"عمرۃ القضاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''عُمْرَۃُ الْقَضاء''' یا '''عمرۃ القضیۃ''' یا '''عُمْرَۃُ الْقَصاص''' اس عمرے کو کہا جاتا ہے جسے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] اور [[مسلمانوں]] نے [[سنہ 7 ہجری قمری]] کو ذی الحجہ کے مہینے میں انجام دئے۔ اس عمرے کا نام "عمرۃ القضا" رکھنے کی علت یہ ہے کہ مسلمان اس سے پچھلے سال [[ذی القعدہ]] میں عمرہ کرنا چاہتے تھے؛ لیکن مکہ کے مشرکین مانع بنے اور [[حدیبیہ]] میں انجام پانے والے [[صلح حدیبیہ|صلح]] کی وجہ سے مسلمانوں کو اگلے سال [[عمرہ|حج عمرہ]] انجام دینے کی اجازت مل گئی اس بنا پر اس عمرے کو اس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ | '''عُمْرَۃُ الْقَضاء''' یا '''عمرۃ القضیۃ''' یا '''عُمْرَۃُ الْقَصاص''' اس عمرے کو کہا جاتا ہے جسے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] اور [[مسلمانوں]] نے [[سنہ 7 ہجری قمری]] کو ذی الحجہ کے مہینے میں انجام دئے۔ اس عمرے کا نام "عمرۃ القضا" رکھنے کی علت یہ ہے کہ مسلمان اس سے پچھلے سال [[ذی القعدہ]] میں عمرہ کرنا چاہتے تھے؛ لیکن مکہ کے مشرکین مانع بنے اور [[حدیبیہ]] میں انجام پانے والے [[صلح حدیبیہ|صلح]] کی وجہ سے مسلمانوں کو اگلے سال [[عمرہ مفردہ|حج عمرہ]] انجام دینے کی اجازت مل گئی اس بنا پر اس عمرے کو اس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ | ||
پیغمبر اکرمؐ نے اس عمرے میں [[طواف]] اور [[سعی صفا و مروہ|سعیِ]] کو شتر پر سوالی کی حالت میں انجام دیا اور اپنے عصا کے ذریعے [[حجر الاسود|حجر الأسود]] کو [[استلام حجر الأسود|لمس]] فرمایا۔ بعض مفسرین کے مطابق [[سورہ بقرہ]] کی [[آیت]] نمبر 194 عمرۃ القضاء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح [[سورہ فتح]] کی آیت نمبر 27 کا نزول اور پیغمبر اکرمؐ کا [[میمونہ بنت حارث بن حزن|میمونہ]] کے ساتھ ازدواج بھی اسی سفر میں انجام پایا ہے۔ | پیغمبر اکرمؐ نے اس عمرے میں [[طواف]] اور [[سعی صفا و مروہ|سعیِ]] کو شتر پر سوالی کی حالت میں انجام دیا اور اپنے عصا کے ذریعے [[حجر الاسود|حجر الأسود]] کو [[استلام حجر الأسود|لمس]] فرمایا۔ بعض مفسرین کے مطابق [[سورہ بقرہ]] کی [[آیت]] نمبر 194 عمرۃ القضاء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح [[سورہ فتح]] کی آیت نمبر 27 کا نزول اور پیغمبر اکرمؐ کا [[میمونہ بنت حارث بن حزن|میمونہ]] کے ساتھ ازدواج بھی اسی سفر میں انجام پایا ہے۔ | ||
==وجہ تسمیہ== | ==وجہ تسمیہ== | ||
[[ | [[سنہ 7 ہجری قمری]]<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۵۳۔</ref> کو [[پیغمبر اسلامؐ]] مسلمانوں کے ساتھ [[حج]] اور عُمرے کی نیت سے [[مکہ]] تشریف لے گئے۔<ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۵۵۔</ref> یہ حج اور عُمرے چونکہ پچھلے سال کے حج اور عمرے کی قضا محسوب ہوتی تھی اس لئے اسے "عمرۃ القضاء" کہا جاتا ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۰۷۔</ref> | ||
پچھلے سال یعنی [[سنہ 6 ہجری قمری]] کو مسلمان [[عمرہ مفردہ|عُمرہ]] کی نیت سے [[مکہ]] چلے گئے تھے؛<ref>ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۴۔</ref> لیکن مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیا۔ آخر کار مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح ہوئی جو [[صلح حدیبیہ]] کے نام سے مشہور ہے۔ اس صلحنامے کے تحت یہ طے پایا کہ مسلمان اس سال واپس مدینے چلے جائیں گے اور اگلے سال یعنی سنہ 7 ہجری کو حج اور عمرہ انجام دینے کیلئے مکہ آ سکتے ہیں۔<ref>بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۱۴۵۔</ref> | پچھلے سال یعنی [[سنہ 6 ہجری قمری]] کو مسلمان [[عمرہ مفردہ|عُمرہ]] کی نیت سے [[مکہ]] چلے گئے تھے؛<ref>ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۴۔</ref> لیکن مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیا۔ آخر کار مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح ہوئی جو [[صلح حدیبیہ]] کے نام سے مشہور ہے۔ اس صلحنامے کے تحت یہ طے پایا کہ مسلمان اس سال واپس مدینے چلے جائیں گے اور اگلے سال یعنی سنہ 7 ہجری کو حج اور عمرہ انجام دینے کیلئے مکہ آ سکتے ہیں۔<ref>بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۱۴۵۔</ref> |