مندرجات کا رخ کریں

"سورہ سجدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 41: سطر 41:
===مؤمن اور فاسق کا برابر نہ ہونا===
===مؤمن اور فاسق کا برابر نہ ہونا===
[[ابن ابی لیلی]] سورہ سجدہ کی آیت نمبر 18 {{{قرآن کا متن|"أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ؛ |ترجمہ=تو کیا جو مؤمن ہے وہ فاسق کی مانند ہو سکتا ہے؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔ "}} کا [[سبب نزول]] [[ولید بن عقبہ]] کی جانب سے اپنے آپ کو [[حضرت علیؑ]] سے افضل سمجھنا قرار دیتے ہیں؛ جب ولید نے امام علیؑ سے کہا میری زبان آپ کی زبان سے بہتر اور میرے دانت آپ کے دانتوں سے تیز ہیں اور یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ولید اپنے آپ کو حضرت علیؑ سے افضل اور برتر سمجھتا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت علیؑ نے فرمایا: اے فاسق جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صحیح نہیں ہے۔ اس گفتگو کے بعد یہ [[آیت]] نازل ہوئی۔ یہ [[روایت]] [[اہل سنت]] مآخذ میں بھی آیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ‍۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۱۹؛ محقق، نمونہ بینات در شأن نزول آیات، ۱۳۶۱ش، ص۶۱۸.</ref>
[[ابن ابی لیلی]] سورہ سجدہ کی آیت نمبر 18 {{{قرآن کا متن|"أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ؛ |ترجمہ=تو کیا جو مؤمن ہے وہ فاسق کی مانند ہو سکتا ہے؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔ "}} کا [[سبب نزول]] [[ولید بن عقبہ]] کی جانب سے اپنے آپ کو [[حضرت علیؑ]] سے افضل سمجھنا قرار دیتے ہیں؛ جب ولید نے امام علیؑ سے کہا میری زبان آپ کی زبان سے بہتر اور میرے دانت آپ کے دانتوں سے تیز ہیں اور یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ولید اپنے آپ کو حضرت علیؑ سے افضل اور برتر سمجھتا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت علیؑ نے فرمایا: اے فاسق جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صحیح نہیں ہے۔ اس گفتگو کے بعد یہ [[آیت]] نازل ہوئی۔ یہ [[روایت]] [[اہل سنت]] مآخذ میں بھی آیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ‍۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۱۹؛ محقق، نمونہ بینات در شأن نزول آیات، ۱۳۶۱ش، ص۶۱۸.</ref>
==تفسیری نکات==
[[فائل:تابلوی پنجمین روز آفرینش.jpg|220px|تصغیر|کائنات کی خلقت کے پانچویں دن کی مناسبت سے [[محمود فرشچیان]] کی ہنر نمائی]]
سورہ سجدہ کی بعض آیتوں من جملہ آیت نمبر 4 اور 7 کے ذیل میں کچھ خاص تفسیری نکات بیان ہوئے ہیں۔
===استواء علی العرش===
[[علامہ طباطبایی]] سورہ سجدہ کی آیت نمبر 4 {{قرآن کا متن|"اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْ‌شِ...؛|ترجمہ=اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا...}} کے ذیل میں عرش پر خدا کے متمکن ہونے کو موجودات کی خلقت کے بعد ان پر حکومت اور تدبیر کی طرف اشارہ قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ جب بھی [[خدا]] یہ تعبیر استعمال کرتا ہے اس کے سانھ اپنی تدبیر کا کوئی نہ کوئی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں مثلا [[سورہ اعراف]] کی آیت نمبر 54 میں دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے کو خدا کی تدبیر کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۴.</ref> اس آیت میں دن سے مراد زمان کا ایک خاص حصہ<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۳۶۲.</ref>، مرحلہ<ref>مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۱۷۸.</ref> یا دورہ قرار دیتے ہیں نہ دن سے مراد 24 گھنٹہ۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۱۱.</ref>
===نظام احسن===<!--
به گفته [[تفسیر نمونه]] آیه ۷ سوره سجده «الَّذِی أَحْسَنَ کلَّ شَیءٍ خَلَقَهُ...؛ همان کسی که هر چیزی را که آفریده است نیکو آفریده...» اشاره به [[نظام احسن]] در آفرینش است؛ اما پرسشی که مطرح می‌کند چگونگی جمع [[مسئله شر]] با نظام احسن است.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۲۳-۱۲۴.</ref> [[علامه طباطبایی]] در این باره بر این باور است هر موجودی برای خودش حُسنی دارد که کامل‌تر و تمام‌تر از آن قابل تصور نیست؛ اما اینکه موجودی را زشت و ناپسند می‌بینیم، به سبب دو دلیل است: ۱. بدی و ناپسندی به دلیل نبود یک حُسن است. مثلا ظلم ظالم بدان جهت که فعلی از افعال است زشت نیست؛ بلکه بدان جهت که حقی را معدوم و باطل می‌کند، زشت است. ۲. زشتی به دلیل این است که موجود مورد نظر را با موجودی دیگر مقایسه‌ می‌کنیم و به سبب همین مقایسه به نظر می‌رسد که زشت است و حال آنکه زشتی و بدی ذاتی آن چیز نیست، مثلا خار در مقایسه با گُل، زشت به نظر می‌رسد.<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۹.</ref>
-->


== متن اور ترجمہ ==
== متن اور ترجمہ ==
confirmed، templateeditor
7,303

ترامیم