گمنام صارف
"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←اصول دین میں تحقیق یا تقلیلد
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 57: | سطر 57: | ||
اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال: | اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال: | ||
"مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد وہ ہے جس کی تقلید کی جائے اور مقلِّد وہ ہے جو تقلید کرے۔</ref> کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے | "مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد وہ ہے جس کی تقلید کی جائے اور مقلِّد وہ ہے جو تقلید کرے۔</ref> کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بدیہی طور پرحاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کے ذریعے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔<ref>سیدمرتضی، الذخیرة، 164- 165۔</ref> | ||
== اصول دین از امامیہ کے نزدیک == | == اصول دین از امامیہ کے نزدیک == |