مندرجات کا رخ کریں

"سورہ سجدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 48: سطر 48:
[[علامہ طباطبایی]] سورہ سجدہ کی آیت نمبر 4 {{قرآن کا متن|"اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْ‌شِ...؛|ترجمہ=اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا...}} کے ذیل میں عرش پر خدا کے متمکن ہونے کو موجودات کی خلقت کے بعد ان پر حکومت اور تدبیر کی طرف اشارہ قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ جب بھی [[خدا]] یہ تعبیر استعمال کرتا ہے اس کے سانھ اپنی تدبیر کا کوئی نہ کوئی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں مثلا [[سورہ اعراف]] کی آیت نمبر 54 میں دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے کو خدا کی تدبیر کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۴.</ref> اس آیت میں دن سے مراد زمان کا ایک خاص حصہ<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۳۶۲.</ref>، مرحلہ<ref>مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۱۷۸.</ref> یا دورہ قرار دیتے ہیں نہ دن سے مراد 24 گھنٹہ۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۱۱.</ref>
[[علامہ طباطبایی]] سورہ سجدہ کی آیت نمبر 4 {{قرآن کا متن|"اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْ‌شِ...؛|ترجمہ=اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا...}} کے ذیل میں عرش پر خدا کے متمکن ہونے کو موجودات کی خلقت کے بعد ان پر حکومت اور تدبیر کی طرف اشارہ قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ جب بھی [[خدا]] یہ تعبیر استعمال کرتا ہے اس کے سانھ اپنی تدبیر کا کوئی نہ کوئی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں مثلا [[سورہ اعراف]] کی آیت نمبر 54 میں دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے کو خدا کی تدبیر کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۴.</ref> اس آیت میں دن سے مراد زمان کا ایک خاص حصہ<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۳۶۲.</ref>، مرحلہ<ref>مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۱۷۸.</ref> یا دورہ قرار دیتے ہیں نہ دن سے مراد 24 گھنٹہ۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۱۱.</ref>


===نظام احسن===<!--
===نظام احسن===
به گفته [[تفسیر نمونه]] آیه ۷ سوره سجده «الَّذِی أَحْسَنَ کلَّ شَیءٍ خَلَقَهُ...؛ همان کسی که هر چیزی را که آفریده است نیکو آفریده...» اشاره به [[نظام احسن]] در آفرینش است؛ اما پرسشی که مطرح می‌کند چگونگی جمع [[مسئله شر]] با نظام احسن است.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۲۳-۱۲۴.</ref> [[علامه طباطبایی]] در این باره بر این باور است هر موجودی برای خودش حُسنی دارد که کامل‌تر و تمام‌تر از آن قابل تصور نیست؛ اما اینکه موجودی را زشت و ناپسند می‌بینیم، به سبب دو دلیل است: ۱. بدی و ناپسندی به دلیل نبود یک حُسن است. مثلا ظلم ظالم بدان جهت که فعلی از افعال است زشت نیست؛ بلکه بدان جهت که حقی را معدوم و باطل می‌کند، زشت است. ۲. زشتی به دلیل این است که موجود مورد نظر را با موجودی دیگر مقایسه‌ می‌کنیم و به سبب همین مقایسه به نظر می‌رسد که زشت است و حال آنکه زشتی و بدی ذاتی آن چیز نیست، مثلا خار در مقایسه با گُل، زشت به نظر می‌رسد.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۹.</ref>
[[تفسیر نمونہ]] کے مطابق سورہ سجدہ کی آیت نمبر 7 {{قرآن کا متن|"الَّذِی أَحْسَنَ کلَّ شَیءٍ خَلَقَهُ"...؛|ترجمہ|جس نے جو چیز بنائی بہترین بنائی...}} کائنات کی خلقت اور آفرینش میں [[نظام احسن]] کی طرف اشارہ ہے؛ یہاں پر جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود [[مسئلہ شر|شرور]] کو نظام احسن کے ساتھ کیسے جمع کیا جا سکتا ہے؟<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۲۳-۱۲۴.</ref> اس بارے میں [[علامہ طباطبایی]] اس بات کے معتقد ہیں کہ کائنات میں موجود ہر وجود بذاتہ نیک اور اچھا ہے جس سے کامل کا تصور ممکن ہی نہیں ہے؛ لیکن یہ کہ ہمیں کوئی چیز اچھی نہ لگے یا بری نظر آئے تو اس کی دو دلیل ہو سکتی ہے: 1- ہماری ناپسندی اور ہمیں اچھا نہ لگنا کسی اچھائی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ مثلا کسی ظالم کا ظلم کسی کا فعل ہونے کی جہت سے برا نہیں ہے؛ بلکہ اس جہت سے ہے کہ اس سے کسی حقدار کی حلق تلفی ہوتی ہے۔ 2- یا یہ کہ کسی چیز کو کسی اور چیز کے ساتھ موازنہ کرنے کی وجہ سے وہ چیز بری لگتی ہے حالانکہ یہ چیز بذات خود بری نہیں ہے۔ مثلا کانٹا پھول کے مقابلے میں برا لگتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۹.</ref>
-->


== متن اور ترجمہ ==
== متن اور ترجمہ ==
confirmed، templateeditor
7,303

ترامیم