مندرجات کا رخ کریں

"صاحب فخ" کے نسخوں کے درمیان فرق

90 بائٹ کا اضافہ ،  10 اگست 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{خلافت بنی عباس}}
{{خلافت بنی عباس}}
'''حسین‌ بن علی‌ بن حسن‌ بن حسن بن حسن بن علی''' (ع)، ان کی کنیت ابو عبداللہ اور "صاحب فخ" کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ اس قیام اور تحریک کے قائد ہیں جنہوں نے اسی نام سے سنہ 169 ہجری قمری میں [[ہادی عباسی]] کے خلاف [[مکہ]] کے قریب سرزمین فخ میں قیام کیا۔
'''صاحب فَخّ'''، حسین‌ بن علی‌ بن حسن‌ بن [[حسن بن حسن بن علی]] ؑ ہیں جن کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور "صاحب فخ" کے نام سے مشہور ہیں؛ وہ اس قیام اور تحریک کے قائد ہیں جنہوں نے اسی نام سے سنہ 169 ہجری قمری میں [[ہادی عباسی]] کے خلاف [[مکہ]] کے قریب سرزمین فخ میں قیام کیا۔


==ولادت اور نسب==
==ولادت اور نسب==
حسین بن علی یا صاحب فخ بوقت شہادت 41 سالہ تھے اور اس حساب سے ان کا سنۂ ولادت سنہ 128 ہجری قمری ہے۔ ان کے والد علی بن حسن نہایت متقی اور عبادت گذار تھے اور "علیُ الخیر" اور "علیُ الاغرّ" (نیک) کے عنوان سے شہرت رکھتے تھے۔ ان کی والدہ زینب بنت عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی(ع) تھیں جو محمد [[نفس زکیہ]] اور [[ابراہیم|قتیل باخمرا]] کی ہمشیرہ تھیں۔ یہ میاں بیوی بہت زیادہ تقوی اور عبادت کی بنا پر "زوج صالح" (=نیک جوڑا) کے عنوان سے مشہور تھے۔<ref>ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص174، 364۔</ref>۔<ref>ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص26۔</ref>۔<ref>مُحلی، الحدائق‌الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص317۔</ref> علی بن حسن [[نفس زکیہ]] کے قیام کے بعد، [[علویون|علویوں]] کے ایک گروہ کے ہمراہ [[منصور عباسی]] کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور کچھ ہی عرصہ بعد قیدخانے میں وفات پاگئے۔<ref>رجوع کریں: ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص176۔</ref>۔<ref>عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص66۔</ref>۔<ref>محلی، الحدائق‌ الوردیہ فی مناقب ائمة الزیدیہ، ج1، ص317۔</ref>
حسین بن علی یا صاحب فخ بوقت شہادت 41 سالہ تھے اور اس حساب سے ان کا سنۂ ولادت سنہ 128 ہجری قمری ہے۔ ان کے والد علی بن حسن نہایت متقی اور عبادت گذار تھے اور "علیُ الخیر" اور "علیُ الاغرّ" (نیک) کے عنوان سے شہرت رکھتے تھے۔ ان کی والدہ زینب بنت عبداللہ بن حسن بن حسن بن علیؑ تھیں جو محمد [[نفس زکیہ]] اور [[ابراہیم|قتیل باخمرا]] کی ہمشیرہ تھیں۔ یہ میاں بیوی بہت زیادہ تقوی اور عبادت کی بنا پر "زوج صالح" (=نیک جوڑا) کے عنوان سے مشہور تھے۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص174، 364۔</ref>۔<ref>ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص26۔</ref>۔<ref>مُحلی، الحدائق‌الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص317۔</ref> علی بن حسن [[نفس زکیہ]] کے قیام کے بعد، [[علویون|علویوں]] کے ایک گروہ کے ہمراہ [[منصور عباسی]] کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور کچھ ہی عرصہ بعد قیدخانے میں وفات پاگئے۔<ref>رجوع کریں: ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص176۔</ref>۔<ref>عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص66۔</ref>۔<ref>محلی، الحدائق‌الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص317۔</ref>


==سیاسی فعالیت==
==سیاسی فعالیت==
سنہ 169 ہجری قمری سے قبل، حسین بن علی کی سیاسی فعالیت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بعض روایات کے مطابق، [[شیعہ|شیعیان]] [[کوفہ]] کی ایک جماعت نے ان کے قیام سے کچھ عرصہ قبل ان کے ہاتھ پر [[بیعت]] کی تھی۔ علاوہ ازیں، انھوں نے [[مکہ]] اور [[مدینہ]] کے عوام کو بھی دعوت دی کہ ان کے ساتھ بیعت کریں اور اپنے بعض [[داعی]] [[خراسان]] اور [[جبل]] (یا جمیل؟ = گیلان) روانہ کئے۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص193۔</ref>۔<ref>بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ج2، ص1177ـ 1178۔</ref>۔<ref>حسنی، اخبار الحسین بن علی‌الفخی و...، ص284۔</ref>۔<ref>قس آملی، تتمة مصابیح ابی‌ العباس‌ الحسنی، ص468۔</ref>
سنہ 169 ہجری قمری سے قبل، حسین بن علی کی سیاسی فعالیت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بعض روایات کے مطابق، [[شیعہ|شیعیان]] [[کوفہ]] کی ایک جماعت نے ان کے قیام سے کچھ عرصہ قبل ان کے ہاتھ پر [[بیعت]] کی تھی۔ علاوہ ازیں، انھوں نے [[مکہ]] اور [[مدینہ]] کے عوام کو بھی دعوت دی کہ ان کے ساتھ بیعت کریں اور اپنے بعض [[داعی]] [[خراسان]] اور [[جبل]] (یا جمیل؟ = گیلان) روانہ کئے۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص193۔</ref>۔<ref>بلعمی، تاریخنامۀ طبری، ج2، ص1177ـ 1178۔</ref>۔<ref>حسنی، اخبارالحسین بن علی‌الفخی و...، ص284۔</ref>۔<ref>قس آملی، تتمة مصابیح ابی‌العباس‌الحسنی، ص468۔</ref>


ان روایات کی صحت و سقم سے قطع نظر، بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید حسین بن علی سنہ 169 ہجری قمری سے قبل بھی سیاسی میدان میں فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں؛ جیسے:
ان روایات کی صحت و سقم سے قطع نظر، بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید حسین بن علی سنہ 169 ہجری قمری سے قبل بھی سیاسی میدان میں فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں؛ جیسے:
سطر 13: سطر 13:
* ہادی عباسی اور اس کے والی نے [[مدینہ]] میں علویوں کے ساتھ سخت رویہ اپنایا؛
* ہادی عباسی اور اس کے والی نے [[مدینہ]] میں علویوں کے ساتھ سخت رویہ اپنایا؛
* حسین بن علی پر الزام لگایا گیا کہ وہ امارت کی خواہش رکھتے ہیں؛
* حسین بن علی پر الزام لگایا گیا کہ وہ امارت کی خواہش رکھتے ہیں؛
* اور آخرکار، قیام فخ کے دوران حسین بن علی کا موقف اور اقدامات۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص200۔</ref>۔<ref>رازی، اخبار فخ و...، ص153ـ 154۔</ref>۔<ref>ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص372۔</ref>۔<ref>آملی، تتمہ مصابیح ابی‌ العباس‌ الحسنی، ص465ـ 467۔</ref> حتی،
* اور آخرکار، قیام فخ کے دوران حسین بن علی کا موقف اور اقدامات۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص200۔</ref>۔<ref>رازی، اخبار فخ و...، ص153ـ 154۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص372۔</ref>۔<ref>آملی، تتمة مصابیح ابی‌العباس‌الحسنی، ص465ـ 467۔</ref> حتی،
* ایک روایت کے مطابق حسین نے سنہ 169 ہجری میں اپنے قیام سے قبل بھی ایک بار قیام کیا تھا۔<ref>رجوع کریں: ابن‌ تغری بردی، النجوم‌الزاہرة ...، ج2، ص59۔</ref>
* ایک روایت کے مطابق حسین نے سنہ 169 ہجری میں اپنے قیام سے قبل بھی ایک بار قیام کیا تھا۔<ref>رجوع کریں: ابن‌تغری بردی، النجوم‌الزاهرة ...، ج2، ص59۔</ref>


==واقعۂ فخ کے بعد عباسیوں کے اقدامات==
==واقعۂ فخ کے بعد عباسیوں کے اقدامات==
صاحب فخ کے بعد، [[مدینہ]] کے والی "عمری" نے حسین بن علی اور ان کے خاندان کے بعض افراد کے گھروں اور نخلستانوں کو نذر آتش کیا اور ان کے بعض دیگر نخلستانوں اور اموال کو ضبط کیا۔ موسی بن عیسی عباسی بھی [[مدینہ]] پہنچا اور لوگوں مسجد میں جمع کیا اور انہیں آل ابی طالب اور حسین اور ان کے ساتھیوں کی اعلانیہ بدگوئی پر مجبور کیا۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص200۔</ref>۔<ref>ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص381ـ 382۔</ref> [[ہادی عباسی]] کے رد عمل کے بارے میں بھی متضاد روایات دستیاب ہیں:
صاحب فخ کے بعد، [[مدینہ]] کے والی "عمری" نے حسین بن علی اور ان کے خاندان کے بعض افراد کے گھروں اور نخلستانوں کو نذر آتش کیا اور ان کے بعض دیگر نخلستانوں اور اموال کو ضبط کیا۔ موسی بن عیسی عباسی بھی [[مدینہ]] پہنچا اور لوگوں مسجد میں جمع کیا اور انہیں آل ابی طالب اور حسین اور ان کے ساتھیوں کی اعلانیہ بدگوئی پر مجبور کیا۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص200۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص381ـ 382۔</ref> [[ہادی عباسی]] کے رد عمل کے بارے میں بھی متضاد روایات دستیاب ہیں:


بعض روایات میں کہا گیا ہے اس واقعے کے اسیروں اور جنگ میں کوتاہی کرنے والے عباسی امراء کے ساتھ سنگ دلانہ سلوک روا رکھا؛ مثال کے طور پر اس نے قاسم بن محمد بن عبداللہ علوی کو اسیر کیا اور ان کے اعضاء جسمانی کو آری کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کردیا؛ اور موسی بن عیسی عباسی پر غضبناک ہوا اور اس کے اموال و املاک کو ضبط کردیا کیونکہ اس نے حسن بن محمد بن عبداللہ کو قتل کردیا تھا اور اس کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ خلیفہ کے غصے کا سبب یہ تھا کہ وہ خود حسن بن محمد مقدر کا فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔
بعض روایات میں کہا گیا ہے اس واقعے کے اسیروں اور جنگ میں کوتاہی کرنے والے عباسی امراء کے ساتھ سنگ دلانہ سلوک روا رکھا؛ مثال کے طور پر اس نے قاسم بن محمد بن عبداللہ علوی کو اسیر کیا اور ان کے اعضاء جسمانی کو آری کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کردیا؛ اور موسی بن عیسی عباسی پر غضبناک ہوا اور اس کے اموال و املاک کو ضبط کردیا کیونکہ اس نے حسن بن محمد بن عبداللہ کو قتل کردیا تھا اور اس کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ خلیفہ کے غصے کا سبب یہ تھا کہ وہ خود حسن بن محمد مقدر کا فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔


دوسری طرف سے، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ ہادی نے ان افراد پر لعنت ملامت کی جنہوں نے حسین بن علی کا سر قلم کرکے اس کو سامنے پیش کیا تھا اور کہا کہ "حسین آل خاندان [[رسول اللہ|رسول]](ع) کی ایک فرد تھے، وہ ترک و دیلم کے کوئی باغی نہ تھے۔ چنانچہ اس نے کہا: ان افراد کی کم از کم سزا یہ ہے کہ انہیں انعام و اکرام سے محروم کیا جائے۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص198، 200، 203۔</ref>۔<ref>رازی، اخبار فخ و...، ص159ـ 160۔</ref>۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص186۔</ref>۔<ref>ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص379، 381۔</ref>
دوسری طرف سے، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ ہادی نے ان افراد پر لعنت ملامت کی جنہوں نے حسین بن علی کا سر قلم کرکے اس کو سامنے پیش کیا تھا اور کہا کہ "حسین آل خاندان [[رسول اللہ|رسول]]ؑ کے ایک فرد تھے، وہ ترک و دیلم کے کوئی باغی نہ تھے۔ چنانچہ اس نے کہا: ان افراد کی کم از کم سزا یہ ہے کہ انہیں انعام و اکرام سے محروم کیا جائے۔<ref>رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص198، 200، 203۔</ref>۔<ref>رازی، اخبار فخ و...، ص159ـ 160۔</ref>۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، ج4، ص186۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص379، 381۔</ref>


==حسین صاحب فخ کی خصوصیات==
==حسین صاحب فخ کی خصوصیات==
سطر 27: سطر 27:
[[ملف:محله شهداء(محل شهادت ودفن صاحب فخ )در مکه.jpg|thumbnail|<center>مکہ میں محلۂ شہداء (صاحب فخ کا مقام شہادت اور مدفن)]]</center>
[[ملف:محله شهداء(محل شهادت ودفن صاحب فخ )در مکه.jpg|thumbnail|<center>مکہ میں محلۂ شہداء (صاحب فخ کا مقام شہادت اور مدفن)]]</center>


حسین بن علی بلیغ اور سخنور تھے۔ [[زہد]]، [[تقوی]]، تعبد اور تہجد و شجاعت اور فقراء کی نسبت سخاوت اور محتاجوں کی دستگیری پر ان کی بہت زیادہ تمجید و تعریف ہوئی ہے۔<ref>رجوع کریں: ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص368ـ 371، 380۔</ref>۔<ref>ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص26۔</ref>۔<ref>آملی، تتمة مصابیح ابی‌ العباس‌ الحسنی، ص465ـ 469۔</ref> [[شیخ طوسی]] نے<ref>طوسی، رجال الطوسی، ص 182۔</ref> انہیں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]](ع) کے اصحاب کے زمرے میں گردانا ہے۔ وہ شہادت کے وقت 41 یا 57 سالہ تھے اور انھوں نے اپنی بعد کوئی اولاد نہ چھوڑی۔<ref>بخاری، سرّ السلسلة العلویہ، ص15۔</ref>۔<ref>ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص28۔ ص66۔</ref>۔<ref>فخر رازی، اخبار فخ و...، ص22۔</ref>
حسین بن علی بلیغ اور سخنور تھے۔ [[زہد]]، [[تقوی]]، تعبد اور تہجد و شجاعت اور فقراء کی نسبت سخاوت اور محتاجوں کی دستگیری پر ان کی بہت زیادہ تمجید و تعریف ہوئی ہے۔<ref>رجوع کریں: ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص368ـ 371، 380۔</ref>۔<ref>ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص26۔</ref>۔<ref>آملی، تتمة مصابیح ابی‌العباس‌الحسنی، ص465ـ 469۔</ref> [[شیخ طوسی]] نے<ref>طوسی، رجال الطوسی، ص 182۔</ref> انہیں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ کے اصحاب کے زمرے میں گردانا ہے۔ وہ شہادت کے وقت 41 یا 57 سالہ تھے اور انھوں نے اپنی بعد کوئی اولاد نہ چھوڑی۔<ref>بخاری، سرّالسلسلة العلویة، ص15۔</ref>۔<ref>ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص28۔ ص66۔</ref>۔<ref>فخر رازی، اخبار فخ و...، ص22۔</ref>


== تاریخ تشیّع میں واقعۂ فخ==
== تاریخ تشیّع میں واقعۂ فخ==
حادثۂ فخ تاریخ [[تشیع]] علوی تحریکوں کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ [[امام محمد تقی علیہ السلام|امام محمد تقی جواد علیہ السلام]] فرماتے ہیں: "یہ واقعہ [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]](ع) کے لئے [[واقعۂ عاشورا|واقعۂ کربلا]] کے بعد، سب سے بڑی آزمائش تھا۔ علاوہ ازیں [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ]] اور [[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمہ علیہم السلام]] سے منقولہ بہت سی [[احادیث]] اور ان کی شہادت پر کہے گئے مرثیے، اس مدعا کی دلیل ہیں۔<ref>رجوع کریں: بخاری، سرّ السلسلة العلویہ، ص14ـ 15۔</ref>۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، ج4، ص186۔</ref>۔<ref>ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص366ـ 367، 384ـ 385۔</ref>۔<ref>آملی، تتمة مصابیح ابی‌ العباس الحسنی، ص463ـ 464، 473ـ 474، 486۔</ref>۔<ref>محلی، الحدائق‌ الوردیہ فی مناقب ائمة الزیدیہ، ج1، ص327ـ 328۔</ref>۔<ref>یاقوت حموی، معجم البلدان، ج4 ص238۔</ref> منقول ہے کہ [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام کاظم علیہ السلام]] شہدائے فخ کو یاد کرکے گریہ وبکاء کرتے تھے اور خداوند متعال سے ان کے قاتلوں کے لئے موت اور عذاب شدید کی التجا کرتے تھے اور آپ(ع) نے فخ میں شہادت پانے والے علویوں کے ایتام، اطفال اور بیواؤں کی کفالت اپنے ہاتھ میں لی۔<ref>امینی، بطل فخ، ص136ـ 137۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص380۔</ref>
حادثۂ فخ تاریخ [[تشیع]] علوی تحریکوں کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ [[امام محمد تقی علیہ السلام|امام محمد تقی جواد علیہ السلام]] فرماتے ہیں: "یہ واقعہ [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]]ؑ کے لئے [[واقعۂ عاشورا|واقعۂ کربلا]] کے بعد، سب سے بڑی آزمائش تھا۔ علاوہ ازیں [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ]] اور [[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمہ علیہم السلام]] سے منقولہ بہت سی [[احادیث]] اور ان کی شہادت پر کہے گئے مرثیے، اس مدعا کی دلیل ہیں۔<ref>رجوع کریں: بخاری، سرّالسلسلة العلویة، ص14ـ 15۔</ref>۔<ref>مسعودی، مروج الذهب، مروج الذهب، ج4، ص186۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص366ـ 367، 384ـ 385۔</ref>۔<ref>آملی، تتمة مصابیح ابی‌العباس الحسنی، ص463ـ 464، 473ـ 474، 486۔</ref>۔<ref>محلی، الحدائق‌الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص327ـ 328۔</ref>۔<ref>یاقوت حموی، معجم البلدان، ج4 ص238۔</ref> منقول ہے کہ [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام کاظم علیہ السلام]] شہدائے فخ کو یاد کرکے گریہ وبکاء کرتے تھے اور خداوند متعال سے ان کے قاتلوں کے لئے موت اور عذاب شدید کی التجا کرتے تھے اور آپؑ نے فخ میں شہادت پانے والے علویوں کے ایتام، اطفال اور بیواؤں کی کفالت اپنے ہاتھ میں لی۔<ref>امینی، بطل فخ، ص136ـ 137۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص380۔</ref>


==متعلقہ موضوعات==
==متعلقہ موضوعات==
* [[زید بن علی]]
* [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام موسی کاظم]]
* [[مکہ]]
* [[ہادی عباسی]]


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
سطر 40: سطر 42:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* علی بن بلال آملی، تتمہ مصابیح ابی العباس الحسنی، در «احمد بن ابراهیم حسنی، المصابیح»، چاپ عبدالل ه‌بن عبدالله حوثی، صنعاء 1423 هجری قمری/ 2002عیسوی۔
* علی بن بلال آملی، تتمة مصابیح ابی العباس الحسنی، در «احمدبن ابراهیم حسنی، المصابیح»، چاپ عبدالله‌بن عبدالله حوثی، صنعاء 1423هجری قمری / 2002عیسوی۔
* ابن تغری بردی، النجوم الزاهرة فی ملوک مصر والقاهرة، قاہره 1348ـ 1392 هجری قمری /1929ـ1972 عیسوی۔
* ابن تغری بردی، النجوم الزاهرة فی ملوک مصر والقاهرة، قاهره 1348ـ 1392هجری قمری /1929ـ1972 عیسوی۔
* ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، چاپ احمد صقر، بیروت 1408 هجری قمری /1987 عیسوی۔
* ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، چاپ احمد صقر، بیروت 1408هجری قمری /1987 عیسوی۔
* محمد هادی امینی، بطل فخ، بیروت 1993 عیسوی۔
* محمدهادی امینی، بطل فخ، بیروت 1993 عیسوی۔
* ابو‌ نصر سہل بن عبدالله بخاری، سرّ السلسلة العلویہ، چاپ محمد صادق بحر العلوم، نجف 1381 ہجری قمری/ 1962 عیسوی۔
* ابو‌نصرسهل بن عبدالله بخاری، سرّالسلسلة العلویة، چاپ محمدصادق بحرالعلوم، نجف 1381هجری قمری / 1962 عیسوی۔
* عاتق‌ بن غیث بلادی، معجم‌ معالم الحجاز، مکہ 1398ـ 1402 هجری قمری / 1978ـ 1982 عیسوی۔
* عاتق‌بن غیث بلادی، معجم‌ معالم الحجاز، مکه 1398ـ 1402هجری قمری / 1978ـ 1982 عیسوی۔
* بلعمی، تاریخ نامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران 1366 هجری شمسی۔
* بلعمی، تاریخنامۀ طبری، چاپ محمد روشن، تهران 1366هجری شمسی۔
* احمد بن ابراهیم حسنی، اخبار الحسین بن علی‌ الفخی و یحیی و ادریس ابنَیْ عبدالله من کتاب‌المصابیح در «احمدبن سہل رازی، اخبار فخّ»، چاپ ماهر جرّار، بیروت 1995 عیسوی۔
* احمدبن ابراهیم حسنی، اخبارالحسین بن علی‌الفخی و یحیی و ادریس ابنَیْ عبدالله من کتاب‌المصابیح در «احمدبن سهل رازی، اخبار فخّ»، چاپ ماهر جرّار، بیروت 1995 عیسوی۔
* احمد بن سہل رازی، اخبار فخ و خبر یحیی‌ بن عبدالله و اخیہ ادریس‌ بن عبدالله، چاپ ماہر جرّار، بیروت 1995 عیسوی۔
* احمدبن سهل رازی، اخبار فخ و خبر یحیی‌بن عبدالله و اخیه ادریس‌بن عبدالله، چاپ ماهر جرّار، بیروت 1995 عیسوی۔
* طبری، تاریخ (بیروت)۔
* طبری، تاریخ (بیروت)۔
* محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم 1415 هجری قمری۔
* محمدبن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفهانی، قم 1415هجری قمری۔
* علی بن محمد عمری، المجدی فی انساب‌ الطالبیین، چاپ احمد مہدوی دامغانی، قم 1409 هجری قمری.
* علی بن محمد عمری، المجدی فی انساب‌الطالبیین، چاپ احمد مهدوی دامغانی، قم 1409 هجری قمری.
* العیون ‌و الحدائق فی اخبار الحقائق، چاپ دخویہ، لیدن 1871 عیسوی۔
* العیون ‌و الحدائق فی اخبارالحقائق، چاپ دخویه، لیدن 1871عیسوی۔
* محمد بن عمر فخر رازی، الشجرة المبارکہ فی انساب‌الطالبیہ، چاپ مہدی رجایی، قم 1409 ہجری قمری۔
* محمد بن عمر فخر رازی، الشجرةالمبارکة فی انساب‌الطالبیة، چاپ مهدی رجایی، قم 1409 هجری قمری۔
* [[کلینی]]، کافی۔
* [[کلینی]]، کافی۔
* حمید بن احمد محلی، الحدائق‌ الوردیہ فی مناقب ائمة الزیدیہ، چاپ مرتضی‌ بن زید محطوری حسنی، صنعاء 1423 ہجری قمری/ 2002عیسوی۔
* حمیدبن احمد محلی، الحدائق‌الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، چاپ مرتضی‌بن زید محطوری حسنی، صنعاء 1423هجری قمری / 2002عیسوی۔
* مسعودی، مروج الذهب، ط (بیروت).
* مسعودی، مروج الذهب، ط (بیروت).
* ناطق بالحق، یحیی بن حسین هارونی، الافادة فی تاریخ الائمہ السادة، چاپ محمد کاظم رحمتی، تہران 1387 هجری شمسی۔
* ناطق بالحق، یحیی بن حسین هارونی، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، چاپ محمدکاظم رحمتی، تهران 1387هجری شمسی۔
* ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي، معجم البلدان، دار إحياء التراث العربي بيروت - لبنان، 1399 هجری قمری/ 1979عیسوی۔
* ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي، معجم البلدان، دار إحياء التراث العربي بيروت - لبنان، 1399ق هجری قمری / 1979عیسوی۔
* یعقوبی، تاریخ.
* یعقوبی، تاریخ.
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
گمنام صارف