مندرجات کا رخ کریں

"عمرۃ القضاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13: سطر 13:
بعض [[مفسرین]] معتقد ہیں کہ آیت <font color=green>{{حدیث|الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ؛|ترجمہ=شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے اور حرمات کا بھی قصاص ہے}}</font> <ref>سورہ بقرہ، آیہ ۱۹۴۔</ref> اسی واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔<ref>واحدی نیشابوری، أسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۵۸۔</ref>
بعض [[مفسرین]] معتقد ہیں کہ آیت <font color=green>{{حدیث|الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ؛|ترجمہ=شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے اور حرمات کا بھی قصاص ہے}}</font> <ref>سورہ بقرہ، آیہ ۱۹۴۔</ref> اسی واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔<ref>واحدی نیشابوری، أسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۵۸۔</ref>


==غزوہ قضیہ (عمرۃ القضاء)==
==مکے کی طرف حرکت==
[[ذوالقعدۃ الحرام|ذوالقعدہ]] سنہ 7 ہجری میں [[رسول خدا(ص)]] نے عمرۃ القضاء کی غرض سے [[مکہ]] کی جانب عزیمت فرمائی کیونکہ سنہ 6 ہجری میں [[قریش]] نے آپ(ص) کو [[عمرہ]] بجا لانے نہیں دیا تھا۔ آپ(ص) نے ابو رہم الغفاری یا ابو ذر الغفاری<ref>ابن الجوزی، المنتظم، ج3، ص305۔</ref>۔<ref>المقریزی، امتاع الاسماع، ج9، ص227۔</ref> یا صالحی شامی کے بقول عویف بن اضبط دیلی کو [[مدینہ]] میں اپنا جانشین مقرر کیا۔<ref>صالحی شامی، سبل‌الهدي والرشاد، ج5، ص289۔</ref>۔<ref>رجوع کریں: ابن‌هشام، السيرةالنبويه، ابن‌هشام، ج4، ص5۔</ref> اور ایک سو گھڑ سوار اور بڑی مقدار میں اسلحہ لے کر روانہ ہوئے۔ [[رسول اللہ(ص)]] نے [[صلح حدیبیہ|میثاق حدیبیہ]] کے باوجود، ہتھیار اٹھانے کے اہتمام کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "ہم ہتھیار لے کر [[حرم]] میں داخل نہیں ہونگے تاہم ممکنہ خطرات کا سامنا کرنے کے لئے ہتھیار ہماری دسترس میں ہونے چاہئے۔<ref>المغازي، ج 2، ص 733۔</ref>۔<ref>صالحی شامی، سبل‌الهدي والرشاد، ج5، ص289۔</ref>
پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر [[صلح حدیبیہ]] کے واقعے میں حاضر تمام افراد نے [[ذوالقعدۃ الحرام|ذوالقعدہ]] سنہ 7 ہجری قمری کو [[مکہ]] کی طرف حرکت کئے۔ ان کے علاوہ دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ ملحق ہوئے یوں مسلمانوں کی تعداد 2000 تک پہنچ گئی۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۱۔</ref> مسلمان نے [[قربانی]] کرنے کے لئے اپنے ساتھ 60 اونٹ بھی لائے تھے۔<ref>طبری،  تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۵۔</ref> پیغمبر اکرمؐ نے [[ابوذر غفاری]] کو [[مدینہ]] میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۵۳۔</ref>


[[رسول اللہ(ص)]] نے ہتھیار اس مقام پر منتقل کئے جہاں [[حرم]] کے علائم نصب ہوئے تھے اور ہتھیاروں کی حفاظت پر 200 افراد مامور کئے اور خود [[حرم]] کی حدود میں داخل ہوئے۔ آپ(ص) نے باقی مسلمانوں کے ساتھ [[عمرہ]] کے اعمال بجالانے کے بعد 200 افراد کو ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے روانہ کئے۔<ref>الواقدی، المغازي، ج2، ص733۔</ref>
صلح حدیبیہ کے مطابق مسلمان صرف مسافروں کے اسلحے کے ساتھ {{نوٹ|یہاں مسافروں کے اسلحے سے تلوار مراد ہے۔(مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۳۔)}} مکہ میں داخل ہو سکتے تھے۔<ref>بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۱۴۵۔</ref> لیکن اس کے باوجود پیغمبر اکرم نے 200 افراد کو گھوڑوں اور جنگی سازو سامان کے ساتھ مکہ سے باہر رہنے کا حکم دیا تاکہ اگر مشرکین جنگ کرے تو مسلمان اپنا دفاع کر سکیں۔<ref>مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۳۱۔</ref>


مشرکین [[مکہ]] مسلمانوں کے آنے کے خبر ملنے کے بعد پہاڑوں پر چلے جانے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ وہ حتی مسلمانوں پر ایک نظر بھی نہیں ڈالیں گے۔<ref>الواقدی، المغازي، ج2، ص734۔</ref> اس کے باوجود بعض مشرکین نے آپ(ص) کو دیکھنے کے لئے [[دار الندوہ]] کی دیوار کے ساتھ قطار باندھ لی۔<ref>ابن‌هشام، السيرةالنبويه، ابن‌هشام، ج4، ص6۔</ref>
==مکہ میں داخلہ==<!--
با ورود مسلمانان بہ مکہ، برخی از سران آن از شہر خارج شدند۔<ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۵۵۔</ref> برخی دیگر در شہر باقی ماندند تا پیامبر(ص) و مسلمانان را ببینند۔ پیامبر دست راست خود را از [[احرام|لباس احرام]] بیرون آورد و مسلمانان نیز چنین کردند تا قدرت خود را بہ اہالی مکہ نشان دہند۔<ref>مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۱۹۔</ref> پیامبر در حالی کہ سوار بر شتر بود، کعبہ را [[طواف]] کرد و بین [[صفا و مروہ]] را پیمود۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۶۔</ref> ہمچنین [[حجر الاسود]] را با عصای خود [[استلام حجر|استلام]] کرد۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۵۔</ref> پیامبر(ص) پس از اعمال حج وارد [[کعبہ]] شد و [[بلال حبشی|بلال]] بر بالای کعبہ [[اذان|اذان ظہر]] را گفت۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۷۔</ref>


[[رسول اللہ(ص)]] اپنے اصحاب کے درمیان ـ جبکہ وہ تندہی سے  تلواریں ہاتھ میں لے کر سختی سے آپ(ص) کی حفاظت میں مصروف تھے<ref>ابن سعد، الطبقات الكبری، ج2، ص121، '''والمسلمون متوشحون السيوف محدقون برسول الله صلى الله عليه وآله'''۔</ref> ـ [[مکہ]] میں داخل ہوئے۔
== وقایع دیگر==
 
وقایع دیگری ہم در عمرۃ القضاء روی دادند کہ برخی از آنہا بہ  شرح زیر است:
==ابن رواحہ کے اشعار==
* ازدواج پیامبر با [[میمونۃ دختر حارث]]۔<ref>ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۵؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۸۔</ref> ہنگامی کہ مہلت سہ روزہ پیامبر و یارانش بہ پایان رسید، سران مکہ افرادی را نزد پیامبر فرستادند و از او خواستند تا مکہ را ترک کند، پیامبر پیشنہاد داد تا مراسم ازدواج او با میمونہ در مکہ برگزار شود و ولیمہ‌ای بہ اہالی مکہ بدہد؛ اما آنان پیشنہاد پیامبر را نپذیرفتند۔<ref>ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲۔</ref>
[[مکہ]] میں داخل ہوتے وقت [[عبداللہ بن رواحہ]] [[رسول اللہ(ص)]] کی اونٹنی [قصواء] کی لگام کھینچ رہے تھے اور ذیل کے اشعار پڑھ رہے تھے:
* نزول آیہ ۲۷ [[سورہ فتح]]:<ref> ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲-۳۷۳۔</ref> در آن  برخی از احکام  حج مانند [[حلق|حَلق]] و [[تقصیر]] آمدہ است۔<ref> ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲-۳۷۳۔</ref>
 
*انتقال عمارۃ دختر [[حمزہ بن عبدالمطلب]] کہ در مکہ زندگی می‌کرد بہ مدینہ و واگذاری سرپرستی او بہ عمویش [[جعفر بن ابی‌طالب|جعفر]]۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۸-۷۳۹۔</ref>
<center>
<font color = green>'''خلوا بني الكفّار عن سبيله <br/> انّي شهدت انّه رسوله <br/> حقاً وكل الخير في سبيله <br/> نحن قتلناكم علي تأويله <br/> كما ضربناكم علي تنزيله <br/> ضرباً يزيل الهام عن مقيله <br/> ويذهل الخليل عن خليله'''۔</font> <br/> ترجمہ: <br/> اے کافروں کے بیٹو آپ(ص) کے راستے سے ہٹ جاؤ  <br/> میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ(ص) حقیقتاً اللہ کے [[رسول اللہ|رسول]] ہیں <br/> پوری خیر اور نیکی آپ(ص) ہی کے راستے میں ہے <br/> ہم [[قرآن]] کی تاویل پر تمہارے سے لڑ رہے ہیں <br/> جس طرح کہ اس کی تنزیل پر تمہارے ساتھ لڑے <br/> تم پر ایسی ضربیں مارتیں ہیں <br/> جو سروں کو جدا کرتی ہیں اور <br/> دوست کو دوست سے باز رکھتی ہیں۔<ref>الواقدی، المغازي، ج2، ص736۔</ref>
</center>
 
==اشعار پر بحث==
ابن اسحاق نے بھی یہ اشعار مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کئے ہیں اور ابن ہشام نے کہا ہے کہ عبارت "نحن قتلناكم علي تأويله" سے لے کر آخری مصرع تک [[عمار یاسر]] کے اشعار ہیں جو انھوں نے کسی اور موقع پر پڑھے تھے! (ہم جانتے ہیں کہ [[عمار یاسر]] نے یہ اشعار [[جنگ صفین]] کے دوران پڑھے تھے اور ابن ہشام نے اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہا ہے<ref>روى الإمام أحمد في المسند بسنده عن أبي سعيد قال: كنا نمشي مع النبي صلى الله عليه [وآله] وسلم: فانقطع شسع نعله فتناولها علي يصلحها ثم مشی فقال: '''إن منكم من يقاتل على تأويله، كما قاتلت على تنزيله'''، قال أبو سعيد '''فخرجت فبشرته بما قال رسول الله صلى الله عليه [وآله] وسلم فلم يكبر به فرحا كأنه شيء قد سمعه'''۔ <br/> ترجمہ: ابن حنبل، فضائل الصحابة، ج2، ص627: [[احمد بن حنبل]] نے اپنے حوالے سے [[ابو سعید خدری]] سے روایت کی ہے کہ "ہم [[رسول اللہ(ص)]] کے ساتھ پیدل چل رہے تھے کہ آپ(ص) کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا؛ پس [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] نے آپ(ص) کا جوتا مرمت کے لئے اٹھایا اور چلے گئے؛ پس آپ(ص) نے فرمایا: تم میں سے ایسا شخص بھی ہے جو [[قرآن]] کی تاویل پر جنگ لڑے گا جس طرح کہ میں اس کی تنزیل پر جنگ لڑی۔ پس میں نکلا اور [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کے پاس گیا اور انہیں وہ خوشخبری سنائی جو آپ(ص) نے سنائی تھی پس انھوں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا؛ گویا کہ وہ پہلے سے جانتے تھے۔</ref>)؛ ابن ہشام کے بقول عبداللہ بن رواحہ کا خطاب [[شرک|مشرکین]] سے تھا اور وہ تنزیل ہی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کرتے تھے اور امر واضح ہے کہ تاویل پر ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے جو تنزیل پر ایمان رکھتے ہوں۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، صص7-8۔</ref>
{{تاریخ صدر اسلام}}
{{پیغمبر خدا(ص) کی مدنی زندگی}}
 
===عمر کا اعتراض اور رسول خدا(ص) کا جواب===
مذکورہ بالا اشعار سن کر [[عمر بن خطاب]] نے اعتراض کرتے ہوئے ابن رواحہ سے کہا: تم [[رسول اللہ(ص)]] کے سامنے اشعار پڑھتے ہو؟! اور آپ(ص) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: [اے عمر] انہیں پڑھنے دو میں خود ان کے اشعار سن رہا ہوں اور یوں آپ(ص) نے عمر کو خاموش کرا دیا۔<ref>الواقدی، المغازي، ج2، ص736۔</ref>۔<ref>ابن سعد، طبقات الكبري، ج2، صص121-122۔</ref>
 
===ترمذی کی خطا===
ترمذی اپنی کتاب [[سنن ترمذی|السنن]] میں لکھتے ہیں کہ "مروی ہے کہ عمرۃ القضاء کے دوران [[حرم]] میں داخل ہوتے وقت [[کعب بن مالک]] [[رسول اللہ]] کی خدمت میں تھے اور [میری رائے میں بھی] یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ عبداللہ بن رواحہ [[جنگ موتہ]] میں شہید ہوگئے تھے؛<ref>الترمذی، السنن، ج4، صص217-218۔</ref> حالانکہ جنگ موتہ عمرۃ القضاء کے بعد [[جمادی الاول]] سنہ 8 ہجری میں انجام پائی ہے۔<ref>سبل الهدی و الرشاد، ج6، ص288۔</ref> مذکورہ اشعار دوسرے مآخذ میں نقل ہوئے ہیں<ref>الجمحي، طبقات فحول الشعراء، ص59۔</ref>۔<ref>مختصر تاريخ دمشق، ج12، ص154۔</ref>
 
===ابن ہشام کے شبہے کا جواب===
محمد محمود شاکر ''طبقات الشعراء'' کی شرح میں لکھتا ہے: ابن رواحہ کے شعر میں "تاویل" سے مراد اس کلام کی تفسیر نہیں ہے جس کے معانی مختلف ہوں بلکہ مراد حوالہ ہے ان وعدوں کا حوالہ ہے جو اللہ نے نبی(ص) کو دیا تھا۔<ref>الجمحي، طبقات الشعراء، (ط محمد شاكر) ج1، حاشیه ص224۔</ref> ہاں البتہ اس میں شک نہیں ہے کہ [[عمار یاسر]] یہ اشعار سپاہ [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کا مقابلہ کرتے ہوئے پڑھتے رہے ہیں۔<ref>المنقري، وقعة صفين، ص341۔</ref>
 
==شعار فتح==
[[رسول اللہ]](ص) نے عبداللہ بن رواحہ کو حکم دیا کہ یہ ذکر پڑھیں:<font color = blue>{{حدیث|'''لا إله إلا الله وحده نصر عبده وأعز جنده وهزم الاحزاب وحده'''}}</font>۔ <br/> ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود سوا اللہ کے جو یکتا ہے؛ جس نے اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکر کو عزت بخشی اور تن تنہا (کفار) کے تمام احزاب کو ہرا دیا۔ <br/> پس مسلمانوں نے یہ شعار زبان پر جاری کیا اور لوگوں نے بھی یہ الفاظ دہرائے جو ابن رواحہ نے کہے تھے۔<ref>مختصر تاريخ دمشق، ج12، ص155۔</ref>
 
==اعمال عمرہ==
مشرکین کا کہنا تھا کہ "ایسی قوم [[مکہ]] آرہی ہے جس کو [[مدینہ|یثرب]] کی گرمی نے سست کررکھا ہے؛ چنانچہ [[رسول خدا(ص)]] نے اصحاب کو حکم دیا کہ طواف کے تین شوطوں میں دُلکی چال چلیں اور آہستگی سے دوڑیں تاکہ مشرکین ان کی قوت کا مشاہدہ کریں؛ اور فرمایا کہ خداوند متعال رحمت نازل کرے اس شخص پر جو قوت کا اظہار کرے۔<ref>ابن سعد، الطبقات الكبری، ج2، ص 123۔</ref>۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص292۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص6۔</ref>
 
[[رسول خدا(ص)]] [[طواف]] اور [[سعی]] کے بعد [[کعبہ]] میں داخل ہوئے اور اس وقت تک [[کعبہ]] میں رہے جب [[بلال بن رباح|بلال حبشی]] نے بام کعبہ پر [[اذان]] کہی۔
 
اس موقع پر [[عکرمہ بن ابی جہل]] نے کہا: خداوند متعال نے میرے باپ کو قتل کے ذریعے یہ کرامت عطا کی کہ اس غلام کی آواز کی گونج کو [[کعبہ]] کے اوپر سے نہ سنے۔
 
[[سہیل بن عمرو]] اور [[قریش]] کے بعض دوسرے عمائدین نے یہ حال دیکھ کر ـ غصے یا خجلت کے مارے ـ اپنے چہرے چھپا دیئے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج2، ص738۔</ref>۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص294۔</ref>
 
==مکہ میں مسلمانوں کی موجودگی کے اثرات==
یوں مسلمان 3 دن تک [[مکہ]] میں تھے؛ وہ [[نماز]] کے لئے [[مسجد الحرام]] میں آتے تھے، [[نماز]] ادا کرتے تھے۔ [[مہاجرین]] ان ایام میں اپنے گھروں میں جاتے تھے اور شہر کی گلیوں میں آزادانہ گھومتے پھرتے تھے؛ جبکہ [[قریش]] دور اور نزدیک سے ان کے افعال و اعمال کا مشاہدہ کررہے تھے۔ [[قریش]] میں سے بہت سے ایسے افراد ایسے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلوص اور ہم دلی کا قریب سے مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ ـ مشرکین اور دشمنان [[اسلام]] کی تشہیری مہم کے بر عکس جن کا کہنا تھا کہ مسلمان [[کعبہ]] کے لئے احترام کے قائل نہیں ہیں اور وہ صرف کینہ پرور اور جنگجو لوگ ہیں ـ [[رسول خدا(ص)]] اور مسلمان کس قدر [[کعبہ]] کی تجلیل و تعظیم کے لئے کوشاں ہیں اور کس قدر محبت اور اخلاص مسلمانوں کے درمیان حکم فرما ہے ـ تو وہ دلی طور پر [[اسلام]] کی طرف مائل ہوئے اور مسلمانوں کے [[مدینہ]] واپس چلے جانے کے بعد مسلمان ہوئے۔ یوں اس تین روزہ سفر نے [[مکہ]] کے عوام کے دلوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور [[فتح مکہ]] اور بعد کے واقعات میں [[اسلام]] کی پیشرفت و فروغ نیز اگلی جنگوں اور [[غزوہ|غزوات]] کے لئے بہت زیادہ ممد و معاون ثابت ہوئے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمد(ص) ص524۔</ref>
==میمونہ بنت حارث سے شادی==
[[رسول اللہ(ص)]] نے اسی سفر کے دوران [[عباس بن عبدالمطلب]] کی سالی اور [[ام الفضل بنت حارث|ام الفضل]] کی بہن [[میمونہ بنت حارث بن حزن]]<ref>میمونہ زوجات رسول(ص) میں سے ایک تھیں جو سنہ 61 ہجری تک بقید حیات تھیں۔</ref> سے شادی کرلی؛ جو اس دنیا میں آپ(ص) کی آخری شادی تھی۔ ایک روایت کے مطابق آپ(ص) نے چچا عباس کی تجویز پر میمونہ سے شادی کرلی اور سبب یہ تھا کہ میمونہ نے اپنی شادی کا اختیار عباس کو دیا تھا اور عباس کو رسول خدا(ص) سے میمونہ کی محبت کا علم اس وقت ہوا جب آپ(ص) عمرہ قضاء کی غرض سے [[مکہ]] تشریف فرما ہوئے۔<ref>رسولی محلاتی، وہی ماخذ۔</ref>
 
==مدینہ واپسی==
میمونہ سے نکاح [[مکہ]] میں قیام کے تیسرے روز ہوا اور زفاف [[مکہ]] سے باہر "سرف" نامی مقام پر انجام پایا۔ [[رسول خدا(ص)]] اس خاتون کے ساتھ شادی کی رسم [[مکہ]] میں ہی ہو اور آپ(ص) ایک بڑی ضیافت دے کر [[قریش]] کے عمائدین اور میمونہ کے اعزاء و اقارب کو دعوت دیں اور قریب سے ان کے ساتھ بات چیت کریں اور دشمنی اور اختلافات کا خاتمہ کریں لیکن [[قریش]] اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمد(ص) ص525۔</ref>
 
اور جب آپ(ص) نے سہیل بن عمرو سے ـ جو چند قریشی عمائدین کے ہمراہ آپ(ص) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کی مہلت اختتام پذیر ہوچکی ہے لہذا مزید [[مکہ]] میں نہ رہیں ـ فرمایا: اس میں کیا حرج ہے کہ میں تمہارے شہر میں شادی کی رسم بجا لاؤں اور تمہیں ولیمہ کے لئے دعوت دوں؛ لیکن سہیل نے کہا: ہمیں آپ کے طعام اور ضیافت کی ضرورت نہیں ہے بس آپ چلے جائیں۔ لہذا [[رسول خدا(ص)]] نے مکیوں کا رویہ دیکھ کر [[صلح حدیبیہ]] کے مطابق [[مکہ]] چھوڑ کر چلے گئے اور برویتے اپنے غلام ابو رافع کو [[مکہ]] میں رہنے دیا تا کہ میمونہ کو ساتھ لے آئیں۔۔<ref>رسولی محلاتی، وہی ماخذ۔</ref>
 
طبری کی روایت کے مطابق تین روزہ مہلت کے اختتام پر سہیل بن عمرو حاضر ہوا اور [[رسول اکرم(ص)]] سے مطالبہ کیا کہ [[مکہ]] کو ترک کر دیں؛ چنانچہ آپ(ص) نے [[ابو رافع]] کو حکم دیا کہ [[مکہ]] سے کوچ کی منادی کر دیں اور یہ کہ کوئی بھی [[مکہ]] میں نہ رہے۔ آپ(ص) نے [[بلال حبشی]] کو بھی ہدایت کی کہ غروب آفتاب سے قبل تک کوئی مسلمان [[مکہ]] میں نہ رہے۔<ref>[http://ar.lib.eshia.ir/15117/1/22/%D8%B9%D9%85%D8%B1%D8%A9_%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%B6 الطبري، المنتخب من كتاب ذيل المذيل، ص22]۔</ref>
 
==عمرۃ القضاء کی شان میں آیات کریمہ==
بہت سے مفسرین کا کہنا ہے کہ میمونہ وہی خاتون تھیں جنہوں نے اپنا وجود [[رسول اللہ(ص)]] کو بخشا اور خداوند متعال نے [[قرآن کریم]] میں ان کی داستان بیان فرمائی:
 
:<font color = green>{{حدیث|'''وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ'''}}۔</font>  <br/> ترجمہ=اور وہ با ایمان عورت اگر وہ اپنا نفس پیغمبر کو ہبہ کر دے اگر پیغمبر چاہیں کہ اس سے ازدواجی تعلق قائم کریں، یہ بات تمام دوسرے مسلمانوں سے الگ آپ کے ساتھ مخصوص ہے۔<ref>سوره احزاب، آیه 50۔</ref>
 
بے شک اس خاتون کی محبت کا سرچشمہ اس کا ایمان تھا اور آپ(ص) نے اس ایمان اور اخلاص کے جواب میں ان سے نکاح کیا۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمد(ص) ص525۔</ref>
 
ابن ہشام أبو عبیدہ سے نقل کرتا ہے کہ [[سورہ فتح]] کی آیت 24 عمرۃ القضاء کی شان میں نازل ہوئی ہے جہاں خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:
 
:<font color = green>{{حدیث|'''لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحاً قَرِيباً'''}}۔</font> <br/> ترجمہ: اللہ نے اپنے رسول کو حقیقتاً بالکل ہی سچا خواب دکھایا کہ تم لوگ انشاء اللہ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے اطمینان کے ساتھ اپنے سروں کو منڈوائے اور اپنے کچھ بال یا ناخن کترے ہوئے تمہیں کچھ خوف نہ ہو گا، پھر بھی اس نے جانا وہ جو تم نہیں جانتے تھے تو اس کے پہلے اس نے ایک دوسری فتح ([[فتح خیبر]]) عطا کر دی۔۔<ref>سوره فتح، آیه 27۔</ref>
 
یہ [[عمرہ]] اسی خواب کی تعبیر ہے جو آپ(ص) نے [[حدیبیہ]] جانے سے قبل [[مدینہ]] میں دیکھا تھا۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص9۔</ref>


==جستارہای وابستہ==
* [[صلح حدیبیہ|[صلح حُدَیبیہ]]
-->
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم