"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←انبیاء کا گناہگار ہونا
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 66: | سطر 66: | ||
=== انبیاء کا گناہگار ہونا === | === انبیاء کا گناہگار ہونا === | ||
سورہ نحل کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ظلم کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔[ | [[سورہ نحل]] کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس [[آیت]] میں [[ظلم]] کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۰، ص۲۲۷۔</ref> | ||
[[فخررازی]] اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ [[سورہ فاطر]] کی آیت نمبر 32 اور اس طرح کے دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگ ظالم نہیں ہیں۔ پس مذکورہ آیت میں "الناس" سے مراد یا وہ تمام افراد مراد ہیں جو عذاب کے مستحق ہیں یااس سے مراد [[شرک|مشرکین]] ہیں جن کا ذکر مذکورہ آیت سے پہلی والی آیت میں آیا ہے۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۰، ص۲۲۷۔</ref> [[علامہ طباطبایی]] کے مطابق ظلم سے مراد اس آیت میں عام ہے جس میں [[معصیت]] اور [[ترک اولی]] دونوں شامل ہیں اور [[انبیاء]] سے ترک اولیٰ کا صادر ہونا ممکن ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۸۱۔</ref> | |||
=== عمومی جوابات === | === عمومی جوابات === | ||
عصمت انبیاء پر کئے گئے اعتراضات کا عمومی جوابات بھی دئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: | عصمت انبیاء پر کئے گئے اعتراضات کا عمومی جوابات بھی دئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: |