربی الفاظ کی ادائیگی درست طریقے سے ادا نہیں کر سکتی تھی.<ref>جاحظ عمرو ، البیان و التبیین ج 1 ص 76</ref>بعض اسے ابن زیاد کو ماں کی نسبت سے طعن کرتے ہوئے "ابن مرجانہ" کہتے ہیں کہ جو اسکی ناپاک ولادت کی طرف اشارہ ہے.بعض ماخذاوں میں اس عورت کے بدنام اور زناکار ہونے کی تصریح موجود ہے <ref>مفید ،الاختصاص ص 73</ref> | عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ کی کنیت ابو حفص ہے تھی اور اس کی ماں کنیز "مرجانہ" نامی کنیز تھی.<ref>بلاذری احمد ،انساب الاشراف ج 4 ص 75</ref> کہ جس نے بعد میں شیرویہ ایرانی کے ساتھ شادی کی. عبید اللہ نے اسی کے گھر پرورش پائی.اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اسکی زبان بعض عربی الفاظ کی ادائیگی درست طریقے سے ادا نہیں کر سکتی تھی.<ref>جاحظ عمرو ، البیان و التبیین ج 1 ص 76</ref>بعض اسے ابن زیاد کو ماں کی نسبت سے طعن کرتے ہوئے "ابن مرجانہ" کہتے ہیں کہ جو اسکی ناپاک ولادت کی طرف اشارہ ہے.بعض ماخذاوں میں اس عورت کے بدنام اور زناکار ہونے کی تصریح موجود ہے. <ref>مفید ،الاختصاص ص 73</ref>. | ||
اس کا باپ زیاد بن ابیہ امویوں کے سرداروں اور حاکموں میں سے تھا جو اسلامی علاقوں میں شورشوں کو روکنے میں اپنی قساوت قلبی اور بے رحمی میں مشہور تھا. ابن زیاد کے نسب بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور کوئی اسکے باپ کو نہیں جانتا ہے.اسی وجہ سے اسے "ابن ابیہ "(یعنی اپنے باپ کا بیٹا) کہا جاتا تھا. کہا گیا ہے ابو سفیان زیاد کو سمیہ نامی خاتون سے اپنے زنا کا نتیجہ سمجھتا تھا اسی مناسبت سے معاویہ زیاد کو اپنا بھائی کہتا تھا.<ref>دیکھیں: الاستیعاب ج 5 ص 525</ref> | اس کا باپ زیاد بن ابیہ امویوں کے سرداروں اور حاکموں میں سے تھا جو اسلامی علاقوں میں شورشوں کو روکنے میں اپنی قساوت قلبی اور بے رحمی میں مشہور تھا. ابن زیاد کے نسب بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور کوئی اسکے باپ کو نہیں جانتا ہے.اسی وجہ سے اسے "ابن ابیہ "(یعنی اپنے باپ کا بیٹا) کہا جاتا تھا. کہا گیا ہے ابو سفیان زیاد کو سمیہ نامی خاتون سے اپنے زنا کا نتیجہ سمجھتا تھا اسی مناسبت سے معاویہ زیاد کو اپنا بھائی کہتا تھا.<ref>دیکھیں: الاستیعاب ج 5 ص 525</ref> | ||
سطر 19: | سطر 19: | ||
==معاویہ کا دور حکومت == | ==معاویہ کا دور حکومت == | ||
معاویہ کے دور حکومت میں ایران کے شمال شرق اور مشرق کی فتوحات میں عبید اللہ کا بنیادی کردار | معاویہ کے دور حکومت میں ایران کے شمال شرق اور مشرق کی فتوحات میں عبید اللہ کا بنیادی کردار تھا.معاویہ کی جانب سے خراسان کا والی بننے کے بعد اس نے پہلی بار جیحون<ref>یعقوبی،احمد، تاریخ یعقوبی، ج 2 ص236</ref> کے رودخانے کے عبور کرنے کے بعد بخارا کے رامیئن<ref>ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۳۲؛ بلاذری احمد، فتوح البلدان، ج۱، ص۴۱۰</ref>، نَسَف اور بیگند<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۹.</ref> جیسے علاقوں کو اپنے قبضے میں لیا بخارا کی "ملکۂ قبج خاتون " اور اسکے لشکر کو پسپائی پر مجبور کیا. | ||
معاویہ نے 55،56 یا 57 ق میں اسے خراسان سے ہٹا کر عبد اللہ بن عمرو بن غیالان کی بصرے کا والی مقرر کیا<ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۳۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۷۲</ref>. | معاویہ نے 55،56 یا 57 ق میں اسے خراسان سے ہٹا کر عبد اللہ بن عمرو بن غیالان کی بصرے کا والی مقرر کیا<ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۳۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۷۲</ref>. | ||
سطر 30: | سطر 30: | ||
==عبید اللہ اور کوفہ== | ==عبید اللہ اور کوفہ== | ||
کوفیوں نے 60ویں کے اختتام پر حضرت امام حسین ؑ کی بیعت کی آمادگی کا اعلان کیا اور آپ کے کوفہ آنے کے منتظر تھے کہ عبید اللہ بن زیاد اپنا چہرہ چھپائے وارد کوفہ ہوا. لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین ؑ آئے ہیں لہذا انہوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا لیکن وہ جلد ہی حقیقت امر سے آگاہ ہو گئے.امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹</ref> | کوفیوں نے 60ویں کے اختتام پر حضرت امام حسین ؑ کی بیعت کی آمادگی کا اعلان کیا اور آپ کے کوفہ آنے کے منتظر تھے کہ عبید اللہ بن زیاد اپنا چہرہ چھپائے وارد کوفہ ہوا. لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین ؑ آئے ہیں لہذا انہوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا لیکن وہ جلد ہی حقیقت امر سے آگاہ ہو گئے.امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹</ref>. | ||
عبید اللہ نے کوفہ میں آتے ہی لوگوں سے ایک خطاب کیا اور انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے بعد کہا کہ جو اس کی پیروی کرے گا اس سے اچھا برتاؤ سے پیش آئے گا <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۷</ref> | عبید اللہ نے کوفہ میں آتے ہی لوگوں سے ایک خطاب کیا اور انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے بعد کہا کہ جو اس کی پیروی کرے گا اس سے اچھا برتاؤ سے پیش آئے گا <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۷</ref>. | ||
یعقوبی کی روایت مطابق ہانی بن عروۃ پہلے سے عبید اللہ سے آشنائی رکھتا تھا اور وہ گمان کرتا تھا اس وجہ سے وہ اس کی عیادت کیلئے آئے | یعقوبی کی روایت مطابق ہانی بن عروۃ پہلے سے عبید اللہ سے آشنائی رکھتا تھا اور وہ گمان کرتا تھا اس وجہ سے وہ اس کی عیادت کیلئے آئے گا. اس نے عبید اللہ کے قتل کی خاطر مسلم بن عقیل کو گھر میں پناہ دے رکھی تھی .<ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳</ref>. ایک دوسری روایت کے مطابق کوفے کے نامور شیعہ رہنماؤں میں سے شریک بن اعور ہانی کے گھر میں مریض ہو گیا ؛ تو ہانی نے مسلم سے کہا کہ جب عبید اللہ اس کے گھر آئے تو وہ اسے قتل کر ڈالے<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۴۸</ref>. | ||
اس کے باوجود ہانی اپمے گھر میں قتل کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے مسلم کو اس قتل سے روک دیا لہذا عبید اللہ صحیح و سالم واپس چلا گیا <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۸ و ۹۹</ref> | اس کے باوجود ہانی اپمے گھر میں قتل کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے مسلم کو اس قتل سے روک دیا لہذا عبید اللہ صحیح و سالم واپس چلا گیا <ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۸ و ۹۹</ref>. | ||
طبری کی گزارش کے مطابق عبید اللہ ہانی کے گھر آنے پر مسلم کی چھپائے جانے سے آگاہ ہو تھا لہذا اس نے واپسی پر ہانی کو "دار الامارہ' میں اسے طلب کیا اور اسے زندانی کیا اور جلد ہی مسلم کر گرفتار کر کے اسے قتل کیا اور اس کا سر یزید کے پاس شام روانہ کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹-۲۳۱ و ۲۷۰</ref>. | طبری کی گزارش کے مطابق عبید اللہ ہانی کے گھر آنے پر مسلم کی چھپائے جانے سے آگاہ ہو تھا لہذا اس نے واپسی پر ہانی کو "دار الامارہ' میں اسے طلب کیا اور اسے زندانی کیا اور جلد ہی مسلم کر گرفتار کر کے اسے قتل کیا اور اس کا سر یزید کے پاس شام روانہ کیا<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹-۲۳۱ و ۲۷۰</ref>. | ||
عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص کو لشکر کے ہمراہ حسین ؑ کی جانب روانہ کیا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۰۸</ref> | عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص کو لشکر کے ہمراہ حسین ؑ کی جانب روانہ کیا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۰۸</ref>. | ||
عمر بن سعد اس وقت ری کا حاکم مقرر ہو چکا تھا اور ری جانے کیلئے تیار تھا لیکن عبید اللہ نے اسے یزید کی بیعت لینے کیلئے یا جنگ کرنے کی ذمہ داری کی سونپی اس کے حوالے کی عمر نے اس کام سے معذرت چاہی تو عبید اللہ نے ری کی حاکمیت کو اسی کام سے مشروط کر دیا<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۸؛ دینوری، اخبار الطوال، ج۱، ص۲۵۳</ref>. | عمر بن سعد اس وقت ری کا حاکم مقرر ہو چکا تھا اور ری جانے کیلئے تیار تھا لیکن عبید اللہ نے اسے یزید کی بیعت لینے کیلئے یا جنگ کرنے کی ذمہ داری کی سونپی اس کے حوالے کی عمر نے اس کام سے معذرت چاہی تو عبید اللہ نے ری کی حاکمیت کو اسی کام سے مشروط کر دیا<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۸؛ دینوری، اخبار الطوال، ج۱، ص۲۵۳</ref>. | ||
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ سے مذکرے کے بعد عبید اللہ کو لکھا کہ حسین ؑ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا ان سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے. ابتدائی طور پر عبید اللہ یہ خبر سن کر خواشحال ہوا لیکن وہاں پر موجود شمر بن ذی الجوشن نے اسے اس صلح سے منع کیا.پس عبید اللہ نے عمر کو خط لکھا :اگر حسین سے بیعت لے لو تو اسے کوفے روانہ کرو ورنہ اس سے جنگ کر اور تم حسین سے لڑنے پر راضی نہیں تو لشکر کی سرداری شمر کے حوالے | عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ سے مذکرے کے بعد عبید اللہ کو لکھا کہ حسین ؑ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا ان سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے. ابتدائی طور پر عبید اللہ یہ خبر سن کر خواشحال ہوا لیکن وہاں پر موجود شمر بن ذی الجوشن نے اسے اس صلح سے منع کیا.پس عبید اللہ نے عمر کو خط لکھا :اگر حسین سے بیعت لے لو تو اسے کوفے روانہ کرو ورنہ اس سے جنگ کر اور تم حسین سے لڑنے پر راضی نہیں تو لشکر کی سرداری شمر کے حوالے کرو.<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۱۵-۳۱۶؛ مفید، الارشاد، ج۱، ص۴۳۸</ref> | ||
==اہل بیت ؑ کی اسیری== | ==اہل بیت ؑ کی اسیری== | ||
عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا | عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا گیا.اہل بیت پیغمبر ؐ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لانا ایسے واقعات میں سے ہے جسے تاریخ و حدیث کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے. ان واقعات میں سے عبید اللہ کی حضرت زینب سے گفتگو اور آپ کے دیے جانے والے جوابات بھی تاریخی اور دوسرے منابع میں مذکور ہیں. حضرت زینب اور عبید اللہ کی باہمی گفتگو دربار میں موجود حاضرین پر نہایت اثر انداز ہوئی. کوفے میں ہونے والے دلخراش واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو. خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا. عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا. زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص114 و 115</ref>. | ||
==حضرت زینب ؑ سے گفتگو== | ==حضرت زینب ؑ سے گفتگو== | ||
اہل بیت ؑ کو کوفہ میں اسیر کر کے لانے کے بعد انہیں عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لایا گیا. تاریخ کے مطابق کے مطابق ایک پرانے لباس میں تھین اور عبید اللہ اور اس کے دربار کی طرف توجہ کئے بغیر ایک کونے میں بیٹھ گئیں. عبید اللہ نے ان سے تین دفعہ پوچھا کہ تم کون ہو؟لیکن اس نے جواب نہ | اہل بیت ؑ کو کوفہ میں اسیر کر کے لانے کے بعد انہیں عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لایا گیا. تاریخ کے مطابق کے مطابق ایک پرانے لباس میں تھین اور عبید اللہ اور اس کے دربار کی طرف توجہ کئے بغیر ایک کونے میں بیٹھ گئیں. عبید اللہ نے ان سے تین دفعہ پوچھا کہ تم کون ہو؟لیکن اس نے جواب نہ پایا. بالآخر اس نے اہل دربار میں کسی نے کہا :زینب بنت علی بن طالب ہے.ابن زیاد آپ کی اس بے اعتنائی سے غصہ میں آیا اور اس نے کہا :حمد و ثنا ہے اس پروردگار کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے جھوٹوں کو آشکار کیا.حضرت زینب ؑ نے جواب دیا : اس خدا کی حمد و ثنا ہے جس نے ہمیں پیغمبر کے ساتھ تکریم بخشی.اور ہمیں آلودگی اور پلیدگی پاک قرار دیا.وہ جو گناہگار ہے وہ رسوا ہو گا اور وہ جو کہ بدکار ہے جھوٹ بولتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے. ابن زیاد آپ سے مخاطب ہوا :دیکھا خدا نے بالآخر تمہارے ساتھ کیا کیا؟ حضرت زینب نے جواب دیا :ہم نے خدا سے نیکی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا.خدا نے ہمارے خاندان کیلئے شہادت کو مقدر کیا تھا اور وہ شجاعت کے ساتھ اپنی قتل گاہ کی طرف آئے. خدا جلد ہی انہیں اور تمہیں ایک جگہ اکٹھا کرے گا تا کہ اس کے حضور تمہارا محاکمہ کیا جا سکے گا.تم اس وقت دیکھو گے کہ اچھا انجام اور عاقبت کس کی ہے ؟ اے مرجانہ کے بیٹے تمہاری ماں تیرے عزا میں بیٹھے!. یہ سننا تھا کہ ابن زیاد خشمگین ہو گیا اور کہتے ہیں کہ اس نے حضرت زینب ؑ کے قتل کا ارادہ کیا لیکن عمرو بن حُریث کی وجہ سے باز رہا اور اس نے کہا :اے بار الہا!اس سرکش بھائی، دیگر باغیوں اور اسکے خاندان کے حامیوں کے قتل سے میرے دل کو آرام بخش.حضرت زینب ؑ نے کہا :خدا کی قسم ! تم نے میرے بھائی کو قتل کیا میرے نسل کو قتل کیا اور ہماری نسل کو جڑ سے اکھاڑا. اگر تمہارا دل اسی سے شفا پاتا ہے تو تو نے شفا پائی. عبید اللہ مخاطب ہوا : اپنے باپ کی مانند قافیہ کے ساتھ اور اس کی مانند مسجع گفتگو کرتی ہے.<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص115 و 116</ref> | ||
==یزید کے بعد== | ==یزید کے بعد== | ||
عبید اللہ واقعہ عاشورا کے بعد اپنی ظالمانہ قوت سے استفادہ کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ کی حکومت پر باقی رہا لیکن یزید کے مرنے کے بعد وی تزلزل کا شکار ہو گیا. طبری اور ابو علی مسکویہ کے مطابق یزید کے مرنے کے بعد اس نے ایک رات خطبہ دیا جس سے ایک رات پہلے بصرے کو بزرگان کو اس نے لالچ دیا | عبید اللہ واقعہ عاشورا کے بعد اپنی ظالمانہ قوت سے استفادہ کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ کی حکومت پر باقی رہا لیکن یزید کے مرنے کے بعد وی تزلزل کا شکار ہو گیا. طبری اور ابو علی مسکویہ کے مطابق یزید کے مرنے کے بعد اس نے ایک رات خطبہ دیا جس سے ایک رات پہلے بصرے کو بزرگان کو اس نے لالچ دیا تھا.اس خطبے کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور اسے اپنی حکومت کے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن کچھ عرصہ بعد لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور وہ عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کے طلبگار ہو گئے. <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۳۹؛ ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۸۳ -۸۴</ref> | ||
بلاذری کے مطابق یزید کی موت کے بعد عبید اللہ نے اہالیان بصرہ سے تقاضا کیا کہ جب تک لوگ کسی نئے خلیفے پر اجماع نہیں کر لیتے اس وقت تک تم میری بیعت کر لو.جب بصرے کے لوگ اس کی بیعت کر رہے تھے اس نے کسی کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان سے بھی بیعت لے لیکن کوفیوں نے اسے قبول نہیں کیا اس خبر کے معلوم ہو جانے پر بصریوں نے بھی اس سے انکار کر دیا.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص۷۹</ref> | بلاذری کے مطابق یزید کی موت کے بعد عبید اللہ نے اہالیان بصرہ سے تقاضا کیا کہ جب تک لوگ کسی نئے خلیفے پر اجماع نہیں کر لیتے اس وقت تک تم میری بیعت کر لو.جب بصرے کے لوگ اس کی بیعت کر رہے تھے اس نے کسی کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان سے بھی بیعت لے لیکن کوفیوں نے اسے قبول نہیں کیا اس خبر کے معلوم ہو جانے پر بصریوں نے بھی اس سے انکار کر دیا.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص۷۹</ref> | ||
سطر 62: | سطر 62: | ||
==مروان بن حکم کی بیعت== | ==مروان بن حکم کی بیعت== | ||
جب عبد اللہ بن زبیر نے مدینے میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ مروان بن حکم مدینے اسکی بیعت کی غرض سے | جب عبد اللہ بن زبیر نے مدینے میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ مروان بن حکم مدینے اسکی بیعت کی غرض سے آیا.ابن زیاد نے بَثَنیہ کے مقام پر اس سے ملاقات کی اور اسے اس کام سے روکا اور اسے وعدہ دیا کہ اگر وہ خود مدعی خلافت ہوا تو وہ اس کی حمایت کرے گا.مروان واپس چلا گیا ابن زیاد بھی دمشق روانہ ہو گیا. اس نے وہاں ضحاک بن قیس کو شہر سے باہر نکال کیا جو ابن زبیر کیلئے لوگوں سے بیعت لے رہا تھا عبید اللہ نے مرون کیلے بیعت لی.ضحاک بن قیس نے دمشق کے نزدیک مرج راہط کے مقام پر مروانیوں سے جنگ کی جو اسکی شکست پر منتہی ہوئی ؛اس جنگ میں مروانیوں کی سپہ سالاری کے فرائض ابن زیاد کے ذمہ تھے.<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۴۰-۴۲؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۷۶-۴۷۹</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |